Threshold of memories

یادوں کی دہلیز

:Share

5ستمبر…میری ماں کی48ویں برسی کا مہینہ!اس دفعہ بھی یہ ماہ اوردن لندن میں خاموشی سے گزرگئے۔پہلے یہ دن اپنے آبائی شہرفیصل آباد میں گزاراتاتھا،گھرکے وسیع صحن میں جہاں میری ماں خیرات،نیازکی دیگیں اورقربانی کاگوشت بانٹاکرتی تھی،اب وہاں پراس کی برسی کی دیگیں محلہ میں برتائی جاتی ہیں۔سامنے برآمدہ میں محلہ کی عورتیں قرآن خوانی اور کھجورکی گٹھلیاں پڑھتی تھیں اوربعدمیں دعاکے بعدکھانے کے دوران میری ماں کی بے شمارنیکیوں کے ذکرکے ساتھ ایک لمبی آہ بھرکرایک اور سال گزرجانے کااعلان ہوجاتاہے۔میں صبح سویرے قبرستان میں اپنی والدہ محترمہ سے ملاقات کرکے دیگردوسرے عزیزواقارب کی قبروں پرپھولوں کی چادریں چڑھاکرگویااپنے دل کی تسلی کیلئےہر سال یہ عمل دہراتاتھااورواپس آنے سے پہلے اس خاموش مٹی کی ڈھیری کے پاس کچھ وقت کیلئےبیٹھ کر اپنی تمام دل کی باتیں کرنے بیٹھ جاتاتھا۔میں اسے اب بھی اپنے ارد گردڈھونڈتا ہوں،چپکے چپکے پکارتاہوں مگروہ مجھے کہیں نظرنہیں آتی۔پیروارث شاہ نے کیاسچ کہاہے۔
ہیرآکھیاجوگیاجھوٹھ آکھیں
کون رٹھرے یارمناوندائے
ایہاکوئی نہ ملیامیں ڈھونڈ تھکی
جیہڑاں گیاں نوں موڑلیاوندائے
بھلاموئے تے وچھڑے کون میلے
اینویں جھوٹرالوک دلاواندائے
پہلے نہیں مانتاتھامگرآج پانچ دہائیوں کے بعدمیں اس حقیقت کومان چکاہوں کہ موئے اوروچھڑے کبھی نہیں ملتے،ان کاانتظار فضول ہے،انہیں ڈھونڈنا اوران کی ہمہ وقت آس رکھنا فضول ہے مگرعجیب بات کہ اس حقیقت کودل آج بھی نہیں مانتا۔

یہی وجہ ہے کہ ہرسال ماہِ ستمبرکی پانچ تاریخ مجھے میرے تنہااوربے دعاہونے کااحساس دلاتی ہے۔مجھے محسوس ہوتاہے کہ اب وہ ہستی اورمحترم شخصیت میری دنیاسے اٹھ گئی جس کے ہوتے ہوئے دنیابھی میری تھی اوردنیاکے یقین بھی میرے تھے۔اب میری پشت خالی ہے جس پرمفادات اورلین دین سے بھرے رشتوں کے تازیانے برستے رہتے ہیں،میں گھبرا کراسے یادکرتاہوں جس کے ہوتے ہوئے میں بھی سلامت تھااورمیری شناخت بھی!

