Who Owns India?

بھارت کے مالک کون؟

:Share

بھارت میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پرعرصہ حیات مسلسل تنگ ہورہاہے۔بی جے پی کی حکومت میں ہلاکو، چنگیز اور ہٹلر کے ثانی مودی کے انتہا پسند آر ایس ایس کے غنڈے سرعام مسلمانوں پروحشیانہ مظالم ڈھارہے ہیں اوراب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ مسلمان عورتوں کاباحجاب ہونابھی ان کیلئے نا قابل برداشت ہوگیاہے۔پورے بھارت کے تعلیمی اداروں میں مودی حکومت اوراس کے خونحواردرندوں نے طالبات کوحجاب پہن کرتعلیمی اداروں میں آنے سے روک دیالیکن سلام ہے امت مسلمہ کی غیوربیٹی مسکان پر جوکرناٹک کے ایک تعلیمی ادارے میں بلاخوف وخطرحجاب میں پہنچی تواس کوانتہاپسندہندو طلبا نے روکنے اورحجاب اتارنے کی کوشش کی جس پرغیرت وحمیت کی حامل مسکان نے جے شری رام کے مقابلے میں اللہ اکبرکی صدا لگاتے ہوئےکہا مجھے روئے زمین پرانتہاپسندوں سے کوئی ڈرخوف نہیں جب تک اللہ کی عطاکردہ زندگی ہے اللہ کی تکبیر کانعرہ بھی لگتارہے گااورحجاب بھی ہوگا۔اس جرأت و استقامت پر پوری دنیاسے امت مسلمہ کی اس بیٹی کوخراج تحسین پیش کیاجارہاہے لیکن اب اس کے جواب میں مودی اورانتہاپسندوں نے بڑے تکبرسے اعلان کیاہے کہ “یہ ہمارابھارت ہے اوریہاں کسی اورکلچرکوہم نہیں چلنے دیں گے”۔

مودی،آر ایس ایس،بجرنگ دل اور دیگر تمام متعصب ہندوں کی یہ تکرار” ہمارا بھارت” تاریخ کاسب سے بڑا جھوٹ اور دنیا کو دھوکہ اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔مسلم دشمنی کے تعصب میں اس قدراندھے ہوگئے ہیں کہ مسلمانوں کو دہمکیوں سے مرعوب کرنے کیلئے کہ “ہمارے بھارت میں تمہارے کلچرکونافذنہیں ہونے دیں گے اورتم سب کوہندتواکے رنگ میں بدلناہوگا “۔کیا واقعی ان کایہ دعویٰ درست ہے کہ آج کابھارت صرف ہندوؤں کاہے اور مسلمانوں کااس پرکوئی حق نہیں؟آئیے تاریخ کے اوراق کھنگال کران کوآئینہ دکھاتے ہیں کہ سچ کیاہے؟

زیادہ دورجانے کی بات نہیں،جب مسلمان انگریزوں کے خلاف بھارت سرزمین کے دفاع کیلئے اپنے تن من دھن کی بازی لگارہے تھے اوربھارت کے مختلف مقامات پران سے جنگ میں مصروف تھے تواس وقت مودی اوراس کے ہمنواوں کاتوابھی وجودبھی اس دنیامیں موجودنہیں تھا۔آسام کے سوامی جو آج خود کو ہندو تاریخ کا سب سے بڑا علمبردار کہتاہے، پوچھنا ہمارا حق ہے کہ بھارتی سرزمین کے دفاع کیلئے سب سے پہلا میدان جنگ کس نے سجایا “کلکتہ میں انگریزدفاتر کوتوپ سے اڑانے والاتوپہلامسلمان علی وردی ہی توتھا۔ان کے بعد1757ءمیں ان کے نواسے نواب سراج الدولہ نے اس سرزمین کے دفاع میں اپنے اورسارےخاندان کی قربانی دیکرانگریزوں کے دانت کھٹے کئے،اس وقت تمہارے آباؤاجدادانگریزوں کی غلامی میں مصروف تھے۔

تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ اس کے بعداس دھرتی کواپنے دفاع کیلئے کسی کے خون کی ضرورت پڑتی ہے تو1799ء میں اسی دھرتی کاغیورمرد مجاہد،شیرمیسورسلطان ٹیپوتھا،جن کایہ قول آج بھی چاردانگ عالم میں مشہورہے کہ گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیرکی ایک دن کی زندگی بہترہے، سرنگاپٹم کے میدان میں شجاعت کے جوہردکھاتے ہوئےاپنے جان ومال کی قربانی دیکراس دھرتی پرقربان ہوگئے،آج تم کس منہ سے تاریخ کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہو۔مودی،آرایس ایس اوردیگرمتعصب وحشی سن لیں کہ اس وقت توتمہاری پچھلی تین نسلوں کابھی وجود نہیں تھاتوآج تم کس منہ سے”ہمارا بھارت”کہہ کر مسلمانوں کے خلاف اپنےبغض کااظہارکررہے ہو۔

