جب 2021میں افغانستان میں امریکی اوراس کے اتحادی افواج کے مکمل انخلاء،اشرف غنی کے فراراورحکومت ختم ہونے کے نتیجے میں افغان طالبان اقتدارمیں آئے توپاکستان میں بیشترسفارتی اورعسکری امورکے ماہرین کی رائے تھی کہ اس بڑی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کی خطے میں گرفت مضبوط ہوجائے گی کہ طالبان کی اس فتح میں جہاں پاکستان نے بے شمار قربانیاں دی بلکہ لاکھوں افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کرتے ہوئے اپنے ہاں پناہ بھی دی بلکہ ساری دنیا کوعلم ہے کہ اگرپڑوس میں پاکستان جیساوفادارملک نہ ہوتاتوافغانستان میں نہ صرف سوویت یونین کوشکستِ فاش ہوتی اوروہ عالمی طاقت کی کرسی سے اوندھے منہ گرکرچھ ٹکڑوں میں تقسیم ہوتااورنہ ہی امریکااوراس کے اتحادی اس طرح رسواہوکرراہِ فراراختیارکرتے لیکن کیاوجہ ہے کہ ان تمام قربانیوں کے باوجوددونوں برادرمسلم ممالک کے باہمی تعلقات شدیدتناؤکاشکارہیں اوربدنصیبی سے یہ سارامعاملہ طالبان کے اقتدارسنبھالنے کے بعدسے شروع ہے۔
اگست2021میں جب طالبان نے اقتدارسنبھالاتواُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کہاتھاکہ افغانستان کے عوام نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعدلیفٹینٹ جنرل فیض حمیدنے5 ستمبر2021کوکابل کااچانک دورہ کیاتھاجس کی تصاویربھی میڈیاکی زینت بنی تھیں جوکہ اس ادارے کے سربراہ کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کاخمیازہ آج تک پاکستان بھگت رہاہے۔ان دنوں وہ بھی کورٹ مارشل کی زدمیں اپنے ہی سابقہ ادارہ کی تحویل میں ہیں۔ان تصاویر اورویڈیوزمیں ہوٹل کی لابی میں چائے کا کپ تھامےصحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے’پریشان نہ ہوں ،سب ٹھیک ہوجائے گا‘کے الفاظ اداکیے تھے لیکن ان کے اس عمل نے پاکستان کی پریشانیوں میں حد درجہ اضافہ کردیا۔
لیکن پچھلے3سالوں میں چیزیں تیزی سے بدلی ہیں۔اب بظاہرپاکستان اورطالبان آمنے سامنے ہیں۔پاکستان بارہاکابل سے مطالبہ کر چکاہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی ) کے خلاف کارروائی کرے جو”افغان سرزمین کوپاکستان میں حملوں کیلئےاستعمال کررہی ہے”۔طالبان حکومت اِن الزامات کی تردید کررہی ہے۔گذشتہ برس دسمبرکے اواخرمیں پاکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں انٹیلیجنس پرمبنی آپریشن کیاتھاجبکہ افغان طالبان حکومت نے اس”فضائی کاروائی”پراسلام آبادسے شدید احتجاج ریکارڈکروایاتھااورخبردارکیاتھاکہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری حکمران اسلامی امارت کیلئےسرخ لکیرہے اوروہ اس کاجواب دے گا،جس کے بعدپاکستان کی حدودمیں واقع سرحدی چوکیوں پرفائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے۔جبکہ پاکستان کے الی دشمن انڈیانے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں حالیہ”فضائی کاروائی”کی مذمت کی جوقطعی طورپرایک غیرمتوقع عمل نہیں تھا کہ انڈیااس خطے میں اپنے آقاامریکاکی پالیسی پرمکمل طورعملدرآمدکررہاہے۔
