افغانستان سے انخلاءکے بعداگر امریکی فوج کی کوئی حکمتِ عملی ہے توبس یہ کہ کسی نہ کسی طورآپس کی خانہ جنگی جاری رہے تاکہ خطرات کی سطح اس حدتک گرجائے کہ ملک کی سیکورٹی کاانتظام بدسے بدترہوجائے اورکوئی گروپ اس پرقابونہ پاسکے۔افغانستان کے طول وعرض میں 20سال کی لڑائی کے بعداب بھی کوئی بھی کسی بھی سطح پریہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ پورے ملک پراس کاقبضہ ہے اوران دو دہائیوں میں امریکااوراس کے اتحادی خودافغانستان پر کبھی بھی مکمل قبضہ کادعویٰ نہیں کرسکے تواب بھلاافغان فوج ان کے رخصت ہونے کے بعدکیسے ملک میں سلامتی برقراررکھ سکے گی۔افغان فوج کبھی بھی جیتنے کی پوزیشن میں توخیرآہی نہیں سکی،وہ توبس نیٹواورامریکی افواج کے سہارے افغان فوج کی وری پہنے اپنی شناخت کیلئے موجودہیں اورپینٹاگون جوپچھلے 20سال وائٹ ہاؤس کویقین دلاتارہاکہ وہ ایک نہ ایک دن امریکی واتحادی افواج کی مدد سے کسی بڑی فتح کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے،اس خواب کی تعبیربھی بڑی خوفناک نکلی۔یہی وجہ ہے کہ وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق انخلاء کرتے ہوئے اپنے تمام بیسز افغان فوج کے حوالے کررہے ہیں جس کے بعدخانہ جنگی کا میدان گرم ہے،دونوں اطراف سے فتح کے ڈونگرے توبرسائے جارہے ہیں تاہم سیاست،نظام حکومت اورمعاشیات کے حوالے سے سویلین سطح پرابھی تک کسی بڑی کامیابی کوممکن بنانے کادعویٰ کوئی نہیں کررہا۔یہ بات ضرورکہی جارہی ہے کہ ہرآنے والادن زمینی حقائق کی تصدیق کرتے ہوئے طالبان کومکمل فتح سے قریب کررہاہے ۔
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغان جنگ میں امریکی امریکی ٹیکس دہندگان افغانستان عراق،شام اورپاکستان سے شروع ہونے والی جنگ پر 6.4ٹریلین ڈالرلاگت آئی ہے۔تصدیق شدہ سرکاری اعداد وشمارکے مطابق3502/فوجی مارے گئے جن میں2312/امریکی فوجی تھے28ہزارسے زائدزخمی ہوئے ہیں جن میں69فیصدزندگی بھرکیلئے معذورہوچکے ہیں اورایک رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ ان زخمیوں کی ادویات اور علاج معالجہ کیلئے صرف ہورہے ہیں۔امریکی عوام یقیناًیہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ20 سال کی جنگ کے نقصانات کے ذمہ داروں کو احتساب کے کٹہرے میں ضرورکھڑا کیا جائے۔اس حقیقت سے بھی کوئی انکارنہیں کرسکتاکہ امریکی انخلاء کے وقت70فیصدسے زائدافغان سرزمین پرطالبان کاکنٹرول ہے۔
دوسری طرف پینٹاگون ابھی تک یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتاکہ افغان فوج اپنے پیروں پرکھڑی ہوچکی ہے،اب انہیں فنڈنگ یاامریکاسے فضائی امداد درکار نہیں،امریکا نے افغان فوج کی اعلیٰ تربیت کے ساتھ ساتھ اُسے فضائی لڑائی میں بہترین انداز سے معاونت فراہم کرکے معاملات کو بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کی لیکن اس کے باوجودامریکی فوج کیلئےجانی نقصان کا گراف مسلسل نیچے آیا۔ انتہائی پریشان کن امریہ ہے کہ افغان فوج اب بھی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ وہ ملک کوبہترین اندازسے کنٹرول کرسکتی ہیں یا یہ کہ وہ طالبان اوردیگردشمنوں کوقابومیں رکھنے کی پوزیشن میں آچکی ہیں۔پاکستان کے حوالے سے امریکانے ہمیشہ خاصا سخت موقف اختیاررکھالیکن دوحہ امن مزاکرات پاکستان کی کوششوں سے ہی ممکن ہوسکا۔