بھارت کے مالک تووہ65ہزار”فریڈم فائیٹرمسلمان”ہیں جن کے چہرے رسول ﷺ کی سنت داڑھی اورسرپرٹوپی سے روشن تھے،جن کے نام آج بھی انڈین گیٹ پرکنندہ ہیں،کیااتنی بڑی تاریخی شہادت کوسوامی ،مودی اوردیگرمسلم دشمنی میں اندھے کھرچ سکتے ہیں اوریہ سب کارنامے آج بھی برٹش لائبریری کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ انگریزباوجودتعصب کے سرنگاپٹم کے شیرمجاہدسلطان ٹیپوکی شجاعت اورقربانی کاآنکھوں دیکھاحال چھپانہ سکااورخوداس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ ٹیپوسلطان کوشکست دیناناممکن تھااگرغدار ہماراساتھ نہ دیتے توآج یہ بونے متعصب ہندوکس زعم میں تاریخ کے خلاف بھارت کواپنادیس کہتے ہیں؟

ایک ورق اورپلٹئے تومالٹا کی جیل میں تحریک ریشمی رومال کے بانی شیخ الہندمولانامحمودالحسن نظرآئیں گے،انگریزوں نے ہر طرح کی سہولت کی لالچ دے کر جب اپنے حق میں ان سے فتویٰ چاہا،تومولانانے ان کی پیشکش ٹھکراتے ہوئےکہاکہ’’جوسراللہ کے حضورمیں جھکتاہے وہ سردنیاکے ذلیل کتوں کے سامنے کبھی نہیں جھک سکتا‘‘۔ایک صفحہ اورپلٹئے تو1767ء میں شاہ ولی اللہ کے بڑے بیٹے شاہ عبدالعزیزنے انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کابیج ہی نہیں بویا بلکہ 1772ءمیں جہادکا فتوی بھی دیا،ایک قدم اورآگے بڑھئےتوجانبازشہیدوطن اشفاق اللہ خاں پھانسی کے پھندوں کو بخوشی چومتے ہوئے نظرآتے ہیں،اس وقت موجود ہ لوگوں سے اللہ حافظ کہتے ہوئے کہا کہ!
شہیدوں کی مزاروں پرلگے گے ہربرس میلے
وطن پرمٹنے والوں کایہی باقی نشاں ہوگا
بہت ہی جلد لوٹے گی غلامی کی یہ زنجیریں
کسی دن دیکھنا یہ آزادہندوستاں ہوگا

پانی پت کے تاریخی جنگی میدان میں آخریہ مسلمان ہی توتھے جنہوں نے بھارت کی سرزمین کاجوانمردی سے ایسامقابلہ کیاجس کے بعدانگریزاپنی پوری جنگی مشینری اوراختیارات کے باوجودبے بس ہوگیا۔اسی دھرتی پرانگریزکوبعدازاں غلام احمدقادیانی نے بتایاکہ جب تک ان مسلمانوں کے درمیان “قرآن” محفوظ ہے تواس میں جہادکاحکم ان کواپنی اولاد،مال ومتاع اور زندگیوں سے زیادہ عزیزہے اوریہی وجہ ہے کہ قرآن کوتبدیل کرنے کی جسارت اورجہادجیسے عظیم حکم کی تنسیخ کیلئے مرزاغلام احمدقادیانی اوراس کی ذریت کواستعمال کیاگیالیکن وہاں بھی منہ کی کھانی پڑی لیکن آج ان متعصب ہندووں کوبارباران قادیانی فرقے کی محبت ستاتی رہتی ہے اوراپنے اجتماعات میں ان کی بڑی پذیرائی بھی اسی لئے کرتے ہیں کہ دنیاکواپنے سیکولرہونے کادھوکہ دیں سکیں۔

ذرایادکریں کہ 1806ء سے لیکر1831ء تک پانی پت،مالابارکے میدان اوربالاکوٹ کی پہاڑتوآج بھی ریشمی رومال تحریک کے شاہ اسماعیل شہیداور سید احمدشہید بریلوی اوران کے51ساتھیوں کے پاکیزہ لہوکی گواہی دے رہے ہیں جنہوں نے بھارت پرقابض انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلندکرتے ہوئے غاصب انگریزکواس قدرکمزورکردیاجوبعدازاں اس خطے کی آزادی کاسبب بنا۔اس وقت تم کہاں تھے جب ہزاروں مسلمان علماءکوگائے کی کھالوں میں بند کرکے آگے کے بڑے الائومیں زندہ جلادیاگیاتھا۔کہاں تھا تمہارا بجرنگ دل، آرایس ایس اورہندومہاسبھا؟اس وقت توتمہاراوجودبھی نہیں تھااورآج دنیاکو سب سے بڑی جمہوریت کے نام پردھوکہ دیتے ہوئے ظالم ڈکٹیٹربن کرکبھی مسلمانوں کونیشنیلٹی منسوخ کرکے بحیرہ ہندمیں ڈبونے کی بات کرتے ہوتوکبھی اسی بھارت کے اصل وارثوں کو اجنبی ٹھہراکرمسلم کش فسادات کرواکے اس ملک سے ہمیشہ کیلئے ختم کرنےکی دہمکیاں دیتے ہو۔آج کس منہ سے یہ دعویٰ کرتے ہوکہ یہ دیس ہماراہے۔

