نشانِ راہ

:Share

“ایک مدت کے بعد آپ کی شگفتہ وفکرانگیزتحریرپڑھنے کوملی۔مجھے آپ سے یہی گماں تھاکہ وہ ہاتھ جوبرسوں سے انسان کے اجسام کاپوسٹ مارٹم کررہا ہو،وہ ہاتھ جوقصابوں جیساکام کرکے انسانوں کوراحت پہنچارہاہے یقینا ایک دن انسان کی روح کی آسودگی کیلئے اس سے بڑھ کرکسی اعلیٰ اورارفع مقاصد کیلئے اپنی ندگی کارخ متعین کرے گا۔الحمداللہ آپ نے بروقت مستحسن قدم اٹھایااوریہ وقت کی ضرورت بھی تھی حالانکہ کویت میں کئی دفعہ ان معاملات پرآپ سے بحث بھی ہوئی تھی ،بحث میں کتنی ہی باتیں، کتنی ہی الجھنیں اورکتنے ہی مسائل بیان ہوتے تھے۔اس بحث میں ہم دونوں اپنے دل دماغ کی کتنی ہی تصویریں بلکہ تصویروں کاپوراالبم ایک دوسرے کے حوالے کردیتے تھے،پھر ہرتصویر کے ہرپہلو پربامقصدبات ہوتی تھی لیکن وسائل اورافرادی قوت پرآکرہمیں یہ تمام تصویریں نامکمل اورادھوری نظرآتی تھیں اورہم جوایک دوسرے کے ساتھ بہت فلسفیانہ باتیں کرتے تھکتے نہیں تھے ،رنج والم کی بہت سے داستانیں اشاروں میں بیان کرتے تھے ،اپنے ہی فلسفے سے شکست کھاکراگلے دن کیلئے تیاری کرتے تھے کیونکہ یہ سارااندازِ فکرایک خالص رضائے الٰہی کے حصول کیلئے ہوتاتھا،اس لئے ناامیدی قریب بھی نہیں پھٹکتی تھی کیونکہ اس بات کاہم دونوں کوعلم تھاکہ مہلتِ زندگی پرچہ دینے کاوقت ہے ،دنیاکمرۂ امتحان ہے،مالکِ کائنات خودممتحن ہے اورنفاذِاسلام کانصب العین پرچہ امتحان ہے اوریہ پرچہ مومن کے ایمان کی کسوٹی ہے نہ کہ اس کاقیام مطلوب ِ مشیت ہے۔لیکن اس خطے میں آپ نے جہاں انداز فکرمیں تبدیلی پیداکی ہے وہاں آپ نے مجھے مغرب کی آسائش زدہ زندگی سے تائب ہونے کی تلقین کرتے ہوئے واپس آنے کی نصیحت فرمائی ہے۔
یہاں مجھے معمولی سااختلاف کرنے کی اجازت دیں۔آپ بھی کویت آمد سے پہلے کشمیرسے دہلی کی طرف تشریف لائے تھے جوکہ ہندوستان کا مغرب کی طرف کھلنے والادروازہ ہے،جس طرح پاکستان کاشہرکراچی مغربی تہذیب کے داخلے کاسب سے پہلا مستقرہے۔بلاشبہ ہماراقبلہ بھی مغرب کی طرف ہے اوران لوگوں کابھی جو،،مغرب،،کے پجاری ہیں لیکن فرق اتناہے کہ ہم ،،رب المغربین،،کی عطاکردہ تہذیب کے پیروکار ہیں اوروہاں کے بسنے والوں کی اکثریت مغربی تہذیب کی گرویدہ ہے۔اس مغرب کی جہاں سائنس نے مشینیں بنابناکرافکاروخیالات کی سادہ فضا کودھواں دارکررکھاہے ۔اب یورپ سے جوبھی جہاز جاتاہے معلوم ہوتاہے کہ مغربی تہذیب کاجس قدرگندہ مال درآمدکرکے لاتاہے بلندآشیاں لوگ سب سے پہلے اس میں سے اپناحصہ وصول کرتے ہیں اور اس درآمدکی ہرکھیپ میں کچھ نہ کچھ نیامال آہی جاتاہے۔دین ومذہب کی طرف شکوک وشبہات،ریب وتذبذب کاطرزِ عمل،ظاہری چمک دمک پرجان دینا معاشرتی زندگی میں مختلف حدودوقیودسے بیزاری،مذہب سے جان چھڑانے کارحجان،عورتوںکی مساوات کابناوٹی اورنظرفریب نعرہ!غرضیکہ کیاکچھ ہے جو مغرب (یورپ وامریکا)سے برآمدہوکردہلی وکراچی پہنچتاہے۔
