67 words changed the map

67الفاظ نے نقشہ بدل دیا

:Share

حقیقتاًاسرائیل اورحماس کے درمیان جنگی طاقت کاکوئی مقابلہ ہی نہیں ہےکیونکہ اسرائیل جدیدترین خطرناک اسلحے سے لیس جبکہ حماس تقریبانہتے لیکن بھرپور جذبہ شہادت کی ایک مرتبہ پھرناقابل یقین مثال کے ساتھ میدان میں موجودہے۔7/اکتوبرسے شروع جنگ تادم تحریرابھی تک جاری ہے۔ اس سے حماس کے جذبہ شہادت اورپختہ عزم کی برتری ظاہرہوتی ہے اوراس چیز کابھی اظہارہوتاہے کہ فتح اورکامیابی حاصل کرنے کیلئے قربانیاں دینا ناگزیرہے۔جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف ہونے والی ہلاکتوں کے تناسب میں بھی زمین آسمان کافرق ہے۔

اسرائیل اورحماس کے درمیان7/اکتوبرسے جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران اب تک تقریباً1400اسرائیلی اورغیرملکی ہلاک ہوچکے ہیں جن میں308آئی ڈی ایف فوجی،10شن بیٹ ایجنٹ اور58پولیس اہلکاراورکم ازکم 5,132زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک شدگان میں تقریباً70 ہلاک یالاپتہ اسرائیلی شہری بھی شامل ہیں جبکہ غزہ میں شہداءکی تعداد9700سے تجاوزکرچکی ہے جن میں چارہزاربچے ہیں جن کی لاشوں کے ٹکڑے اٹھانے کیلئے صرف ان کے نحیف ونزارضعیف بزرگ باقی بچے ہیں۔2500سے زائدخواتین ہیں اور زخمیوں کی تعداد26 ہزارسے زائدہوچکی ہے جن کے علاج معالجہ کیلئے ادویات ختم ہوچکی ہے اوربجلی منقطع ہونے کی وجہ سے1600سے زائد بچوں کی انکیوبیٹرمیں ہلاکت کوکوئی معجزہ ہی بچاسکتاہے۔ایک اندازے کے مطابق نامعلوم ہزاروں کی تعدادمیں ملبے میں دبے ہوئے ہیں جن کے بچنے کی اب کوئی امیدباقی نہیں۔ادھراسرائیلی درندگی کی وجہ سےجیالہ کیمپ میں پانی کے سب سے بڑے ذخیرے کوبھی تباہ کردیاگیاہے۔

اسرائیل کی اندھادھندبمباری کے نتیجے میں غزہ میں بڑے پیمانے پرجوتباہی ہوئی ہے اوراملاک کاجونقصان ہواہے،اس کاتواب تک اندازہ نہیں لگایاجا سکاتاہم اب بھی اسرائیلی بمباری کامنہ بولتاثبوت سیکڑوں رہائشی عمارتیں، اسکول،اسپتال اورپناہ گزیں کیمپس آج بھی کھنڈرات کی شکل میں مغرب اورامریکاکے انسانی حقوق کے چہرے پرایک بدنماداغ بنے نوحہ کناں ہیں۔22لاکھ افرادکاگھر،غزہ کی پٹی ایک گنجان آبادانکلیوہے،41کلومیٹر(25 میل)لمبااور10 کلومیٹرچوڑا،ایک طرف بحیرہ روم سے گھراہواہے اوراس کی سرحدوں پراسرائیل اورمصرسےباڑلگی ہوئی ہے۔ غزہ کے فلسطینی باشندوں کی اکثریت مسلمان ہے، حالانکہ وہاں ایک چھوٹی سی عیسائی اقلیت بھی ہے۔غزہ کی آبادی بہت کم عمرہے،جس میں تقریباً75%کی عمر25سال سے کم ہے۔شہراس وقت14رکنی میونسپل کونسل کے زیرانتظام ہے۔