یہ بات بھی بہت واضح ہوچکی ہے کہ روس اور ایران اب طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئےتیارہیں۔اس میں شک نہیں اورسیاسی ودفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق بہت سے شواہدموجودہیں کہ امریکانے بالآخراپنی مکمل شکست سے بچنے کیلئے داعش کوعراق وشام سے افغانستان میں منتقل کیاتاکہ افغانستان کونہ ختم ہونے والی خانہ جنگی میں مبتلاکرکے امریکی اورنیٹوافواج کی موجودگی کاجوازقائم رکھا جا سکے لیکن پینٹاگون کواپنی اس سازش میں بھی بری طرح ناکامی کاسامناکرناپڑااوربڑے افغان شہروں میں داعش کے حملوں سے افغان فوج پرعوام کااعتماد متزلزل اورطالبان پراعتمادمضبوط ہواہے۔
افغانستان میں جو کچھ ہواوہ بہت حد تک ویت نام جیساتھا۔تب امریکانے برسوں کی بات چیت کے بعدیاساتھ ساتھ شمالی ویت نام کو بھرپور قوت کے ساتھ نشانہ بنایاتھااوردوسری طرف جنوبی ویت نام کواپنی مددکیلئےتیارکیاتھا۔پینٹاگون اس پالیسی کوامن کوجیتنے اور جنگ کوہارنے کی حکمت عملی قراردے رہاتھا ۔ شمالی ویت نام کی مزاحمتی فوج کواس بات کایقین تھا کہ وہ جنگ جاری رکھنے کی پوزیشن میں ہیں۔مزیدیہ کہ وہ اپنی مرضی کے نتائج بھی حاصل کرسکتے تھے۔دوسری طرف چندامریکی حکام نے آنے والے دورکے خطرات کوبھانپ لیاتھاانہیں اندازہ تھاکہ امریکا درحقیقت ہارچکاہے مگرآبروبچانے کی خاطرامن کو ’’نافذ‘‘کرنے کی تیاری کرتارہا۔ ویت نام کی جنگ امریکانے ایسی شرائط کے تحت ختم کی تھی جودراصل شکست کی شرائط تھیں۔
چنداورمعاملات بھی ہیں جن میں موجودہ افغانستان اورتب کے ویت نام میں کئی اقدارِمشترک پائی جاتی ہیں۔امریکانے شمالی ویت نام کو باہر سے ملنے والی مختلف النوع امدادکے بارے میں غلط اندازے قائم کیے تھے اورسب سے بڑھ کریہ کہ اس نے جنوبی ویت نام کے بارے میں یہ خوش فہمی پال لی تھی کہ وہ گورننس اوراقتصادی کارکردگی کے معاملے میں بہت آگے ہے،غیرمعمولی دم خم رکھتاہے جبکہ ایسانہیں تھا۔امریکی قیادت نے اس حقیقت کویکسرنظر انداز کردیاکہ ویت نامی حکومت بدعنوانی اورنااہلی پرقابوپانے میں ناکام ہوچکی تھی اورنظامِ حکومت کے حوالے سے اس کی کارکردگی بہت خراب تھی۔سویلین اورفوجی دونوں ہی معاملات میں وہ نااہل تھی اورمعاشی کارکردگی کے حوالے سے قابل رحم حالت میں تھی۔اس کے نتیجے میں وہ نام نہادجمہوریت بھی کچھ نہ کرسکی جوامریکا نے متعارف کرائی تھی۔
اس وقت افغانستان کے حکومتی سیٹ اپ میں بہت کم افسران انتہائی ایمانداراورمحب وطن ہیں جیسا کہ ویت نام کے کیس میں تھامگر مسئلہ یہ ہے کہ مجموعی سیاسی سیٹ اپ ویساہی بدعنوان اورنااہل ہے جیساکہ ویت نام میں تھا۔سیاسی اورمعاشی کارکردگی کاگراف گراہواہے۔ پوری معیشت آبادی کے ایک چھوٹے سے طبقے کواپنے ثمرات سے مستفیدہونے کاموقع دے رہی ہے۔معاشرے میں تقسیم غیرمعمولی ہے۔مسائل ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں اورموجودہ افغان حکومت نےاُن کے حل کی کوئی سبیل نہیں نکالی۔ویتنام کی طرح افغانستان میں بھی سویلین اورفوجی دونوں ہی سیٹ اپ ناکام ہیں،مگرسویلین سائڈکی ناکامی زیادہ نمایاں ہے۔سیاسی اعتبارسے افغانستان زیادہ منقسم اورکمزورترہےجس کے شدید منفی اثرات ملک کی معاشی کارکردگی پربھی مرتب ہورہے ہیں۔
