When will Muslims | wake up?

مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

:Share

امریکامیں چنددہائیاں پیشتر،گوروں کے ہوٹلزاورکلبزکے باہربورڈآویزاں ہوتاتھاجس پرلکھاہوتاتھا”کتوں اورکالے لوگوں کاداخلہ ممنوع ہے”لیکن مکافاتِ عمل نے وہ دن بھی دکھایاجب ایک سیاہ فام وائٹ ہاؤس میں داخل ہوا،اورآٹھ سال تک قصرسفیدمیں ملک کے سیاہ وسفیدکامالک بن گیا۔امریکا میں کالوں اورگوروں کاتعصب اتناوسیع رہاہے کہ سیاہ فام کولن پاؤل سابق وزیرخارجہ امریکا اور سیاہ فام وزیرخارجہ کنڈولیزارائس گوروں کیلئےمخصوص گرجاؤں میں عبادت کیلئےداخل نہیں ہوسکتے تھے۔

2008ءکے کالے اورگورے امریکی عوام نے اس الیکشن میں ثابت کیاکہ انہوں نے رنگ ونسل کے تعصب کومٹاڈالا،قصرسفیدکے فرعون بش کی ظالمانہ وحشیانہ قتل وغارت گری سے بھرپورتعصب اوربڑ ے سرمایہ داروں کوتحفظ فراہم کرنے والی،عوام کو کچل دینے والی پالیسیوں کوامریکی عوام کی اکثریت نے مستردکرتے ہوئے بش کے خاص ساتھی جان میک لین کے مقابلے میں بارک اوباما کے حق میں ووٹ دیئے۔امریکاکے89فیصد مسلمانوں نے اوباماکواور2فیصد نے جان میک لین کوووٹ دیئے۔اوباما کو ووٹ دینے والوں میں اکثریت ان عیسائی ووٹرزکی تھی جوانسان ہیں،انسانی شکل میں وحشی درندے نہیں جوظلم کے خلاف تھے، جودین اسلام اورمسلمانوں کے خلاف امریکی جارحانہ جنگ کے خلاف تھے۔آج بھی اوباماکے ووٹرزکے بارے میں یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ ان میں کوئی متعصب عیسائی نہیں ہوگا۔

چودہ صدیاں قبل قرآن مجید کی آیات میں رنگ ونسل کے امتیازکا خاتمہ کیا جا چکا ہے:
اے انسانو!ہم نے تم کوایک مرداورایک عورت سے پیداکیاہے اورتم کومختلف قومیں اورمختلف خاندان بنائے تاکہ ایک دوسرے کوشناخت کرسکو۔اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا عزت والاوہی ہے جوسب سے متقی ہو۔اللہ خوب جاننے والاپوراخبردارہے”۔ ﴿حجرات:13﴾

رسول للہ ﷺ کے خطبہ حجتہ الوداع میں بھی یہ یاد دہانی موجودہے۔آپ ﷺنے ارشادفرمایا”تم سب اولادِآدم ہو،اس لئے کسی گورے کو کالے پراورعربی کوعجمی پرکوئی فوقیت نہیں ہے کیونکہ اللہ کے نزدیک وہی باعزت ہے جوزیادہ متقی ہو”۔متقین وہ لوگ ہیں جو اللہ کی ناراضگی اوراس کے دنیاوی اورآخرت کے عذابوں سے ڈرتے ہیں،ایمان اوعمل میں پکے مسلمان ہیں۔اسی خطبہ میں رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا”میں تمہارے پاس دومرکزثقل چھوڑے جارہاہوں۔اگرتم انہیں مضبوطی کے ساتھ تھامے رہوگے توکبھی گمراہ نہ ہوگے،ایک کتاب اللہ اوردوسری میری سنت”۔