اسرائیل حماس حالیہ جنگ کے نتیجے میں اہل فلسطین کوبہت سے فائدے حاصل ہوئے ہیں۔عالمی تجزیہ نگاراب بھی اورآئندہ کافی دنوں تک ان کا تجزیہ کرتے رہیں گے۔مثال کے طورپراپنوں ہی کی بے وفائی سے قضیہ فلسطین پسِ پشت چلاگیاتھا،اس جنگ کے نتیجے میں وہ پھرابھرگیاہے۔عالمی سطح پر فلسطین کے حمایتی ممالک میں اضافہ ہواہے۔تمام ممالک میں اسرائیل کے خلاف اورفلسطین کی حمایت میں زبردست مظاہرے ہوئے ہیں۔اسرائیل اپنی درندگی،حیوانیت اوردہشتگردی کے سبب اقوامِ عالم میں مبغوض ٹھہراہے اوراس کے خلاف بین الاقوامی نفرت میں اضافہ ہواہے۔اس کی ڈپلومیسی پوری دنیامیں کمزورہوئی ہے۔ اسرائیل کوناقابلِ تسخیرسمجھے جانے کامفروضہ غلط ٹھہرا،اورحماس کوایک قابلِ لحاظ طاقت تسلیم کیاگیاہے ۔ اسرائیل کی اقتصادیات پرکاری ضرب لگی ہے،اس لیے کہ حماس کے راکٹوں کوروکنے کیلئے اسرائیل کے آئرن ڈومس سے فائرکیے جانے والے راکٹس کی قیمت کااندازہ کروڑوں ڈالرمیں لگایاگیاہے جبکہ حماس کے تباہی پھیلانے والے خودساختہ راکٹ انتہائی غیر معمولی قیمت سے تیارکئے گئے تھے۔اس طرح متعددپہلوؤں سے اہل فلسطین کواسرائیل پرسیاسی،عسکری اورنفسیاتی برتری حاصل ہوئی ہے۔
حالیہ جنگ نے یہودکے بارے میں قرآن کریم کے اس بیان کی تصدیق کردی ہے کہ وہ زندگی کے بڑے حریص اورموت سے بہت زیادہ خوف زدہ رہنے والے ہیں۔قرآن کریم میں یوں نقشہ کھینچاگیاہے:
اِن سے کہو اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصُوص ہے ،تب تو تمہیں چاہیے کہ موت کی تمنّا کرو ، اگر تم اس خیال میں سچےّ ہو تو یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی تمنّا نہ کریں گے، اس لیے کہ اپنے ہاتھوں جو کچھ کماکر انھوں نے وہاں بھیجا ہے،اس کا اقتضایہی ہے ﴿کہ وہاں جانے کی تمنّا نہ کریں﴾اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے۔ تم انہیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاوٴ گے حتّٰی کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے ، حالانکہ لمبی عمر بہر حال اُسے عذاب سے تودُور نہیں پھینک سکتی ۔ جیسے کچھ اعمال یہ کر رہے ہیں، اللہ تو انہیں دیکھ ہی رہا ہے(البقر:94۔ 96)

چنانچہ حماس کی طرف سے جیسے ہی راکٹ داغے جاتے ہیں،پورے اسرائیل میں سائرن بج اٹھتے ہیں اوریہود آبادی کی غالب اکثریت بنکروں میں جا چھپتی ہے۔روزروزکی اس صورتحال سے اسرائیلیوں پرکتنے گہرے منفی نفسیاتی اثرات پڑے ہیں،اس کا بخوبی اندازہ ایک امریکی ماہرنفسیات کی اس رپورٹ سے لگایاجاسکتاہے کہ اس جنگ کے بعدکئی افریقااوردیگرممالک سے آئے ہوئے یہودیوں نے اسرائیل کوچھوڑ کردوبارہ واپسی کارخت سفر باندھ لیاہے اوردرجنوں کی تعدادمیں یہودی اب واپس اپنے ان گھروں کوجانے کیلئے تیارنہیں جن کے گردوپیش میں حماس کی طرف سے راکٹ برسائے گئے تھے جبکہ اسرائیل کے بموں سے غزہ کی کوئی رہائشی عمارت زمیں بوس ہوتی ہے تواس کے مکین ملبے پربیٹھ کراللہ اکبرکانعرہ بلندکرتے اورفتح کا نشان بناتے دکھائی دیتے ہیں اوراب دوبارہ اپنے گھروں کے ملبے کی صفائی کے بعدان کورہائش کے قابل بنانے کیلئے میدان عمل میں موجود ہیں۔

عصرحاضرمیں”وطنیت”کی بنیادیں اتنی گہری کردی گئی ہیں کہ دنیابھرکے مسلمانوں نے اپنے فلسطینی بھائیوں کی کچھ مددکرنی چاہی توبھی نہیں کرسکے ۔اس موقع پرانہوں نے ان کے حق میں دعائیں کی ہیں اورزبان وقلم اورسوشل میڈیاکے ذریعے ان کے حق میں آوازبلند کی ہے۔مسلم ممالک بہت کچھ کرسکتے تھے،لیکن وہ بھی اپنے اقتدارکومحفوظ رکھنے کیلئے مذمتی قراردادوں سے آگے نہیں بڑھ سکے لیکن غزہ کے مجاہدوں نے اپنے خون کانذرانہ پیش کرکے امت کی لاج رکھ لی ہے۔اللہ ان کی قربانیوں کوقبول فرمائے۔ان کی جدوجہدسے ثابت ہوگیا کہ فتح و کامرانی صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں حاصل ہوسکتی،بلکہ اس کیلئے قربانیاں ناگزیرہیں۔اللہ تعالیٰ کاسورہ الصف میں ارشادہے:اے لوگوجوایمان لائے ہو!کیامیں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لاؤاللہ اوراس کے رسولﷺپراورجہادکرواللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اوراپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لیے بہترہے اگرتم جانو۔اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گااورتم کوایسے باغوں میں داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اورابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھرتمہیں عطافرمائے گا۔یہ ہے بڑی کامیابی ۔اوروہ دوسری چیزجوتم چاہتے ہووہ بھی تمہیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اورقریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔اے نبیﷺ!اہل ایمان کواس کی بشارت دے دو۔