افغانستان کی قومی فوج اب تک اس قابل نہیں ہوسکی کہ ملک کانظم ونسق بہتراندازسے سنبھال سکے،تاہم حقیقت یہ ہے کہ امریکااور مغرب نے سیاسی پہلوکو جان بوجھ کربہت حد تک نظراندازکئےرکھا۔افغان فوج کاکمزورہوناایک حقیقت ہے مگرسیاسی پہلو زیادہ بڑی حقیقت کادرجہ رکھتاہے۔ملک میں مجموعی اعتبار سے تعمیرو ترقی مایوسی کاشکاررہی،یہ محض عسکری معاملہ نہیں۔مجموعی طور پرسیاسی سیٹ اپ ہی نااہل اوربدعنوان ہے۔ایسے میں ملک کسی بھی طورآگے نہیں بڑھ سکا۔منتخب حکومت اپنی ناکامی کاساراالزام سیکورٹی کی صورت حال کے سر منڈھنے کیلئےبے تاب رہتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سیاسی سیٹ اپ اپنی نااہلی چھپانے کیلئے افغان حکومت نے ہمیشہ طالبان اورپاکستان کوموردِ الزام ٹھہراکراپنی کمزوریوں پرپردہ ڈالنے کی پالیسی جاری رکھی اوراس طرح معاملات کومزید خرابی کی طرف دھکیلتے رہے۔
جنوبی ویت نام میں بھی نااہلی تھی،کرپشن بھی تھی مگرمعاشرے میں غیرمعمولی تقسیم نہ تھی۔بدھسٹ اورکیتھولک گروہوں کے درمیان تقسیم کی نوعیت وہ نہ تھی جوافغانستان میں ہے۔یہاں فرقہ وارانہ یامسلکی بنیادپراختلافات بہت زیادہ ہیں۔نسلی اورلسانی تقسیم بھی موجودہے۔عالمی بینک اورعالمی مالیاتی فنڈجیسے اداروں نے افغانستان میں سویلین حکومت کی نااہلی کی طرف بارباراشارہ کیاہے۔ملک میں اب بھی’’نارکو اکانومی‘‘کااثربہت زیادہ ہے،یعنی پوست کی کاشت پراطمینان بخش حد تک قابونہیں پایاجاسکاہے۔سیاسی نا اہلی سے ایک طرف توملک میں سلامتی کامعاملہ داؤپرلگاہواہے اوردوسری طرف ترقی کی راہ بھی مسدود ترہوتی جارہی ہے۔ملک بھر میں غیرمعمولی بے روزگاری نے مسائل کو مزیدسنگین کردیاہے۔حقیقت یہ ہے کہ مکمل ناکامی سے قبل ویت نامی معاشرہ ا ُس قدر منقسم نہ تھاجس قدرافغان معاشرہ ہے۔
اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ امریکاکواب افغانستان سے نکلناہے اوروہ براہ راست زمینی جنگ سے مکمل طورپرجان چھڑانا چاہتاہے،مگریہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسادکھائی دیتاہے۔جس جنگ کوچھوڑناہے اُسے اورکسی شکل میں جاری بھی رکھے گا۔یہی سبب ہے کہ امریکاطالبان سے مذاکرات کے ذریعے ایک ایسی’’فتح‘‘چاہتاہے جس سے وہ جان بھی چھڑاناچاہتاہے۔نیپال اورکمبوڈیا میں بھی خانہ جنگی ہوئی مگراِن دونوں ممالک کامعاملہ افغانستان اورویت نام سے بہت مختلف رہا۔نیپال اورکمبوڈیامیں جب جنگجوؤں نے دیکھاکہ وہ میدانِ جنگ میں سب کچھ نہیں پاسکتے توانہوں نے بات چیت کی راہ اپنائی اورمذاکرات کی میزسے ایوانِ اقتدارتک پہنچے۔کمبوڈیااورنیپال دونوں کے معاملات میں یہ ثابت ہوا ہے کہ کبھی کبھی امن مذاکرات جنگ کوطول دینے کاباعث بنتے ہیں اور فریقین ایک دوسرے کودھوکادینے کیلئےمذاکرات کی میزتک آتے ہیں۔
خطے کے معاملات پرگہری نظررکھنے والے سمجھتے ہیں کہ اگرامریکاچاہتاہے کہ افغانستان سے مکمل جان چھوٹے تولازم ہے کہ امریکانے طالبان کی حکومت کوگراکرافغانستان پرقبضہ کیاتھااوراب جنگ بندی کیلئے بھی طالبان سے ہی امن معاہدہ طے پایاہے،اس لئے لازم ہے کہ امریکاانخلاء کے وقت بیسزخالی کرتے ہوئے انہیں افغان طالبان کے حوالے کیاجائے۔اگراس امید پرملک میں خانہ جنگی کروائی گئی کہ طالبان کبھی توتھک ہارکر کمزورہوکرہارمانیں گے تویہ خودفریبی اوردیوانے کے خواب کے سواکچھ نہیں۔