اوباما کیلئےصدارت پاکستان کے حکمرانوں کی طرح آسان،عیاشیوں،فضول خرچیوں،اورقوم سے غداریوں کی مانندنہیں تھی۔ امریکی صدارتی کرسی اوباماکیلئےایک امتحان ثابت ہوئی کیونکہ اوباماکو اپنے ووٹرزکی توقعات پرپورااترناتھاجنہوں نے پہلی بار ایک کالے فردکوبطورامریکی صدرکیلئے منتخب کیا۔ایسانہیں ہواکہ بش کی طرح اوبامانے خودکوامریکااوردنیابھرکاشہنشا ہ سمجھنا شروع کردیا اور کانگرس اورامریکی عوام کواپنی انگلیوں پرنچانے لگ گیا۔اوبامانے اپنی عوام اوردنیابھرکے پرامن لوگوں سے یہ وعدہ کیاکہ زمین پرجگہ جگہ انسانوں کاقتل عام بندکرکے،جھوٹ سےگریزکرتے ہوئے زمین پرامن قائم کرے گالیکن صدافسوس کہ اوبامابھی اپنے ہاں کی نمک کی کان میں داخل ہوتے ہی نمک بن گئے اورانہیں قصرسفیدمیں پہلی روایتی بریفنگ میں اداروں نے اپنی ترجیحات سے مطلع کردیاکہ اوباماکوبھی بش کی پالیسیوں کی پیروی کرناہوگی جبکہ امریکی عوام نے”تبدیلی کے بینر”ہاتھوں میں لئے امریکی الیکشن میں بھرپورحصہ لیاتھا،معیشت کوتباہ کردینے والی وحشیانہ خونی جنگی پالیسیوں میں تبدیلی کیلئےاوباما کوکرسی صدارت پربٹھایاتھا۔ 2008ءکاامریکی الیکشن دراصل عوامی ریفرنڈم کی حیثیت رکھتاتھاجس میں امریکی عوام نے بش کی تمام پالیسیوں کوٹھوکرماردی تھی لیکن اس کے باوجود درپردہ قصرسفیدکے سرکش گھوڑے کاچابک انہی اداروں کے پاس رہاجو پچھلی کئی دہائیوں سے اپناکام کررہے ہیں ۔

یہ درست ہے کہ دنیا کے اکثر لوگ ، درندہ صفت شیطان بش اور اس کے ساتھیوں کی شکست اور امریکی عوام کی فتح پر خوش تھے لیکن سوال ہے کیا اوباما امریکا میں پھیلا ئے گئےمتعصب یہودیوں کے مضبوط جال سے باہر نکل کر امریکی عوام کی توقعات پر پورا اتر سکے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ پینٹا گون اور وائٹ ہاؤس کے اندر یہودی ایک مضبوط سازشی زمین پر فتنہ و فساد پھیلا نے والی ایسی قوت ہیں جن کی مرضی کے بغیر امریکی حکومت کوئی ایسی پالیسی بھی وضع نہیں کر سکتی۔ خود امریکا کے مشہور زمانہ سینیٹر ”پال فنڈلے” جنہوں نے اپنی ساری عمر امریکی اقتدار کی غلام گردشوں میں گزاری، امریکی حساس اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان رہے لیکن بالآخر 1985ء میں اپنی کتاب” دے ڈئیر ٹو اسپیک آؤٹ” میں اس یہودی لابی کے بارے میں ساری حقیقت تحریر کردی کہ یہودی لابی امریکی پالیسیوں کو اپنے حق میں تیار کروانے میں کس قدر طاقتور اور مؤثر ہے۔