ایک سادہ کاغذپرلکھے67/الفاظ نے مشرق وسطیٰ میں ایک ایسے تنازع کاآغازکیا جو اب تک حل نہیں ہوسکا۔بالفوراعلامیہ کو106 سال بیت چکے ہیں۔یہ ایک ایسی دستاویز تھی جس نے اسرائیل کوجنم دیااورمشرق وسطیٰ کی تاریخ کوہمیشہ کیلئے بدل دیا ۔2نومبر 1917کوپہلی عالمی جنگ کے دوران لکھی جانے والی اس تحریرمیں پہلی بار برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودیوں کیلئے ایک ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی ۔یہ وہ وقت تھاجب سلطنت عثمانیہ کوشکست دینے کے بعد برطانیہ فلسطین پر کنٹرول حاصل کرچکاتھا۔عرب اس دستاویزکو”برطانوی دغا”سمجھتے ہیں کیونکہ سلطنت عثمانیہ کوشکست دینے میں انہوں نے برطانیہ کاساتھ دیاتھا۔ بالفوراعلامیہ کے بعدتقریباًایک لاکھ یہودی فلسطین پہنچے تھے۔

یہ اعلامیہ اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھربالفورنے بیرن لیونیل والٹرروتھس چائلڈکوبھجوایاتھاجوبرطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے ایک رہنماتھے۔اس اعلامیہ میں لارڈروتھس چائلڈکو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:
“برطانوی حکومت کی جانب سے میں آپ کو صیہونی یہودیوں کی حمایت میں یہ بیان بھجوارہاہوں جوکابینہ کے سامنے رکھا گیا اوراس کی منظوری دی گئی ۔ برطانوی حکومت فلسطین میں یہودیوں کیلئے ایک ریاست کے قیام کومثبت نظرسے دیکھتی ہے اور اس مقصدکے حصول کیلئے اپنی پوری کوشش کرے گی ۔ تاہم یہ واضح رہے کہ فلسطین کی موجودہ آبادی کے سول اورمذہبی حقوق کیخلاف کوئی اقدام نہیں ہوگااورنہ ہی کسی اورملک میں یہودیوں کے حقوق اور سیاسی سٹیٹس متاثرہوگا۔ میں آپ کاشکرگزارہوں گااگرآپ اس اعلامیے کوصیہونی فیڈریشن کے علم میں لائیں۔”آرتھرجیمزبالفور

اس اعلامیے کانام برطانیہ کے ایک متمول خاندان کے فردکیمبرج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھرجیمزبالفورکے نام پرپڑا جوکنزرویٹوپارٹی کے رکن تھے۔سکاٹش خاندان سے تعلق رکھنے والے آرتھرجیمز1902سے1905 تک برطانیہ کے وزیراعظم بھی رہے اورانہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی میں اہم خدمات سرانجام دیں۔آرتھرجیمزبالفورکاخیال تھا کہ برطانوی حکومت کو”صیہونی ایجنڈا”کی مکمل حمایت کرنی چاہیے ۔ یہ ایک سیاسی تحریک تھی جس نے19ویں صدی کے اختتام پریورپ میں زورپکڑلیاتھااورفلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کامطالبہ کررہی تھی۔آرتھرجیمزبالفورکواس بات کا سہرادیاجاتاہے کہ انہوں نے ہی برطانوی کابینہ کواعلامیے کی حمایت پرراضی کیا۔برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے بااثررہنما لیونیل والٹر روتھس چائلڈاورچائم ویزمین نے ان کی بھرپورمددکی۔چندلوگوں کاخیال ہے کہ آرتھرجیمزبالفورنے یہودیوں کی حمایت سیاسی فوائد کیلئے کی تھی۔