میری ماں جس نے مجھے اپنی محبت کے مکتب میں اسباق زندگی اوررموزِزندگی کی آگہی اورشعوردیا۔جس نے انسانوں سے محبت میری گھٹی میں ڈالی،خلقِ خدامیری تربیت کاحصہ بنائی، انسانوں کوجانچنے اورپرکھنے کامعیارجاہ وحشم نہیں اعلیٰ انسانی صفات کوٹھہرایا۔حلال وحرام کے درمیان فرق کی وضاحت سمجھائی،رشتوں کی اہمیت اورتعلقات کونبھانے کاطریق میری فطرت کاجزوبنایاجوقدم قدم پرمیری رہبرومعاون رہی۔تمام عمرمیں اس کی انگلی تھام کرچلتارہااوروہ مجھے چلاتی رہی۔وہ جوغریب و پسما ندہ رشتہ داروں بوڑھی میلی مائیوں اورحاجت مندوں کو ہتھیلی کاچھالہ بنائے رکھتی تھی،وہ جسے عزت کرنے اورکروانے کا سلیقہ آتاتھا،جس کی ہمدردطبیعت ہمیشہ خدمتِ خلق کے بہانے ڈھونڈتی تھی،جب وہ دنیاسے رخصت ہوئی توسرخ گلابوں کے رنگ میں مسکراتی ہوئی سب کوچھوڑکر اپنی دائمی منزل کی طرف چل دیں،دعائیں ناتواں ہونے لگیں ،حروف سہم سے گئے،رشتے بے وجوداور شرمندہ دکھائی دینے لگے اور شناختیں نامعتبرہونے لگیں۔وہ درودیوارجہاں قدم قدم پراپنے ہونے کی گواہیاں ملاکرتی تھیں،اجنبی لگنے لگے اورشہر فیصل آباد جس کی گلیاں سڑکیں اورفضائیں زندگی کا ناگزیرحصہ تھیں، غیرہونے لگیں۔مجھے لگاکسی نے مجھے اچانک زورداردھکادیکرکسی سمندرمیں اچھال دیاہو! کسی ایسے منطقے پر……جہاں ہرطرف دھوپ ہی دھوپ ہوکہیں سایہ نظرنہ آتاہو،وہ میراگھرجہاں میں اپنی ماں کی محبت کی اخلاص بھری دعاؤں کے نادرکھلونوں کے ساتھ اس کی بے لوث ممتاکی نرم چادریں اوڑھ کربے فکری کی نیندسویاکرتاتھا،اس گھرکویکایک آگ لگ گئی،اس میں میرابچپن میرے خواب گھروندے،میرا کھیل کاساراسامان،مامتابھری لوریاں سب کچھ جل کرراکھ ہوگیااورمیں اس گھرکے آنگن میں کھڑاتنہاسوچتارہااب کیاہوگا؟اس کی تصویراپنی مہربان شبنمی مسکراہٹ سے مجھے دیکھتی رہی!!وہ گھرجومجھ سے1976ءمیں چھن گیاتھااس کی راکھ اب بھی میرے دل کے پلوسے بندھی ہے جس سے اس کی مامتاکی بھینی بھینی مہک اڑتی ہے جومیرایقین تھی۔

میری ماں!خدااوراس کی کائناتوں میں چھپے محبت کے بھیدوں کوجاننے کاواحدذریعہ تھی۔خدا،ماں اورمحبت کی تکون میں گم رہنے والااپنی ماں کایہ اداس بیٹاآج بھی اس تکون سے اس گمشدہ کڑی کوڈھونڈنے کیلئےجان کو بیمار کئے رکھتا ہے جوپانچ دہائیوں قبل بدنصیبی کے ایک بھاری پل نے اس سے چھین لیاتھا۔اس کی کائناتوں کاجغرافیہ درہم برہم کردیاتھا،وہ جغرافیہ آج بھی درہم برہم ہے کائنات نامکمل اورادھوری ہے حالانکہ محبت اورخدا کی موجودگی پراس کاایمان بھی کامل ہے مگرماں کانہ ہونا ایک ایسی مسلسل کمی ہے جوجان کوآزارکی طرح لگی ہوئی ہے۔مائیں اپنی اولاد کیلئےبہت اہم ہوتی ہیں چاہے وہ جیسی بھی ہوں مگرمائیں اولاد کیلئےکتنی ضروری ہوتی ہیں اس کا اندازہ ان کے جانے کے بعدہوتاہے اورپتہ چلتاہے کہ ماں توآکسیجن کانام ہے جس کے بغیرانسان حبس اورگھٹن کے مارے اندرسے مرنے لگتاہے اورپھرمرتاہی چلاجاتاہے۔

میری سادہ دل خوبصورت نیک اور مہربان ماں،وہ سفید کے ٹی کی شلوار اور سفید ٹوپی والے برقعے والی محترم عورت جس کی شخصیت کاحسن اورپاکیزگی اس کے گرد نورکے ہالے کی طرح رہتی تھی جوتمام عمر بناوٹ تضع اوردنیاوی آلائشوں سے دور رہی،جس نے خدااورخلقِ خداکوعجزانکساری،رحم محبت اورخدمت کے ذریعے پہچانا۔جوتکبرظلم،زیادتی اور”میں”سے یکسر انجان تھی اورہمیں بھی ان فضولیات سے دوررہنے کادرس دیاکرتی تھی۔جس نے اعلیٰ انسانی اقدار،نیکی محبت اورخدمت کاسبق ہمیں اٹھتے بیٹھتے دیا،جس نے برائی سے نفرت اوراچھائی سے محبت کاشعورہماری فطرت کاحصہ بنادیا۔وہ عظیم الشان خاتون جب اس دنیاسے رخصت ہوئی تواپنے پیچھے ایک ایسابے انتہاخلاءچھوڑگئی جوبعد میں کبھی بھی پُرنہیں ہوااوراس امرکاعلم بھی تجربہ سے ہواکہ ماؤں اورمحبتوں کاخلاءکبھی بھرانہیں کرتا،یہ ہماری غلط فہمیاں ہیں جواس معاملے میں ہمیں دھوکے پردھوکہ دیتے چلی جاتیں ہیں،سوایساہی ہوا۔ان گزرے سالوں میں ماں توکیاکہیں ماں کی شبیہ کابھی گمان نہ گزراجہاں میں اپنی اداسی ڈھیر کرتااوراس جدائی کاافسانہ رقم کرتاجس نے میرے اندرحشراٹھارکھاتھا!

سواے میری پیاری ماں!مجھے بتائیں کیاکروں؟آپ یادآتی ہیں توحُسن،نیکی اورمحبت یادآتی ہے اوروہ مسلسل کمی جس نے روح کو بے سکون کررکھاہے، ہرسال ماہِ ستمبرمیری آنکھوں میں پانی اوردل میں نمی چھوڑتاہے۔ہردن مجھے آپ کی یادکی دہلیزوں پر ننگے پاؤں کھڑاہوناپڑتاہے…میں سوچتاہوں آخر اس خوبصورت اورمہربان عورت کومیں بھول کیوں نہیں جاتا؟جوآج سے 48سال قبل زندگی کے رنگین چوکھٹے سے نکل کرمٹی کی ایک سونی ڈھیری میں سماگئی تھی اورحقیقت سے واہمہ ہوگئی تھی۔اس کی نرم روئی میرے دل کی روئی کی طرح کیوں دھنکتی رہتی ہے؟اداسی مجھے ہمہ وقت اپنے دل میں بیٹھی کیوں نظرآتی ہے؟

یہ ایک عجیب سوال ہے جو مجھ سے اب تک حل نہیں ہوا اور1976ء سے2024ء آگیاہے۔یہی وجہ ہے کہ میں اپنی جنتی ماں سے کہناچاہتا ہوں…… ……ماں!اب میں آپ کو اس قدریادنہیں کرسکتا،اس قدراداس نہیں ہوسکتاکیونکہ مجھے زندگی میں اوربھی بہت سے کام کرناہیں۔ میرے پوتے پوتیاں اورصباءبھی مجھ سے آپ کے بارے میں بے شمار سوالات کرتی ہیں،شایدمیرے جوابات کی روشنی میں خودکوآپ جیسا بنناچاہتے ہیں۔ان سب کی شدید خواہش ہے کہ آپ ان کے خواب میں آئیں ان سے بے شمارباتیں کریں۔ان کی اداسی دور کریں،وہ اپنے دل کی تمام باتیں حسرتیں صرف آپ سے شیئر کرنا چاہتے ہیں،اس روتی بسورتی دنیامیں ہنس کھیل کر جینا چاہتے ہیں اورمیری پیاری ماں!مجھے زندگی میں اوربھی بہت سے کام کرناہیں، کچھ لکھنا پڑھنا ہے،دنیاداری کرنی ہے اور سب سے بڑی بات کہ مجھے جیناہے زندہ ونظر آنے والے دوسرے کامیاب لوگوں کی طرح… آپ کی یادکا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مجھے ہنسنے کھیلنے نہیں دیتی،فضاکی حقیقت اورجدائی کی کہانی سناکرہرایسے کام سے روکتی رہتی ہے جودنیاداری اور کامیابی کیلئےازحد ضروری ہے۔لہٰذا میری ماں،میری اچھی ماں مجھے دعا دو،میں تمہیں بھول جاؤں۔مجھے پتہ ہے کہ تم مجھے یہ بددعاکبھی نہیں دوگی!
کماکے دولت میں ماں کواتنابھی نہ دے پایا
جتنے پیسوں سے وہ میراروزصدقہ اتاراکرتی تھی

اپنا تبصرہ بھیجیں