Slaves bought by the earthly gods

زمینی خداؤں کے زرخریدغلام

:Share

تحریر،ہاں کیاہرواقعہ تحریرکیاجاسکتاہے؟شاید،ہو سکتاہے خودپرتھوڑاسا جبرکریں،خودکوجمع کریں توآپ لکھ لیں گے لیکن کیا ہربات لکھی جاسکتی ہے ؟ خوشی کوتولکھاجاسکتاہےاورغم کو۔دکھ تو تحریر ہوسکتاہے مگردرداورانسوؤں اورکرب کوکیسے لکھیں! اضطراب کو،بے کلی کو،بے حسی کو،اناکوتحریرمیں کیسے سموئیں۔ لفظ وہی ہوتے ہیں، قلم وہی ہوتاہے،صفحات وہی ہے،سب کچھ تو وہی ہے لیکن آپ بے دست وپاہیں۔رحمت کوتوبیان کیاجاسکتاہے، تحریرکیاجاسکتاہے،نحوست کوکیسے پابندتحریرکیاجاسکتا ہے!اداسی کوتحریرکرسکتے ہیں آپ؟کچھ نہیں کرسکتے ہم۔ فیض صاحب نے توکہاہے”جودل پہ گزرتی ہے سوگزرتی ہے”،اسے بیان کیسے کریں!میرے لیے یہ ممکن نہیں۔نہیں مجھے یہ ہنرنہیں آتااورمجھے یہ سیکھنابھی نہیں ہے۔ضروری تونہیں ہے مجھے سب کچھ آتاہو۔نہیں میں نہیں لکھ سکتادل کو، اداسی کو،بے کلی کو،اضطراب کو… بالکل نہیں لکھ سکتا بھلاآنسوؤں کوکیسے تحریرکروں؟بتائیے آپ؟اگرآپ تحریرکرسکتے ہیں توضرور کیجئے۔

لیکن یہ ہوتارہاہے،ہوتارہے گا،یہی ہے ریت۔کوئی نئی بات نہیں،کوئی انوکھاواقعہ نہیں ہے۔خلق خداکے حق میں نغمہ سرائی جرم تھی،جرم ہے،جرم رہے گی۔خلقِ خداکی گردنوں پر سواراس وقت بھی یہی کرتے تھے،اب بھی یہی کرتے ہیں اورآئندہ بھی یہی کرتے رہیں گے۔کوئی نئی بات نہیں،یہ ہوتارہاہے،ہوتارہےگا۔آپ زمینی خداؤں کوللکاریں گے تووہ آپ کوہارپھول پیش نہیں کریں گے۔یہی ہوگا۔آپ آئینہ دکھائیں گے اوروہ اپنی مکروہ صورتوں کودیکھ کرآپ کوپتھرماریں گے۔گولیاں داغیں گے۔لاٹھیاں برسائیں گے۔آنسوگیس کے شیلوں کی برسات کریں گے لیکن اپنے قلم کوخلقِ خداکی امانت سمجھنے والے کبھی بازآئے ہیں نہ آئندہ آئیں گے۔اس لئے کہ وہ جانتے ہیں:
ہوں جب سے آدمِ خاکی کے حق میں نغمہ سرا
میں دیوتاؤں کے بپھرے ہوئے عتاب میں ہوں

زمینی خداؤں کے زرخریدغلام خلقِ خداکی آوازکوخاموش کرنے کاسپنادیکھتے ہیں اوروہ کبھی شرمندہ ٔتعبیرنہیں ہوپاتا،نہ ہوگاتو بس پھریہی منظرہوگا، آئندہ آنے والے چند دنوں میں۔ہرطرف بپھرا ہواعتاب اوراہل جنوں کانعرۂ مستانہ۔سربلندرہے گایہ نعرۂ،فرعون پہلے بھی غرقاب ہواتھا،آئندہ بھی اس کانصیبایہی ہے۔مبارک ہوانہیں جوخلق خداکیلئے سرعام پٹتے رہے۔جن کے خون سے سڑکیں رنگین ہوئیں۔آج کچھ نہیں ہے کہنے کو،بس جوکچھ سن رہاہوں،وہ لکھ رہاہوں۔ٹی وی چینلزپرلوگوں کے پیغام دیکھ رہے ہیں آپ! میں نے بھی دیکھے ہیں،سنے ہیں…وہی تحریرکررہاہوں،اس لئے کہ میں زبانِ خلق کونقارۂ خداسمجھتاہوں۔اندھے،بہرے نوشتۂ دیوارنہیں پڑھ سکتے توہم کیا کریں!

