یہ تحریرکوئی محض سرخیوں کامجموعہ نہیں؛یہ اُن زخمیدہ داستانوں کاموجزن عکس ہے جوسرِنوشتِ دوہمسایہ اقوام کی رگِ جاں میں ابھرکربولیں اوریہ تحریرمحض خبروں کامجموعہ بھی نہیں،بلکہ دو ہمسایہ اقوام کی تاریخ،قربانیوں،اور آزمائشوں کاعمیق عکس ہے۔ تاریخِ معاصرنے دونوں اطراف کے دِلوں میں مہمان نوازی اورشبِ ہجرت کے کریم لمحات ثبت کیے ہیں،اورساتھ ہی ایسے تلخ حادثات بھی رقم کیے ہیں جوسالِ تاریخ کی زنجیروں میں دہراتے گئے۔تاریخِ معاصرنے ہمیں یہ بھی دکھایاکہ کبھی مہمان نوازی کے رشتے قائم ہوئے،کبھی سرحدوں پرتلخیاں اُبھریں،اوربعض اوقات بیرونی سازشوں نے بھی دلوں کوزخمی کیا۔اسلام نے ہمیں بھائی چارے،عفوودرگزر،اورانصاف کادرس دیا؛ یہی بنیادی شریعتِ انسانی ہمیں اس عہدِامن کی طرف بلاتی ہے۔عدل،اورانصاف کایہی درس آج استنبول کی میزپرمذاکرات کی اہمیت کواجاگر کرتا ہے۔
ہم اس تحریرمیں امن کا پرچم اٹھاکرکہتے ہیں جوقومیں کل تک ایک دوسرے کے گھرکی چھت تلے انسانی ہمدردی کاخراج اداکیاکرتی تھیں،آج جذباتِ زخمیدہ میں جب کوئی بیان بلندہوتا ہے تواُس کاصلہ تشددبن کرسامنے آتاہےتویہ دنیاکیلئے شرمندگی بھی ہے اورہمارے لیے عبرت بھی۔تاریخی زاویہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیاکی پیچیدہ داستان میں ذاتی قربانیوں اور ملی آزمائشوں کے ساتھ ساتھ بیرونی اثرات اورعلاقائی سیاست نے بھی دلوں کوکھرچ ڈالا۔اسلامی تقاضہ یہ ہے کہ جب خون بہاہو،رنج وغم موجودہوں،توفاتحہ ودعاکے ساتھ انصاف کی راہیں تلاش کی جائیں؛نہ کہ انتقام کے احکامات کوعظمت سمجھاجائے۔ اسی لیے یہ جلسۂ کلام اورمذاکراتی عمل ایک موقع ہے—زبانِ حکمت،قانونِ بین الاقوامی،اورشریعتِ انسانی کے امتزاج سے وہ راستے تلاش کیے جائیں جوخون ریزی کونہ صرف روکیں بلکہ اعتماد سازی کازینہ بھی بنیں۔
یہ وقتِ فکری اوراخلاقی امتحان ہے۔جہاں ایک طرف دونوں ممالک کی افواج اورپولیس نے قربانی دی،وہاں ہمیں یادرکھنا ہے کہ خلوص،صبراورامن کے اصولوں کی پاسداری نہایت ضروری ہے۔دشمنی کے زخم گہرے ہیں،مگرقرآن وسنت کی روشنی میں مذاکرات کوامن،انصاف،اورانسانی ہمدردی کے محور پرآگے بڑھاناممکن ہے۔ اسلام نے ہمیشہ خونریزی،انتقام اور پراکسی وارکی مخالفت کی،اورامن،بھائی چارہ،اورصبرکی تلقین کی۔قرآن کریم میں ارشادہے اوران کے ساتھ حسن سلوک کرواورامن قائم کرو۔( النساء:125)
اس سلسلے میں استنبول مذاکرات ایک موقع ہیں کہ دونوں ممالک اپنے تاریخی تعلقات اورقربانیوں کویادرکھیں،اورامن، شفافیت،اوراعتمادسازی کی راہ اپنائیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان اورافغانستان نے دوحہ میں مذاکرات کے بعدفوری سیزفائرپراتفاق کیاہے،جواس سے پہلے ہفتے بھرشدیدسرحدی جھڑپوں کے بعدہوا،جودونوں ممالک کے درمیان2021ءکے بعد سب سے بدترین تصادم تھے۔