جہاں ایک طرف افغانستان میں طالبان کی اقتدارمیں واپسی کے بعدپاکستانی حکومت حالات میں بہتری کاسوچ رہی تھی وہیں یہ بھی سمجھاجارہاتھاکہ اس پیش رفت سے انڈیاکوسفارتی اور خطے میں اثرورسوخ کے اعتبارسے دھچکاپہنچاہے۔تاہم حالیہ دنوں میں اب ایک بارپھرانڈیااورافغان طالبان میں بڑھتی قربت پاکستان کیلئے ایک سرخ لکیربنتی جارہی ہے۔افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کارخصت ہوناانڈیاکیلئےبڑادھچکاسمجھاجارہاتھا۔ایسالگتاتھاکہ انڈیا نے غنی دورحکومت میں افغانستان میں جواربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے وہ ضائع ہوجائے گی لیکن گذشتہ چندمہینوں میں انڈیاکے طالبان کے ساتھ رابطے بڑھے ہیں اورایک بار پھرافغانستان اورانڈیاکے تعلقات میں گرمجوشی نظرآرہی ہے۔
انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے8جنوری کودبئی میں طالبان کے قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی سے ملاقات کی ہے جس میں دونوں ممالک نے تجارتی سرگرمیوں کوفروغ دینے اورتعاون کومضبوط بنانے پراتفاق کیاہے۔طالبان کی وزارت خارجہ نے کہاہے کہ افغانستان انڈیاکوایک اہم علاقائی اوراقتصادی شراکت دارکے طورپردیکھتاہے۔یادرہے کہ2021 میں طالبان کے اقتدارمیں آنے کے بعدیہ اُن کی انتظامیہ کی انڈیاکے ساتھ اب تک کی اعلیٰ ترین سطح کی ملاقات تھی۔افغانستان کی وزارت خارجہ نے کہاکہ ایران کی چابہاربندرگاہ کے ذریعے انڈیاکے ساتھ تجارت بڑھانے پربات چیت ہوئی ہے۔انڈیاایران میں چابہار بندرگاہ بنارہاہے تاکہ پاکستان کی کراچی اورگوادرپورٹ کوبائی پاس کرکے افغانستان،ایران اوروسطیٰ ایشیا کے ساتھ تجارت کی جا سکے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ نے وکرم مصری سے ملاقات کے بعدجاری کردہ بیان میں مزیدکہاہے کہ”ہماری خارجہ پالیسی متوازن ہے اورمعیشت کومضبوط بنانے پرمرکوزہے۔ہمارامقصد انڈیاکے ساتھ سیاسی اوراقتصادی شراکت داری کومضبوط بناناہے۔ دوسری جانب اس ملاقات کے بعدانڈیاکی وزارت خارجہ نے کہاہے کہ افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں کودوبارہ شروع کرنے پر غورکیاجارہاہے اورتجارت بڑھانے پربھی بات ہوئی ہے۔یادرہے کہ پاکستان سمیت دنیاکے کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کوتسلیم نہیں کیااورانڈیابھی ان ممالک میں سے ایک ہے۔
دبئی میں طالبان اورانڈیاکے درمیان ہونے والی ملاقات پرپاکستان کی وزارت خارجہ نے کوئی باضابطہ ردعمل ظاہرنہیں کیاہے تاہم خارجہ امورکے ماہرین اورتجزیہ نگاروں نے اس پیش رفت کوپاکستان کیلئےایک اہم پیغام کے طورپردیکھاہے۔انڈیاکے انگریزی اخبار”دی ہندو”میں پاکستان کیلئےنامہ نگارنروپماسبرامنیم نے لکھاہے کہ”دریائے کابل پربننے والاشہتوت ڈیم طالبان کی ترجیح ہے۔انڈیااورافغانستان کے درمیان2020میں اس ضمن میں250 ملین ڈالرکے ایک منصوبے پرمعاہدہ ہواتھالیکن طالبان کے آنے کے بعدمعاملات ٹھپ ہوگئے تھے۔طالبان اب انڈیاسے اس منصوبے کومکمل کرنے کاکہہ رہے ہیں”۔
امریکامیں پاکستان کے سابق سفیرحسین حقانی نے پاکستان کے مقامی نیوزچینل سے بات کرتے ہوئے کہاتھاکہ”پاکستانی حکام سوچ رہے تھے کہ کابل فتح کرنے کے بعدطالبان وہاں آ جائیں گے اورپاکستان کامستقبل محفوظ ہوجائے گالیکن وہ ہمارے گلے میں پڑ گئے ہیں اوراس سے اگلے دن ٹوئٹرپرلکھاکہ “انڈین سیکریٹری خارجہ وکرم مصری کی طالبان کے وزیرخارجہ سے ملاقات پاکستانی منصوبہ سازوں کیلئےایک سبق ہے،جویہ سوچ رہے تھے کہ افغانستان میں طالبان کی آمدسے پاکستان کوفائدہ ہوگااورانڈیا کااثرورسوخ ختم ہوجائے گا۔خارجہ پالیسی کوسمجھنے والوں کانقطہ نظرسمجھناچاہیے۔اگرآپ کبھی بریگیڈکے کمانڈرتھے تواس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سب کچھ سمجھ جائیں گے”۔
امریکاکی یونیورسٹی آف البانی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسرکرسٹوفرکلیری نے لکھاہے کہ”کئی دہائیوں سے امریکی پالیسی سازپاکستان کوکہتے رہے ہیں کہ طالبان کی حمایت کرناحکمت عملی کے لحاظ سے شایدہی فائدہ مندہوگا۔اب چیزیں واضح ہوکر سامنے آرہی ہیں”۔پاکستان کی توقعات کے برعکس، کابل میں طالبان کی حکومت آنے کے بعدپاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہواہے۔پاکستان سینٹرفارکانفلیکٹ اورسکیورٹی کے مطابق 2024میں نومبرکے مہینے میں سب سے زیادہ حملے ہوئے جن میں240افرادہلاک ہوئے جن میں تقریباً 70سکیورٹی اہلکارشامل تھے۔
امریکی تھنک ٹینک دی ولسن سینٹرکے جنوبی ایشیاانسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹرمائیکل کوگل مین نے انڈیااورطالبان کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں پرلکھا ہے کہ”کوئی یہ کہہ سکتاہے کہ طالبان کے ساتھ انڈیاکی بڑھتی ہوئی قربت افغانستان میں پاکستان کوشکست دینے کی کوشش ہے لیکن اس کاایک عملی پہلوبھی ہے کہ انڈیانہیں چاہتاکہ افغانستان کی سرزمین انڈیامیں دہشتگردانہ حملوں کیلئے استعمال ہو”۔
اُن کامزیدکہناتھاکہ”اس کے علاوہ انڈیاایران کے چابہارکے ذریعے افغانستان کے ساتھ رابطے بڑھانابھی چاہتاہے۔انڈیابھی یہاں سے وسطی ایشیاپہنچ جائے گا۔انڈیاکی اس کوشش کی بنیادپر وہاں کے لوگوں کااعتمادبھی بڑھے گا۔پاکستان چاہتاہے کہ طالبان افغانستان میں اپنے مخالفین پرقابوپالیں لیکن طالبان ایساکرنے کے موڈمیں نہیں ہیں اوراس کافائدہ انڈیاکومل رہاہے لیکن انڈیااورطالبان کے تعلقات کوپاکستان کے تناظرمیں نہیں دیکھناچاہیے”۔انڈیاکے انگریزی اخبار”دی ہندو”کے بین الاقوامی ایڈیٹرسٹینلے جانی کے مطابق”انڈیااورطالبان2021میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنا چاہتے تھے۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔انڈیانے افغانستان میں سرمایہ کاری کی ہے اوراسے دہشتگردی پربھی تحفظات ہیں۔پاکستان فیکٹربھی اہم ہے۔طالبان پاکستان کی مداخلت سے آزادرہناچاہتے ہیں اوریہ انڈیاکیلئےایک موقع ہے۔اس کایہ مطلب نہیں کہ انڈیاطالبان کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کی جلدی میں ہے۔یہ بین الاقوامی معاہدے کے بعدہی ہوگالیکن انڈیااور طالبان رابطے برقراررکھیں گے اورآہستہ آہستہ نئے مواقع تلاش کریں گے۔
انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنرعبدالباسط کاکہناہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بُری طرح ناکام ہوچکی ہے اوربظاہراس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ایک ہی وقت میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اورتعلقات بڑھانے کی بات ہورہی ہے اورساتھ ہی حملے بھی ہو رہے ہیں۔عبدالباسط کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)کوافغانستان کے ساتھ بگڑتے تعلقات کی سب سے بڑی وجہ سمجھتے ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں میں اضافہ ہواہے اور پاکستانی حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کررہی ہے لیکن ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔اس طرح یہ سارا معاملہ بہت حساس ہوجاتاہے۔
یقیناًیہ بہت حساس معاملہ ہے۔افغان طالبان اورپاکستانی طالبان ماضی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔پاکستان بھی چاہتاہے کہ اس کے کابل کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں،لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پرکاروائیاں بھی اس کی مجبوری بن چکی ہیں کیونکہ افغان طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھارہی ہے۔
ادھرافغانستان کے سابق سفارتکاروں نے انڈیااورافغانستان کے درمیان بڑھتے روابط پرتحفظات کااظہارکیاہے۔سری لنکا،انڈیااور امریکامیں افغانستان کے سابق سفیرایم اشرف حیدری نے وکرم مصری اورطالبان کے درمیان ملاقات پرسخت الفاظ میں لکھاہے کہ “یہ افغانستان کے عوام کے ساتھ غداری ہے کیونکہ یہ افغان جمہوریت،آزادی اورانسانی حقوق کی صورتحال کیلئے تشویشناک ہے۔ پاکستان کی طرح انڈیابھی جلدیابدیراپنی اقدار اورمفادات سے غداری پرپچھتائے گا۔یہ مت بھولیں کہ طالبان کہتے ہیں کہ ہندوؤں نے اس کے بھائیوں اوربہنوں کے کشمیرپرقبضہ کررکھاہے اوروہ کشمیرکی آزادی کیلئےلڑیں گے۔آپ کویہ بھی نہیں بھولناچاہیے کہ بامیان میں بدھاکے مجسموں کوطالبان نے تباہ کردیاتھااوریہ مجسمے ہماری ثقافت کااثاثہ تھے”۔انڈیامیں افغانستان کے سابق سفیر فریدماموندزئی نے کہاہے کہ”ان لوگوں کونظراندازکیے بغیرطالبان حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں کیے جاسکتے جووہاں مسلسل مظالم کاشکارہورہے ہیں۔کسی بھی مذاکرات میں افغان خواتین اوربچوں کے مفادات کوترجیح دینی ہوگی۔وہاں کے انسانی بحران کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔انڈیاوہاں طالبان کے مظالم کوجائزنہ بنائے جوکل خود انڈیاکے گلے کاپھندہ بن جائے”۔
کابل میں ایک انڈین وفدکی طالبان حکام سے ملاقات کوخاصی دلچسپی سے دیکھاجارہاہے اوربعض مبصرین اسے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی طرف ایک اشارہ سمجھ رہے ہیں۔دراصل گذشتہ دنوں انڈین وزارت خارجہ کے ایک اعلی اہلکار جے پی سنگھ نے ایک انڈین وفدکے ہمراہ کابل میں افغانستان کے عبوری وزیردفاع ملامحمدیعقوب اورقائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی اورافغانستان کے سابق صدرحامد کرزئی سے ملاقات کی۔یہ انڈین وزارت خارجہ کے کسی اعلی اہلکارکی ملامحمد یعقوب سے پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ملایعقوب طالبان تحریک کے بانی ملاعمرکے بیٹے ہیں اور موجودہ حکومت میں وہ ایک بااثررہنمامانے جاتے ہیں۔وزارت دفاع نے ایکس پرملایعقوب اورانڈین وزارت خارجہ کے نمائندے جے پی سنگھ کی ملاقات کی تصویرپوسٹ کی اورتعلقات بہترکرنے کاذکرکیاہے۔اںڈیابھی اب طالبان سے تعلقات بہترکرناچاہتاہے کیونکہ وہ نہیں چاہتاکہ افغانستان میں صرف چین اورپاکستان کااثر رہے۔ملایعقوب اس سے پہلے بھی انڈیاسے مضبوط رشتے قائم کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں اوردفاع کے شعبے میں بھی اشتراک کی امیدکررہے ہیں۔
طالبان سے پہلے کی حکومتوں کے دوران انڈیاافغانستان کی فوج کوٹریننگ فراہم کیاکرتاتھاجبکہ افغانستان کے فوجی اہلکارانڈیاکی فوجی اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے کیلئےبڑی تعدادمیں انڈیا آتے تھے۔پروفیسربلقیس کہتی ہیں کہ افغانستان سے انڈیاکے تعلقات تاریخی طورپراچھے رہے ہیں۔”طالبان کی حکومت کے قیام کے بعدانڈیانے افغانستان کے شہریوں کیلئےویزامحدود کر دیاہے۔ 4اور 5نومبرکوہونے والی اس بات چیت میں طلبا،تاجروں اورعلاج ومعالجہ کیلئےآنے والے افغان شہریوں کیلئے ویزاجاری کرنے کے سوال پربھی مفصل بات ہوئی ہے۔اب انڈیابھی تعلقات کی بحالی میں زیادہ دلچسپی دکھا رہاہے۔”اںڈیاکے تعلقات چاروں طرف اپنے پڑوسیوں سے اچھے نہیں ہیں۔یہ انڈیاکے مفادمیں ہے کہ وہ طالبان سے تعلقات بہترکرے کیونکہ وہ یہ نہیں چاہے گاکہ طالبان بھی اس کے خلاف ہوجائیں۔وہ نہیں چاہے گاکہ چین اورپاکستان افغانستان کوانڈیاکے خلاف استعمال کریں”۔
انڈین اہلکارسے ملاقات کے بعدطالبان حکومت کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہاکہ”اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی رشتوں کو وسعت دینے اوردونوں ملکوں کےدرمیان روابط بڑھانے پرزوردیاہے”۔بعض افغان اہلکاروں کے حوالے سے انڈین میڈیا نے خبردی ہے کہ یہ ملاقات اس بات کااشارہ ہے کہ سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجودانڈیااب انسانی بنیادوں پردی جانے والی امدادسے آگے کی راہ دیکھ رہاہے۔آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے بیچ تعلقات میں مزید پیشرفت کاامکان ظاہرکیاگیاہے۔
انڈیاکی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے جمعرات کومیڈیابریفنگ میں بتایاکہ افغان رہنماؤں سے بات چیت میں انڈین اہلکاروں نے دیگرباتوں کے علاوہ ایران کی چابہاربندرگاہ کے راستے افغانستان کوتجارت کی پیشکش کی ہے۔ان کے بقول انڈین اہلکاروں نے طالبان کوبتایاکہ”کس طرح ایران کے تاجراوربزنس مین ایران کی چابہاربندرگاہ سے اپنے مال کی برآمد اور درآمداور دیگرکاموں کیلئےفائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ایران میں چابہار بندرگاہ انڈیاتعمیرکررہاہے جسے پاکستان کے ساحلی شہرگوادرمیں چین کے ذریعے تعمیرکی جانے والی بندرگاہ کے متبادل کے طورپربھی دیکھاجاتا ہے۔ کابل میں اس ملاقات سے چندہفتے قبل طالبان کے بعض اہلکاردلی کادورہ کرچکے ہیں۔کچھ عرصے سے انڈیاافغانستان کی طالبان حکومت سے اپنے تعلقات رفتہ رفتہ استوارکرنے کی طرف قدم بڑھارہاہے۔
افغانستان میں2021میں طالبان کے آنے بعدانڈیانے طالبان کی حکومت کوتسلیم نہیں کیاہے۔دلی میں افغانستان کے سفارتخانے میں گذشتہ حکومت کے جوسفارتکارتھے وہ یہاں سے جا چکے ہیں۔کسی بھی ملک نے اگرچہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کوتسلیم نہیں کیاتاہم علاقائی ممالک بشمول چین، روس،پاکستان،ایران اورقطرکاسفارتخانے اب بھی کابل میں موجود ہیں۔حال ہی میں انڈیانے کابل میں سفارتی مشن بحال کیا۔طالبان ایک عرصے سے انڈیاپرزوردے رہے ہیں کہ وہ طالبان کی وزاراتِ خارجہ کے سفارتکاروں کویہاں مامورکرنے کی اجازت دے۔اس ملاقات میں بھی طالبان نے سفارتکاروں کی تقرری سے متعلق سوال اٹھایاتھا۔اب ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ انڈیاطالبان کے سفارتکاروں کودلی میں مامورکرنے کی اجازت دینے پرغورکررہاہے۔طالبان انڈیاکو کئی باریہ یقین دہانی کراچکے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کوانڈیامخالف سرگرمیوں کیلئےاستعمال نہیں ہونے دیاجائے گا۔
