House Full God's Refuge

“ہاؤس فل”۔۔۔۔۔ الامان الحفیظ!!!

:Share

پچھلےایک ماہ سے زائد حماس کی پرعزم جوانیاں دنیابھرکی شیاطین قوتوں کے ساتھ میدان جنگ میں قربانیوں کی ایک فقیدالمثال ثابت قدمی اوراستقامت کے ساتھ لوہے کاچنابن کرمقابلہ کر رہی ہیں جبکہ عالمی میڈیاکے سامنے خوداسرائیلی کمانڈرکاایک رات میں ڈھائی ہزارسے زائدمرتبہ حملوں کااعتراف بھی انسانی حقوق کے چیمپئنزکیلئے جہاں کئی خوف کے آثارپیداکررہاہے وہاں انہی ملکوں کے عوام کااسرائیل اوراپنی حکومتوں سے نفرین کادرجہ دن بدن بڑھ رہاہے۔اسرائیلی وزیرکی فلسطینیوں پرایٹم بم گرانے کی دہمکی اوربعدازاں اسے فوری مکرجانے کے بیان کو عالمی میڈیانے جس مکاری سے گول کیا،اقوام عالم کے دردمندوں کی تشویش میں اضافہ کاموجب بن گیاہے۔اگرایسابیان کسی مسلم ملک کی طرف سے ہوتاتواب تک نیاجنگی محاذکھل چکاہوتالیکن دکھ تواس بات کاہے کہ مسلم امہ کاحقیقی تصورہمارے حکمرانوں کے ضمیرکی طرح کب کامرچکاہے۔

پہلے ہی دن سے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری نے غزہ کوکھنڈرات میں بدل کررکھ دیاہے اور اسرائیلی جنونی اوراس کے ہمنوااب حماس کوصفحہ ہستی سے مٹادینے کااعلان کررہے ہیں۔یہ متکبر شیاطین آخرتاریخ سے کیوں سبق حاصل نہیں کرتے کہ ایسے دعوے وہ درجنوں مرتبہ کرچکے ہیں لیکن جواب میں بالآخررسوائی ہی ان کے حصے میں آئی۔امریکا نے پچھلی چاردہائیوں میں39 ممالک میں جارحیت کاارتکاب کیا،ظلم وستم میں کوئی کسرنہ چھوڑی،تورابوراپر منی ایٹم بم برسانے کے علاوہ تمام بموں کی”ماں”جیسابم گراکربھی بالآخرفرارہوناپڑا۔اپنے فوجیوں کے کئی نئے قبرستان کی گواہی سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا،اب تویوں لگتاہے کہ ظلم کی تمام حدیں عبورکرنے والی ان شیاطین قوتوں کیلئے کوئی ایسانیارذیل اوررسواکن عذاب آنے والا ہے جوصدیوں تک تاریخ میں رقم رہے گا جیسے ہزاروں سال گزرنے کے بعدفراعین،شداداورقوم نوح پرآنے والے عذاب کاتذکرہ موجودہے۔

اسرائیل ہرروزغزہ پراپنے حملوں کی تعدادمیں جہاں اضافہ کررہاہے وہاں غزہ کی اس چھوٹی سی پٹی پرزمینی حملہ کرنے گریزکیوں کررہاہے۔اسرائیلی اوراس کے جنگی ہمنوااس بات پرپریشان ہیں کہ غزہ پٹی میں حماس کی سرنگوں کے نظام کومکمل تباہ اورہرایک انچ پربدترین فاسفورس بمباری کے باوجود اسرائیلی ٹینکوں کی زمینی پیش رفت پرایسی مزاحمت کاسامناکرناپڑرہاہے کہ کئی ٹینکوں کی تباہی کے مناظرساری دنیانے دیکھ لئے ہیں۔

غزہ کی پٹی کے شمالی علاقے اورحماس کے کمپاؤنڈکونشانہ بنایاگیااوربعدازاں اسرائیل کی جانب سے دعویٰ کیاگیا کہ اسرائیلی افواج نے ٹینکوں کے ذریعے حماس کی ایک پوسٹ کوبھی نشانہ بنایا ۔فلسطینی سکیورٹی حکام نے ایک خبررساں ایجنسی کواسرائیلی حملے کی اطلاع دیتے ہوئے کہاکہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے آدھی رات کوایک مرتبہ پھرجارحیت کاآغازکرتے ہوئے غزہ کی پٹی کونشانہ بنایا۔اس دوران بیس میزائل داغے گئے جنہوں نے خان یونس کے مغرب میں قدسیہ کی جگہ کونشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ایک ٹریننگ کیمپ کوبھی اس حملے کے دوران نشانہ بنایاہے۔

