نیو مڈل ایسٹ پراجیکٹ….منصوبہ بندی؟

:Share

میرے کالم”فرقوں میں بٹی امت”کی اشاعت کے بعدقارئین کی طرف سے بے شمارپیغامات موصول ہورہے ہیں کہ صہیونی اور استعماری اشتراک کے خوفناک منصوبے کے متعلق مزید بتایاجائے تاکہ ہمارے حکمران وسیاستدان سرجوڑکرآئندہ آنے والی مشکلات کے حل کیلئے کوئی پیش بندی کرسکیں۔آج سے پانچ سال قبل (لیزا) لندن انسٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیا کے ڈائریکٹرجناب بریگیڈئرعثمان خالد نے اپنے ایک مضمون میں اس امریکی مجوزہ منصوبے کانقشہ شائع کیاتواسے سنجیدگی سے لینے کی بجائے اس کوایک سطحی پروپیگنڈہ کہہ کرنہ صرف مسترد کردیاگیابلکہ اس کامذاق اڑایا گیا لیکن جب وقت اورموجودہ حالات نے ان کی بصیرت کوحقیقت کارنگ دیاتواب ہر کس کویہ فکرلاحق ہوگئی ہے کہ امریکااوراسرائیل کاخطرناک اشتراک عالم اسلام کی تقسیم کیلئے کس قدرتیزی کے ساتھ روبہ عمل ہے۔
شام کے بحران اورمصری آمریت کی آڑ میں صہیونی اورامریکی شیطانی منصوبے کے تحت عرب دنیاکانقشہ بدلنے اورسعودی عرب سے پاکستان تک ممالک کی سرحدیں کشت وخون کے ذریعے زیرو زبر کرنے کاامریکی منصوبہ بے نقاب ہوچکاہے اورشواہداس امرکی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکی ۲۰۰۴ء میں تیارکردہ اپنے گریٹ مڈل ایسٹ کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کررہے ہیں جس کو ۲۰۰۶ء میں نیومڈل ایسٹ کے نام سے منظرعام پرلایاگیاتھا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکی فورسزاسرائیلی،ترکی اوراردن کے اڈوں سے اڑکرشام پرحملہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اورپانچ امریکی بحری بیڑے شام کے پانیوں میں لنگراندازہوچکے ہیں۔امریکی صدراوباماشاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارفرانس کی حمائت کے ساتھ شام پرحملے کیلئے تیارہیں جبکہ امریکی پارلیمنٹ سے اس حملے کی منظوری بھی اب کوئی مشکل نہیں رہی کہ کانگرس کے اسپیکر اوراکژیتی پارٹی کے قائددونوں شام پرحملے کی حمائت کرچکے ہیں۔خطرہ ہے کہ کانگرس کی منظوری کی رسم پوری ہوتے ہی امریکی میزائل شام پر برسنا شروع ہوجائیں گے۔
آخرامریکااوراسرائیل اس حملے سے کیامقاصدحاصل کرناچاہتے ہیں؟دراصل امریکا بشارالاسدکے ساتھ ساتھ شام کی جہادی اپوزیشن کابھی صفایا چاہتاہے لہنداالنصرہ اور امارہ الاسلامیہ عراق کے نام سے بڑے اسلامی گروپوں کے مراکزاورقیادت کوبھی ہدف پررکھاگیاہے اوریہ بھی اس پہلی ترجیح کاحصہ ہیں جس میں بشارحکومت کے ریڈار اور ایئر بیسز شامل ہیں۔ دوسری جانب امریکااوراسرائیل شام پردباؤبڑھارہے ہیں،اس مقصد کی خاطر سمندرمیں دونوں نے مشترکہ طورپرایک میزائل کاتجربہ بھی کیاہے جسے روسی ریڈارنے نوٹ کرکے اس کی تشہیر کر دی اورامریکاکواسے تسلیم کرناپڑا اور بالآخر اسرائیلی کمانڈوکوبھی اعتراف کرناپڑا۔بی بی سی کے مطابق النصرہ کے ایک رہنماء نے کہاہے کہ وہ اچھی طرح امریکی عزائم سے آگاہ ہیں اوران گروپوں نے اپنے ارکان اورقیادت کوزیرزمین جانے کی تجویزدے دی ہے۔ بشارالاسد حکومت کوصرف پہلے دوہفتے میں گرایاجا سکتاہے ،یہ سارالاؤ لشکر دراصل جہادی گروپوں کے خلاف جمع کیاجارہاہے۔