اپنی کتاب میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدرکے ساتھ انتہائی اہم میٹنگ میں انتہائی رازداری کے ساتھ کچھ فیصلے کئے گئے جس کے بعد صدر نے آدھ گھنٹے کے بعد دوبارہ اسی کمرے میں جمع ہونے کا کہا تاکہ یہ اہم فیصلوں کو تحریر میں لا کر اس کی کاپیاں میٹنگ میں شامل ممبران کے حوالے کی جائیں تاکہ وہ پڑھ کر اس پر اپنے دستخط کرکے اس کی منظوری دے دیں۔ سینیٹر پال فنڈلے کہتے ہیں کہ ہمیں ابھی کمرے سے باہر آئے ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ ایمرجنسی بیل کے ذریعے ہمیں فوری واپس کمرے میں بلایا گیا جہاں صدر انتہائی غصے کی حالت میں چیخ رہے تھے کہ ہم میں سے کون اسرائیل کیلئے جاسوسی کر رہا ہے۔ میں ابھی مطلوبہ مسودہ ٹائپ کیلئے سٹاف کے حوالے کر رہا تھا کہ مجھے اسرائیلی سفیر برائے امریکا کا فون آیا جس میں اس نے کچھ طے شدہ فیصلوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے”۔ ایسے درجنوں واقعات پر مبنی ان کے مشاہدات پڑھنے والے کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں۔کئی برس تک ان کی کتاب کو شائع نہیں ہونے دیا گیا اور اس کتاب کی اشاعت کیلئے جو انہیں دہمکیاں اور دیگر مشکلات پیش آئیں، اس ساری صورتحال کا بھی انہوں نے اپنی اسی کتاب کے آغاز میں تفصیلاً ذکر کر دیا ہے۔

صدارتی فتح حاصل کرنے کے بعداوباماکی طرف سے پہلااعلان وائٹ ہاؤس کے نئے چیف آف اسٹاف کی تقرری کاسامنے آیااور انہوں نے”ریم ایمانوئیل”اسرائیلی نژادیہودی کووائٹ ہاؤس کانیاچیف آف اسٹاف بناکرطاقتورحلقوں کے ہاتھوں شکستِ فاش اوراپنی اطاعت کااعلان کردیا۔الیکشن رزلٹ کے بعد9نومبر2008ءکویہ اعلان بھی سامنے آگیاکہ اوبامانے شرپسند، فتنہ انگیزہندوتنظیموں کی پشت پناہی کرنے والے متعصب بھارتی ہندو “سونل شا”کواپنااقتصادی مشیرمقررکردیاہے۔دنیاکے لوگوں بالخصوص مسلمانوں کواس صورتحال کودیکھ کریہ اندازہ توہوگیاکہ اوباماالیکشن رزلٹ کے فوراًبعدیہودوہنود،اسرائیل وبھارت کے جادوکاشکارہوچکا ہے اوراب اوباماانتخابات میں کئے گئے وعدوں کی پاسداری کرنے کی بجائے اس کرہ ارض پرامن کاراستہ اختیارکرنے سے قاصرہے اوروہ بھی بش کی شروع کی گئی کروسیڈ(صلیبی جنگ)کوجاری رکھے گابلکہ اوباماکے ہاتھوں اس جنگ میں مزید شدت پیداکی جائے گی۔وہ جنگ جو2001ء سے جاری ہے،وہ اب اک نئے اندازسے جاری رہے گی جہاں مسلم حکمرانوں کے سامنے امریکی امن کی خواہش اورمسلمانوں سے مزیدقربت کااظہاراوردرپردہ اس خطے میں اپنی جارحیت پرپردہ ڈال کراپنی کامیابی کاحصول ہوگا۔پھروقت نے یہ ثابت کر دیا کہ اوبامانے تمام مسلم دنیاکوخطاب کرنے کیلئے اپنے پٹھومصری حکمران حسنی مبارک کی میزبانی میں قاہرہ مصرکاانتخاب کیا اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے مسلم امہ کویقین دہانی کروانے کی کوششیں کیں لیکن تاریخ نے یہ ثابت کردیاکہ اوباما کاکردارکسی طورپربھی بش سے کم خوفناک نہیں رہااوراوباماکی تقریرپرمیراتجزیہ صدفی صددرست رہا۔