گذشتہ برسوں کے دوران پاکستان اورطالبان کے درمیان تعلقات میں اُتارچڑھاؤآتارہاہے۔پاکستانی دفترخارجہ نے بارہااپنے بیانات میں افغان طالبان سے یہ مطالبہ کیاہے کہ اس کی سرزمین پاکستان پرحملوں کیلئےاستعمال نہ کی جائے جبکہ طالبان حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان مخالف سرگرمیوں کیلئےاستعمال نہیں ہورہی۔رواں سال انڈیااورمالدیپ کے درمیان سردمہری رہی تھی تاہم اکتوبرمیں انڈیانے مالدیپ کی معاشی بحالی کیلئےہزاروں ڈالرقرض دینے پر رضا مندی ظاہرکی۔مئی میں نیپال کے نئے نقشے کے ساتھ جاری کیے جانے والے100روپے کے نیپالی نوٹ کے اجراپر انڈین حکام نے ناراضی ظاہرکی تھی جبکہ ماضی قریب میں بھوٹان کی طرف سے چین سے بہترسفارتی تعلقات استوارکرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔یادرہے کہ سری لنکامیں ستمبرکوبائیں بازوکی جانب جھکاؤرکھنے والے سیاست دان انوراکماراڈسانائیکے نئے صدربنے ہیں جنھیں چین کاحامی سمجھاجاتاہے۔بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ اپنی حکومت جانے کے بعدسے انڈیامیں موجودہیں جہاں انہیں سیاسی پناہ دینے کامعاملہ زیرِبحث ہے۔
ادھرانڈین خارجہ امورکے ماہرین کے مطابق انڈیااورطالبان کی حکومت،دونوں کے درمیان باہمی اعتمادکی کمی ہے۔انڈیانے طالبان کوتسلیم نہیں کیا لیکن اگروہ دلی میں افعان سفارتخانے میں طالبان کے سفارتکاروں کومامور کرنے کی اجازت دیتاہے تویہ تعلقات کی باضابطہ بحالی کی جانب ایک بڑاقدم ہوگالیکن انڈیاابھی تک طالبان کوتسلیم کرنے سے پہلے”ویٹ اینڈواچ” کی پالیسی پرعمل پیرارہاہے۔
دوسری طرف پاکستانی دفترخارجہ کی ترجمان نے اگست کے دوران کہاتھاکہ اگرعبوری افغان حکومت اپنے شہریوں اوربین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کویقینی بنائے گی کہ اس کی سرزمین اس کے پڑوسیوں کے خلاف استعمال نہیں کی جا رہی تب ہی اسے تسلیم کرنے میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔
مبصرین کے مطابق انڈیاکی حکومت اس وقت مکمل طورپراپنے نئے مربی ٹرمپ کی گودمیں بیٹھ کران کی پالیسیوں پرعملدرآمد کررہاہے اورٹرائیکاکی مکمل کوشش ہے کہ”سی پیک”کوکسی بھی صورت میں مکمل نہ ہونے دیاجائے،اس حکمت عملی کے لحاظ سے افغانستان کی اہمیت موجودہ علاقائی پس منظر میں بہت زیادہ ہے اوراس سے تعلقات پوری طرح بحال کرنے کیلئے انڈین حکومت اب اسی طرف قدم بڑھارہی ہے لیکن یہ یادرکھنابہت ضروری ہے کہ جوطالبان اس وقت انڈیاکواپنی سرزمین انڈیامخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں کرنے کی یقین دہانیاں کروارہے ہیں،اس سے قبل وہ ایسی ہی تحریری یقین دہانیاں دوحہ میں اقوام عالم کوکروا چکے ہیں اورجس پاکستان کی قربانیوں کی بدولت وہ اس مقام پرپہنچے ہیں،اگراس کے ساتھ یہ سلوک روا رکھاجا رہا ہے توکل انڈیاکوبھی یقیناًایسے سلوک کامنتظررہناہوگاجوشائداس سے کہیں زیادہ شدید اورناقابل یقین ہوگااورطالبان کی موجودہ قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے کہ رب کریم نے واضح طورپرارشادفرمایاہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوااور کیاہے۔