دوسرے جانب بعض مبصرین شام کے کیمیائی حملے اورایران کے کردارکوبھی ایک ہی سلسلے کی کڑی خیال کررہے ہیں۔ماضی کے حوالے سے اس خطے کی صورتحال جاننے والے ذرائع کادعویٰ ہے کہ شام کی یہ جنگ حادثاتی ہے نہ اتفاقی بلکہ یہ ایک منصوبہ بندی کاحصہ ہے جس میں ایران کاکردار قابل مذمت اورانسانی دشمنی پرمبنی ہے۔اس حوالے سے یہ کہاجا رہاہے کہ امریکاکے ایک سابق سیکورٹی ایڈوائزر برزنسکی نے ۲۰۰۴ء میں یہ تصور پیش کیاتھا کہ امریکااوراسرائیل کاتحفظ موجودہ مڈل ایسٹ میں ممکن نہیں،اس کیلئے نیامڈل ایسٹ ہوناچاہئے جس کانام انہوں نے گریٹر مڈل ایسٹ قراردیااوراس میں پاکستان اورافغانستان کوبھی شامل کرلیاگیا۔جون۲۰۰۴ءمیں ہونے والی جی ایٹ کانفرنس کے ایجنڈے پرگریٹ مڈل ایسٹ
سرفہرست تھامگراس کے بعد اس کانفرنس کے اعلامیہ کے بعدکافی عرصہ کسی کی زبان پرکوئی لفظ نہیں آیا۔
جون۲۰۰۶ء میں امریکی وزیرخارجہ کنڈولیزارائس نے تل ایبب میں بات چیت کرتے ہوئے نہ صرف مڈل ایسٹ کانیانام پیش کیابلکہ یہ بھی کہاکہ یہ پراجیکٹ لبنان سے لانچ کیاجارہاہے اور مزید بتایا گیا کہ لبنان خطے کی سیاست میں پریشرپوائنٹ کاکام کرے گااورپوری عرب دنیامیں بے چینی پیداکرنے کے بعداسرائیل،امریکااوربرطانیہ مل کرنئی حدبندی کریں گے جو انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگی۔ اس خطاب کے بعد ہی لبنان اسرائیل جنگ چھڑگئی مگرطوالت کے باوجودامریکی مشن پورے نہ ہوسکے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ ایک طرف جب امریکی انسانی حقوق کی بات کررہے تھے تو دوسری جانب امریکاسی آئی اے کے کرنل رالف پیٹرنے بلڈبارڈرکے نام سے امریکی منصوبے کی تمام جزئیات کھول کررکھ دیں ہیں۔اس حوالے سے رالف پیٹرکامضمون امریکی افواج کے ترجمان میگزین ”امریکی فورسزجوئل” میں شائع ہوااورآج تک اس کی تردیدنہیں آئی بلکہ حالات اس کی تصدیق کرتے جارہے ہیں۔امریکاکااصل ہدف یہ تھاکہ ایک طرف لبنان میں بیٹھ کرعرب دنیاکاجغرافیہ بدلاجائے تودوسری طرف افغانستان مین بیٹھ کرپاکستان،ایران کانقشہ بدل کروسطی ایشیاکارخ کیا جائے مگرلبنان کی جنگ نہ صرف عرب دنیاکوکسی خطرے سے دوچار کرنے میں ناکام رہی بلکہ اسرائیل جسے امریکااورمغربی ممالک ناقابل تسخیرسمجھتے تھے،اسے حزب اللہ نے ایسا سبق دیاکہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکاکاتکبر بھی خاک میں مل گیا اوردوسری طرف افغانستان میں بھی امریکی افواج کو جوتے کھاکرنکلناپڑرہاہے لہندا ایک ترمیم کے ساتھ یہ منصوبہ شام سے شروع ہورہاہے۔کہایہ جارہاہے کہ ۲۰۰۴ء میں یہ منصوبہ جب جی ایٹ میں زیرِ بحث آیاتواس وقت فیصلہ کیاگیاتھاکہ جوممالک اس کی حمائت کرتے ہیں وہ خاموشی اختیارکریں گے کیونکہ یہ منصوبہ متفقہ طورپرمنظورنہیں ہوسکاتھا۔اس منصوبے کے مطابق امریکی میڈیامیں ۲نقشے بھی سامنے آئے، دونوں نقشے ایک جانب نیومڈل ایسٹ پراجیکٹ کے ساتھ نقشہ بلڈ بارڈرمیں شامل ہیں۔اس کامطلب یہ ہواکہ نیومڈل ایسٹ اوربلڈبارڈرایک ہی منصوبے کے دونام ہیں جو۲۰۰۶ء میں اس لئے منظر عام پرلائے گئے کہ اوّل لوگ ذہنی طورپر تیار رہیں دوسرے متعلقہ علاقوں میں تبدیلی کے خواہش مندتیاررہیں۔