ہمارے ہاں بیشتراس غلط فہمی میں رہے کہ امریکامیں جنگی جنون میں مبتلاحملہ آورکر وسیڈیوں کے خلاف مزاحمتی جنگ اس وقت تک جاری رکھنی ہوگی جب تک صلیبی افواج افغانستان اور عراق سے اپنے مما لک میں واپس نہیں چلی جاتیں لیکن میرااس وقت بھی یہ کہناتھاکہ امریکایہودی نژاد”ہنری کسینجر “کے مرتب کردہ خوفناک پلان”ون ورلڈآرڈر”پراس وقت تک پیچھے نہیں ہٹے گاجب تک خودامریکااپنی غلط پالیسیوں کی بناءپرٹوٹ نہیں جاتا جس طرح سوویت یونین بالآخرچھ ٹکڑوں میں تقسیم ہوکرروس بن گیاہے۔۔یہ بات سب لوگوں کےعلم میں ہے کہ2001ءمیں امریکی صدربش نے اعلان جنگ کرتے ہوئے اس جنگ کانام کروسیڈ (صلیبی جنگ)پکاراتھا۔ماضی میں تما م صلیبی جنگیں صرف دین اسلام کوختم کرنے،مسلمانوں کوہلاک کرنے اوران کے ممالک پرقبضہ کرنے کیلئےلڑی جاتی رہی ہیں ۔ امریکانے زیادہ چالبازی سے کام لیتے ہوئے کروسیڈکے کئی دیگرنام بھی رکھے ہیں مثلا ً “وارآن ٹیررازم کے خلاف جنگ،دہشتگردی کے خلاف جنگ،انتہا پسندی کے خلاف جنگ،شدت پسندوں کے خلاف جنگ، عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ”وغیرہ ۔2001ءسے آج تک بنائے گئے اہداف میں کسی عیسائی،یہودی،ہندوسکھ کونشانہ نہیں بنا یاگیا،کسی مندر،گرجاگھر،آتشکدہ کو زمین دوزنہیں کیاگیا۔کسی کرسچن ملک یالادین(سیکولر)ملک پرحملہ نہیں کیاگیا۔

کئی ناموں سے لڑی جانے والی صلیبی جنگ میں حملہ آوروں کاہد ف صرف اورصرف مسلمان،ان کے ممالک واحدمعبود اللہ تعالیٰ رسولﷺقرآن مجید،مساجداورقرآن پڑھانے والے، نماز سکھانے والے دینی مدارس رہے۔پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کی بدقسمتی یاکمزوری یہ تھی کہ اس زمانےمیں ہمارے ہاں اقتدارکے سیاہ وسفیدکے مالک ڈکٹیٹرپرویزمشرف اوراس کے تمام مشیراس صلیبی جنگ میں حملہ آورکفارکے خاص اتحادی اورمددگار بن گئے اورشاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کاثبوت دینے لگ گئے۔ان صلیبی افواج نے ہمارے قبائلی علاقوں اور سوات میں فضائی بمباری کے ذریعے اور افغانستان کی سمت سے امریکی ونیٹو افواج اور جاسوس طیاروں کوسرزمین پاکستان پرحملہ آورہونے کے مواقع فراہم کرکے تقریباًہرروزمسلمانوں کاقتل عام کیا۔ستم ظریفی کی بات تویہ ہے کہ اس پرائی جنگ میں جان ومال کی قربانی دینے والے ملک پر430ڈرون حملوں میں1750/افرادکے پرخچے اڑا دیئے گئے بلکہ جونہی 18جون 2004ء کوواناوزیرستان میں نیک محمدسمیت5افرادکواپناہدف بناتے ہوئےپہلے”ایم کیونائن ڈرون”حملہ میں شہیدکر دیا تومشرف نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے قوم کے سامنے جھوٹ بولالیکن فوری طورپرپینٹاگون نے اپنے غلام کے جھوٹ کاپردہ چاک کرتے ہوئے اسے اپناکارنامہ قراردے دیا۔