غزہ کی آبادی تقریباً20لاکھ افرادپرمشتمل ہے اوراس علاقے کی لمبائی41کلومیٹرجبکہ چوڑائی10کلومیٹرہے۔اس کی اطراف بحیرہ روم،اسرائیل اورمصر سے منسلک ہیں۔غزہ اوراسرائیل کے مابین حالیہ کشیدگی کئی برسوں میں ہونے والابدترین تشددکاراستہ ایک مرتبہ پھرکھلنے کاشدیداندیشہ لاحق ہوگیاہے جس نے اقوام متحدہ کو”بڑے پیمانے پرجنگ”کی وارننگ دینے پرمجبورکردیا ہے ۔اس سے قبل1967کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران اسرائیل نے ماضی میں مصرکے زیرقبضہ غزہ پرقبضہ کرلیاتھاتاہم2005میں اسرائیل نے اپنی فوج اورتقریباً7000کے قریب آبادکاروں کویہاں سے نکال لیاتھا۔یہ علاقہ حماس کے زیرکنٹرول ہے جس نے2007کے پرتشدد فسادات کے بعداس وقت کی گورننگ فلسطینی اتھارٹی(پی اے)کی وفادارقوتوں کویہاں سے نکال دیاتھا۔اس کے بعدسے اسرائیل اورمصرنے فلسطینیوں کے خلاف حفاظتی اقدامات کے نام پرغزہ سے سامان اورلوگوں کی آمدورفت پر پابندی عائد کررکھی ہے۔

2014میں حماس اوراسرائیل کے درمیان اسرائیلی جارحیت کے خلاف جھڑپیں ہوئی جبکہ مئی2021میں اس معاملے نے پھرسراٹھایا تھاجس کے نتائج میں پہلی مرتبہ اسرائیل کوحماس کی قوت کااندازہ ہواکہ اس بے سروسامانی میں بھی انہوں نے مقابلے کیلئے اپنی شہادتوں کے لامتناہی سلسلے کے ساتھ ساتھ اپنے خون کے آخری قطرے کوبہانے کے عزم کوایک نیاموڑدے دیاہے جہاں اسرائیل کو آسانی سے قبضہ کرنے کی بھاری قیمت چکاناپڑَے گی۔

ایک مرتبہ پھرغزہ میں ظلم کی تمام حدیں عبورہوگئی ہیں اورعالمی میڈیانے ایک سازش کے تحت اس مرتبہ ان خبروں کامکمل بلیک آؤٹ کررکھاہے۔ اس میں اچنبھے کی کوئی بات بھی نہیں کیونکہ اہل فلسطین اپنے مسلمان اوراسرائیل کے پڑوسی ہونے کی قیمت پچھلی کئی دہائیوں سے چکارہے ہیں۔یہودیوں کی تاریخ ہے کہ وہ اپنے وجودکی قیمت گردوپیش سے وصول کرتے ہیں۔یہ سلسلہ بنی اسرائیل سے عہدنبوی تک جاری رہا ہے۔جدیددنیا میں جرمنی کانسل پرست قائدراڈولف ہٹلروہ شخص تھاجس نے یہودیوں کوپوری طرح سمجھنے کی کوشش کی۔فلسطینی مسلمانوں کی بد قسمتی کاسفرتواسی وقت شروع ہوگیاتھا جب فتنہ پروری کی تاریخ رکھنے والی اس دربدرقوم کے سرچھپانے کیلئے ان کی سرزمین کاانتخاب ہواتھا۔ہٹلرکے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کاافسانہ جسے “ہولوکاسٹ”کانام دیا گیا،دراصل میڈیاوارہی توتھی اوراس کاتعلق یہودیوں کیلئے ایک الگ مملکت کے قیام کی ضرورت سے تھاکیونکہ صہیونی اکابرین نے اپنے لئے ایک الگ وطن کی حمائت میں اس دلیل کاسہارالیاتھاکہ انہیں ایک اور”ہولوکاسٹ”کاشدیدخطرہ ہے،جس سے بچنے کیلئے یہودیوں کوایک محفوظ شیلٹر،ایک پناہ گاہ درکارہے۔اس وقت کی عالمی طاقتوں نے یہودیوں کوایک محفوظ شیلٹرفراہم کرنے کیلئے اسرائیل کے نام سے عین عالم اسلام کے قلب میں خنجرگھونپنے کا فیصلہ کیاحالانکہ مغربی ومشرقی یورپ میں بے شمارایسے علاقے تھے جہاں یہودیوں کی اس”نایاب نسل”کو بچانے کیلئے محفوظ شیلٹرقائم کئے جا سکتے تھے۔

یوں یہودیوں نے مظلومیت کے لبادے میں جس سفرکاآغازکیا…..طاقت،اختیار،وسائل اورالگ وطن ملنے کے ساتھ ہی وہ ظلم کی بد ترین شکل اختیارکر گیااورہٹلرکے مظلوم ومقتول خودہٹلرکی طرح ظالم اورقاتل بن بیٹھے۔انہوں نے کمال چالاکی سے اپنے مقدرکی دربدری،بے وطنی،آہوں اورسسکیوں کی لکیرفلسطینی کے ہاتھوں پرکھینچ دی۔اس وقت سے آج تک فلسطین کاہرشہرغزہ ہے،اسرائیل کے ہرغصے کاانجام ایک”ہولوکاسٹ”پرہوتاہے۔اسرائیل توجوکررہاہے،اپنے فتنہ پرورمزاج کے ہاتھوں مجبورہوکرکررہاہے اوراپنی تاریخ دہرارہاہے،لیکن مسلم دنیاکیاکررہی ہے؟عرب دنیاکہاں ہے؟ جوپہلے چندجلوس نکال کر،غزہ کے لوگوں کیلئے دواؤں اوردودھ کیلئے اپنی بے پناہ دولت سے زکوٰة کے چند درہم ودیناروقف کرکے تاریخ کاقرض چکانے کی کوشش کرتی تھی،اب تویہ سلسلہ بھی مکمل طورپربندہوگیاہے۔

آج سے14سال قبل عین اس وقت جب غزہ میں اسرائیل انسانیت کادامن تارتارکررہاتھا،سردجنگ میں مضمحل اورگھائل ہونے والے روس کوکیاسوجھی کہ اس نے چند دن کیلئے یورپ کوگیس کی سپلائی روک دی۔گیس پائپ لائینوں کے بے رونق ہوتے ہی یورپ کی رنگین دنیااجڑنے لگی اوراس کے سارے رنگ مانداورساری روشنیاں ٹمٹمانے لگیں۔کئی ملکوں میں صنعت کاپہیہ رک گیااورحکومتوں کوایمرجنسی نافذکرناپڑی۔اس سے جہاں یورپ کی چیخیں نکل گئیں وہیں مسلمانوں کی بے توقیری اوربیچارگی کا مذاق بھی اڑگیاکہ جو دنیامیں تیل پیداکرنے والے علاقے پرکنٹرول رکھتے ہیں،لیکن اس دولت کوڈالروں میں بدلنے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے۔اس دنیامیں عزت اورعروج حاصل کرنے کیلئے،حدتویہ کہ عالمی نظام میں ایک باوقارحیثیت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنے کی قدرت بھی نہیں رکھتے حالانکہ نیویارک کے مجسمہ آزادی کے گردرنگوں کی بہاراورلندن آکسفورڈ سٹریٹ کی روشنیوں کی قطار تک مغربی اور یورپی دنیامیں اس سیال دولت کابنیادی حصہ ہے جوارض فلسطین کے دائیں بائیں پانی کی طرح بہہ رہی ہے ۔یہ ایک ایسی تلوارہے جسے عرب دنیاچاٹ رہی ہے اوروہ اس بات سے مکمل بے خبرہے کہ اس کے ہاتھ میں تلواردرحقیقت ایک ہتھیار بھی تھی جسے اب کندکرکے زنگ آلودکردیاگیا ہے۔

سعودی فرماں رواشاہ فیصل مرحوم عرب دنیاکے وہ واحد قائدتھے جن پریہ حقیقت آشکارہ ہوئی تھی لیکن پھرکیاہوا،یہ تاریخ کاحصہ ہے۔اپنی طاقت کا اداک تودرکنار،فلسطین کے ہمسائے اپنی خاموشی،غورکرنے اورتشویش کااظہارکرنے کی طاقت کوسلب ہوتے دیکھ کر اب آپس میں بے سود تبادلہ خیال کرکے اسرائیل کواکاموڈیٹ کررہے ہیں۔ظلم کی حدتویہ ہے کہ نہ صرف یہ ہمسائے اسرائیل کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پابندی کرتے ہوئے بد ترین ناکہ بندی پرعمل کررہے ہیں بلکہ اپنی زمین اورفضاؤں کوبھی غزہ پرحملوں کے استعمال کی اجازت دے
رکھی ہے اورنجانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔فلسطینی حریت پسندوں کے ایک اخبارنے اس صورتحال میں ماضی میں فلسطین کی آزادی کی جدوجہدکرنے والی تنظیم الفتح کے موجودہ کردارپرتنقید کرتے ہوئے اسے”بیت ندامت” قراردیاتھالیکن اس وقت کی مسلم دنیا،اوآئی سی،اورعرب لیگ کیلئے اس سے خوبصورت نام شایدہی کوئی اورہو،المیہ یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے اپنی مصلحت کوشی، لاچارگی ،اوراپنے تاج وتخت کی خاطرجبرنارواسے قدم قدم پرمفاہمت کی روش کی بناء پرایک ارب سے زائد مسلمانوں کو”بیت ندامت کامکیں”بناکررکھ دیاہے۔کچھ نہ ہوتے ہوئے ذلت طاری ہوناکوئی انہونی بات نہیں،لیکن سب کچھ ہوتے ہوئے ذلت کے عملی عذاب کی تصویرہوتاآج کاعالم اسلا م موجودہ مسلم حکمرانوں کی وجہ سے بناہوا ہے۔

اسرائیل کے جنگی طیارے اوراپاچی ہیلی کاپٹردن رات غزہ کومزیدکھنڈراورمقتل بنائے ہوئے ہیں،تواس کامقصدغزہ کے ڈیڑھ ملین عوام کوخوفزدہ کرنانہیں بلکہ اس کامقصد اسرائیل کے ہمسایہ عرب ملکوں،ایران اورایٹمی ملک پاکستان پردھاک بٹھانابھی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اسرائیل کی علاقائی قیادت و سیادت کیلئے چیلنج بننے کاخیال بھی دل میں نہ لائے۔غزہ ایک عظیم انسانی المیے اور یہودی نازی ازم کے دورکاسامناکررہاہے،لیکن یادِ ماضی کامسلمان ملکوں کی تشویش،غوروخوض،اجلاسوں،بالمشافہ ملا قاتوں، ٹیلیفونک گفت وشنید کاسلسلہ درازسے درازتر ہوتے ہوئے اب دم توڑچکاہے۔برطانوی خبر رساں ادارے “رائٹر”کا عیسائی نامہ نگار اجڑے اورکھنڈرغزہ کی اداس صبحوں اوربے کیف شاموں کا احوال رقم کرتے ہوئے کہتاہے کہ غزہ کے قبرستان اب ایک عرصہ درازسے”ہاؤس فل”کامنظرپیش کررہے ہیں۔وہاں کسی نئے مہمان کیلئے کوئی جگہ باقی نہیں رہی،الّایہ کہ پہلے سے آسودہ خاک کوئی مردہ اپنی لحد میں کسی نئے مہمان کیلئے کوئی جگہ چھوڑ دے،اورغزہ کے سب سے پرانے اورسب سے بڑے شیخ رضوان قبرستان کے ساتھ ساتھ تمام قبرستانوں میں ایساہورہاہے۔

اسرائیل کی بمباری سے شہیدایک نوجوان کے لواحقین اس کی لاش کولیکرہرقبرستان میں مارے مارے پھرے مگرکوئی خالی جگہ نہیں ملی۔بے بسی کے ان لمحوں میں ایک شخص کوخیال آیاکہ کیوں نہ اس نوجوان کو دوبرس قبل ایک مظاہرے میں شہید ہونے والے اس کے چچازادبھائی کی قبرمیں ہی دفن کیا جائے اورپھریہی ہوا،اس جواں سال خون آلودلاشے کوچندبرس قبل شہید ہونے والے کی قبر میں اتاردیاگیااوراب کئی سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔یہ کہانی سناتے ہوئے یہ عیسائی نامہ نگارپھوٹ پھوٹ کررونے لگا،اورکہنے لگاکہ میں بتانہیں سکتا کہ میں آج کس قدراداس ہوں۔

غزہ میں اسکول،ہسپتال،مساجد،گھراوراقوام متحدہ کے شیلٹرہی تباہ نہیں ہورہے،تادیراورنسلوں تک قائم رہنے والے المیوں کے دائرے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔بچوں کاالمیہ جوڈیڑھ ملین آبادی کا نصف ہیں،عورتوں کاالمیہ جوجواں سال ہیں اوران کے ہمسفرشہادت کی وادیوں اوراجل کی راہوں میں گم ہوچکے ہیں،اورپھرشہادت کے احترام میں غزہ کی یہ مقامی روایت کہ شہید کی بیوہ شادی کرنے کی بجائے شہید کی میراث اورنشانی جوکسی بچے کی شکل میں ہوتی ہے،کی تعلیم وتربیت میں عمربتادیتی ہے،اوراگرکسی کے پاس یہ نہہوتووہ شہیدکی یاداورشہادت کے احساس برتری کواپنے پیروں کی زنجیراورگلے کاہار بنادیتی ہے۔غزہ کی تباہی کے بعد فلسطین کے ہمسایوں کواپنی اس بے پناہ دولت سے جوامریکااورمغرب کے بینکوں میں استعمارکے زیر استعمال ہورہی ہے بلکہ انہی کی تباہ کاریوں میں استعمال ہورہی ہے،ان کوچاہئے تھاکہ انہیں گھروں ہسپتالوں،اسکولوں اورمساجدکی تعمیرنومیں استعمال کریں لیکن یہ تواپنے ہاں اسرائیلی یہودیوں کی محبت میں ان کے “کوشرریسٹورنٹس”اورن کی مذہبی عبات گاہوں کی تعمیرمیں صرف کرکے اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔

قصرسفیدکے فراعین کوجہاں ہرسال غزہ کے شہداء کاتحفہ دیاجاتاہے،اب وہاں عالم اسلام بالخصوص پڑوسی عرب ممالک کواسرائیل کوتسلیم کرنے کے بعد ہمیشہ کیلئے نہ صرف خاموش کردیا گیاہے بلکہ ان کوبرملاباورکرادیاگیاہے کہ اپنے اقتدارکی سلامتی کیلئے امریکاکی قدم بوسی کے بغیرچارہ کارنہیں ہے اوراسی اقتدارکی خواہش نے ملی اہمیت کاگلاگھونٹ کررکھ دیاہے۔قصرسفید کے مکیں نے اب اسرائیل کوعالم اسلام کے اس ندامت کے گھرکاپتہ بھی اپنے غلاموں کی فہرست کے ساتھ فراہم کردیاہے کہ اسرائیل کوان عربوں کے ساتھ سفارتی تعلقات کی کامیابی کے بعد “گریٹراسرائیل”کے منصوبے میں حائل دیگر رکاوٹیں بھی جلددورکردی جائیں گی۔

لیکن میراغم تویہ ہے کہ انسانی المیوں کی اس زنجیرکاکیاہوگاجسے ان کی خاموشی نے د ائرہ دردائرہ،حلقہ در حلقہ ایک خوفناک انتقام کی آگ کی وادی میں دھکیل دیاہے جس کے خوفناک اثرات آنے والے وقتوں میں ظاہرہوناشروع ہوں گے۔باقی رہا اسرائیل،تووہ اپنے ظلم کابیج بوکرغزہ اورفلسطین میں ہی نہیں،عالم عرب میں ردِّعمل کی فصل کاٹنے کاساماں کررہاہے۔اسامہ جیسے کردارانہی مظاہر سے پیداہوتے ہیں اورانہی سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔سچ تویہ ہے کہ مستقبل کے کسی اسامہ کوپاکستان کے پہاڑوں اورافغانستان کے جنگلوں کی حاجت نہیں ہوگی بلکہ غزہ کے کھنڈروں،خون میں لتھڑے جسموں، بازوؤں پرسجے اورسینے سے لگے معصوم لاشوں اوربین کرتی عورتوں کے آنسوؤں میں ان کاجم غفیرایک سیلاب کی طرح نمودارہوگااوریقیناًوہ وقت اپنا انتقام انہی امریکی وصہیونی غلاموں جیسی جنس سے شروع ہوگااورہرکوئی پکاراٹھے گا الامان الحفیظ!!!

لیکن اللہ انہیں یاد دلائے گا کہ کیا تمہیں یاد نہیں کہ میں نے تمہیں پیغمبروں کے ذریعے ، مقدس کتابوں کے ذریعے یہ انتباہ کیا تھا کہ باآخر تم کو ایک دن میرے پاس حاضر ہونا ہے جہاں ہر کسی کو انصاف ملے گا تو گویا آج یوم حساب ہے جہاں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی ۔۔۔ سوچ لیں کہ اللہ کے اس دربار میں نہ تو کوئی سفارش چلے گی اور نہ ہی کوئی رتبہ کام آئے گا۔ وہاں تو ہمارے اعمال کے مطابق فیصلے ہوں گے۔بابااقبال کیاخوب یادآگئے:
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگربالائےبام آیاتوکیا

اپنا تبصرہ بھیجیں