اب آتے ہیں رالف پیٹرکے اس مجوزہ منصوبہ کی جانب جس پرامریکی فورسزآج بھی عمل پیراہیں۔رالف پیٹرکہتاہے کہ موجودہ سرحدیں کوئی قدرتی تقسیم نہیں ہیں بلکہ فرانس اور برطانیہ نے اپنے مفادات کے تحت ان کی تشکیل کی۔امریکاکواب جغرافیہ اپنی مرضی کابناناچاہئے اس کے بغیراس کاتسلط قائم نہیں ہوسکتا۔منصوبے میں کہاگیاہے کہ ۳۶ملین کرددنیا کے چار ممالک میں مارکھارہے ہیں، امریکا اگر آزاد کردستان قائم کرد ے تویہ امریکا کی اسرائیل سے بھی کہیں زیاد ہ وفادار ریاست ہو گی لہنداربا،شام سے لیکرتبریزایران تک ایک آزاد کردستان تخلیق کیاجائے جس میں ایران،ترکی ، عراق اورشام کے تمام کردخطے میں شامل کردیئے جائیں۔عراق کے تین سنی صوبوں پرمشتمل ریاست عراق کافی ہے بعدازاں شام کابچا کھچا علاقہ بھی اسے دیاجاسکتاہے جبکہ شیعہ اکثریتی علاقے پرمشتمل ایک ”عرب شیعہ ریاست”اس نام سے قائم کی جائے جس میں عراق کے شیعہ علاقوں کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے تیل پیداکرنے والے ساحلی علاقے اوردوسری جانب ایران کی آئل بیسٹاس کے حوالے کردی جائے۔اس کے علاوہ دبئی ،عمان اور کویت کے علاوہ تمام عرب امارات کو اس کا حصہ بنالیاجائے گا،یوں عراق تین حصوں میں تقسیم ہوگا اوردونئے ملک وجودمیں آجائیں گے ۔لبنان کوفلسطین کاعلاقہ چھوڑنا پڑے گااورفلسطین نام کی کوئی ریاست نہیں ہوگی۔اسرائیل ۱۹۷۶ء کی
سرحدوں پرچلاجائے گااورفلسطینی اتھارٹی کاعلاقہ لبنان اوراردن کودے کرگریٹرلبنان قائم کیاجائے گاجس میں شام کے شیعہ علاقے بھی شامل ہیں۔
سی آئی اے کے مذکورہ مضمون نگارکادعویٰ ہے کہ ایران چونکہ کردستان کوعلاقہ دے چکاہے لہندااسے افغانستان کاہرات تک کاعلاقہ دے دیاجائے اورافغانستان کی محرومی دورکرنے کی خاطر پاکستان کا فاٹا اس میں ضم کردیاجائے۔رالف پیٹرکے خیال میں سعودی عرب اورپاکستان دنیاکے غیر حقیقی ممالک ہیں،ان کی تقسیم ضروری ہے اورپاکستان کے حوالے سے مصنف کی دوراندیشی جوکہ امریکی پالیسی کا حصہ ہے، یوں ہے کہ فاٹاافغانستان کے حوالے کردیاجائے ،بلوچستان کوایرانی بلوچستان سے ملاکرآزادبلوچستان بنادیاجائے ،اس کے سبب دریائے سندھ کے مغرب میں زمین کاایک چیتھڑاسابچے گا،یہ نیچرل پاکستان ہوگا۔
سعودی حکومت جواس وقت امریکیوں سے انتہائی محبت کاشکارہے،ان کے بارے میں امریکی یہ طے کرچکے ہیں کہ مکہ مدینہ کو”آزادمقدس ریاست”کے نام سے الگ کردیاجائے اوراس کاکنٹرول امریکاکی من پسنددنیا بھر کی مسلم تنظیموںاورمسلم ممالک کے نمائندوں پرمشتمل کونسل کودے دیاجائے جبکہ تیل پیداکرنے والا ساحلی علاقہ عرب شیعہ ریاست کا حصہ بنادیاجائے جبکہ جنوب کاعلاقہ یمن اوراردن سے ملحق زرعی علاقہ اردن کاحصہ بنادیاجائے۔ریاض اورگردونواح میں ایک نیچرل سعودی عرب وجودمیں آجائے گاجہاں آل سعود اقتدارکاکھیل کھیلتے رہیں گے۔ اب جبکہ امریکاشام پرحملے کیلئے تلابیٹھاہے اورروس نے اس کے جواب میں سعودی عرب پرحملے کی دہمکی سے کیایہ بات عیاں نہیں ہورہی کہ نیو مڈل ایسٹ پراجیکٹ منصوبے پرعمل درآمدہونے جارہاہے؟کیااس کے تدارک کیلئے ہم نے

کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی ہے؟
مقتل وقت میں زخموں کی جھڑی ہو جیسے
زندگی یوں ہے اک لاش پڑی ہو جیسے
ہائے کس کرب سے دم توڑ رہی ہے تاریخ
جان، بیمار کے ہونٹوں پر اڑی ہو جیسے

اپنا تبصرہ بھیجیں