ہاں،فرعون مرتاہے،فرعونیت نہیں مرتی۔اس کے پیروکارآتے ہیں،آتے رہیں گے۔پھروہ پکارنے لگتے ہیں،ہمارامنصوبہ کامیاب رہا۔ ہم ہیں اعلیٰ وارفع۔ ہمارے پاس ہیں وہ دانش وبینش جوبچالے جائیں گے سب کو۔بس ہمارے پیچھے چلو۔ہماری پیروکاری کروکہ نجات اسی میں ہے۔یہاں ہر فرعون یہ سمجھ بیٹھاہے کہ بس وہی ہے عقل وفکرکاعلمبردار… بہت ضروری ہے وہ ۔اس کی ہدایت و رہنمائی ہی نجات کاسبب ہے۔بس وہی”میں” کاچکر۔نحوست کاچکر۔اسی لیے وہ پکارتارہتا ہے۔وہی ہے اعلیٰ وارفع،وہی ہے رب اور رب اعلیٰ بھی۔خودفریبی کی چادرمیں لپٹاہوا۔موت…موت تواسے چھوبھی نہیں سکتی۔سامان حرب سے لیس۔خدام اس کی حفاظت پر مامورہیں۔چڑیابھی پرنہیں مارسکی۔دوردورتک کوئی سوچ بھی نہیں سکتاکہ اسے گزندپہنچاسکے۔مصاحبین کے نعرہ ہائے تحسین اسے اس زعم میں مبتلارکھتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔اس کی مرضی سے چلتاہے کاروبارحیات …جیسے وہ موت کوبھول بیٹھتاہے،خودفریب توسمجھتاہے کہ موت بھی اسے بھول جائے گی۔سمجھ بیٹھے ہیں یہ محفل سداسجائیں رہیں گے۔واہ،واہ، آفرین آفرین کرنے والے درباری یونہی داد دیتے رہیں گے۔نہیں جناب بالکل بھی نہیں۔سب کچھ ختم ہوجائے گا۔

لیکن پھرایک اوردریاہوتاہے اورانجام وہی۔بالکل یہی سمجھتاہے کہ جس طرح وہ موت کوبھولاہوا ہے، موت بھی اسے بھول چکی ہوگی لیکن آتی ہے وہ۔ہزارپہرے بیٹھادیجئے،دیواریں چنوالیجئے، کیمرے لگالیجئے۔وہ نہیں رکتی۔آتی ہے اورسرعام آتی ہے۔کوئی نہیں بچ سکااس سے لیکن ہوتاکچھ اورہے۔سب کچھ ہوتاہے…محافظ بھی،سامان حرب بھی،محلات بھی،سازو سامان بھی،آفرین بھی، و اہ واہ بھی…سب کچھ ہوتاہے اورپھرنیل ہوتا ہے،لہریں ہوتی ہیں،منہ زورلہریں…رب حقیقی کے حکم کی پابند۔اورجب وہ گھِر جاتاہے پھردوردورتک کوئی نہیں ہوتامددگار۔تب وہ آنکھ کھولتا ہے اورپکارنے لگتاہے”نہیں نہیں،میں ایمان لاتاہوں،ہاں میں موسیٰ وہارون کے رب پرایمان لاتاہوں۔”لیکن بندہوجاتاہے در۔کسی آہ وبکاسے نہیں کھلتا ۔اور پھر وہ غرق ہوجاتاہے۔موت اس کی شہ رگ پر دانت گاڑدیتی ہے۔ختم شد۔نشانِ عبرت۔داستان درداستان۔

ہاں!اس وقت ہم کئی امتحانات سے گزررہے ہیں،تاہم کئی نتائج ہماری رسوائیوں کاسامان لیکر آئے اورکچھ کانتیجہ ابھی بعد میں نکلے والاہے لیکن کیا؟میں نہیں جانتا۔بس میں تویہ سوچ رہا ہوں کہ میں نے کیاکیااوران کانتیجہ کیانکلے گا؟ہاں!دعاکروں میں،لیکن کس منہ سے دعاکروں؟کیسے اپنے رب کا سامنا کروں؟

اک نئی کربلامیرے سامنے بپاہے۔ہمارے بچے اوربچیاں تہہ تیغ کئے جارہے ہیں اورجوکسی طرح جان بچانے کی کوششوں میں پناہ کی تلاش میں ہیں،ان کیلئے جاری غذائی صورتحال اورقحط جیسی موت سرپرمنڈلارہی ہے۔عجیب صورتحال ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں بھی آگ وخون کاکھیل بند کروانے کی بجائے امدادکے اعلان توہورہے ہیں اورفضاء سے بھی ان بھوکوں کیلئے کھانے کی اشیاء پھینکی جارہی ہیں لیکن زمین پراسرائیلی درندے تاک کران کوگولیوں کانشنانہ بنارہے ہیں۔پڑوسی عرب ممالک کے تعیشات میں بھی کوئی فرق نہیں آیابلکہ لیکن دوسری طرف یہ خبرچل رہی ہے کہ ایک سعودی شہزادہ جوئے میں 300ملین ڈالر کے ساتھ اپنی پانچ بیویاں جوئے میں ہارگیا۔

لیکن دوسری طرف موت کے ہاتھ پربیعت کرنے والوں کی ثابت قدمی کانتیجہ یہ نکلاہے کہ خوداسرائیلی میڈیانے اپنے خونخوار عسکری اداروں کی شکست کوتسلیم کرتے ہوئے اعتراف کر لیاہے کہ اسرائیلی مغوی افرادکوبازیاب کروانااب ان کے بس کی بات نہیں جس کیلئے ایک مرتبہ پھرپڑوسی ممالک میں مذاکرات کی بساط بچھائی جارہی ہے جہاں پہلی مرتبہ”خون بہا” کا لالچ بھی سامنے آنے کاامکان ہے اوراس کی ادائیگی کیلئے ثالثوں کوادائیگی کیلئے کہاجائے گا۔عجلت میں طے پانے والے اس معاہدے میں بے یقینی کایہ عالم ہوگاکہ مطلوبہ مغوی کی روانگی کے ساتھ ہی ادائیگی کومنسلک کردیاجائے گا۔کیااس خوفناک خونی طوفان کا ایسے ہی مداواہوگا؟

آپ کہاں ہیں اورکیاکہتے ہیں؟معصوموں کی چیخیں مجھے جینے نہیں دیں گی۔میراسینہ شق ہوجائے گا۔میں کچھ نہیں کرسکا۔ ہاں مجھے زندگی پیاری ہے… ہاں میں سانس کی آمدورفت کو زندگی سمجھتاہوں…ہاں میں نے ذلت و رسوائی کی زندگی قبول کرلی ہے…ہاں میں موت سے بہت ڈرتاہوں…ہاں میں نے اپنارب بدل لیاہے…ہاں میں عزت وذلت کامالک انہیں سمجھتاہوں جن کے ہاتھ میں ہمارے اقتدارکی ڈوری ہے،جن کے ایک ہاتھ میں خوفزدہ کرنے کیلئے کڑکتے کوڑے ہیں اوردوسرے ہاتھ میں ہمارے چیچک زدہ چہروں پرسجے طمع و حرص کے مارے منہ بھرنے کیلئے ڈالروں سے بھرے توڑے۔ان کے پاس بے حس بندوقیں ہیں۔شعلہ اگلتی ہوئی بندوقیں۔میں انہیں زندگی اورموت کامالک سمجھتاہوں جن کے میزائلوں کی گڑگڑاہٹ سے دل دہل جاتاہے اورمجھے خدشہ ہے کہ کہیں وہ میراتورابورانہ بنادیں۔ہاں وہی ہیں میرے مالک…آپ کے متعلق کیسے کہہ سکتاہوں!آپ جانیں اورآپ کا کام۔

اپنا تبصرہ بھیجیں