America's Changing Interests: Lessons for Pakistan

امریکا کے بدلتے مفادات: پاکستان کے لیے سبق

:Share

بگرام ایئربیس افغانستان میں امریکی اورنیٹوافواج کیلئےایک اسٹریٹجک فوجی اڈہ تھاجسے2001میں افغانستان پرحملے کے بعد فعال کیاگیاتھا۔ جولائی2021 میں امریکانے افغانستان سے انخلاکے دوران اسے ترک کردیا،تاہم اب یہ دوبارہ عالمی سیاست میں ایک کلیدی نکتہ بن رہاہے۔حال ہی میں،بگرام ایئر بیس کودوبارہ فعال کرنے کے بارے میں بحث جاری ہے،خاص طورپر امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کے دوبارہ اقتدارمیں آنے کے تناظر میں اطلاعات کے مطابق، یہ قدم افغانستان میں طالبان کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کے جوہری اثاثوں پر نظررکھنے کیلئےاٹھایا جارہاہے۔

پانچ ہزارایکڑ پرمحیط بگرام ایئربیس صوبہ پروان جوکابل سے50کلومیٹرشمال میں واقع ہے۔یہ رن وے110ہینگرزکے ساتھ 36سومیٹرطویل ہے اور پاکستان کےمشرق2644۔69ڈگری اور 9469۔34ڈگری شمال میں واقع ہے۔یہاں3ہزارفوجیوں کی رہائش گاہیں بھی تعمیرکی گئی ہیں۔سوویت یونین نے1950میں تعمیرکیاتھابعدمیں امریکانے2001-2021افغان جنگ کیلئےاسے اپنامرکزی کمانڈ سینٹربنایااوراسے افغان جنگ کیلئےاستعمال کیا۔2021میں امریکی افواج کے انخلاکے بعدطالبان نے کنٹرول سنبھال لیا۔

بگرام پاکستان کی سرحدسے صرف250کلومیٹردورہے اورپاکستان کی جوہری سہولیات کے حامل کہوٹہ ریسرچ لیب سے15منٹ کی پرواز کے فاصلے پرموجودہے۔بگرام پاک چین منصوبہ سی پیک کیلئے بے حداہم ہے جوگوادر پورٹ کی وجہ سے وسط ایشیا تک رسائی کاگیٹ ہے اورایران افغان سرحد (نیمروزصوبہ)سے بھی بہت قریب ہے جس کی وجہ سے ایران کیلئے بھی بگرام اڈہ بہت اہم ہے۔

سوال یہ ہے کہ امریکاجوبری طرح رسواہوکرپاکستان کی مدد سے افغانستان سے اپنے فوجیوں کوسلامت لیکرنکلاتھا،اب امریکا بگرام پردوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کیلئے کیوں بے تاب ہے،اس کی حقیقی وجوہات کیاہیں اورٹرمپ انتظامیہ کے کیاخفیہ عزائم ہیں اوریوایس سٹریٹیجک کمانڈایک مرتبہ پھرکیوں سرگرم ہے؟

سرکاری طورپرتویہ بیان دیاگیاہے کہ”داعش”کی بڑھتی ہوئی دہشتگردانہ کاروائیوں کے مقابلے کیلئے بگرام بیس کواستعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن یادرہے کہ مارچ2025کی ایک ریلی میں ٹرمپ نے کہاتھاکہ”بگرام کے قریب جوہری ہتھیاروں سے لیس واحد “خراب پاکستان”موجودہے اس لئے ہمیں بگرام واپس چاہیے تاکہ برے لوگوں کواگلے دروازے پردیکھ سکیں۔”اس بیان کے بعد ٹرمپ کے تمام خفیہ عزائم سامنے آچکے ہیں۔امریکن سینٹکوم کادعویٰ ہے کہ پاکستان کے پاس170جوہری ہتھیارہیں جن میں سے اس وقت ڈیرہ غازی خان میں15فیصد اور کہوٹہ میں30فیصدموجودہیں۔

پاکستان کے پاس جدید ٹیکنالوجی سے لیس”ایم کیونائن ڈرونز”موجودہیں جو24گھنٹے تک فضائی نگرانی کرسکتے ہیں۔یوایس سٹریٹیجک کمانڈکاکہناہے کہ ان خطرات کامقابلہ کرنے کیلئے ہمیں فارورڈ آپریٹنگ بیس کے طوربگرام کادوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی ضرورت ہے جہاں سےاسپیشل امریکی ڈیلٹافورسز اور “سیل ٹیم 6″کوپاکستانی جوہری سہولیات تک فوری رسائی حاصل ہوسکے۔بگرام کووسط ایشیا(ازبکستان،تاجکستان)اورخلیجی ممالک یواے اورقطر کے فوجی اڈوں سے جوڑاجاسکے۔اس سارے منصوبے کی نگرانی ایک مرتبہ پھرسیکورٹی ایڈوائزرمائیک والٹزکے سپرد کی گئی ہے جواس سے قبل عراق اور افغانستان میں مختلف آپریشنز کی نگرانی کرتارہاہے۔پیٹ ہیگستھ(سابق دفاعی سکریٹری)کابھی کہناہے کہ ہمیں تیزرسپانس کے ذریعےپاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو غیرفعال بنانے کیلئے کوانٹم کمپیوٹنگ اورآرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال کیلئے72گھنٹے درکارہوں گے اور پاکستان کے جوہری خطرات کو کنٹرول کرنے کیلئے بگرام کاکلیدی حصہ ہے جوصرف بگرام ائیربیس سے ہی ممکن ہوسکتاہے۔

کیاخطے کی موجودہ صورت حال میں طالبان امریکاکوبگرام ائیربیس کے استعمال کی اجازت دیں گے؟
حال ہی میں امریکی حکومت نے افغان وزیرداخلہ سراج الدین حقانی سمیت طالبان کے تین سرکردہ رہنماؤں کے سروں کی قیمتیں واپس لے لی ہیں۔یہ فیصلہ طالبان کی جانب سے امریکی قیدی جارج گلیزمین کی رہائی کے بعدسامنے آیاہے،جودونوں فریقین کے درمیان تعلقات میں بہتری کی علامت سمجھاجا رہاہے۔افغان وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی کے مطابق،ان تینوں افرادمیں سے دوسگے بھائی اورایک چچازادبھائی ہیں۔اس کے برعکس،وائس آف امریکاکی ایک خبرکے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکوروبیونے جنوری2025میں خبردارکیاتھاکہ اگر طالبان کی تحویل میں مزیدامریکی شہری ہوئے توامریکا طالبان کی اعلیٰ قیادت کے سروں کی قیمت مقررکرے گا،جوممکنہ طورپر اسامہ بن لادن کیلئےمقررکی گئی رقم سے بھی زیادہ ہوگی۔

ملاہیبت اللہ آخوندزادہ جوہارڈلائنزکی قیادت کررہے ہیں،وہ کسی بھی غیرملکی کوافغان اڈے دینے کی مخالفت کرتے ہیں لیکن معتدل دھڑے کی قیادت کرنے والے ملاعبدالغنی برادر،معاشی مفادات(منجمداثاثوں کی بحالی)کیلئےمذاکرات کوترجیح دیتے ہیں اورامریکا بگرام کے حصول کیلئے افغانستان کے5۔9 بلین ڈالرکے منجمد اثاثے بحال کرنے کامعاشی لالچ دینے کوتیارہے۔لیکن کیابگرام ائیربیس کوامریکاکے حوالے کرنے سے طالبان خطے میں روس اور چین کواعتمادمیں لینے میں کامیاب ہوسکتاہے؟

جہاں تک بگرام ایئربیس کاتعلق ہے،موجودہ معلومات میں ایساکوئی اشارہ نہیں ملتاکہ امریکانے طالبان رہنماؤں کے سروں کی قیمتیں واپس لینے کا فیصلہ بگرام ایئربیس سے متعلق کسی معاہدے یامفاہمت کاحصہ ہے۔بگرام ایئربیس2021میں امریکی افواج کے انخلا کے بعدطالبان کے کنٹرول میں آچکاہے اوراس حوالے سے کوئی نئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔مجموعی طورپرامریکااورطالبان کے درمیان حالیہ اقدامات سے ظاہرہوتاہے کہ دونوں فریقین ماضی کی دشمنیوں کوپس پشت ڈال کر تعلقات میں بہتری کی جانب گامزن ہیں۔تاہم،بگرام ایئربیس کے حوالے سے کسی خاص معاہدے یاپیش رفت کی اطلاع نہیں ہے۔تاہم طالبان نے اپنے ایک سرکاری بیان میں یقین دلایاہے کہ کسی بھی غیرملکی فوجی اڈے کی اجازت نہیں ہوگی۔