لیونیل روتھس چائلڈایک طاقتوربنکاری خاندان کے سربراہ تھااوریہودی کمیونٹی کابااثررہنمابھی تھا۔یہ امیراورطاقتورخاندان فلسطین میں یہودیوں کی ریاست کے قیام کیلئے سرمایہ کاری کاسب سے بڑاذریعہ تھا۔اسی خاندان کے ایک اوررکن،ایڈمنڈروتھس چائلڈنے فلسطین میں بڑی تعدادمیں زمین خریدی اور19ویں صدی کے اختتام تک یہودیوں کوفلسطین میں آبادہونے میں مددفراہم کی۔ اس زمانے میں یہ خاندان دنیاکے امیرخاندانوں میں سے ایک شمارہوتاتھا۔ ایڈمنڈکی جانب سے یہودیوں کی فلاح کے مقاصدکیلئے امداداتنی زیادہ تھی کہ ان کو”بینیفیکٹر”(مددگار) کالقب دیاگیا۔بہتسے لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ اعلامیہ لیونیل روتھس چائلڈ کے نام کیوں لکھاگیاجبکہ اس زمانے میں برطانوی یہودی کمیونٹی کے بورڈ آف ڈپٹیزکے صدرسٹوارٹ سیموئل تھے جوملک میں سرکاری طورپریہودی کمیونٹی کی نمائندہ تنظیم تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودیوں میں بھی دھڑے بندی تھی اورایک گروہ اس ایجنڈے کی مخالفت کررہاتھا۔روتھس چائلڈک ے پاس کوئی سرکاری عہدہ تونہیں تھالیکن وہ “صیہونی ایجنڈا”کی حمایت کرنےوالوں میں سب سے آگے تھے۔آرتھرجیمزبالفورسے ان کے تعلقات کی وجہ سے یہ خط ان کے نام ہی لکھاگیا۔کہاجاتاہے کہ اس دستاویز کی تحریر میں بھی روتھس چائلڈنے حصہ لیاتاہم اس دعوے کاکوئی ثبوت موجود نہیں۔

برطانوی حکومت کوامیدتھی کہ اس اعلامیے کے بعدامریکااورباقی دنیامیں بسنے والے یہودی پہلی عالمی جنگ میں مکمل طور پرجرمنی کے خلاف اتحادیوں کاساتھ دیں گے۔مؤرخین کامانناہے کہ برطانیہ سمیت یہودی کمیونٹی معاشی اثرورسوخ رکھتی تھی اورخصوصاًعالمی سرمایہ کاری میں بااثرہونے کی وجہ سے برطانیہ کوان کی مدددرکارتھی۔چندماہرین کایہ بھی مانناہے کہ برطانیہ نے جنگ کے بعدمشرق وسطیٰ میں اپنااثرورسوخ برقراررکھنے کیلئے یہ اقدام کیا۔اس تحریرکامقصدجوبھی ہو،بالفور اعلامیہ نے1948میں اسرائیل کوجنم دیااورخطے سے لاکھوں فلسطینیوں کوبے دخل کردیاگیا۔

تاہم تاریخی اورزمینی حقائق اس بات کاثبوت ہیں کہ ظلم اورجارحیت کے جتنے بھی منصوبے بنے بالآخرشکست اوررسوائی ان کامقدربن کررہی۔ابھی کل ہی کی توبات ہے کہ افغانستان میں 20سال تک امریکااپنے تین درجن اتحادیوں ،نیٹوکی افواج اورجدیدترین اسلحے اورٹیکنالوجی کے زورپربدترین ظلم وستم کے بعدبدترین شکست و پسپائی کے ساتھ رخصت ہوناپڑا،جواس بات کی دلیل ہے کہ سپرپاورصرف میرے رب کی ہے۔وہ اپنے بندوں کو آزماتاہے کہ کون اس کی محبت میں ثابت قدم رہتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ افغانستان اس صدی میں تین سپر طاقتوں کاقبرستان بن چکاہے۔

تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ سب سے پہلے دنیابھرمیں برطانوی نوآبادیوں کوآزادی کی نعمت حاصل ہوئی اوراس کے بعد سوویت یونین کے بطن سے چھ مسلمان ریاستوں کاوجودعمل میں آیااوراب ہزاروں میل دورسے آئے ہوئے ظالم جارح کواپنے اتحادیوں سمیت چھ کھرب ڈالر کے خطیر نقصان کے ساتھ ہزاروں فوجیوں کے تابوت اندھیرے میں واپس اپنے ملک میں لیجاکر نئے قبرستان آبادکرنے پڑے۔ ارشاد فرمایا کہ :”اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِیْدٌؕ (البروج:12) اے پیارے حبیبﷺبے شک تیرے رب کی پکڑبہت سخت ہے”۔ اگرچہ یہ پکڑکچھ عرصہ ظالموں کو مہلت دینے کے بعدہوکیونکہ انہیں مہلت دیناعاجزہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمت کی وجہ سے ہوتاہے۔اب وہ وقت دورنہیں جب کشمیراورفلسطین بھی ظالموں سے مکمل نجات حاصل کرکے اللہ کے قرآن کی حکومت قائم کریں گے،ان شاءاللہ ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں