امیرالمؤمنین عمرفاروق نے ایک مرتبہ شدیدسرداورتاریک رات میں ایک عورت اوراس کے تین بچوں کوروتے ہوئے دیکھا۔ کئی روز سے بھوکے بچے اپنی ماں سے کچھ کھانے کو مانگ رہے تھے۔امیرالمؤمنین اس عورت کے پاس گئے اوراس سے اس حالت کی بابت دریافت کرنا چاہا ۔عورت نے کہا”میری اس حالت زار کاذمہ دار عمربن خطاب ہے۔
حضرت عمرنے فرمایا”کوئی ہے جس نے عمرکوتمہاری حالت سے آگاہ کیاہو؟”
عورت نے جواب دیا”ہماراحکمران ہوکروہ ہم سے غافل رہے گا۔ یہ کیسا حکمران ہے جس کواپنی رعایا کی کچھ خبرنہیں ؟”
یہ جواب سن کرعمرفاروق نے دن ہونے کابھی انتظار نہ کیا اوراسی رات بیت المال پہنچے۔ آٹے کی بوری،گھی اورشہد کاایک ڈبہ نکالااورچوکیدار سے فرمایاکہ سامان کو میری پیٹھ پر لاد دو۔ چوکیدار نے سامان اپنی پیٹھ پراٹھانے کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا:” کیا قیامت کے روز تم میرے گناہوں کابوجھ اٹھاؤگے؟ حضرت عمر پیٹھ پر سامان لادے اس عورت کے گھرپہنچے۔ کھاناتیارہوگیا توان بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کھاناکھلایا۔ یہ منظر دیکھ کر ان یتیم بچوں کی ماں نے کہا”قسم اللہ کی !تم عمر سے کہیں زیادہ منصب خلافت کے اہل ہو” حضرت عمر نے فرمایا”کل عمر کے پاس جانا میں تمہارے معاملات کے متعلق اس سے سفارش کروں گا۔ اگلے روز وہ عورت دربار خلافت پہنچ گئی۔ وہاں اس نے اپنے محسن کو امیر المؤمنین کی جگہ پربیٹھے دیکھاتواس کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ اس نے عمرفاروق سے معافی کی درخواست کی۔ حضرت عمر نے فرمایا”عمر اس وقت تک خود کومعاف نہ کرے گا جب تک تواپنی شکایت میرے ہاتھ بیچ نہ دے۔” اس عورت کے منع کرنے کے باوجود آپ نے حضرت علی اورحضرت ابن مسعود کی گواہی میں اس عورت کی شکایت اپنے مال سے چھ سو درہم کے عوض خریدلی پھراس کی ایک تحریر قلمبند کرائی اوردونوں اصحاب سے فرمایا کہ”جب میں اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں تواس تحریر کومیرے کفن میں رکھ دینا تاکہ میں اس کو لے کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں۔”(ابن کثیر)
اے میرے خدا!کہاں چلے گئے ہیں وہ سب لوگ؟
آج ہم دنیابھرمیں اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ذلیل وخوار ہورہے ہیں۔ غربت امیروں کی کالی دولت کی طرح بڑھتی جارہی ہے۔ امیرترین حکمرانوں نے ہمیں دشمنان اسلام کی چوکھٹ کابھکاری بنا دیا ہے۔ اس بیوہ نے کہا”عمر کیساحکمران ہے جس کواپنی رعایا کی کچھ خبرنہیں” اس ایک جملے سے آپ کواپنی دنیا اورآخرت تباہ ہوتی ہوئی نظر آنے لگی۔” سب سے بڑی دولت اللہ کاخوف ہے۔ اسلامی ریاست پاکستان کے حکمرانوں کوسنہرے ادوار کے حکمرانوں کاایک فیصد خوف بھی نصیب ہوجائے تواس ملک کی تقدیر بدل جائے۔ غریب خودکشی کی موت سے بچ جائیں۔ ملک بھرمیں مزدوروں کادن منایاگیا۔غریبوں کے بنیادی حقوق ، ضروریات زندگی ،آنسوؤں اوران کی دم توڑتی ہوئی سسکیوں کاعلم لہرایا گیا۔ حکمرانوں نے سیاسی روایت کوبرقرار رکھتے ہوئے اعلانات، تقاریر اور عہدوپیمان کارٹّا بھی لگایا۔ لوگ بھوک اور بیماری سے مررہے ہیں۔ہم وطنوں کی حالت زار حلق سے نوالہ نہیں اترتا۔
دل خون کے آنسو رو رہا ہے فیض نے کہاتھا۔
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بے کس
جن کے اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کر ابلتی ہے
نہ پوچھ اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
میاں برادران ججوں کی بحالی کیلئے نکلے توسرخروہوئے اورآج اپنے اس وعدے کی تکمیل پربہت نازاں ہیں توکیاوہ اپنا وعدہ پوراہونے کے بعد غریب عوام کوسستا انصاف دلانے کے بھی ذمہ دار نہیں؟ روٹی کپڑا اور مکان آصف زرداری کی پارٹی کانعرہ ہے جس کی بناء پرانہیںحکومت ملی اورملک کے سب سے بڑے منصب پر بھی فائز ہوئے، توکیاوہ اپنی کھربوں کی دولت میں سے ملک کے لاکھوں غریبوں کوروٹی ،کپڑا اور مکان دلانے کے ذمہ دار ہیں یانہیں؟دولت سے دنیا توخریدی جاسکتی ہے لیکن ایک غریب کے دل سے نکلی ہوئی دعاکامول نہیں لگایاجا سکتا لیکن یہ کیا،وہ تواپنی بیوی کے زیورات کابھی مطالبہ کررہے ہیں ۔ کسی نے کہاتھا کہ اللہ کودیکھنا ہے تویتیم کے چہرے کی مسکان میں دیکھ۔” یتیم کوپالنے والی بھی ذات ہے اوراس کاوسیلہ بن جانابھی اسی رب کی توفیق ہے۔ دولت نے کبھی کسی کو سکون نہیں دیا۔تاریخ گواہ ہے کہ بادشاہوں نے بادشاہی چھوڑکردرویشی توقبول کی ہے لیکن کسی نے درویشی چھوڑ کربادشاہی قبول نہیں کی۔
اس جدیدصدی کی ہولناک صورتحال کوقیامت کی نشانیوں سے تعبیرکیاجاتاہے۔امریکہ کی ہارورڈیونیورسٹی کی ایک طالبہ نے روحانیت کے موضوع پرایک تقریر میں کہا تھا ”ضروری نہیں کہ دنیامیں پیش آنے والے یہ المناک حالات قیامت کی نشانیاں ہوں ۔ عبرتناک آزمائشوںسے خدا اپنے بندوں کواس جہاں میں آنے کابھولاہوا مقصد یاد کرانا چاہتے ہیں۔اس کے بندے خود غرض ، سنگدل، بے خوف اور دنیادار ہوچکے ہیں۔ فریب اور عارضی زندگی کااسیر ہورہے ہیں۔اپنی خودی کوفراموش کرنے والے قیامت کوموردالزام ٹھہرارہے ہیں۔” غریبوں کوخدایادرہتاہے۔ شب وروزکی انتھک محنت اورمزدوری کے بعد رات کوجب کھردری چارپائی یاچٹائی پرنڈھال ہوکر گرتے ہیں توہرکراہ پر”اللہ” کو پکارتے ہیں ۔ نبیﷺ کی غریبی پرقربان کہ آپ ﷺکے صدقے ہی غریب کامان ہے۔ حضرت علامہ اقبال نے مزدوروں کاکبھی ”ایک دن ” نہیں منایاتھا۔ وہ ان کی حقیقت کوہرروز دیکھتے تھے۔ مشہورکلام ”شکوہ جوابِ شکوہ”میں اللہ امیروں سے ہمکلام ہیں۔
جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب
زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب
پردہ رکھتاہے اگر کوئی تمہار ا تو غریب
امراء نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بیضا غرباء کے دم سے
حضرت فاروقؓ کاواقعہ بیان کرتے ہوئے میاں شہباز شریف کاوہ جملہ یاد آرہاہے۔ ان دنوں وہ موذی مرض کی وجہ سے نیویارک میں مقیم تھے۔ آپریشن کے بعدحالت بے ہوشی میں انگریزی میں کچھ جملے کہے تھے جوان کے قریب کھڑی امریکی نرس نے نوٹ کرلئے تھے۔ اس نے بتایا کہ مسٹرشریف پاکستان کے لوگوں سے مخاطب تھے۔ ان جملوں میں غریب عوام کی خدمت کادرد تھا۔ جو سوچ انسان کے شعور اور لاشعورمیں گھر کر جائے وہ حالت بے ہوشی میں بھی زبان پرآجاتی ہے۔ میاں شہباز شریف کوآج بھی یادہوگاکہ صحت مندہونے کے بعد انہوں نے نیویارک میں ہی اپنی ایک تقریرکے دوران حضرت عمرؓفاروق کے مذکور واقعہ کاحوالہ دیتے ہوئے کہا تھاکہ اللہ نے انہیں صحت عطاکی تووہ اپنی باقی زندگی اپنے غریبوں کی خدمت میں گزاردیں گے۔یقینا انہیں اپنا یہ وعدہ یاد ہو گالیکن سیلاب سے متاثرین کیوں دہائی دے رہے ہیں؟
Load/Hide Comments