پاکستانی فوج نے مطالبہ کیاکہ افغان سرزمین پرکارروائی کرنے والے عسکریت پسندوں کوکابل قابوکرے۔اس ضمن میں عسکری اورپولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں اورزخمی ہوناسامنے آیا۔اس صورت حال میں”ہماری افواج اورپولیس اپنی جانیں قربان کررہی ہیں؛ہم چین سے سوتے ہیں کیونکہ آپ کے محافظ جاگ رہے ہوتے ہیں”والاتصورایک دفاعی ماحول کی تمثیل بن جاتا ہے،جہاں جانوں کی قربانی سلامتی کاحصہ شمارکی جاتی ہے۔یہ فقرہ احساسِ ذمہ داری اورسرحدی سلامتی کے جذبات کاصوتی عکس ہے۔اس بیان کودوجہات سے سمجھناضروری ہے۔ایک وہ مملکت کااندرونی ہیروِخیال،جواپنی حفاظت کیلئےاپنی جان وقف کردیتاہے؛دوسراوہ عوامی عمل،جوسرحدی تناؤمیں ریاست کے دفاعی اقدامات کوجائزقراردیتے ہوئے اپنی سب سے قیمتی متاع اپنی زندگی قربان کردیتے ہیں۔
عسکری اورپولیس اہلکاروں کی شہادت اورقربانی کاحوالہ محض جملوں کانہیں—یہ حالیہ واقعات کی بربادی اورفریقین کے درمیان جھڑپوں کانتیجہ ہے، جنہوں نے تشویش کوبڑھایا۔بین الاقوامی اورمقامی خبریں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ حالیہ سرحدی کشمکش میں مرنے والے اورزخمی ہوئے افرادہوئے ہیں اورمذاکراتِ سلامتی(دوحہ اوربعدازاں استنبول)اسی پس منظرمیں ہوئے۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کی ایک دستاویزکے مطابق دسمبر2024کے وقت پاکستان میں افغان باشندگان کی تعداددوکروڑآٹھ لاکھ (2٫8 ملین)سے زائدتھی نیزجنوری 2025 تک اُس میں رجسٹرڈمہاجرین اورریفیوجی جیسا درجے میں افغان باشندگان شامل تھے،جن کی تعدادتقریباً3ملین تھی۔گویاپاکستان کایہ بیانیہ کہ اس وقت 40لاکھ یااس سے کم افغان پاکستان میں موجود ہیں حالانکہ دقیق تعدادمختلف ہے۔یہاں مہمان نوازی کی طویل مدت(چاردہائیاں)کاحوالہ بھی دستاویزمیں موجودہے کہ پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کیلئےطویل عرصے سے میزبانی فراہم کی ہے۔
پاکستان کے وزیردفاع کایہ دکھ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سردجنگ،سوویت یلغار،بین الاقوامی بحران،اورحالیہ دہائیوں کے نتائج کے طورپرلاکھوں افغان پاکستان میں آئے”ہم نے افغانستان کے لوگوں کی40برس مہمان نوازی کی…40لاکھ یا اس سے کچھ کم افغان یہاں بیٹھے ہیں…ان کی تین چارنسلیں یہاں جوان ہوئیں…جن لوگوں سے ہم دوحہ میں بات کررہے تھے،وہ سارے پاکستان میں ہی جوان ہوئے ہیں”۔یہ بیان حقائق کی سمت تاریخی یاددہانی اوراخلاقی الزامات کاامتزاج ہے کہ پاکستان نے طویل عرصہ تک افغان مہاجرین کی میزبانی کی—اعدادو شمارکاحوالہ دینااس لئے ضروری ہے کہ پاکستان جیسے ملک کی ایسی قربانی تاریخ میں کہیں بھی میسرنہیں۔