2001-2021تک پاکستان نے امریکی فوجی سامان کی 75٪ترسیل کاراستہ فراہم کیا۔موجودہ صورتحال میں پاکستان سی پیک اورچین کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے امریکاکوراستہ دینے سے گریزاں ہے۔ تاہم یہ طے ہے کہ پاکستان ہرصورت میں کسی بھی ایسے منصوبے کی بھرپورمزاحمت کرے گاجوپاکستان کے زمینی راستے سے گزرکربگرام تک جاسکے۔چین کی سی پیک منصوبے میں62بلین ڈالرکی سرمایہ کاری کاتحفظ پاکستان کی سلامتی سے جڑاہواہے۔ویسے بھی پاکستان کونائن الیون کے واقعہ میں امریکا کوراستہ دینے سے150بلین ڈالرکاخطیرنقصان برداشت کرناپڑاتھابلکہ75ہزارسے زائدپاکستانیوں کی جانی قربانی بھی دینی پڑی تھی جس کے جواب میں امریکانے کھلم کھلادھوکہ دیتے ہوئے نہ صرف اپنے تمام وعدوں کوفراموش کردیابلکہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ سول ایٹمی معاہدہ کرکے پاکستان میں مستقل بھارتی دہشتگردی کااب تک ساتھ دے رہاہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان کی خودمختاری پرکسی بھی قسم کی سودے بازی کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

توکیاان حالات میں بگرام پہنچنے کیلئے امریکاکوئی متبادل راستہ اختیارکرنے کی پوزیشن میں ہے؟یادرہے کہ 2023میں ازبکستان امریکاکواپنے3ہزارمیٹررن وے پرمبنی خان آبادائیر بیس کومحدود استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جہاں سے امریکی سی 17 گلوب ماسٹرطیارے اڑان بھرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ (کوکائٹ ایئربیس)تاجکستان بگرام سے350کلومیٹراور30 منٹ کی پرواز کے فاصلے پر ہے، اسی طرح امریکاکو کو بھی استعمال کر سکتا ہے۔اسی طرح خلیجی ممالک کے ملک قطر(العدیدایئربیس)جودنیاکاسب سے بڑاامریکی فوجی اڈہ ہے اوراس کے 11 ہزار فوجی تعینات ہیں۔”الدافرہ ائیر بیس یو اے ای میں ایف35اوریوٹو جاسوس طیاروں کاسب سے بڑامرکزموجودہے اوریہ تمام ائیربیس امریکا استعمال کرسکتاہے۔

اگرامریکابغیرمقامی تعاون کے بگرام افغانستان میں داخل ہونے کی کوشش کرتاہے تواسے یقیناًفضائی دفاع میں کئی فوجی چیلنجزکا سامناکرناپڑسکتا ہے ۔ طالبان کے پاس”ایس300″اورایچ کیو9″جیسے جدیدسسٹم تونہیں لیکن طالبان کے پاس ہاتھ سے چلنے والے میزائل استعمال کرکے شدید مزاحمت کر سکتے ہیں اوریقیناًخطے میں پاک فضائیہ کی مہارت اورقوت بھی میدان میں اتر کراپنی دفاعی اورحملہ کی صلاحیتوں کواستعمال کرنے کاحق رکھتی ہے۔اس کے علاوہ طالبان کے پاس اب بھی40ہزارتربیت یافتہ جنگجوموجود ہیں جوگوریلاجنگ شروع کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے چارٹرآرٹیکل2 (4) کے تحت کسی خودمختارریاست کی سرزمین پرزبردستی داخلہ ممنوع ہے۔