اس سارے انبارژولیدگی میں جودل ودماغ میںکانٹے چبھ جاتے ہیں ،اب اس سے پہلے کہ یہ کانٹے نکلیں اورزخم مندمل ہوکرقلب ونظرکی صحت بحال ہوکچھ دوسرے کانٹے آکردل ودماغ کومجروح کردیتے ہیںاورایک سخت عذاب تشکیک میں مبتلاکردیتے ہیں اوریہ سارامشاہدہ شدت سے ارضِ مملکتِ خداداد میں پچھلی دودہائیوں سے دیکھنے کوکچھ زیادہ ہی مل رہاہے۔ مسلمان عورت جس کاطرۂ عظمت عصمت وحیاتھا،اب بازاروں میں ولائتی سامان نمائش کی طرح بے باکی وبے حجابی کااشتہاربن کر گھس آئی ہے۔فیشن شوکے نام پرکیٹ واک کے اجتماعات میں ہوس بھری نظریں کھلے عام اپنی پسندوناپسندکاپروانہ جاری کرکے اپنی راتوں کورنگین بنانے کاذریعہ بن چکی ہیں۔جن بازاروں کوحضوراکرمۖنے شیطان کی گزرگاہیں قراردیاتھا،وہ بازاراب نمائش کی گیلریاںبن گئے ہیں۔جن اخباروں میں کبھی مسلمان عورت کی تصویرنہیں دیکھی تھی اب نہ صرف اخبارات بلکہ الیکٹرانک میڈیامیں ہرچندمنٹ بعدان میں حیافروش تاجروں کی تیارکردہ کریموں کے اشتہارات چندٹکوں کی خاطر ان الفاظ میں شائع اورنشرہوتے ہیں کہ”برقعہ پہنناکالے پن کوچھپانے کی علامت ہے”۔
ثقافت کے لفظ کوعریانی،مے خواری،بے حیائی اورناچ رنگ کے مفہوم میں لیاجارہاہے اورحکومت خدادادپاکستان ثقافت کے نام پربڑی بڑی آرٹ کونسلوں پر اس غریب اورمظلوم قوم کالاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپیہ صرف کررہی ہے بلکہ حکومت پاکستان کے کئی عہدیداروں ترنگ میں آکر اعلان کرتے ہیں کہ یہ اسلامی مملکت کی آرٹس کونسلیں اپنے پروگرامزکے ذریعے ملک میں قہرخداوندی سے جوزلزلے اورسیلاب سے متاثرین کی امدادکررہی ہیں۔الاامان الحفیظ! خداکے غضب کومزیدبھڑکانے کی کھلے عام دعوت دے رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں اسلامی مدرسے میں جب صبح سویرے اسمبلی ہوتی تھی توتمام امت مسلمہ کیلئے بالعموم اورپاکستان کیلئے بالخصوص دعائے خیر بھی ہوتی تھی اورہرروزکوئی نہ کوئی استادکسی اسلامی موضوع پرخطاب بھی کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اس اسکول کے فارغ التحصیل طلباء میں دوسرے اسکولوں کے طلباء کی نسبت اسلامی محبت واخوت کچھ زیادہ ہوتی تھی اوراپنے مافی الضمیرکی ادائیگی میں بے خوفی اوربیباکی حدسے زیادہ ہوتی تھی۔اس کاعمل تجربہ کویت میں ہوا جب میں اورآپ ایران کے انقلاب سے متاثر ہوکران کی پہلی انقلابی سالگرہ میں شمولیت کیلئے دوستوں کی شدید مخالفت کے باوجودروانہ ہوگئے تھے ۔واپسی پرکویت کے ائرپورٹ پرہی پاسپورٹ ضبط کر لئے گئے تھے ۔ یہ توکبھی سوچانہ تھاکہ کویت کے جس جدیدہوائی اڈے کی تعمیرکی نگرانی میرے ذمہ تھی،چندسال بعداس کے ایک حصے حوالات میں مجھے آپ کی معیت میں اس حال میں چندگھنٹے بھی گزارنے ہونگے۔ کچھ گھنٹے سلاخوں کے پیچھے جانے کی سنت یوسفی اوراسوۂ حنبلی کی ادائیگی کابھی بھرپورموقع ملا۔بالآخرہماری بے گناہی ہماراجرم قرارپائی اوریہ قیدوبندکے چندگھنٹے ازراہِ لطف ہمارے کھاتے میں محض اس لئے ڈال دیئے گئے کہ افسرمجازدوپہرکے کھانے کے بعداپنی ڈیوٹی کے دوران ہی قیلولہ فرمارہے تھے۔ہم حیران تھے کہ کیوں بند کردیئے گئے؟اربابِ اقتدارخوش کہ طاقت کانشہ ابھی ہمیں ان کے پاؤں پکڑنے پر مجبورکردے گا لیکن بھلاہوان چنددوستوں کاجوہماری خاطرپھرقربانی دینے کیلئے موقع پرآن دھمکے اوروہ جواللہ کوبھی بطورضامن ماننے کوتیارنہیں تھے اپنے ہی کویتی بھائیوں پراحسان کرکے ہمیں مستقبل میں تائب وتابعداررہنے کافیصلہ سناتے ہوئے اگلے دن کیلئے سی آئی ڈی کے دفترمیں حاضری کے پروانۂ پردستخط کرواکراحسان جتارہے تھے۔
بات اگریہاں تک ہی موقوف ہوتی کہ پھولوں سے محروم کردیتے لیکن جب کانٹوں پرسے بھی حق چھین لیاگیاتوغیرتِ ایمانی کاتقاضہ یہی تھاکہ اس رزق سے منہ موڑلیاجائے جوپروازمیں کوتاہی پیداکررہا ہے۔ایک غیرمسلم اوروہ بھی ہندہ جوکل تک میراماتحت تھااس کوفوری طورپرمجھ پرترقی دیکراس کے ماتحت کام کرنے کاحکم صادرکردیاگیا۔گویامجھ پریہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ گویاتذلیل وتکذیب کا دوراب شروع ہواچاہتاہے اورمیرے احتجاج اوربیباکی نے جومجھے بچپن میں اسکول میں ملاتھا،عجب تماشہ کھڑاکردیا۔مجھے انتہائی معذرت اورافسوس کے ساتھ یہ تاثردیاگیاکہ ،،اوپروالوں،،کامنشاء یہی ہے کہ کچھ ہفتوں تک اس سلسلے کوبرداشت کرناپڑے گا حالانکہ میں تو،،بہت اوپروالے،،ہی کی بندگی کاحق اداکررہاتھا۔ اپنے کام کی اغلاط اورالزامات کے بارے میں دریافت کیا،ان کے سامنے ماضی کے واقعات جن میں ٹھیکیداروں کے انعامات کوٹھکرانے کاسب کوعلم تھا،سالوں کی کمائی دنوں میں حقارت سے ٹھکرادینے سے سبھی آگاہ تھے لیکن انہوں نے شائدیہ فیصلہ کرلیاتھاکہ یہ میرے بچوں کومحض اس لئے محرومی وافلاس کاشکاربناناچاہتے ہیں کہ میں اس مملکت کی خدمت کوبھی عبادت سمجھتاہوں۔اسی لئے یہ خطہ میرے نزدیک ایک مسجد کی مانند مقدس ہے لیکن “اوپروالوں”نے کچھ نہ سنااورمجھے جبراً اسی عہدے پرکام کرنے کوکہاگیااورمیرے انکارپرمجھ کوالگ کرنے کی دھمکی سنادی گئی۔ اس سے پیشتر کہ ان کے چہروں پرباطل کی مسکراہٹ آتی میں نے اپنااستعفیٰ خود تحریر کرکے ان کے منہ پردے مارااوراس میں صاف لکھ دیا:
“میرارزق اوپروالوں سے نہیں بلکہ بہت اوپرسے آتاہے اورکوئی اسے راستے میں کاٹنے کی ہمت نہیں رکھتا۔جس کی بندگی میں کرتاہوں وہی میرارازق ہے اورجوکوئی مجھے رزق کی دھونس دیکراپنی بندگی پرمجبورکرناچاہتاہے میں اس کی خدائی کونمرودکی خدائی سمجھ کرٹھکراتاہوں ان اللہ ھوالرزاق ذوالقوة المتین”۔ میرے اس استعفے کے بعد مجھے دوسری کئی کمپنیوں میں سے بلاوہ آیالیکن دل اب اس قدرپریشان ہوچکاتھاکہ ایک عشرہ سے زائد جس ملک میں گزارتھا وہاں کل کاسورج دیکھنے کی تمنابھی باقی نہیں رہی تھی۔پاکستان کے بارے میں جوحسین تانے بانے بنے ہوئے تھے وہ بھی سراب نظرآرہے تھے۔سوچاکہ اب مغرب کی طرف منہ کرکے خداکی بندگی کاجوعہددن میں کم ازکم پانچ مرتبہ کرتاہوں کیوں نہ دنیاکے مغرب میں جاکراس کااظہارکروں۔آپ میرے استعفیٰ پرمنہ پھلائے بیٹھے تھے ،آپ سے مشورہ کرنے کیلئے ابھی منہ کھولاہی تھا کہ گویا آپ پھٹ پڑے۔ لیکن جب اصولوں کی بات ہوئی تو آپ مات کھاگئے ۔ آپ نے اپنا تبادلہ بہ امرمجبوری اورمصلحت کے تحت قبول کرلیا لیکن مجھے آپ سے ،،ضدی،، اورنجانے اورکیاکیاالقاب سننے کو ملے حالانکہ ارفع مقاصد کیلئے بہت کچھ قربان کرناپڑتاہے۔
مرحوم قائد اعظم کے نام سے کون واقف نہیں جوہندؤں اورانگریزوں کے مجموعی دباؤ اورلالچ کے مقابلے میں پہار کی طرح ڈتے رہے،اپنامقصد کسی قیمت پربیچنے کوتیارنہ ہوئے ۔مسلمان کوچھوڑیئے یہ توتاریخ کے اندربڑاجانبازکردارلے کرآیاہے ۔یہ توعلم دین شہید بن کر رسول اکرمۖ کے نام کی آبروپردیوانہ وار قربان ہوجاتاہے۔آپ کافروں کوہی لے لیں،بھگت سنگھ جوآزادی کی کاطر اپنی جان نچھاورکرگیا۔ہزاروں کیمونسٹوں کودیکھ لیں جوزارِ روس کی بدترین سزائیں بھگتے رہے۔چینی اشتراکیوں کودیکھ لیں جوخاقان چین کی بیس سال تک بدترین اذیتیں سہہ کربالآخر اسے پچھاڑگئے۔مردِ مجاہدسیدعلی گیلانی کوہی دیکھ لیں کہ باوجودضعیف العمری اورساری عمرمصائب میں مبتلاہونے کے ان کے عزائم قابل رشک حدتک جواں ہیںکہ وہ اب تک اپنے ملک وقوم کی آزادی کیلئے ایک لمحہ غافل نہیں رہے۔پچھلے تریسٹھ سالوں سے کشمیری کیسی لازوال قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں کہ دشمن ظلم کرنے کے باوجودبے بس ہوتاجارہا ہے۔انسان کوتواللہ تعالیٰ نے بڑی ایٹمی قوت دی ہے۔وہ توجس چیز سے محبت کرتاہے اس کیلئے سب کچھ کرڈالتاہے۔فرہادبنتاہے توجوئے شیرنکال لاتاہے،رانجھابنتاہے توتاریک جنگلوں میں بھینسوں کے گلے چراتاہے،ایک نازک اندام لڑکی کے روپ میں اپنے مقصد کی خاطر چناب کی تندوتیزلہروں سے لڑجاتا ہے،میں نے توابھی صرف مغرب کارخ کیاتھا۔سعی مسلسل اورپیہم کوشش کاراستہ اختیارکرکے اس فرنگی ملک میں جوکہ ڈھائی صدیاں حکمرانی کرکے اب تک غلامی کے وہ اثرات چھوڑ کرآیاہے جس سے ہم ابھی تک نکل نہیں پائے لیکن کشمیرمیرے دل ونگاہ سے کبھی اوجھل نہیں ہوا۔
بالکل انہی کی مانندتاجرکی صورت میں اس ملک میں داخل ہواہوں۔مجھے یادہے مجھے رخصت کرتے وقت بہت سے دوستوں کی موجودگی میں آپ اپنے جذبات پرقابونہ رکھ سکے تھے جبکہ میرے ذہنی وقلبی دکھ دردکونظرشناس بھانپ گئے تھے۔لیکن ایک انگارہ تھاجسے برف کی دبیزتہوں میں ڈھانپ کررکھ دیاگیاتھالیکن اس کی حدت پھربھی محسوس ہورہی تھی لیکن میں تواس وقت بھی پریشان نہیںتھاکیونکہ کرم شب کی قدروقیمت رات کی تاریکی سے ہی ہوتی ہے اورتاروں کے حسن کاجھومرظلمتِ شب کی سیاہ پیشانی پر ہی کھلتاہے۔چاندکاکنگن رات کی دلہن کوہی میسرآتاہے اوربارش کے قطرے کیلئے تپتی ہوئی زمین کاپیاسا دامن ہی سمندرکے لبریزپیمانے سے زیادہ مستحق طالب اورشائق ہوتاہے۔اپنی کمیابی اوراجنبیت پرمیں کبھی بھی پریشان نہیں ہوا،ہرقیمتی شئے کمیاب اور نادرہوتی ہے اورپھر یہ حدیث توآپ نے کئی مرتبہ پڑھی اورسنی ہوگی کہ:
“ایک وقت مومن کاایمان بچانااپنی مٹھی میں انگارۂ تھامنے کے مترادف ہوگا”۔
اس لئے میں سمجھتاہوں کہ عالمِ اسباب میں سانس کاایک تموج اورذرے کاایک حقیروجودبھی تخلیقِ اسباب اورترتیبِ نتائج میں اپناحصہ اداکرتاہے۔ جس طرح عمل بدکی ایک خراش آئینہ ہستی کودھندلاجاتی ہے اسی طرح کلمہ خیر کاایک بول بھی عالم کے اجتماعی خیر کے ذخیرے میں اضافہ کردیتا ہے اورلوحِ زمانہ میں ریکارڈ ہوکرکبھی نہ کبھی ضرورگونجتا اورمیزانِ نتائج میں اپناوزن دکھاتاہے۔بس ذرابدی کاشکنجہ ڈھیلاپڑنے کی دیر ہے کہ خیر کی کھیتی لہلہااٹھے گی،نیکی کااگر ایک ذرہ بھی معاشرے کے اجتماعی ضمیر میں موجودہوگاتووقت آنے پرضرورگلستانِ رعنابن کرنمودارہوگا۔بس اک آرزوبدلنے کی دیرہے!میری شدیدخواہش ہے کہ میں بھی کشمیرکے ان لالہ زارکوپنی آنکھوں سے بوسے دوں جہاں میرے آباؤ اجدادکئی مختلف قبرستانوں میں آسودہ خاک ہیں۔اب دیکھیں یہ آرزوکب پوری ہوتی ہے،،۔

نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزوبدلی
میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں

اپنا تبصرہ بھیجیں