اللہ کوراضی رکھنے کیلئے سب سے پہلے اس کے احکامات پرعمل پیراہوناضروری ہے۔قرآن اورسنت میں جوہدایات دی گئی ہیں،ان پرعمل کرکے ہم اللہ کی رضاحاصل کرسکتے ہیں۔اس کیلئے جہاں نماز،روزہ،زکوٰۃ اورحج جیسے بنیادی عبادات کا اہتمام فرض ہے وہاں سچائی،انصاف اورایمانداری کواپنی زندگی کااصول بنایاجائے۔خلقِ خدا کی خدمت،خصوصاًغریبوں،ناداروں، یتیموں اوربے سہاراافرادکی مددکی جائے۔اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کاشکراداکیا جائے اورتکبر سے اجتناب کیاجائے۔حرام چیزوں جیسے جھوٹ،چغلی، حسد، رشوت،دھوکہ دہی اورظلم سے بچاجائے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں اللہ کی وحدانیت(توحید)اسلام کابنیادی ستون ہے،جس کے بغیرکوئی عمل قبول نہیں۔قرآن وحدیث میں اللہ کی وحدانیت کوباربارواضح کیاگیاہے،اورشرک کوسب سے بڑاظلم قراردیاگیاہے۔ایک مومن کافرض ہے کہ وہ اللہ کواس کی ربوبیت،الوہیت،اور اسماءو صفات میں یکتامانے۔ اللہ کوراضی رکھنے کابنیادی اصول عبادت اوراخلاقی احسان پرمبنی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق پانچ ارکانِ اسلام ہماری منزل متعین کرنے اوررہنمائی کیلئے بتادیئے گئے ہیں جن میں اللہ کی وحدانیت (شہادت)سرفہرست ہے۔
اللہ کی وحدانیت (توحید)اسلام کابنیادی عقیدہ ہے،جس کے بغیرایمان مکمل نہیں ہوتا۔اللہ کی وحدانیت کامطلب ہے کہ اللہ ایک ہے، اس کاکوئی شریک نہیں،اورتمام طاقت واختیاراسی کے ہاتھ میں ہے۔جیساکہ اللہ نے قرآن میں یہ واضح فرمایا ہے:
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ ہے، ہر چیز کو سنبھالنے والا۔(البقرہ:255)۔
کہو:وہ اللہ ایک ہے،اللہ بے نیازہے،نہ اس نے کسی کوجنا،نہ وہ جناگیا،اورنہ کوئی اس کاہمسرہے۔(اخلاص:4-1)
اللہ اس بات کی گواہی دیتاہے کہ اس کے سواکوئی معبودنہیں،اورفرشتے اوراہل علم بھی گواہی دیتے ہیں کہ وہ انصاف پرقائم ہے، اس کے سواکوئی معبودنہیں،وہ زبردست حکمت والاہے۔(العمران: 18)
اورہم نے تم سے پہلے جوبھی رسول بھیجا،اس کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سواکوئی معبودنہیں، پس میری ہی عبادت کرو۔(الانبیاء: 25)
رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے سچے دل سے گواہی دی کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں اورمحمدﷺاس کے رسول ہیں،اللہ اس پر جہنم کوحرام کر دیتا ہے۔(صحیح مسلم:263)
نبیﷺ نے فرمایا:سب سے افضل بات جومیں نے اورمجھ سے پہلے تمام انبیاء نے کہی،وہ یہ ہے:لَاإِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (ترمذی: 3585صحیح بخاری:5293: مسلم:2691)
اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں،اس کاکوئی شریک نہیں،بادشاہی اسی کی ہے۔اورتمام تعریفیں اسی کیلئے ہیں اوروہ ہرچیزپرقادر ہے ۔
نبی کریمﷺ نےفرمایا:جوشخص اس حال میں مرے کہ وہ اس بات کی گواہی دیتاہوکہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں،وہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح مسلم:63)