ان دنوں موجودہ کٹھ پتلی حکومت اورکرزئی گروہ امریکاکویہ فریب دینے کی کوششوں میں مگن ہے کہ افغان جنگ جیتنے کاایک اور طریقہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ افغان حکومت کوزیادہ فنڈزدے کرمضبوط بنایاجائے،ملک کاکنٹرول مکمل طورپرسنبھالنے کی پوزیشن میں لایاجائے لیکن امریکا جانتا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں سمیت کامیاب نہیں ہوسکا،اس لئےموجودہ افغان کٹھ پتلی اوران کے ہمنوائوں کی تجویزپرعمل کرناناممکن دکھائی دیتاہے ۔ جنگ میں بھی کسی نہ کسی سطح پرتو ایماندارہوناہی پڑتاہے۔5سال قبل واشنگٹن میں امریکا کے تمام معروف دفاعی اورسیاسی تجزیہ نگاروں نے مشہورامریکی تھنک ٹینک’’سینٹرفاراسٹریٹجک اینڈانٹرنیشنل اسٹڈیز‘‘کے اجلاس میں انتھونی کارڈزمین جوواشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک’’سینٹرفاراسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘‘میں اسٹریٹجی کے حوالے سے آرلی اے برک چیئرکے سربراہ بھی ہیں،انہوں نے افغانستان کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ اورمحکمہ دفاع کیلئےمشیرکی حیثیت سے کام کیا ہے،امریکاکومشورہ دیاتھاکہ”امریکاکویہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ دنیابھرمیں یہ تاثرعام ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کبھی حقیقی فتح کادعویٰ یااعلان نہیں کرسکتیں۔ایسے میں ایک اچھا اقدام یہی ہوسکتاہے کہ فتح کااعلان کرنے کی بجائے امن کااعلان کرکے اپنی راہ لی جائے۔ایشیاکے نئے’’گریٹ گیم‘‘میں جیتنے کاایک اچھاطریقہ یہ بھی ہے کہ کھیلناترک کردیاجائے۔اس کے نتیجے میں خرابیاں پاکستان،ایران،روس،چین اوردیگرممالک کے حصے میں آئیں گی اورجو کچھ امریکانے سہا ہے وہی کچھ اِن ممالک کوبھی سہناپڑے گا”لیکن محسوس یہ ہورہاہے کہ بعض نادیدہ قوتوں نےپینٹاگون کی آنکھوں پرایسی پٹی باندھ رکھی ہے جس نے امریکاکےمستقبل کی بربادی کودیکھنے کی قوت کوسلب کررکھاہے۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان اورافغان طالبان مل کرامریکی انخلاء کے موقع پرپینٹاگون اوروائٹ ہائوس کے اس پروپیگنڈے پرقطعاًیقین نہ کریں جس میں وہ باربارپاکستان میں امریکی ائیربیسزلینے کی یقین دہانی کروارہے ہیں جبکہ پاکستان نےہرعالمی فورمز پراس کی بھرپورتردیدکی ہے اوراس کے ساتھ طالبان نے دوحہ میں امن معاہدے میں اقوام عالم کوبھرپوریقین دلایاہے کہ آئندہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال کی اجازت نہیں ہوگی۔ طالبان اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بھارت نے امریکاکی مدداور موجودگی کافائدہ اٹھاتے ہوئے دہشتگردی کامنظم نیٹ ورک تیارکرکے پاکستان میں درجنوں حملے کروائے اوراب بھی ان گروپوں کی اعانت کررہاہے جس کے مضبوط شواہداقوام متحدہ کے علاوہ دیگر مغربی ممالک کوبھی فراہم کئے گئے۔شنیدیہ بھی ہے کہ”را”کے چیف نے دوحہ میں طالبان کے دفترمیں دو مرتبہ ملاقات کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اورطالبان سے حسن ظن اورخوش گمانی رکھتے ہوئے پوری امیدہے کہ طالبان افغان سرزمین کودنیابھرکیلئے امن کاایک بہترین نمونہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اوراقوام عالم سے ایفائے عہدکرتے ہوئے کسی بھی گروہ کواپنے ہاں رہنے کی اجازت نہیں دیں گے۔