اس کلام میں دوتہذیبی نکات پوشیدہ ہیں—اول:مہمان نوازی کاتاریخی قرضہ؛دوم:وہ اقتصادی وسماجی دباؤجس سے میزبان قوم محسوس کرتی ہے کہ وسائل اورسلامتی پُچھلے تناسب کے تحت متاثرہورہی ہے۔بیانیہ میں یہ بھی شکوہ ہے کہ جن لوگوں کی مہمان نوازی کی گئی،وہی بعض جگہوں پرخلافِ سلامتی سرگرمیوں کامحورٹھہرے اورجس کے بارہاشواہد افغان طالبان حکومت کوبھی فراہم کئے گئے—طالبان کاان تمام احسانات کویکسرمستردکردینے کی پالیسی اس الزام کی سختی وجہِ بحث اورمذاکرات کاباعث بنی۔
دوحہ مذاکرات کے دوران پاکستان نے تمام مصدقہ شواہدسب کے سامنے رکھ دیئے کہ افغان سرزمین سے پاکستان میں حملے کئے جارہے ہیں یعنی مہمان نوازی کے پسِ منظرمیں«امن و امان کی خلاف ورزیاں»بھی ہورہی ہیں۔اس تناظرمیں سوال اٹھایاگیاہے:اگرایک قوم نے مہمان نوازی کی ہے،پھراس کے خلاف دہشتگردی کیسے ہوسکتی ہے؟یہ تمام ناقابل تردید شواہد اس اخلاقی اورعملی تضادکی نشاندہی کرتے ہیں،کہ مہمان نوازی کاحق دفاعی تشویش سے ٹکرارہاہے جس کو روکنے کیلئے پاکستان کوگراں قدرجانی ومالی قربانیاں دینی پڑرہی ہیں۔
ان حالات میں پاکستانی قوم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتاکہ جس قوم نے آپ کی اتنی مہمان نوازی کی ہو،آپ اس کے خلاف دہشتگردی کوسپورٹ کیوں کر رہے ہیں اوروہ بھی پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی پراکسی کے طورپراستعمال ہورہے ہیں۔وہ بھارت جوحال ہی میں پاکستان کے ہاتھوں بری طرح ہزیمت کاشکارہوکر اقوام عالم میں اپناچہرہ چھپارہاہے،وہ اب افغان طالبان کوبدلہ کیلئے اپنے پراکسی کے طورپراستعمال کررہا ہے۔
یہ سوال اخلاقی اورنفسیاتی دونوں سطحوں پرکھڑاہے،مہمان نوازی کاتصورایک تہذیبی فرض ہے،اوراسی تہذیب کے اندر قدیم احسان کااوربطورمسلمان قرآنی نصوص کے مطابق اس بات کامتقاضی ہوتاہے کہ احسان کابدلہ ماسوائے احسان کے اورکچھ نہیں ہوتامگربین الاقوامی سیاست میں احسان اورجغرافیہ کے بیچ پیچیدہ مفادات ہلتے رہتے ہیں۔حقائق کی روشنی میں پاکستانی قیادت نے بارہاکہاکہ افغان سرزمین سے عسکری کارروائیاں پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں کامنبع ہیں؛کابل نے تردیدکی یا وضاحتیں پیش کیں۔یہی تنازع مذاکرات کی بنیادرہا۔اس نکتے کومحض اخلاقی سوال کہہ دینا آسان ہے،مگرعملی دنیامیں یہ الزام جنگ اورامن کی کسوٹی بن چکاہےجس کی لپیٹ میں سیاسی بیانات اورفوجی کارروائیاں جاری ہیں۔
اس سے زیادہ دکھ کی بات کیاہوسکتی ہے۔افغانستان ہمارے خلاف بھارت کی پراکسی کے طورپرکام کررہاہے۔یہ الزام سیاسی ردیفِ زبان میں طاقتوراور خطرناک بیانیہ ہے۔ہمسائے پر بیرونی قوتوں کے پراکسی ہونے کے مضبوط شواہد،جس کا نشانہ علاقائی جغرافیہ اورتاریخ بنتاہے۔ایسے بیانات سفارتی سطح پرکشیدگی میں اضافہ کرتے ہیں۔
پاکستانی وزیردفاع کایہ بیان”افغان مہاجرین نے روزگاراورکاروبارپرقبضہ کیاہواہے…ہماراصرف ایک ایجنڈا ہونا چاہیے کہ ہم اخوت کے ساتھ ہمسائے کے ساتھ رہیں،پچھلے4،5روزسے کوئی واقعہ رونمانہیں ہوا…اگرمذاکرات سے معاملات طے نہیں پاتے توپھرافغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے”۔ یہ جملہ ایک ہی بیان میں دومتضادکیفیتیں رکھتا ہے۔یہ سماجی اقتصادی شکایت اورزمینی حقائق کی بنیادپرایک انتباہ بھی ہے۔
حالیہ وقفے میں دوحہ میں طے پائے ہوئے سیزفائرکے بعد(اوسطاً)چندروزتک بڑے واقعات کی اطلاعات کم تھیں،اوروزیر دفاع نے بھی چارپانچ روزکے سکوت کی طرف اشارہ کیا؛مگر ساتھ ہی انہوں نے مذاکرات ناکام رہنے کی صورت میں «کھلی جنگ» کاراستہ کھلارہنے کی دھمکی دی ہے۔کیاہی بہترہوتا اگر اخوت اسلامی کانعرہ کلامی استعارہ نہ رہے بلکہ اس کیلئے معاشی شفافیت،روزگارکے مواقع میں مساوات اورسرحدی تجارتی معاہدوں کی اہمیت پرزوردے کریہ سمجھایاجائے کہ امن کے لفظی معاہدے جذباتی سطح پردیرپانہیں رہتے،ان کیلئے صدقِ دل سے دوطرفہ عملدرآمدضروری ہے جبکہ افغانستان یہ بھی جانتاہے کہ وہ ایک لینڈلاک ملک ہے اوراس کامعاشی،معاشرتی،اخلاقی اوراقتصادی دارومدارپاکستانی سرزمین سے جڑاہواہے۔ان حالات میں بھارت کی پراکسی بن کرپاکستان پردباؤڈالنے کی بلیک میلنگ پالیسی کن خطرات سے دوچارکرسکتی ہے۔
پاکستان اورافغانستان کے مابین شدیدسرحدی جھڑپوں کے بعد،ایک فوری سیزفائرکامعاہدہ دوحہ(قطر)میں طے پایا۔اس کےفوراًبعد، فریقین نے استنبول میں دوسرادورشروع کرنے کافیصلہ کیاتاکہ معاہدے کے نفاذکاطریقہ کار،نگرانی کانظام،اور دیرپاامن کاڈھانچہ وضع کیاجائے۔ترک میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس کامقصدصرف مذاکراتی نشست نہیں بلکہ عملی امن کاآغاز تھاجہاں نمٹنے کیلئےتین مرکزی پوائنٹس پرگفتگوکی گئی۔
دوحہ معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے یہ عہدکیاتھاکہ وہ ایک دوسرے کی سرزمین کااحترام کریں گے،اورایک دوسرے کے خلاف عسکری کارروائی یاحمایت نہیں کریں گے۔اس پس منظرمیں پاکستان نے براہِ راست افغانستان کوبھارت کی پراکسی کے طور پر کام کرنے کاالزام تونہیں دیامگرپاکستان ایسی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتاہے جن کو بیرونی طاقت کی معاونت کہاجاتاہے۔اس طرح یہ بیان«سب سے زیادہ دکھ کی بات»کاتناظراختیارکرتاہے ،جس میں مہمان نوازی کاتقابل تحفظاتی الزامات سے کیاجاتاہے۔
خواجہ آصف نے استنبول مذاکرات کے موقع پرخبردارکیاکہ اگرمذاکرات ناکام ہوئے تو«کھلی جنگ»کاراستہ کھلاہے۔نیز روزگار،کاروباراورمہاجرین کے معاملات نے سرحدی کشیدگی میں حصہ لیاہے۔اگرچہ دستاویزروزگارقبضے کامخصوص اعدادوشمارنہیں دیتی،مگر«کاروبارپرقبضہ»جیسی اصطلاح تشویشی مؤقف کاحصہ ہے۔اس میں یہ نکتہ چھپاہے کہ مہاجرین کی معیشت اور معاشرتی انضمام سے متعلق مسائل تحفظاتی تناؤکاسبب بن سکتے ہیں۔
پاکستان اورافغانستان کے درمیان ترکی میں مذاکرات کادوسرادورجاری ہے… جس میں قطرمیں ہونے والے مذاکرات میں طے پانے والے نکات پرعمل درآمد کاجائزہ لیاجارہاہے۔دوحہ (قطر)میں19اکتوبر2025کوہونے والی گفت وشنیدکے بعدایک فوری فصلی/عبوری سیزفائرطے پایا؛اب دونوں فریق ترکی میں مزید مذاکرات کے لئے اس معاہدے کی نفاذ ،نگرانی،اور ایک مشترکہ نگرانی/نفاذی میکانزم پربات کررہے ہیں تاکہ بنیادی طورپرسیزفائرکو پائیدار ، سرحدی احترام اورمشترکہ نگرانی میکانزم تشکیل دیاجاسکے۔
پاکستان اورافغانستان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں سیزفائراوردونوں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کی سرحدوں کے احترام کی بات طے پائی تھی۔ تاہم ابھی تک کسی ٹھوس معاہدہ کی خبر نہیں۔یہ ثالثی اس امرکی نشاندہی کرتی کہ فریقین امن کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔باضابطہ اعلامیہ جات اورثالث ممالک(قطر،ترکی)کے بیانات نے اسی کی تائیدکی البتہ،ان اعلانات کا«عملی نفاذ»نگرانی اوراعتمادسازی کے مرحلوں پرمنحصرتھا،اسی لئےاستنبول میں مزید تفصیلی میکانزمزکی بات ہوئی۔مذاکرات کی دستاویزات کے مطابق درج ذیل تین بڑے نکات زیرِگفتگو ہیں۔
(1) جرّی نگرانی اورعملدرآمدکا میکانزم:یعنی ایک مشترکہ مانیٹرنگ نظام قائم کرنا،جوسرحدپارسے آنے والے دہشت گردوں،عسکری عناصرکی نقل وحرکت پرنظررکھے۔
(2) قومی وبین الاقوامی سرحدی احترام:ایک ملک دوسرے کی سرزمین یاخودساختہ عسکری سرگرمیوں کامیدان نہ بنے، اوربین الاقوامی معاہدات وسرحدی حدودکالحاظ کیاجائے۔
(3)معاشی،پناہ گزینی اورتجارتی امور:مذاکرات اس جانب بھی گئے کہ مہاجرین،روزگاراورسرحدی تجارت کے مسائل امن کے پس منظر میں زیرِغورآئیں۔
پاکستانی وفد کی قیادت دفتر خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری برائے افغانستان اوران کے دیگراراکین جبکہ جبکہ افغان جانب سے وفدکی قیادت کیلئےنائب وزیرِ داخلہ حاجی نجيب کررہے تھے۔دوحہ اورترکی کی معاونت شامل تھی،اوراستنبول اجلاس اُس میکانزم کاحصہ تصورکیاگیاجوسیزفائرکوصرف وقتی نہیں بلکہ مستقل بنانے کیلئے اپنی کوششیں کررہاہے۔مذاکرات میں سیزفائرکی صورت حال پراثرپڑنے والے عوامل پرغورکیاگیا۔
مثبت سمت کی طرف بڑھنے کیلئے اہم نتائج اورممکنات کے حصول کیلئے کوشش ہورہی ہے کہ مانیٹرنگ میکانزم قائم ہو جائے،عسکری عناصرکی سرحدپارنقل وحرکت رُکے،اوردونوں ممالک قانون منظّم اندازمیں سرحدی احترام کریں توامن کا پہلومضبوط ہوسکتاہے۔اگرخدانخواستہ مذاکرات ناکام رہیں یامیکانزم قابلِ عمل نہ بن سکے،توپاکستانی دفاعی حکام نے «کھلی جنگ»کا امکان ظاہرکیاہے۔جس سے فوری طورپرشدیدترین جاری اقتصادی نقصانات اورخطرات کاامکان بڑھ جائے گا۔پہلے ہی گزشتہ چنددنوں سے سرحدی بندش اورتجارت کی رُکاوٹ سے دونوں جانب اثرات سامنے آرہے ہیں۔
اس وقت دونوں ممالک میں بھروسے کافقدان موجودہے۔مؤرخانہ تناظرمیں،دونوں فریقین ایک دوسرے پردعوے کرتے رہے ہیں کہ دوسرے نے پہلے قدم اٹھایاجبکہ دوحہ اوراستنبول میں پاکستان نے مضبوط شواہدکے ساتھ اپنامقدمہ پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کردیاکہ بارہاطالبان حکومت کوافغان سرزمین اورافغان باشندوں کی دہشتگردی کے ثبوت فراہم کئے گئے لیکن طالبان نے اس پرکوئی کاروائی نہیں کی۔اس دفعہ بھی افغانستان نے کہاکہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گاجبکہ پاکستان نے مطالبہ کیاکہ حقیقی اثرپذیراقدامات کیے جائیں جس کی ضمانت کیلئے پاکستان نے ایک واضح پروگرام بھی پیش کیاگیاہے۔افغان طالبان کی طرف سے یہ پیشکش کی گئی کہ ٹی ٹی پی اوردیگر گروپوں کوپاکستانی سرحد سے کہیں دورمنتقل کر دیتے ہیں جبکہ پاکستان نے افغانستان کی طرف سے مکمل دراندازی کوختم کرنے کی واضح ضمانت مانگی ہے۔
مہاجراورپناہ گزین امورکے الجھاؤسمیت معاشی،سماجی اورانسانی حقوق کے مسائل مذاکرات میں بیک گراؤنڈکاحصہ ہیں — صرف عسکری سطح پربات نہیں ہورہی بلکہ مہاجرین، روزگاراور سماجی انضمام پربھی نظریں ہیں۔دوحہ اوراستنبول کا سلسلہ ثالثی کے تحت چل رہاہے،جواس بات کی واضح نشاندہی کرتاہے کہ علاقائی تصادم کاحل طویل گفت وشنیداورنگرانی پر منحصر ہے ،محض ایک سہ فریقی معاہدہ نہیں۔یادرہے کہ دوحہ میں پاک افغان امن مذاکرات میں تمام تفصیلات طے ہونے کے بعدہی دوسرے دورکو استنبول میں منعقد کرنے کافیصلہ کیاگیاتھا۔
1)دوحہ میں طے پائے جانے والے معاہدے(19/اکتوبر2025)کے بعد،باہمی رضامندی کے تحت فریقین نے استنبول میں دوسرا دورمنعقدکیاتاکہ معاہدے کے عملی پہلوؤں،نگرانی کے طریقہ کار،اوردیرپاتقاضوں پربات چیت کی جاسکے۔یہ مذاکرات ترکی کی میزبانی میں ہوئے اوردونوں طرف کے اعلیٰ دفاعی وسیاسی نمائندے شریک ہوئے۔
2)ایجنڈا(کلیدی نکات)—مختصرفہرست۔۔۔سیزفائرکی نگرانی اورفوری رپورٹنگ میکانزم کاقیام۔
سرحدی احترام اورڈیوٹی باؤنڈریزکے احترامی ضوابط؛عبوری طورپرسرحدی گشت اورمعلوماتی تبادلے کانظام۔
عسکری ونیم عسکری عناصرکی نقل وحرکت روکنے کے اقدامات؛مشترکہ نگرانی یاتفتیشی میکانزم کاخاکہ۔
مہاجرین،نقلِ مکانی،اورگھریلواقتصادی اثرات کانرم گوشوارہ،اس پرفریقین اور بین الاقوامی اداروں کاتعاون طے کرنے کے اقدامات۔
3)ثالثی کرنے والی ریاستوں(قطر،ترکی)کی طرف سے نگرانی اورفالواپ کاطریقِ کار۔
4)مذاکرات کافنی ڈھانچہ(عملی پہلو)
5)فوراًنافذکی جانے والی سیزفائرکی رپورٹنگ کے بعدلاگوہونے کے بعددونوں اطراف کے پاس روزانہ/چندروزہ بنیادوں پر واقعہ نگاری کی سہولت رکھی گئی،اورکسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں ثالثی والوں کوفوراًآگاہ کرنے کاطریقہ مقرر کیاگیا۔
6)ایک عبوری مشترکہ تکنیکی کمیٹی یا نگرانی فورم بنانے کا مشورہ زیرِغورتھا،جوسرحدی واقعات کی جانچ اورروایتی معلوماتی تبادلے کی ذمہ داری اٹھائے گی۔
7)نتائج کی اہلیت کوپائیداربنانے کیلئے مذاکرات کے نتائج باضابطہ دستاویزیاسمجھوتہ کی شکل میں ختم ہوئے یاختم ہونے کی راہ پرتھےتاکہ اُن پرعملدرآمد کی بین الاقوامی اورعلاقائی نگرانی ممکن ہو۔
8) مذاکرات کے ممکنہ نتائج اور خطرات کے مثبت امکان کیلئے ضروری ہے کہ اگر نگرانی میکانزم بخوبی چلے اور عسکری/نفی رضامندی برقرار رہے توخطے میں سیزفائردیرپابن سکتاہے،اورسرحدی تجارت،نقل وحمل،اورانسانی رواداری کوسہارامل سکتاہے۔اورمذاکرات ناکام ہوئے یاعملدرآمدنہ ہوا،تووزیرِدفاع کی بلندہوتی ہوئی دھمکیوں اورفوجی کارروائیوں کاخطرہ حقیقی طورپرموجودہے،بعض بیانات میں«کھلی جنگ»تک کاذکرآیاہے،جس نے تشویش بڑھادی ہے۔
9) ثالثوں کاکرداراوربین الاقوامی فریم ورک میں قطراورترکی نے ثالثی کی کوششیں کیں اوراس میں علاقائی وبین الاقوامی استحکام کاخدشہ شامل رہا۔ان ثالثوں نے عارضی سیزفائرکوممکن بنایااورمذاکرات کی میزقائم رکھی۔ثالثی کاتسلسل اس امر کی دلیل ہے کہ فریقین نے براہِ راست یکسرتصادم سے بچتے ہوئے سفارتی راستہ اختیارکیا۔
یہ دورِگفت وشنید ایک ایسی کشمکش کاعکس ہے جس میں تاریخ نے مہمان نوازی کے حق میں ایک امن کاراستہ دکھایا، فنانشل ٹائمز کی وہ رپورٹ جوسیزفائر معاہدے کی تفصیل دیتی ہے کہ پاکستان اورافغان طالبان حکومت نے دوحہ میں معاہدہ کیاکہ وہ دشمنانہ کارروائی نہیں کریں گے،نہ ایک دوسرے کی سرزمین استعمال کریں گے،اورنہ ہی ایک دوسرے کے سکیورٹی اداروں یاانفراسٹرکچرپرحملہ کریں گے۔یعنی سیزفائراورسرحدی احترام دونوں کومعاہدے کاحصہ بنایا گیا،جوپہلی مرتبہ اس سطح پرباہمی اقرارکی صورت اختیارکررہاہے۔امن کیلئےزہرِتاثیر دونوں طرف موجودہیں:ایک طرف اخوتِ قدیم، دوسری طرف جغرافیائی وسلامتی کے حقائق۔استنبول کادورِمذاکرات اس کشمکش کولمحۂ توقف عطاکرتاہے،یہ توقف یاتو نیکیِ نیت کادروازہ کھولے گایاپھرتشددکی دہلیزپرکھڑاکردے گا۔
اب جب استنبول کی میز پربات چیت کاپردہ اٹھاہےتوہمیں یادرکھناہوگاکہ زخم اگرچہ گہرے ہیں،مگرامیدکی جڑیں بھی ابھر سکتی ہیں۔تاریخ کے طالبِ علم جانتے ہیں کہ ہردوستی اوردشمنی کی جڑمیں اکثروہ تلخ تجربات اورغلط فہمیاں ہوتی ہیں جنہیں احلاص کے عمل سے سلجھایاجاسکتاہے۔استنبول مذاکرات ہمیں یہ سبق بھی دیتے ہیں کہ اگرچہ تلخیاں اورزخم گہرے ہوں،مگرصدقِ دل سے اخلاص کی جڑیں دوبارہ کاشت کرنے کی ضرورت ہے۔مبینہ دعوے اور الزامات صرف تاریخی اور تنقیدی جائزہ کے طورپردیکھے جائیں،نہ کہ بنیادِعمل۔امن،بھائی چارہ،اورانسانی ہمدردی کاتقاضہ یہی ہے کہ سرحدی جھڑپوں کوختم کرنے کیلئےگفتگوکوجاری رکھیں۔مذاکرات میں شفافیت اوربین الاقوامی نگرانی کے اصول اپنائیں۔ماضی کے احسان اوررنج دونوں کا اعتراف کریں ،اوراسلام کے امن پسند اصولوں کی روشنی میں آگے بڑھیں۔
کچھ مبینہ بیانات اور افواہیں بازارِشہرت میں گردش کرتی رہتی ہیں،بعض شنیدیں مضبوط سیاسی اشارے یاشبہات کے طور پرسامنے آتی ہیں،مگرحقیقی عدل کی راہ میں ثبوت،حوالہ اورشفاف تفتیش کاعمل لازم ہے۔یکطرفہ الزامات یابلاثبوت دعوے ،امن کے عمل کوزہرآلودکرسکتے ہیں؛اس لئے مذاکرات کا تقاضایہی ہے کہ ہرفریق شفافیت،اعتمادسازی اوربین الاقوامی نگرانی کے ذمے داری کے ساتھ آگے بڑھے۔
اسلام ہمیں امن اورصبرکی تلقین کرتاہے؛حضورِاقدسﷺکی سنتِ حسنہ یہی ہے کہ انسانیت کی بقاءمیں بھائی چارہ اورعفوکا کیامقام ہے۔یہی مذہبی اور اخلاقی تقاضاہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ سرِدست مذاکرات کوایک مقدس فریضہ سمجھیں اورنفرت کی آگ کوبجھانے میں لبِ عمل آئیں۔اگرآج ہم امن کوسچ میں چاہیں توہمیں ماضی کے احسان اوررنج دونوں کااعتراف کرتے ہوئے،قرآنِ عظیم اورسنتِ طیبہ کی روشنی میں امن کے ایسے اصول وضع کرنے ہوں گے جن سے دونوں قومیں زندگی کے مشترکہ بوجھ کوبانٹ سکیں۔
تاریخ کے آئینے میں وہی قومیں تابناک رہیں گی جنہوں نے خنجرکی بجائے دلوں کونرم کیا؛اوریہی ہمارافریضہ ہےکہ ہم گفتگو کوآخرتک زندہ رکھیں، تلواروں کو مٹاتے ہوئے امن کی فصل اگائیں،اورنقائص کی اصلاح کیلئےقانون اورشفاف طریقۂ کارکواپنائیں۔تاریخ کے آئینے میں وہی قوم تابناک رہے گی جوتلوارکی بجائے دلوں کونرم کرے،اورنقائص کی اصلاح کیلئےقانون اور شفافیت کواپنائے۔یہی ہمارافریضہ اوراسلامی تقاضاہے۔