ان حالات میں امریکاکیلئے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پرقبضہ کرناکتناممکن ہے؟ سب سے پہلے پاکستان کی جوہری سیکورٹی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے اپنے(ڈیسیبلرائزڈہتھیار ) جوہری وارہیڈزکوالگ تھلگ مقامات پررکھاہواہے جہاں تک رسائی نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔نیوکلیئر کمانڈاینڈکنٹرول کے انتہائی مضبوط حصارمیں ان کی حفاظت کی جارہی ہے۔زمین،سمندراور فضائی پلیٹ فارمزپرمشتمل ٹرائیڈسسٹم کوکمانڈسینٹرز راولپنڈی ،کراچی،اورکوئٹہ میں زیرزمین مراکزمیں انتہائی نگہداشت میں محفوظ کررکھاہے جس کی حفاظت کیلئے شب وروزدس ہزار سے زائد فوجی کمانڈوز مقررہیں۔امریکاکی طرف سے سائبرجنگ کے خدشات کی بناء پرپاکستان کانیشنل کمانڈتھری سسٹم کوانٹم انکرپشن سے محفوظ ہے۔ان تمام حفاظتی اقدام کے باوجوداگرکوئی پاکستان کے جوہری اثاثوں پرحملہ کرنے کی کوشش کرے گاتوفوجی ردعمل کے طورپرپاکستان کی فول اسکیل ریٹیلیشن پالیسی، جس کے تحت بھارت یاامریکاپرجوہری حملہ کیاجاسکتاہے جس کے بارے میں پہلے ہی اقوام عالم کوآگاہ کیاجاچکاہے۔

کیاامریکاپاکستان پرحملہ کرنے کی غلطی کرسکتاہے؟
یادرہے کہ2011میں عرب بہارکے نام پرامریکانے اپنے اتحادیوں کی مددسے لیبیاکے سربراہ معمرقزافی کومحض اس لئے تاراج کیا کہ وہ اپنے ملک کی خود مختاری کیلئے آزادانہ خارجہ پالیسی اختیارکرتے ہوئے اپنے تیل کے ذخائراوراپنی ساری ملکی تجارت کو امریکی ڈالرکی بجائے اس کے متبادل کرنسی کی کوششوں میں مصروف تھا۔معمرقذافی کوراستے سے ہٹانے کیلئے عالمی میڈیا میں نام نہاد ڈبلیوایم ڈی کے خلاف مہم چلاکرقذافی کوغیرمستحکم کیاگیااورنیٹونے فوجی مداخلت کرکے خانہ جنگی شروع کروادی اور تیزی سے ترقی کرتاہواخوشحال لیبیاجنگی آگ کے شعلوں کی نذرکردیاگیااورآج تک وہاں امن وسکون قائم نہیں ہوسکا۔

پاکستان کے دشمنوں نے ایک مبینہ منصوبے پرعملدرآمدکرتے ہوئے ٹی ٹی پی اوربلوچ دہشگردوں کویہ واضح ٹارگٹ سونپ رکھا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسزکے تمام اداروں پرحملے کرکے قوم میں افراتفری پیداکی جائے اوراس افراتفری کافائددہ اٹھاتے ہوئے عالمی میڈیا کوراغب کرنے کیلئے امریکی اٹلانٹک کونسل کوپاکستان کے جوہری عدم تحفظ کی رپورٹس نشرکروانے کی ذمہ داری دے رکھی ہے تاکہ اقوام عالم کواس بات پرآمادہ کیاجائے کہ ان حالات میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیارساری دنیاکیلئے ایک خطرہ بن سکتے ہیں،اس لئے پاکستان کوان تمام ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کیلئے امریکااوراس کے اتحادیوں کی کاروائیوں کوقانونی تحفظ دیاجاسکے۔