اللہ اپنی مخلوق سے محبت،انصاف اورنیکی کاتقاضاکرتاہے۔جس طرح دنیامیں ہرتخلیق کاراپنی تخلیق کی قدرچاہتاہے،اسی طرح اللہ بھی اپنی مخلوق کی عزت واحترام اورعدل وانصاف کاتقاضاکرتاہے۔اللہ کاحکم ہے کہ انسانوں کی عزت کی جائے اوران کے حقوق اداکیے جائیں۔انصاف قائم کیاجائے اورظلم سے بچاجائے۔معاشرتی بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیاجائے۔
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت(توحید)اسلام کابنیادی عقیدہ ہے،جوقرآن وحدیث میں واضح طورپربیان کیاگیاہے۔توحیدکے تین اہم پہلوہیں:
توحید،ربوبیت(اللہ کی ربوبیت کا اقرار)یہ عقیدہ ہے کہ رب کریم ہی کائنات کے خالق،مالک اورتنہارب ہیں۔ قرآن کریم کھولتے ہی سب سے پہلے سورہ الفاتحہ میں ہی ہم اس بات کااقرارکرتے ہیں کہ ۔۔۔”تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جوسارے جہانوں کارب ہے”۔
اللہ ہرچیزکاخالق ہے،اوروہی ہرچیزکانگران ہے۔(الزمر:62:39)
اے لوگو!اپنے رب کی عبادت کروجس نے تمہیں اورتم سے پہلے لوگوں کوپیداکیا۔(البقرہ:21:2)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ فرماتے ہیں کہ ابن آدم نے جوکچھ بھی کیا،اس نے مجھے تکلیف دی،حالانکہ میں ہی اس کا رب ہوں۔
دوسراپہلوتوحیدالوہیت(صرف اللہ کی عبادت)۔یہ عقیدہ ہے کہ عبادت،دعا،قربانی،اوراطاعت کامستحق صرف اللہ ہے۔
ہم نے ہررسول کویہی حکم دے کربھیجاکہ میری عبادت کرو،میرے سواکوئی معبودنہیں۔(الانبیاء:25-21)
جوشخص اپنے رب سے ملناچاہے،اسے نیک عمل کرناچاہیے اورکسی کواپنے رب کی عبادت میں شریک نہ ٹھہرائے۔ (الکہف:110-18)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:سب سے بہتردعایہ ہے:لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ(اللہ کے سواکوئی معبود نہیں)۔
ایک اورحدیثِ قدسی ہے:میرے آقا ﷺنے فرمایا:اللہ فرماتے ہیں کہ میں ہی اکیلے عبادت کامستحق ہوں،جوشخص کسی اورکومیرا شریک ٹھہرائے ، میں اسے اوراس کے شرک کوجہنم میں ڈال دوں گا۔(صحیح بخاری:7537)
اب تیسراپہلوہے توحیداسماءوصفات(اللہ کے ناموں اورصفات کااقرار)اللہ کے ناموں اورصفات کوبغیرکسی تحریف یاتشبیہ کے اسی طرح مانناجیسے قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں ۔
کوئی چیزاس کی مثل نہیں،اوروہ سننے والا،دیکھنے والاہے۔( الشوریٰ:11-42)
وہ اللہ ہی ہے جوخالق،پیداکرنے والا،صورت گرہے،اسی کیلئے بہترین نام ہیں۔(الحشر:24:59)
حدیثِ قدسی ہے:رسول اللہﷺنے فرمایا:اللہ کے99نام ہیں،جوکوئی انہیں یادکرے گا،وہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح بخاری”2736)
ایک اورحدیث قدسی ہے:میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتاہوں،اورجب وہ مجھے یادکرتاہے تومیں اس کے ساتھ ہوتاہوں۔(صحیح بخاری7405)
میرے رب نے توحیدکی نفی کرنے والے عقائدکی تردید کرتے ہوئے قرآن میں انتباہ کیاہے کہ شرک(اللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرانا)کواللہ نے سب سے بڑاگناہ قراردیاہے۔اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشادفرماتے ہیں:
اللہ اس بات کوہرگزمعاف نہیں کرتاکہ اس کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرایاجائے،لیکن اس کے سواجسے چاہے معاف کردیتاہے۔ (النساء:48-4)
توحید کی اہمیت پرکئی احادیث موجودہیں جس میں ایک مشہورحدیثِ قدسی ہے:رسول اللہﷺنے فرمایا:جس نے یہ کہا:لَاإِلٰہَ إِلَّااللّٰہُ’اورکفرکےتمام معبودوں کوجھٹلادیا،اس کامال اورخون حرام ہوگیا(صحیح مسلم:23) ۔
ایک اورحدیث مبارکہ ہے:قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا،اے آدم کے بیٹے!کیاتونے مجھے رب نہیں پایا؟وہ کہے گا:کیوں نہیں! اے رب۔ (صحیح بخاری)
پھرہم خودقرآن کی تلاوت کرتے ہوئے توحیدکاعملی مظاہرہ کرتے ہوئے اقرارکرتے ہیں:
میری نماز،میری قربانی،میراجینا،میرامرناسب اللہ ہی کیلئے ہے۔(الانعام:162:6)۔
پھراس کی تائیدمیں میرے آقاﷺکاارشادہے کہ توحیدکی مثال ایسی ہے جیسے ایک مضبوط رسی،جس کاایک سراآسمان میں ہے اوردوسرازمین میں۔(صحیح بخاری:7373)
اورجوکوئی اللہ اوراس کے رسول کاکہامانے گا،وہ بڑی کامیابی حاصل کرے گا۔(احزاب:71)
جوایمان لائے اورنیک اعمال کرے انہیں ہم یقیناًصالحین میں داخل کریں گے۔(العنکبوت:9)
شہادت کے فوری بعداس عہدوپیماں کی اطاعت کیلئے روزانہ پنجگانہ نمازفرض قراردے دی گئی ہے۔نماز،زکوٰۃ(مال کاحصہ غریبوں کودینا)،روزہ(ماہِ رمضان کے روزے)اورحج(استطاعت پرزندگی میں ایک بارحج کرناشامل ہیں۔ان ارکان کی ادائیگی میں انسان کواخلاقیات کابہترین درس دیاگیا ہے : مثلاًرب کریم اپنی مخلوق سے اپنی عبادت میں یکسوئی چاہتاہے:
میں نے جنوں اور انسانوں کوصرف اپنی عبادت کیلئے پیداکیا۔(الذاریات:56)
قرآن میں انسانیت کوآپس میں جوڑنے کیلئے ارشادفرماتے ہیں کہ:
بے شک اللہ انصاف،احسان اورقرابت داروں کودینے کاحکم دیتا ہے (النحل:90)۔
کمزوروں کے حقوق کی پاسداری کاحکم دیتاہے،فطرت کی پاسبانی اورحفاظت کیلئے درخت لگانے،پانی بچانے اور آلودگی سے بچنے کے احکام دیتا ہے۔
میرے آقارسول اکرمﷺنے مخلوقات انسانوں،جانوروں اورفطرت سے محبت کاکیاخوبصورت درس دیاہے:تمام مخلوقات اللہ کاکنبہ ہیں،اوراللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے جواس کے کنبے کے ساتھ بہترسلوک کرے۔(بیہقی،ابن ماجہ)۔اسی لئے غریبوں کی مددکیلئے اپنے طیب اورپاکیزہ مال سے اپنے قریبی عزیزواقارب اورگردونواح کے غریبوں میں زکوٰۃ،صدقہ،اورقرضِ حسنہ کا حکم دیتاہے تاکہ یہ متاثرہ افرادمعاشرہ کی ناہمواریوں سے محفوظ رہ سکیں۔رحم کرنے والوں پررحمان رحم کرتاہے،تم زمین والوں پررحم کرو،آسمان والاتم پررحم کرے گا۔(ترمذی:1924)
یادرکھیں جب اللہ کسی سے راضی ہوجاتے ہیں تواس کے بدلے اللہ اپنے بندے کے رزق میں اضافہ فرمادیتاہے۔
اگرتم اللہ کاشکراداکروگے تووہ تمہیں اورزیادہ دے گا۔(ابراہیم:7)۔
جب بندہ اپنے رب کے حضورنمازمیں کئے گئے عہدوپیماں کی تکمیل کیلئے توفیق مانگتاہے تومیرارب جواب میں یہ وعدہ فرماتا ہے:
یادرکھو!اللہ کے ذکرسے ہی دلوں کوسکون ملتاہے۔(الرعد: 28)۔
نمازکے بارے میں واضح حکم دیا گیا ہے کہ:نمازوں کی حفاظت کرو،خصوصاًدرمیانی نماز(عصر)کی۔ (البقرہ:238)
ے شک نمازفحاشی اوربرائی سے روکتی ہے۔(العنکبوت:45)
جیساکہ ہمارے آقانبی اکرمﷺکاارشادہے کہ نمازایمان کی علامت،گناہوں کی معافی،اورجنت کی کنجی ہے۔(مسند احمد:22417)۔
اس لئے نماز کووقت پراداکرنا،خضوع وخشوع کے ساتھ پڑھنا،اسے زندگی کاحصہ بناناہرمسلمان کی اولین ذمہ داری ہے۔پھرسب سے بڑادنیاوی انعام اورفائدہ یہ ہے کہ اقتداروامن میں برکت عطاکردی جاتی ہے جیساکہ تاریخ میں مسلم تہذیبوں(جیسے اندلس) کی عظمت اس کی مثال ہے۔
روزہ کے بارے میں ارشادفرمایاگیاکہ:اے ایمان والو!تم پرروزے فرض کیے گئے ہیں،جیسے تم سے پہلے لوگوں پرفرض کیے گئے تھے ۔ (البقرہ:2:183)
زکوٰۃ کے بارے میں ارشادفرمایاگیاکہ زکوٰۃ صرف فقیروں،مسکینوں،اورمحتاجوں کیلئے ہے۔(التوبہ:60-9)
اسی طرح حج کے بارے میں فرمایا گیا کہ لوگوں پراللہ کاحق ہے کہ جواس کے گھرتک پہنچنے کی استطاعت رکھے،وہ حج کرے۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اسلام کی بنیادپانچ چیزوں پرہے: اللہ کی وحدانیت کااقرار،نمازقائم کرنا،زکوٰۃ دینا،رمضان کے روزے رکھنا، اورحج کرنا۔(صحیح بخاری:8)
یہ بھی یادرکھیں کہ ان احکامات کی عدم عدولی اورنافرمانی کی صورت میں معاشی بحران میں مبتلاکردیاجاتاہے:
تم پرجومصیبت آتی ہے،وہ تمہارے اپنے اعمال کانتیجہ ہوتی ہے۔(الشوریٰ:30-42)
جیساکہ رب کریم نے قرآن میں ارشادفرمایا:تمہارے گناہوں کی وجہ سے خشکی اورتری میں فسادپھیل گیا(روم:41)
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جب ظلم عام ہوجاتاہے تواللہ کی طرف سے عذاب نازل ہوتاہے۔(صحیح مسلم:2578)
اوراس کے ساتھ ہی معاشرہ اخلاقی زوال کی طرف گامزن ہوجاتاہے جس کی بناءپرسماج میں تشدد،بدعنوانی اوربے رحمی عام ہو جاتی ہے۔اس کے برعکس انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والے معاشروں کی کامیابی کارازبھی اس دنیاکے ان ممالک میں واضح طورپر نظرآتاہے جس میں ناروے،فن لینڈاوردیگریورپی ممالک جہاں صحت،تعلیم اورروزگارکی ذمہ داری وہاں کی ریاست کے ذمہ ہے اورماحولیاتی تحفط کااگرذکرکریں توسویڈن اورکینیڈا میں تودرخت کاٹنے پرسخت پابندیاں عائدہیں جبکہ دوسری طرف ایمیزون جنگلات کی کٹائی اورعالمی حدت پرتمام مغربی ممالک میں تشویش بڑھتی جارہی ہے اوروہ اس کے تدارک کیلئے باقاعدہ فنڈزمہیا کررہے ہیں۔
اورزمین کواس نے مخلوقات کیلئے بنایا۔(الرحمٰن:10-55)
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اگرقیامت آجائے اورتمہارے ہاتھ میں پوداہوتواسے لگادو۔(مسنداحمد:12902)
علاوہ ازیں دوسری طرف بھارت،پاکستان اورتیسری دنیاکے بیشترممالک میں طبقاتی نظام نے امیروغریب کے درمیان فرق اور فاصلے خطرناک حدتک بڑھادیئے ہیں بالخصوص بھارت میں جب سے مودی سرکارکی قیادت میں جوانسانیت سوزپالیسیاں بزور طاقت نافذکی جارہی ہیں اورحکومتی پارٹی بی جی پی کی قیادت میں وہاں کی اقلیتوں کاجینادوبھرکردیاگیاہے۔اس پرامریکااور مغرب کی چشم پوشی بھی برابرکی مجرم ہے۔ لیکن اس کے برعکس اللہ نے اپنی رضا کے حصول کیلئے بڑا بہترین نسخہ تجویز فرمایا ہے مثلاً عام افراد کو غریبوں کی مدد کیلئے اکسایا گیا ہے۔
بے شک اللہ انصاف،احسان،اورقرابت داروں کودینے کاحکم دیتاہے۔(النحل:90-16)
زمین پرچلنے والاکوئی جانداراورپرندہ جواپنے پروں سے اڑتاہے،تم سب کی طرح ایک امت ہیں۔(انعام:38-6)
اگرتم شکرکروگے تومیں تمہیں اورزیادہ دوں گا۔(ابراہیم:7-14)
اے ایمان والو!اپنی کمائی کی پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو۔(البقرہ:267-2)
غیبت مت کرو،کیاتم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کاگوشت کھاناپسندکرے گا؟(الحجرات:12:49)
تم نیکی کونہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزراہِ خدامیں خرچ نہ کرو۔(العمران:92)
آقارسول اکرمﷺکاارشادہے:بھوکے کوکھاناکھلاؤ،بیمارکی عیادت کرو،اورمصیبت زدہ کی مدد کرو۔(بخاری)۔
جوشخص کسی بھوکے کوکھاناکھلائے،اللہ اسے جنت کے پھل کھلائے گا۔(ترمذی:1956)
رسول اللہﷺنے فرمایا:وہ شخص مومن نہیں جوخودسیرہوکرکھائے اوراس کاپڑوسی بھوکاہو۔(صحیح مسلم: 49)
رسول اللہﷺنے فرمایا:جس نے کسی مظلوم کی مددکی،اللہ قیامت کے دن اس کے72نقصانات دورکرے گا۔(سنن ترمذی:1930)
اخلاقی پاکیزگی کاحکم دیتے ہوئے جھوٹ،غیبت،اورظلم سے اجتناب کاحکم دیاگیاہے۔اس کیلئے دن میں100بار سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِهِ پڑھنے سے اللہ توفیق میں آسانی پیداکردیتاہے۔
اسی طرح حکمرانوں کیلئے ہدایات کاایک انمول طریقہ بتایاگیاہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کیلئے سب سے پہلے انصاف کی فراہمی کیلئے قرآن وحدیث کے مطابق قوانین کانفاذاورپھراس پرعملدرآمد کی ذمہ داری پرمکمل اخلاص کے ساتھ کام کریں اوراس بات کا اہتمام کریں کہ معاشرہ کے برفردکوبلاتمیز، رنگ ونسل،مذہب کی ہرتفریق سے بالاتران کے گھروں کی دہلیزپرانصاف مل سکے جس کیلئے آزادعدلیہ کے قیام اوراس نظام کوچلانے کیلئے باکردار افرادکومقررکیاجائے۔
عدل درحقیقت اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی عظیم الشان صفت ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے:
خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ جو انصاف پر قائم ہیں وہ بھی (گواہی دیتے ہیں کہ) اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں( العمران:18)
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں ان کے اہل کو پہنچاؤ، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے کرو۔ (النساء:58:4)
اللہ نے گواہی دی کہ کسی کی بند گی نہیں اس کے سوااور فر شتوں نے اور علم والوں نے بھی، وہی حاکم انصاف کا ہے۔ کسی کی بند گی نہیں سوا اس کے زبردست ہے حکمت والا ۔
(آلِ عمران:۱۸)
انصاف اورعدل ہی قوموں کی ترقی کارازہے۔(النساء:58)
جوشخص کسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کرے گاتواس کی سزاجہنم ہے۔(النساء:93)
قیامت کے دن سب سے زیادہ پسندیدہ اوراللہ کے قریب وہ حکمران ہوگاجوانصاف کرنے والاہوگا۔(ترمذی:1329)
رسول اللہﷺنے فرمایاتم میں سے ہرشخص نگہبان ہے،ہرایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھاجائے گا۔(بخاری:2554)
دراصل کائنات کا نظام ہی عدل و انصاف سے وابستہ ہے، نظامِ عالم کے لیے عدل و انصاف سے بڑھ کر اور کوئی چیز ضروری نہیں۔ بلاشبہ حاکمِ عادل کا وجود اس عالم کے لیے سایۂ رحمتِ الٰہی اور کسی عدل کش حاکم کا تسلط عذابِ الٰہی ہے، جو بندوں کی نافرمانیوں کی پاداش میں ان پر نازل کیا جاتا ہے۔کسی مملکت کی تباہی وبربادی کے عوامل کاجائزہ لیجیے تودوبنیادی چیزیں سامنے آئیں گی،قوم کافسق وفجوراورحکم رانوں کا ظلم وعدوان،جب کوئی قوم خدا فراموشی کی روش اختیارکرتی ہے، قوانین الٰہی سے سرکشی کرتی ہے اورفسق ومعصیت کے نشے میں بدمست ہوکرحلال وحرام اورجائزوناجائزکی حدود اعلانیہ توڑنے لگتی ہے توان پرجفاکیش اورجابروظالم حاکم مسلط کر دیے جاتے ہیں۔قرآن کریم میں کسی قوم کی تباہی وبربادی کے بارے میں ایک عام قانون بیان فرمایاہے:جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں(بنی اسرائیل)
اس کے ساتھ حکمرانوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ معاشرہ کے غریب اورسفید پوش افرادکیلئے ایساانتظام کیاجائے جہاں ان کی عزت نفس کاخیال رکھتے ہوئے ان کی کفالت کابندوبست کیاجائے جیساکہ مغربی ممالک نے اپنے شہریوں کیلئے کررکھاہے۔خود برطانیہ اوردیگریورپی ممالک میں سوشل سیکیورٹی کے نظام کی تفصیلات اوران کی تاریخی بنیادوں پرغورکرتے ہوئے یہ واضح ہوتاہے کہ ان نظاموں کی تشکیل میں مختلف عوامل کارفرما رہے ہیں۔
انصاف قوموں کی زندگی کو توانا رکھتا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ کوئی معاشرہ کفرپرقائم رہ سکتاہے لیکن ظلم پر نہیں۔ کوئی معاشرہ ظلم پر قائم نہیں رہ سکتا چنانچہ نا انصافی کی وجہ سے تو سِرے سے قوم ہی نہیں رہتی پھر قومی زندگی کی توانائی کا سوال کیا باقی رہ جاتا ہے؟ ہمارے ملک میں نا انصافی کا دور ، دورہ ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم کہیں اپنا وجود کھو ہی نہ بیٹھیں۔
یادرہے کہ برطانیہ کاموجودہ سوشل سیکیورٹی نظام1942میں شائع ہونے والی بیوریج رپورٹ پرمبنی ہے۔اس رپورٹ نے5بڑے سماجی مسائل: غربت،بیماری،جہالت،گندگی اوربیروزگاری کوحل کرنے کی تجاویزپیش کیں۔اس کے نتیجے میں1945میں ویلفیئر اسٹیٹ کی بنیادرکھی گئی،جس میں نیشنل انشورنس اورنیشنل ہیلتھ سروس جیسے ادارے شامل ہیں۔یہ نظام تمام شہریوں کوبیماری، بیروزگاری،اوربڑھاپے میں مالی مددفراہم کرتاہے۔
دیگریورپی ممالک میں سوشل سیکیورٹی کے نظام مختلف ماڈلزپرمبنی ہیں۔اسی طرح 1880ءکی دہائی میں جرمنی کے چانسلربسمارک نے دنیا کاپہلاجدیدپینشن سسٹم متعارف کرایا۔یہ نظام”پے -ایز – یو-گو”پرمبنی ہے جہاں موجودہ کارکنان کی شراکتیں موجودہ پینشنرزکومالی مددفراہم کرتی ہیں۔
فرانسیسی سوشل سیکیورٹی نظام1945میں تشکیل دیاگیا،جوصحت،پنشن،خاندان اورکام کے حادثات جیسے شعبوں کااحاطہ کرتاہے۔ یہ نظام تمام شہریوں کومساوی فوائدفراہم کرنے کے اصول پرمبنی ہے۔
اسلامی تاریخ میں،حضرت عمرفاروقؓ کے دورِخلافت میں ایک منظم بیت المال کانظام قائم کیاگیاتھاجوغریبوں،یتیموں،بیواؤں اور ضرورت مندوں کی مالی مددکرتاتھا۔یہ نظام ریاست کی ذمہ داری پرمبنی تھاکہ وہ اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کاخیال رکھے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ یورپی رہنماؤں نے اعتراف کیاہے کہ ان کے سوشل ویلفیئرسسٹمزکی تشکیل میں اسلامی اصولوں، خاص طورپرحضرت عمرؓکے دورکے بیت المال سے متاثرہوئے ہیں۔مثال کے طورپرجرمنی کے چانسلراوٹووون بسمارک نے 19ویں صدی میں جرمنی کاسوشل انشورنس سسٹم متعارف کراتے وقت اسلامی تاریخ سے استفادہ کیا۔اسی طرح دیگریورپی ممالک کے پالیسی سازوں نے بھی اسلامی سماجی انصاف کے اصولوں کومدنظررکھاہے۔
برطانیہ اوردیگریورپی ممالک کے سوشل سیکیورٹی نظام مختلف تاریخی اورثقافتی عوامل کانتیجہ ہیں۔تاہم،یہ قابل غورہے کہ اسلامی تاریخ،خاص طورپر حضرت عمرفاروقؓ کے دورکے بیت المال کے نظام،نے جدیدویلفیئرسسٹمزکی تشکیل پراثرڈالاہے۔یہ اس بات کاثبوت ہے کہ سماجی انصاف اورفلاح وبہبودکے اصول عالمی سطح پرتسلیم شدہ ہیں اورمختلف تہذیبوں نے ایک دوسرے سے سیکھاہے۔تاہم ان دنوں تعلیم وصحت کے معاملے میں کچھ امیر خلیجی ممالک کے علاوہ ترکی میں صحت عامہ کے جدید ہسپتال اپنے عوام کی خدمت کررہے ہیں لیکن پاکستان میں بھی کئی ادارے عوامی خدمت میں بیش بہاخدمات سرانجام دے رہے ہیں جس میں پچھلے کئی برسوں سے”الخدمت”کاکردارنمایاں نظرآرہاہے۔اس کے علاوہ ماحولیاتی پالیسیوں میں بہتری کیلئے بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات میں شمسی توانائی کے منصوبے ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اللہ کوراضی کرنے کا راستہ قرآن وحدیث کے ان واضح احکامات پرعمل کرنے سے گزرتاہے۔اللہ کوراضی کرنے کافارمولاسادہ لیکن گہراہے۔مخلوق کی خدمت خالق کی عبادت ہے۔رضاکا راستہ انسانیت کی خدمت اورفطرت کی حفاظت سے جُڑاہے۔یہی وہ نسخہ ہے جوفردکوبھی خوشحال اورقوموں کو عروج پرپہنچاتاہے۔فردہویاحکمران،جواللہ کے بے کس بندوں کی مددکرتاہے، اللہ اس کیلئے زمین وآسمان کے دروازے کھول دیتاہے۔اللہ کی رضاحاصل کرنے کاراستہ اس کے بندوں کی خدمت،عدل وانصاف،دیانت داری اورعبادت میں ہے جوافراداور معاشرے اللہ کی رضا کے اصولوں پر چلتے ہیں،وہ ترقی،خوشحالی اوراستحکام کی منزل کوپالیتے ہیں۔اگرہم اپنی زندگی میں اللہ کی رضاکو اولیت دیں،تودنیااورآخرت کی کامیابی ہمارامقدربن جائے گی۔ان شاءاللہ