اپریل 2011ء میں پاکستانی فوجی اور سیاسی حکام نے امریکا سے ڈرون حملے بند کرنے کے لیے کہا، زخمیوں کا علاج کرنے والے طبیبوں نے بتایا ہے کہ امریکی ڈروں کے ذریعہ کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ حملہ کے بعد امدادی کارروائی کرنے والوں پر امریکی ڈرون دوبارہ حملہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مرنے والوں کے جنازہ پر بھی ڈرون پھر حملہ کرتے ہیں۔ ان ڈرون کو امریکی فوجی اور کارندے چلاتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ہرہفتےقتل کیلئے افرادکاانتخاب خود امریکی صدربارک اوباما کرتاتھا۔اوبامانے2012ءمیں دوبارہ صدارت جیتنے کےبعد بھی پاکستان پرڈرون حملے جاری رکھے اور امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ ڈرون حملے بار اوبامااکے حکم پرکئے گئے۔پاکستان کے علاوہ دیگر مسلمان ممالک،یمن اورصومالیہ پربھی ڈرون حملوں کے ذریعے مسلمانوں کوتہہ تیغ کیاگیا۔

ٹاپ سیکرٹ دستاویزات اور سفارتی مراسلوں کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ سی آئی اے نے پاکستانی حکام سے ڈرون حملوں پر معلومات کا تبادلہ کرنے کیلیے خصوصی دستاویزات تیار کیں۔ پاکستانی حکام نے نہ صرف کئی برسوں سے امریکی ڈرون حملوں کی توثیق کی ہے بلکہ انھیں ان حملوں اور ہلاکتوں کے بارے میں بریفنگ بھی دی جاتی رہی ہے۔ امریکی اخبار نے سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات جن میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں درجنوں ڈرون حملوں کا ذکر کیا گیا اور ان کے ساتھ نقشے اور حملے سے قبل اور بعد کی تصاویر بھی ہیں۔

امریکی اعداد و شمار کے مطابق 2006ءسے لیکرآخری ڈرون حملہ تک پاکستان میں 389ڈرون حملے کئے گئےجن میں2ہزار 797 افرادکوٹارگٹ کرکے قتل کیاگیاجبکہ اس کے علاوہ200کے لگ بھگ عام شہریوں کوبھی شہیدکردیاگیاجبکہ مقامی افراد کے مطابق حقیقت میں صحیح اعدادوشماراس سے کئی گنازیادہ ہیں۔قصرسفیدکے فراعین نے صرف مسلم ممالک پاکستان کے علاوہ افغانستان،صومالیہ،یمن اورلیبیامیں بھی ڈرون حملوں کے ذریعے ہزاروں مسلمانوں کوشہیدکیا۔سب سے زیادہ ڈرون حملوں کاحکم اوبامانے دیا۔

اس پرائی جنگ میں73ہزارافرادکی قربانی اور100بلین ڈالرکے نقصان کے باوجودہمارے سیاسی جمہوری حکمرانوں کی تائید اور سپہ سالا رکی کمان میں پاکستانی قوم کی تنخواہ دارافواج نے نمک حلالی اورجوانمردی کی بے شمارمثالیں قائم کیں۔امریکانے ہزاروں بستیوں کورہائشیوں سمیت جلا ڈالاگیا، ہزاروں مساجداورلاکھوں قرآن مجیدکے نسخے شہید ہوئے۔کئی لاکھ مسلمان ہلا ک کردیئے گئے،کئی لاکھ مفلوج اورکئی لاکھ بے گھرکردیئےگئے اورآج بھی پاکستان میں مختلف افغان مہاجرین کے کیمپ اس ظلم وستم کی گواہی کیلئے موجودہیں ۔

مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک عالمی میڈیا کے ٹی وی پروگرام میں جہاں مجھے اور امریکی سینیٹر کو عراق اور افغانستان جنگ کے بارے میں دعوت دی گئی تھی۔ میں نے امریکی سینیٹر کو ان دونوں ملکوں میں جنگ پر خرچ ہونے والے ٹریلین ڈالرز اخراجات کے بارے میں یہ مشورہ دیا کہ اگر امریکا اس رقم کا چوتھائی حصہ بھی ان ملکوں میں تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر پر خرچ کرتا تو آج یہ سارے ممالک نہ صرف امریکا کے بہترین دوست ہوتے بلکہ امریکی مفاد کے نگران بھی ہوتے، جس پر امریکی سینیٹر نے لاجواب ہو کر کہا کہ امریکا کے اسلحہ سازی اور فارماسیٹیکل (ادویات بنانے والے)ایسی کسی پالیسی کو کیسے منظور ہونے دیں گے جن سے ان کے کاروبار کا دیوالیہ ہوجائے جہاں اس وقت ہزاروں افراد کام کر رہے ہیں۔ گویا ان دو اداروں کو چلانے کیلئے تیسری دنیا کے لاکھوں افراد کا قتل عام انتہائی ضروری ہے۔ میرے ان خدشات کا سینیٹر کوئی جواب نہ دے سکا۔