خطے میں اس تمام صورتحال کوروس اورچین بھی اپنے لئے ایک اہم خطرہ سمجھتے ہیں۔پاکستان کے جوہری تحفظ کوچین کی قومی سلامتی سے جوڑاگیاہے اور سی پیک کے دفاع کیلئے چین کسی بھی صورت خاموش نہیں ہے اوریہی وجہ ہے کہ اس نے سی پیک کے دفاع کیلئے پاکستان کو”جے 20″اسٹیلتھ طیارے اور”ایچ کیو9″میزائل ڈیفنس فراہم کئے ہیں۔اس کے علاوہ جدید “جےسی 10” طیارے، وی ٹی فورٹینکس اور”ایچ کیو16″میزائل مہیاکرکے پاکستان کے ڈیفنس میں اہم کرداراداکیاہے۔اس کے علاوہ اقتصادی دباؤ کیلئے چین کا35۔1ٹریلین ڈالرکاتجارتی حجم بھی پاکستان کوامریکی دباؤ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ادھرروس نے افغانستان میں ممکنہ بگرام پرامریکی رسائی اورجارحیت کوروکنے کیلئے طالبان کے ساتھ تعلقات کومزیدبہتربناتے ہوئے انہیں ہرقسم کے ہلکے ہتھیاراور تربیت فراہم کرناشروع کردی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیااس خطے میں ٹرائیکا(امریکا،اسرائیل انڈیا)کامنصوبہ کامیاب ہوسکتاہے؟تمام عالمی دفاعی ماہرین کاکہناہے کہ امریکااوراس کے اتحادیوں کیلئے اس طرح جارحیت کرنا ممکن نہیں کیونکہ پاکستان کےجوہری سیکورٹی سسٹم جودنیاکاچوتھا بڑا جوہری ذخیرہ ہے،ڈی کوپل کرناممکن نہیں۔ امریکاکویہاں لیبیاسے مختلف عوامی مزاحمت کاسامناکرناہوگاکیونکہ 90فیصد پاکستانی امریکاکے خلاف ہیں اورٹرائیکاکاٹی ٹی پی اوربلوچ دہشتگروں کے ذریعے عدم استحکام پیداکرنے کی تمام کوششیں رائیگاں ہونے والی ہیں۔

٭ضرورت اس امرکی ہے کہ ہمارے مقتدر حلقے اس سلسلے میں جس قدرجلدسیاسی انارکی ختم کرکے مفاہمت کاراستہ اختیارکریں گے توہم ارضِ وطن کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کرکامیابی کے مدارج حاصل کرسکیں گے۔
٭ضرورت اس امر کی ہے کہ جوہری اثاثوں کی حفاظت کیلئے اللہ کی طرف سے دی ہوئی جغرافیائی حیثیت قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں ہزارمیٹر زیر زمین گہری سرنگیں بناکران کووہاں منتقل کیاجائے۔ملک میں آبشاروں کابھی ایک عظیم سلسلہ ہے،ان کو بھی اس سلسلے میں استعمال میں لایا جائے ۔ اس کیلئے چین سے مشترکہ ڈرلزکے استعمال میں مددلی جائے۔
٭جوہری کمانڈ سسٹم کو چینی ساختہ کوانٹم سیٹلائٹس سے جوڑ کر فول پروف بنایا جائے۔
٭جوہری حملے کے خلاف دفاعی مشقیں شروع کی جائیں تاکہ عوام میں دفاعی شعورپیداکیاجاسکے۔
٭ملک بھرمیں میڈیا مہم شروع کی جائے اورجوہری سلامتی کے اقدامات کوقومی ٹی وی چینلزپرروزانہ نشرکرکے قوم کواعتمادمیں لیا جائے۔
٭چین، روس اورترکی کی جانب سے اقوام متحدہ میں ویٹوکے استعمال کویقینی بنایاجائے۔
٭2011میں ایبٹ آبادآیریشن جیسے ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی اندرونی صفوں کی طرف دھیان دیاجائے۔

امریکاکی بگرام پرنظرپاکستان کی خودمختاری اورخطے کی سلامتی کیلئےخطرہ اورجغرافیائی سیاسی کھیل ہے،جس کامقصد پاکستان کوجوہری عدم پھیلاؤکے معاہدے پرمجبورکرناہے۔تاہم،پاکستان کی فوجی تیاری،چین کااتحاد،اورجوہری ردعمل کی صلاحیت اسے بیرونی مداخلت سے بچانے کیلئےکافی ہیں۔عالمی برادری کوچاہیے کہ وہ پاکستان کی خودمختاری کااحترام کریں اور تنازعات کو مذاکرات اوربین الاقوامی قوانین کے تحت حل کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں