Water is life.

پانی ہی زندگی ہے

:Share

گزشتہ ہفتے2مارچ کوکارپوریٹ فارمنگ پرمضمون شائع ہونے کے بعدکئی محترم تجربہ کاردوستوں نے رابطہ کرکے نہ صرف اس سلسلے کی تائیدکی بلکہ اس موضوع پرملک بھرکے ماہرین کو بھی اس اہم موضوع پرمتحرک ہونے کی دعوت دینے کی فرمائش کی جس کے بعدضروری سمجھ رہاہوں کہ قوم کونہ صرف اس اہم ملکی مسئلہ پرمزیدتفصیلات سے آگاہ کیاجائے بلکہ اس شعبے کے ماہرین کوبھی دلسوزی کے ساتھ دعوت عام دی جائے کہ وہ بھی اس معاملہ پرملک کی رہنمائی فرمائیں تاکہ ملک کے سب سے بڑے علاقے چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ کے نفع ونقصانات سے بروقت آگاہ کیاجائے ۔

پاکستان،جوکبھی خطے کازرعی مرکزسمجھاجاتاتھا،آج ایک گہرے پانی کے بحران کے دہانے پرکھڑاہے۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ بنتی جارہی ہے، جو نہ صرف زراعت بلکہ مجموعی معاشی استحکام کیلئےبھی خطرہ ہے۔اس تناظرمیں،کارپوریٹ فارمنگ اورچولستان کینال تنازعہ پاکستان میں پانی کے وسائل کی تقسیم اوراستعمال کے حوالے سے اہم نکات اجاگرکرتاہے۔چولستان کینال منصوبے پربین الصوبائی تنازعہ اس وسیع ترمسئلے کامظہرہے کہ پاکستان میں پانی کی دستیابی،ذخیرہ اندوزی،اوراس کے موثراستعمال کیلئےکیا چیلنجز درپیش ہیں۔چولستان کینال تنازعہ،جو پنجاب اورسندھ کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کولے کراُبھراہے،درحقیقت ملک کے پانی کے انتظام میں گہری ناکامیوں کی عکاسی کرتا ہے ۔ یہ تنازعہ محض ایک نہرکی تعمیرتک محدود نہیں،بلکہ یہ پاکستان کی نااہلی کامنہ بولتاثبوت ہے کہ وہ گزشتہ تین دہائیوں میں پانی کے ذخیرہ،تحفظ اورمؤثر استعمال کیلئےکوئی ٹھوس پالیسی مرتب نہیں کرسکا۔

آئیے!ان تمام اہم پہلوؤں کاتفصیلی جائزہ لیتے ہیں کہ یہ منصوبہ ارضِ وطن کیلئے مفیدثابت ہوسکتاہے یاپھر”لمحوں نے خطاکی، صدیوں نے سزاپائی” والا معاملہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کیلئے وراثت میں چھوڑکرجارہے ہیں۔

چولستان کینال کامنصوبہ پنجاب کے بنجرعلاقے چولستان کوسیراب کرنے کیلئےپیش کیاگیا،جہاں خشک سالی اورریت کے طوفانوں نے زراعت اورانسانی آبادی کوخطرے میں ڈال رکھاہے۔تاہم،اس منصوبے کی مخالفت سندھ نے کی،جسے خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں دریائے سندھ کے پانی میں کمی واقع ہوگی۔پنجاب کامؤقف ہے کہ یہ منصوبہ1991کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے تحت اس کے مختص کردہ حصے میں آتاہے،اس لئے چولستان کو سیراب کرنے کیلئے نہر1991کے پانی کے معاہدے کے تحت اس کے حصے میں آنے والے پانی سے بنائی جائے گی۔تاہم،سندھ اس کی مخالفت کرتاہے ، کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اس منصوبے سے اس کے پانی کے حقوق متاثرہوں گے اوریہ منصوبہ دریاکے پانی کے بہاؤکومزیدکم کردے گا،جس سے اس کے کاشتکاروں کونقصان پہنچے گا۔

1991کے معاہدے نے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کاایک بنیادی اصول وضع کرتاہے ،جوچاروں صوبوں کوان کے حصے کے مطابق پانی فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتاہے۔اس معاہدے کی شق 6 واضح طورپرکہتی ہے کہ ملک میں نئے آبی ذخائرتعمیر کیے جائیں گے تاکہ پانی کی دستیابی کویقینی بنایا جاسکے۔یہ واضح تھاکہ اگر پانی کی طلب بڑھی تونئے ڈیمزاورذخائربنائے جائیں گے،تاکہ تقسیم کے تنازعات سے بچاجاسکے۔تاہم،گزشتہ 30 سالوں میں نہ توکوئی بڑاڈیم مکمل ہوا،جبکہ نئے ڈیموں کی تعمیرکی رفتار بھی سست ہے،جوپانی کے بڑھتے ہوئے بحران کومزیدسنگین بنارہی ہے اورنہ ہی موجودہ ذخائر (جیسے تربیلااورمنگلا)کی گادصاف کی گئی،جس کی وجہ سے ان کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30% تک کم ہوچکی ہے۔اگرپانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہ کیاگیا تومستقبل میں زرعی پیداوارمتاثرہوسکتی ہے،جوغذائی تحفظ کیلئےبھی خطرہ بن سکتاہے۔یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جوچولستان جیسے منصوبوں کوتنازعات کاشکاربنا رہا ہے۔اگرپاکستان(مرکز)اس معاہدے کے تحت اپنے وعدے پورے کرتاتو چولستان کینال جیسے منصوبے تنازعات کاشکارنہ ہوتے۔

پاکستان کا پانی کا بحران تقسیم سے زیادہ ذخیرہ کی کمی سے جڑا ہوا ہے۔ ملک میں پانی کی سالانہ دستیابی 145 میٹرک ٹن سے کم ہو کر 2023 تک 100 میٹرک ٹن رہ گئی ہے، جبکہ آبادی اور زرعی ضروریات میں اضافہ ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے: گلشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں تبدیلی، غیر متوقع بارشیں، اور شدید گرمی کی لہریں پانی کے انتظام کو مشکل تر بنا رہی ہیں۔ عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق، اگر ذخیرہ کی صلاحیت نہ بڑھائی گئی تو 2025 تک پاکستان “پانی کی کمی” والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔

پاکستان میں پانی کا انتظام غیر مؤثر ہے، جس کی وجہ سے پانی کے ضیاع کی شرح بہت زیادہ ہے۔ بر وقت اصلاحات نہ ہونے اور مستقبل کے خطرات سے آنکھیں چرانے کی بناء پر آج ارض وطن کئی مشکل مسائکل سے دوچار ہے کس میں چند اہم مسائل کی کی نشاندہی سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ تمام مقتدر اداروں کی مجرمانہ سستی و کاہلی سے ہمیں یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں تاہم ان مسائل کیلئے بھی چند تجاویز اس امید پر تحریر کر رہا ہوں کہ اگر اب بھی ان پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو تاریخ میں آنے والی نسلوں کیلئے ہم قحط،خشک سالی اور بنجر زمین کا ترکہ ہی چھوڑ سکیں گے۔

٭پاکستان کا 90% پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے، لیکن فرسودہ آبپاشی کے طریقوں (جیسے سیلابی آبپاشی) کی وجہ سے 50% پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، نہروں کی ناقص دیکھ بھال اور چوری کی وجہ سے 40% پانی زمین میں جذب ہو جاتا ہے یا غیرقانونی طور پر نکال لیا جاتا ہے۔ زیرزمین پانی کا غیرمنظم استعمال (خصوصاً پنجاب اور سندھ میں) بھی آبی ذخائر کو تیزی سے ختم کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، لاہور میں زیرزمین پانی کی سطح 1990 کی دہائی کے مقابلے میں 2 میٹر سالانہ کی رفتار سے گر رہی ہے۔

٭پانی کے منصوبے اکثر صوبائی سیاست کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، دیامر بھاشا ڈیم کا منصوبہ، جو 4,500 میگاواٹ بجلی اور 8.1 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، 2008 سے تعمیراتی مراحل میں ہی ہے۔ دیامر بھاشا، مہمند ڈیم، اور کالاباغ جیسے منصوبوں کو فوری طور پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موجودہ ڈیموں کی گاد صاف کرنے سے ذخیرہ کی صلاحیت 30% تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح، کالاباغ ڈیم کا منصوبہ سیاسی مخالفت کی وجہ سے معطل ہے۔ چولستان کینال جیسے منصوبوں کی منظوری میں تاخیر بھی اسی سیاسی کشمکش کا نتیجہ ہے۔

٭پاکستان میں زراعت میں پانی کا استعمال 90% سے زائد ہے، لیکن روایتی آبپاشی کے طریقے انتہائی غیر مؤثر ہیں۔ (ڈرپ ایریگیشن اور سپرنکلر سسٹمز ) جدید ڈرپ اور چھڑکاؤ آبپاشی متعارف کروا کر پانی کے استعمال میں 50% تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ اسرائیل جیسے ممالک نے اسی طریقے سے صحرا کو سرسبز بنایا ہے۔

٭تقریباً 40% نہری پانی غیر ضروری لیکج، غیر قانونی نکاسی اور ناقص دیکھ بھال کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر نہروں کی مرمت اور جدید نظام متعارف کروایا جائے تو اس نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔یعنی نہروں کو کنکریٹ سے لائن کرنے اور اسمارٹ میٹرز نصب کرنے سے ضائع ہونے والے پانی کو بچایا جا سکتا ہے۔

٭ٹیوب ویلوں کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے، جو طویل مدتی خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کیلئے مؤثر پالیسی اور نگرانی کی ضرورت ہے۔
٭ایک خودمختار قومی ادارہ قائم کیا جائے جو صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم اور استعمال کی نگرانی کیلئے واٹر گورننس کا جدید نظام تیار کرے اور اس کیلئے ہمارے پاس قابل ترین ماہرین کی وافر تعداد موجود ہے۔ میں امسال کے آغاز میں کانفرنس کے سلسلے میں امریکا میں موجود تھا جہاں میری ایسی پاکستانی ماہرین اور سائنسدانوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے امریکا کے صحرائی علاقوں کو بہترین زرعی فارمز میں تبدیل کرکے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ ملک کا وہ قیمتی سرمایہ ہیں جس یہاں بیوریوکریسی کی نااہلی اور زیادتی کی بناء پر اپنے تجربے سے دوسرے کئی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔

٭سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ڈی سیلینیشن پلانٹس لگا کر سمندری پانی کو قابل استعمال بنا کر ایسے متبادل ذرائع فراہم کئے جا سکتے ہیں جو پانی کی شدید قلت اور زراعت کیلئے مطلوبہ پانی فراہم کیا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف بلوچستان کی لاکھوں ایکڑ زمین نہ صرف زراعت کے قابل بنائی جا سکتی ہے بلکہ ان علاقوں کی غربت و پسماندگی کو ختم کیا جا سکتا ہے اور ملک کیلئے بے شمار زرِ مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔

٭پانی کی غیر منصفانہ سبسڈی اس کے بے دریغ استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ بڑے زرعی اور صنعتی یونٹس کیلئےمناسب فیس مقرر کی جانی چاہیے تاکہ پانی کا استعمال اعتدال میں رکھا جا سکے اور پانی کے ضیاع پر بھی قابو پایا جا سکے۔

٭پاکستان میں پانی کے ذخیرے کے منصوبے اکثر سیاسی اختلافات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گریٹر تھل کینال اور دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبے کئی سالوں سے تاخیر کا شکار ہیں، جس سے ملک کی آبی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں۔ جب تک پانی کے منصوبوں کو سیاست سے الگ کر کے قومی مفاد میں فیصلے نہیں کیے جاتے، اس بحران کو حل کرنا مشکل ہوگا۔

پاکستان کو پانی کے بحران سے بچانے کیلئےفوری طور پرمستقبل کی حکمت عملی کو انقلابی انداز میں نافذ کرنے کیلئے درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گےسب سے پہلے نئے آبی ذخائر کی تعمیر پر عملدرآمد کرتے ہوئے دیامر بھاشا، مہمند اور کالاباغ جیسے ڈیموں کی تعمیر کو تیز کیا جائے۔

٭زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا نفاذ کرتے ہوئے ڈرپ ایریگیشن اور جدید آبپاشی نظام متعارف کرائے جائیں تاکہ پانی کا استعمال کم ہو۔
٭پانی کے بہتر انتظامات کیلئے شفاف نگرانی اور بین الصوبائی تعاون کو فروغ دے کر پانی کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائی جائے۔
٭کراچی جیسے شہروں میں متبادل ذرائع پر توجہ دیتے ہوئے ڈی سیلینیشن پلانٹس لگا کر سمندری پانی کو قابلِ استعمال بنایا جائے تاکہ اہالیانِ کراچی کو واٹر ٹینک مافیا کے روزانہ کروڑوں روپے کی لوٹ مار سے محفوظ کیا جا سکے۔
٭کراچی بھر میں بڑے صارفین (انڈسٹریل زونز) کیلئے پانی کی مناسب قیمت مقرر کر کے پانی کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے جس سے ملکی صنعتوں کا پہیہ چلنے سے ملکی برآمدات میں جہاں اضافہ ہو گا وہاں ہم غیر ملکی قرضوں سے بھی نجات حاصل کر سکیں گے۔

یاد رکھیں کہ پاکستان اس وقت پانی کے ایک سنگین بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ چولستان کینال کا تنازعہ نہ صرف اس بڑے مسئلے کی ایک جھلک پیش کرتا ہے بلکہ پاکستان کیلئے ایک وارننگ ہے جو مستقبل میں مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اگر 1991 کے معاہدے کی شق 6 کے تحت اقدامات کیے جاتے تو آج پاکستان کو ان تنازعات کا سامنا نہ ہوتا۔ اگر ملک نے پانی کے تحفظ، ذخیرہ اور جدید انتظام پر فوری توجہ نہ دی تو آنے والے سالوں میں صوبائی تنازعات شدت اختیار کر جائیں گے، زراعت تباہ ہو گی، اور شہری آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی مشکل ہو جائے گی۔ 1991 کے معاہدے کی روح کو زندہ کرتے ہوئے، اب وقت ہے کہ سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد میں فیصلے کیے جائیں۔ ورنہ پانی کا یہ بحران پاکستان کی معیشت، سماجی استحکام اور وجودی سالمیت کیلئےایک ناقابلِ تلافی خطرہ بن جائے گا۔ فوری اور مؤثر اقدامات کے بغیر، پانی کی قلت، زراعت کی تباہی اور بین الصوبائی تنازعات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔۔ وقت کم ہے اور عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو پانی کے وجودی بحران سے بچایا جا سکے۔

یاد رکھیں کہ پانی ہی زندگی ہے۔ اسے ضائع کرنے کا مطلب اپنی نسلوں کو تاریکی کی طرف دھکیلنا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں