Reminder to All Muslim Ummah

یاددہانی

:Share

غزہ میں حالیہ جنگ سے قبل ہمارے ہاں لبرل حواس باختہ ہوکریہ راگ الاپ رہے تھے کہ اسرائیل سے تعلقات استوارکرنے میں کیاحرج ہے کم از کم ایک دشمن توکم ہوجائے گا۔اسرائیل، امریکاسے دوستی کاپل بن جائے گا،ہن برسے گا،بھلے ایمان کوگھن لگ جائے اس کی پرواہ ہی کب ہے۔ان کے پاس ایمان کی رمق بچی ہی کہاں ہےورنہ جن یہودیوں پراللہ نےذلت اور مسکنت کی چادر ڈال کردنیائے عالم میں ذلیل وخوارکیا،ان سے ہاتھ ملانے کی بات کرنااللہ کے عذاب میں شراکت کے سوااورکچھ نہیں جوقیامت تک یہودیوں پرنازل ہوتارہے گااوراب توفائنل راؤنڈ ہے۔اگر اسرائیل سے یہودیت کونکال لیاجائے تووہ ملک ختم ہوجائے گااور اسی طرح پاکستان سے اسلام نکال دیاجائے توپاکستان ختم ہوجائے گا۔

یہ اسرائیل سے تعلقات بڑھانے میں سرگرم گروہ پاکستان میں اسلام کوگھٹانے کاجہاں گھٹیاجرم کررہے ہیں وہاں وہ مادرپدر آزادی،بے راہ روی، عریانی کے حربے کواستعمال میں لارہاہے اوران تمام سرگرمیوں کوجاری رکھنے کیلئے خوب ڈالرسمیٹ رہاہے اوریوں ایمان کے عوض تھوڑے داموں دنیاکاخریدارہے۔ان کاحشربھی چاہنے والوں جیساہوگا،ان شاءاللہ۔پاکستان نے اپنے قیام سے لیکراب تک ہمیشہ اسرائیل کے معاملے میں اصولی مؤقف اختیارکیاہے،حکومت خواہ کسی کی ہو۔

اعلان بالفورکی روشنی میں صہیونی ریاست کے قیام پراقوام متحدہ میں بحث شروع ہوئی توقائداعظم نے25/اکتوبر1947ءکو رائٹرسے انٹرویومیں واشگاف اندازمیں کہا”فلسطین کے بارے میں ہمارے مؤقف کی صراحت اقوام متحدہ میں پاکستانی وزیر خارجہ نے کردی ہے،مجھے اب بھی امیدہے کہ تقسیم کامنصوبہ مستردکردیاجائے گاورنہ ایک خوفناک ترین اوربے مثال چپقلش کا شروع ہوناناگزیرہے۔یہ چپقلش صرف عربوں اورمنصوبہ تقسیم کرنے والے اختیارکے مابین نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیااس فیصلے کے خلاف بغاوت کرے گی کیونکہ ایسے فیصلے کی حمائت تاریخی اعتباسے کی جاسکتی ہے نہ ہی سیاسی اوراخلاقی طورپر۔

19دسمبر1947ءکوایمانی حرارت سے لبریزبانی پاکستان قائداعظم نے بی بی سی کے نمائندہ سے گفتگوکرتے ہوئے اس الفاظ کے ساتھ اعادہ کیا ”برصغیرکے مسلمان تقسیم فلسطین کے اقوام متحدہ کے ظالمانہ،ناجائزاورغیرمنصفانہ فیصلے کے خلاف شدید ترین لب ولہجے میں غصیلااحتجاج کررہے ہیں۔ظاہرہے کہ برصغیرکے مسلمان امریکایاکسی اورملک کی مخالفت مول نہیں لیناچاہتے لیکن ہماری حس انصاف مجبورکرتی ہے کہ ہم فلسطین میں اپنے عرب بھائیوں کی ہرممکن مدد کریں”۔

قائداعظم کی وفات کے بعد1949ءمیں اسرائیل نے پاکستان سے تعلقات استوارکرنے اورکم ازکم دو طرفہ کاروباری سرگرمیاں شرع کرنے کیلئے رابطہ کیالیکن منہ کی کھائی۔1950ءمیں ایک وفدجس میں دنیاکی یہودی تنظیمیں اوراسرائیل کے نمائندے شامل تھے،لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر سے ملے اوردرخواست کی کہ افغانستان میں مقیم چندسویہودی براستہ بھارت اسرائیل آنا چاہتے ہیں پاکستان کے راستے انہیں بھارت جانے کی اجازت دی جائے۔پاکستان نے حقارت کے ساتھ ان کی درخواست مسترد کردی اورپھریہ یہودی براستہ ایران اپنی منزل اسرائیل پہنچے۔یادرہے کہ پاکستان واحدملک تھاجس نے1949ءمیں عرب اسرائیل جنگ کے خاتمہ پردواسرائیلی علاقے یہودیہ اورسماریہ جواردن نے فتح کرلئے تھے،ان کی آزادی کوتسلیم کیا۔

اسرائیل کوتسلیم کرنے کامطلب اس کے سوایہ بھی ہے کہ کشمیرکامقبوضہ علاقہ پر پاکستان کادعویٰ بھی ختم ہوجائے۔جب اسرائیل کافلسطین پرقبضہ پاکستان جائزقراردے گاتوبھارت کاکشمیر پربزورقبضہ ناجائزکیسے کہے گا۔یوں یہ ڈالرگزیدہ ایک تیر سے دوشکارکرناچاہتے ہیں۔ان کے پاس دلیل یہ ہے کہ اسرائیل کواردن،مصراورترکی نے تسلیم کررکھاہے۔ہمارااسرائیل سے جھگڑا کیاہے،وہ بھی تواہل کتاب ہیں۔ان عقل کے اندھوں سے پوچھے کہ بھلاجن ممالک نے اسرائیل کوتسلیم کیاانہیں کیافائدہ ہوا ۔ مصرپریشان ہے،اردان سراسیمہ ہے،ترکی شاکی اورندامت میں غرق ہے اور جس نے بھی مغضوب علیہ یہودیوں سے ہاتھ ملایا وہ یہودیوں کی سی ذلت کاشکارہوا۔ان کی فطرت میں ڈسناہے اوروہ ڈس کرہی رہتے ہیں۔

تاریخ کے ورق الٹیں توہاں یہ تذکرہ ملتاہے کہ اسپین میں مسلمان بادشاہ نے ایک یہودی وزیراعظم مقررکیاجس نے منصب سنبھالتے ہی اہم اداروں میں یہودی اہلکاروں کے تقررپرپابندی لگادی۔بادشاہ نے اپنے مقررکردہ یہود ی وزیراعظم سے پوچھا تو اس نے جواب میں کہاکہ میں ان یہودیوں کی سرشت سے کسی بھی مسلمان کے مقابلے میں زیادہ جانتاہوں۔جرمنی اور آسٹریلیا میں ہٹلرکے ہاتھوں جوعرصہ حیات ان یہودیوں پرتنگ ہواتو ترک خلافت نے انہیں پناہ دی اورحسن سلوک سے نوازا مگریہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف سازشوں میں پیش پیش رہے اورشکست وریخت میں بھرپورکردار ادا کیا۔کچھ شرارت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اسرائیل سے ہماری کیادشمنی ہے۔وہ یہی سوال اسرائیل سے کریں وہ آخرپاکستان کا شدیدترین دشمن کیوں ہے؟

خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کاذکرآیاہے توتاریخ کی نظرمیں کچھ ایسے واقعات بھی ہیں جن کوپڑھ کرآج بھی ہردھڑکتے دل رکھنے والوں کی پکیں بھیگ جاتی ہیں:
جب مصطفی کمال أتاترک نے خلافت کا خاتمہ کیاتوآل عثمان کوراتوں رات گھریلولباس ہی میں یورپ بھیج دیاگیااورجبکہ شاہی خاندان(ملکہ اور شہزادوں )نے التجاکی کہ یورپ کیوں؟ہمیں اردن ،مصریاشام کسى عرب علاقے ہی ميں بھیج دیاجائے لیکن صہیونی آقاؤں کی تعلیمات واضح تھیں، اپنی آتش انتقام کوٹھنڈاکرنا،ان کوآخری درجے ذلیل کرنامقصودتھاچنانچہ کسی کویونان میں یہودیوں کے مسکن سلونیکااورکسی کویورپ روانہ کیاگیا، اورآخری عثمانی بادشاہ سلطان وحید الدین اوران کی اہلیہ کی تمام جائیدادضبط کرکے راتوں رات فرانس بھیج دیاگیااوریہاں تک کہ گھریلو لباس میں خالی جیب اس حال میں انھیں رخصت کیاگیاکہ ایک پائی تک ان کے پاس نہ تھی،کہاجاتاہے کہ سلطان وحید الدین کے شہزادے منہ چھپاکرپیرس کی گلیوں میں کاسۂ گدائی لیے پھرتے تھے کہ کوئی انہیں پہچان نہ پائے۔پھرجب سلطان کی وفات ہوئی توکلیساان کی میت کوکسی کے حوالے کرنے پر آمادہ نہ ہواکیونکہ دکانداروں کاقرض ان پرچڑھاہواتھا۔بالآخر مسلمانوں نے چندہ کرکے سلطان کاقرض اداکیااوران کی میت کوشام روانہ کیااوروہاں وہ سپردخاک ہوئے۔

بیس سال بعدجنہوں نے سب سے پہلے ان کے بارے میں دریافت کیا،ان کی خبرگیری کی وہ تركى كے پہلے منتخب وزیراعظم عدنان مندریس تھے۔ شاہی خاندان کی تلاش کیلئے وہ فرانس گئے اوروہاں جاکران کے احوال وکوائف انہوں نے معلوم کیے۔پیرس کے سفر میں وہ کہتے تھے کہ مجھے میرے آباؤاجدادکاپتہ بتاؤ،مجھے میری ماؤں سے ملاؤ،بالآخروہ پیرس کے ایک چھوٹے سے گاؤں پہنچ کرایک کارخانے میں داخل ہوئے توکیادیکھتے ہیں کہ سلطان عبد الحمیدکی زوجہ پچاسی سالہ ملکہ شفیقہ اوران کی بیٹی ساٹھ سالہ شہزادی عائشہ ایک کارخانے میں نہایت معمولی اجرت پر برتن مانجھ رہی ہیں ۔یہ منظردیکھ کرمندریس کی چیخیں نکل گئیں اوراشکبارآنکھوں سے پاؤں میں پڑگئے اورہاتھ چوم کرمعافی کے طلبگارہوکرندامت کااظہارکر رہے تھے کہ شہزادی عائشہ نے پوچھا:آپ کون ہیں؟گلوگیرآوازمیں کہا:میں بدنصیب ترک وزیراعظم عدنان مندریس ہوں،اتناسنناتھاکہ شہزادی پیچھے ہٹ کربول اٹھیں:اب تک کہاں تھے؟بہت دیرکی مہرباں آتے آتے،اورفرط غم سے بیہوش ہوگئیں۔ہوش میں آتے ہی ادھوری ملاقات چھوڑکر رخصت ہوگئیں۔

عدنان جب انقرہ واپس گئے توانہوں نے جلال بیارسےکہاکہ ميں آل عثمان کیلئے معافی نامہ جاری کرکےاپنی ماؤں کوواپس لانا چاہتاہوں۔بیارنے شروع میں تواعتراض کیامگر مندریس کے مسلسل اصرارپرصرف عورتوں کوواپس لانے کی تائیدکی۔پھرعدنان مندریس خود فرانس گئے اورملکہ شفیقہ اورشہزادی عائشہ دونوں کوبڑی منت سماجت کے بعدترکی لے آئے،مگر شہزادوں کیلئے معافی نامہ جاری کرکے ان کواپنے وطن عزیزترکی لانے کاسہرا مرحوم اربکان کے سرجاتاہے جب وہ وزیراعظم کے منصب پر فائزتھے۔

پھرجب مندریس پرجھوٹامقدمہ چلاکران کوتختہ دارپرلٹکایاگیاتومنجملہ الزامات میں ایک الزام یہ تھاکہ انہوں نے حکومت کے خزانے سے چوری کرکے سلطان کی اہلیہ اوربیٹی پرخرچ کیاہے،اس لیے کہ وہ ہرعیدکے موقع پرملکہ اورشہزادی سے ملاقات کیلئےجاتے،ان کے ہاتھ چومتے،اوراپنی جیب خاص اوراپنے ذاتی صرفے سے10ہزارلیرہ سالانہ شہزادی عائشہ اورملکہ شفیقہ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔جب17ستمبر1961کوعدنان مندریس شہید ہوئے تودوسرے ہی دن دونوں(ملکہ اورشہزادی)بھی بحالت سجود اللہ کے حضورحاضرہوگئیں۔

اب توکئی عالمی مؤرخین نے اپنی کتابوں میں انکشاف کیاکہ اس سارے واقعہ کی پشت پریہودی سرمایہ داروں کاوہ خفیہ ہاتھ کسی کونظرنہیں آیا جنہوں نے ترکی میں اپنی ساری سرمایہ کاری کوختم کرنے کاالٹی میٹم دیکریہ کام کروایاتھا۔جس میں مشہورزمانہ ”گیون ڈی بروکیٹ ”نے اپنی کتاب”جب عثمانی ترک بن گئے”میں 35صفحات پرہوشرباانکشافات کئے ہیں جس کو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیاہے اورایک مؤرخ”الکرآیاترک”نے اپنی کتاب”ترکی میں اسلام اورقوم پرستوں میں جنگ”کے عنوان پر27صفحات پراس کاتذکرہ کیاہے جس کوٹیلراینڈفرانسس نے شائع کیاہے۔

یہ سلوک ہے نام نہادجمہوریت پسندوں اورسیکولرزم کاڈھنڈوراہ پیٹنے والوں کااسلام اورمسلمانوں کے ساتھ، نہ کوئی مروت نہ شرافت،نہ صلہ رحمی، نہ قرابت داری،نہ اخلاق کاپاس نہ قدروں کا لحاظ ۔یہ جوقومیت اوروطنیت کاراگ الاپتے ہوئے اسرائیل کوتسلیم کرنے کےنعرےلگا لگاکر جن کی زبانیں نہیں تھکتیں ان کا مقصدبجزاس کےاورکیاہے کہ اسلامی اخوت سے لوگوں کا رشتہ کاٹ دیاجائے اوراس مقدس رشتے کے تانے بانے کو بکھیر کراس کوایسے جاہلی رشتوں میں تبدیل کیاجائے جن میں احترام وغیرت مفقودہے اورحرمتوں اورانسانی رشتوں کاکوئی پاس ولحاظ نہیں۔یہ قصہ بچوں کوسلانے کیلئے نہیں بلکہ سوئی ہوئی قوم کوجگانے اورنوجوان نسل کواصلی دشمن سے آگاہ کرنے اورروئے زمین پرشیطان کے چیلوں کے خلاف کمربستہ کرنے کیلئے لکھاہے:
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کااورہی اندازہے
مشرق ومغرب میں تیرے دورکاآغازہے

یہودیوں کی دغابازیوں کی اس سے بڑھ کراورکیامثال ہوگی کہ فتح خیبرکے بعدرسول اکرمﷺ نے معاہدے کے تحت یہودیوں کو جان ومال کاتحفظ دیامگرکچھ عرصہ بعدیہ خلاف ورزی پراترآئے۔نتیجتاًمدینہ نے وعدہ شکنوں کوعین معاہدے کے تحت نکال باہرکیا۔مقتدرحلقوں کویاددہانی کروانا ضروری ہے کہ وہ اسرائیل کے عزائم اورسرشت سے واقف ہوں گے،وہ کچھ نہ کریں گے جوپرویزمشرف نے کیااورپھرجویہودیوں نے ان کے ساتھ کیا،وہی کچھ کرنے کاپھل ان کوبھی مل سکتاہے۔ 18/اکتوبر2007ءکواسرائیلی صدرشمعون نے پرویزمشرف کومتنازعہ ترین صدارتی الیکشن کے نتیجے پرمبارکبادکاخط لکھااور اسے شائع بھی کروایااوریہ تجدیددوستی تھی جس کاآغازستمبر2005ءمیں اس وقت کے اسرائیل کے ظالم ترین صدر ایریل شیرون نے مشرف سے اقوام متحدہ کی راہداری میں ہاتھ ملایاتومشرف نہال ہوگئے اورایک بڑہانکی کہ وہ اسرائیل اورفلسطین کے معاملہ کوحل کرانے میں کرداراداکرناچاہتے ہیں۔اسرائیل کے وزیراعظم نے طنزیہ اندازمیں جملہ کستے ہوئے کہا”ہمیں شک ہے کہ مشرف باوجود صدراور فوجی سربراہ ہونے کے اس قابل ہے کہ ہمارے لئے کوئی کرداراداکرسکے”۔اس جملہ میں صدرکی توہین اور پاک فوج سے اس کی نفرت کوئی ڈھکی چھپی نہیں تھی۔

1949ءاور1967کی فتح جنگ کی تقریب میں صہیونی تحریک کے بانی رہنماڈیوڈبن گوریان کی تقریرجو”جیوش کرانیکل میں شائع ہوئی کہ”عالمی صہیونی تحریک کوپاکستان کے خطرات سے باخبر رہنا چاہئے،اب پاکستان ہماراپہلا نشانہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست ہمارے وجودکیلئے سب سے بڑاخطرہ ہے۔پوراپاکستان یہودیوں سے نفرت اورعربوں سے محبت کرتاہے۔عربوں کایہ عاشق عربوں سے زیادہ خطرناک ہے اس لئے موقع ملتے ہی صہیونی دنیاکواس کے خلاف فوری اقدام کرناچاہئے۔(19/اگست1947ء)

یادرکھیں!اس دل میں صرف ایک خوف سماسکتاہے،اللہ کاخوف یاپھردنیاکاخوف،اورجواللہ سے ڈرتاہے،ساری دنیااس سے ڈرتی ہے لیکن جودنیا سے ڈرتاہے تووہ ساری عمربزدلی،تذلیل اوررسوائی کاسامناکرتاہے۔إِنَّمَاذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَاتَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِين:یہ شیطان ہے جواپنے دوستوں سے ڈراتاہے،تم ان سے نہ ڈرواگرتم ایمان رکھتے ہوتوصرف مجھ سے ڈرو(آل عمران:175)۔

اپنا تبصرہ بھیجیں