ابھی یہ ستم ختم نہیں ہواتھاکہ غزہ میں گ وخون کاہولناک کھیل جاری ہوگیا۔درجنوں پڑوسی مسلم ممالک صرف زبانی احتجاج سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ پچھلے چھ مہینوں سے غزہ کے مسلمان اس جوانمردی سے مقابلہ کررہے ہیں کہ خوداسرائیل جوفرعونی طاقتوں کی زبان میں فلسطین کانام ونشان مٹانے کادعویٰ کررہاتھا،اب تک اپنے مغویوں کوبازیاب نہ کراسکا اوربالآخراپنی شکست کااعتراف کرتے ہوئے مذاکرات کی میزپربیٹھاالتجاکررہاہے۔یادرہے کہ نیتن یاہواپنی سیاسی مکاریوں اورداؤپیچ کی بنا پراسرائیل کا طویل ترین وزیراعظم کاریکارڈقائم کرچکاہے۔2017 میں کرپشن کے سنگین الزامات کے بعداس کے مخالفین اس کی دائمی سیاسی موت کیلئے بڑے پریقین تھےکہ یہ2022ءمیں انتہائی دائیں بازوکی جماعتوں کی مددسے چھٹی بار وزارتِ عظمیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔اقتدارمیں آتے ہی اپنی کرسی کومضبوط کرنے کیلئے کچھ اہم عدالتی اختیارات پارلیمنٹ کومنتقل کرنے کی کوشش کی جس پرحزبِ اختلاف اورسول سوسائٹی نے ایسی سخت مزاحمت کی کہ لگتاتھاکہ اب یقیناًنیتن یاہوکابسترگول ہوجائے گالیکن اچانک 7/اکتوبرکوحماس کے ساتھ جنگ شروع ہونے پرسیاسی دلدل میں غرق ہونے سے صاف بچ گیا۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی سیاسی تجزیہ نگاربھی غزہ میں طویل جنگ جاری رکھنے پریہ کہنے پرمجبورہوگئے ہیں کہ جنگ بندی کی صورت میں نیتن یاہوپردوبارہ استعفٰی کیلئے دباؤبڑھ جائے گااور استعفٰی کی صورت میں پرانے الزامات اورمقدمات ان کی راہ بے چینی سے تک رہے ہیں جن کے نتیجے میں نیتن یاہوکی بقیہ زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرے گی۔نیتن یاہوکیمپ کانظریہ ہے کہ جب ملک حالتِ جنگ میں ہوتوانتخابات چے معنی دارد۔ویسے بھی رائے عامہ کے مختلف جائزوں کے مطابق اس وقت اوسطاسترفیصدسے زائداسرائیلی باشندے یرغمالیوں کے بے یقین مستقبل کے باوجود غزہ کی مہم کو منطقی انجام تک پہنچانے کے حق میں ہیں۔ادھرنیتن یاہوبھی یہ سمجھتاہے کہ اس کی سیاسی بقاء بھی خطے میں ایسی جنگ میں مضمرہے جہاں اسرائیلی باشندوں کویہ یقین دلادیاجائے کہ اسرائیل کی بقاء کیلئے نیتن یاہوکس قدرضروری ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہونے انتہائی مکاری سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دمشق شام میں ایران کے سفارت خانے پرحملہ کرکے وہاں القدس فورس کے دو اعلی عہدیداروں سمیت آٹھ افرادکوہلاک کردیاجس کاواضح مطلب یہ ہے کہ وہ اس علاقے میں جنگ کے شعلوں کوہوادیکرایک بڑی جنگ کا آغازکرناچاہتا ہے جہاں ایک مرتبہ پھرنئی صلیبی جنگ کاماحول پیداکیاجاسکے ۔ایران نے اپنے فوری اورشدیداحتجاج میں یہ واضح کردیاکہ وہ اس جارحیت کاجواب ضرور دے گااوراس نے اسرائیل کے مربی امریکاکوبھی آگاہ کردیاجس پر امریکی صدرجوبائیڈن نے چنددن قبل عالمی میڈیاپر ایرانی حملے کے خدشات کااظہاربھی کردیاتھا۔

بالآخرایران نے اپنے سفارت خانے پرحملے کے جواب میں ہفتہ کی رات محدودجنگ کانام دیتے ہوئے اسرائیل پر170دہماکہ خیز ڈرون،360مختلف خطرناک ہتھیاروں،کروزمیزائل،120 بیلیسٹک میزائل داغ دیئے اوراس کے ساتھ ہی ایران نے تمام پڑوسی ممالک کوبھی اسرائیل کوفضائی راستہ مہیاکرنے پرکھلی جنگ کی دہمکی بھی دی ہے جبکہ اسرائیلی فوج کادعویٰ ہے کہ 99فیصد میزائلوں اورڈرونزکوہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی”ایرو”نامی فضائی دفاعی نظام اورخطے میں موجود اپنے دفاع میں مددکرنے والے ممالک میں امریکااوراردن سمیت اتحادیوں کی مددسے ناکام اورناکارہ بنادیاہے۔امریکی وزیردفاع لائیڈآسٹن کے مطابق امریکی فوج نے درجنوں میزائلوں اورڈرونزکوناکام بنایاہے۔برطانوی لڑاکا طیارے بھی اس حملے میں شامل تھے اور اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہناتھا کہ فرانس نے فضائی حدود میں گشت کر کے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ادھر جو بائیڈن نے اسرائیل پرایرانی حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے ساتھ فون پربات چیت میں کہا کہ امریکاایران پر ممکنہ اسرائیلی جوابی حملے میں حصہ نہیں لے گا۔اس وقت عالمی سیاسی منظرپرعجیب کھچڑی پک رہی ہے۔اگرنیتن یاہواپنے اقتدارکی جنگ جیتنے کیلئے یہ اقدام کررہاہے تو کیاایران واقعی غزہ میں قتل وغارت کے چھ ماہ بعدہوش میں آیاہے کہ مٹھی بھر یہودیوں کوڈیڑھ ارب مسلمانوں کویرغمال بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔

ایسی صورتحال میں قرآن مجید مسلمانوں کی رہنمائی کرتاہے:
جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔﴿النساء:76﴾
جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کر دیا اُنہیں با یقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دُوسری کھال پیدا کردیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں، اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے۔﴿النساء:56﴾

سرے محل اورسوئس اکاؤنٹ والے زرداری اورشریف خاندان،وزراءاورمشیران وغیرہ اوردیگرتمام مقتدرحلقے جو2001ءسے لیکرامریکی اور اتحادی افواج کے انخلاءتک امریکی پرچم کے زیر سایہ لڑی جانے والی صلیبی جنگ میں کروسیڈکے اتحادی یا مددگاررہے،آیات مبارکہ سے ہرچیزواضح ہوجاتی ہے کہ وہ شیطان کے ساتھی رہے۔یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کاہے جس کی سلطنت آسمانوں اورزمین میں ہے۔وقت کی یہ پکارہے کہ دنیاکے مسلمان سورہ توبہ کوبغورپڑھیں ۔

کچھ بھی نہیں،پہلے کون رہا ہے یہاں،جواب رہے گا۔کچھ بھی تونہیں رہے گا،بس نام رہے گامیرے رب کا۔
میں شیشہ گرنہیں،آئینہ سازی تونہیں آتی
جودل ٹوٹے توہمدردی سے اس کوجوڑدیتاہوں

اپنا تبصرہ بھیجیں