تاریخ شاہدہے کہ انگریزی تسلط کے خاتمہ کی قیادت کرنے والے اورجنگ آزادی کے بانی شاہ ولی اللہ دہلوی،بدرالدین طیب جی، علمائے صادق پو،مولانا ضامن علی شہید،مولانا قاسم نانتویؒ ،شاہ عبدالغنی،مولوی احمداللہ مدراسی،حکیم اجمل خاں،مولانابرکت اللہ بھوپالی،مولانامحمدعلی جوہر،اشفاق اللہ خاں، بسمل،مولانا شوکت علی،مولاناعبیداللہ سندھی،قاری عقیل الرحمن،مولانا ولایت علی،مولانا یحی عظیم آبادی،مولاناوحیداحمدمدنی، مولانا عزیرگل پیشاوری،حکیم نصرت حسین، مفتی کفایت اللہ دہلوی،مولانا عبدالباری بدایونی،مولانا لیاقت علی،بیگم حضرت محل،مولاناحسرت موہانی، مولانا ظفر علی خاں،مولانارشید احمدگنگوہی،نشاط النساءبیگم، رفیع احمد قدوائی نہ ہوتے تو جنگ آزادی کی تاریخ نامکمل رہ جاتی۔آج بھی تم انگریزوں کے بوٹ چاٹ رہے ہوتے۔جنگ آزادی کی صبح ہونے میں تاخیر ہوجاتی۔

علامہ فضل حق خیرآبادی نے دہلی کی جامع مسجدمیں جمعہ کی نمازکے بعدانگریزمظالم کے خلاف ایسی جامع تقریرکی جس سے جذبہ حریت کے ساتھ جذبات تازہ ہوگئے،اور90ہزارمسلمانوں کی سپاہ دہلی میں جمع ہوگئی،اورہندی فوج نے آزادی کانقارہ بجادیاجس سے آگرہ،دہلی،میرٹھ،شاہجہاں پور،اورلکھنؤمیدان جنگ میں بدل گئے،انگریزی حکومت بوکھلااٹھی،اورسامراجیت کے ایوانوں میں زلزلہ پیداہوگیا،اورانگریزدنگ رہ گیاکہ مسلمان سویاتھاکیسے جاگ گیا،ملک کے اندرعوامی بیداری کاشاندارنظارہ تحریک خلافت کے دوران ہوا،اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں نہیں ملتی،پھرسیداحمدشہید رائے بریلوی کاجہاد،علماء کاانگریزوں کی فوج میں بھرتی ہوناحرام کافتویٰ،1878ءمیں انجمن ثمرۃ الترتیب،1909ءمیں جمعیۃ الانصار،1913ءمیں نظارۃ المعارف،1919ءمیں جمعیۃ علماء ہند،ان سب تحریکوں کانمایاں رول،اوران کی سرگرمیوں کوکون فراموش کرسکتاہے،یہ سب انگریزی حکومت کے خلاف ایٹم بم کا کام ہی نہیں کیا ،بلکہ برطانوی اقتدارکوہلا کر رکھ دیا،جوبعدازاں بھارت کی آزادی کاسبب بنے اورتم آج تاریخ کے مخالف دھارے پرکھڑے ہو کراس سرزمین کوصرف ہندوؤں کابھارت کس طرح کہہ سکتے ہو۔

تحریک آزادی کےمختلف مراحل اورہرموڑپرمسلمانوں نے بھارت کیلئے قربانیاں پیش کی،بھارت کے جس چپہ کو دیکھیں،جس اینٹ کواٹھائیں،وہاں مسلمانوں کے خون کی مہک اوران کےگرم گرم آنسوؤ ں کی نمی اورمسسلم مجاہدوں کے ولولے اورعزم وحوصلے ملیں گے۔آخروہ کون سی قربانی ہے جویہاں کے مسلمانوں نے نہیں دی،جب بھی بھارت کو ضرورت پڑی تویہی مسلمان شاملی کے میدان سے جزیرہ انڈمان میں نظرآئے،کبھی ریشمی رومال کی شکل میں نظرآئے،کبھی زندانوں کے اندررہ کرپوری قوم کوانگریزوں کے خلاف برسرپیکارکیا،کبھی بھارت کی آزادی کیلئے لندن اورامریکاکاسفرکیا،کسی بھی میدان میں خون کادریابہانے سے گریزنہیں کیا،کبھی مشرق ومغرب میں انگریزکے خلاف بھارت کی آزادی کی وکالت کی،کبھی بالاکوٹ کی پہاڑی پر چڑھ کر انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا،آزادی کی اس طویل ترین تاریخ میں مسلمان بچیوں،بہنوں وعورتوں کوبے حرمت کیا گیا،املاک پرڈاکہ زنی کی گئی، لاتعدادبچے یتیم ہوئے ،بے شمارسہاگنوں کے سہاگ اجڑے، بستیاں ویران اورگاؤں بے چراغ ہوگئے،لاکھوں جانیں تلف ہوئیں ،مالٹاکے زنداں خانوں میں بھی مسلمان علماء کےصبروضبط کاامتحان لیاگیا،پانی پت و شاملی کے میدانوں کوبھی اپنے خون سے سیراب کیا،احمد نگرکے قید خانوں کوبھی مسلمانوں نے ہی اپنے عزم وحوصلوں سے آبادکیا، بدنام زمانہ جیل’’کالے پانی‘‘میں بھی مسلمانوں ہی نے سزائے قیدکاٹی،جیل خانوں کے مصائب جھیلے،جلیانوالہ باغ کے خونی منظرمیں تڑپتے بے گوروکفن جوان لاشوں کادکھ بھی جھیلا،لاہورکی شاہی مسجد بھی قربانیوں کی شاہدہے،ایک ایک دن میں اسیّ اسیّ علمائے کرام کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا،دہلی کے چاندنی چوک سے لیکر لاہور تک کھڑا کوئی ایسادرخت نہیں تھاجس پر کسی نہ کسی عالم کی لاش جھولتی نہ ہو،خود ایک ہندو مصنف نے لکھا ہے کہ1857ءکی جنگ آزادی میں تقریباًپانچ لاکھ مسلمانوں کوپھانسی کے پھندے پر لٹکایاگیا،گویاقربانیوں کا جتناذکرکیاجائے وہ کم ہے،برسوں کے خونی معرکوں ،چمن کے سارے پھول بھارت پرقربان ہونے اوران کے قائدانہ کردارکے نتیجہ میں فرنگی بھیڑیوں کے چنگل سے ملک آزادہوا،اورتم کہتے ہوکہ یہ بھارت صرف ہندوؤں کاہے۔

ایسے میں تمام اردواخبارات وجرائد کے مسلم بے باک اورفکروفن کے صحافی کیسے پیچھے رہ سکتے تھے،انہوں نے انگریزکواس خطے سے نکالنے کی جدو جہد اورشمع آزادی کی لوکوتیزکرنے کیلئے اپنے اخبارات وقف کردیئے تھے،اورعوام کے دلوں میں زندگی کی ایسی شمعیں روشن کردیں جن کوظلم وستم کی تیزآندھیاں بھی بجھانہ سکیں،”انقلاب زندہ باد”،’’انگریزحکومت مردہ باد‘‘، جیسا نعرہ عوام کودیا،’’سرفروشی کی تمنااب ہمارے دل میں ہے‘‘جیساپرجوش نغمہ،اور’’سارے جہاں سے اچھاہندوستاں ہمارا‘‘جیسا وطن کی محبت میں ڈوباہواترانہ علامہ اقباال نےسنایا،جس سے ملک کے درودیوارگونج اٹھے،جدوجہدآزادی،اتحادیکجہتی کی ایسی مثال پیش کی جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی لیکن آج ان متعصب ہندووں نے اپنے قول وفعل سے یہ ثابت کردیاکہ علامہ اقبال کادوقومی نظریہ کا خواب اورقائداعظم کااس کی تعبیرکیلئے الگ وطن کے حصول کافیصلہ کس قدردوررس اورصحیح تھا۔

انگریزسےآزادی حاصل کرنے سے پہلے مسلمان مجاہدین آزادی کوایک سنہراخواب دکھایاگیاتھاجہاں حب الوطنی کے جذبہ کوفروغ دینے کے ساتھ مساوات و خوشحالی پرمبنی ایسا سماج تعمیرکرنے کاوعدہ کیاگیاتھاجہاں کسی کا استحصال نہ ہوگا،اقلیتوں کاملی تشخص اوردستورحق محفوظ رہے گا،اورتعلیمی،اقتصادی معاشی میدان میں کسی کے محتاج نہ ہوں گے،سلامتی وخوشحالی کی گنگابہے گی، اورہرکوئی بلاتفریق مذہب،رنگ ونسل دستوراورقانو ن کی روشنی میں رہ سکیں گے لیکن آرایس ایس،بجرنگ دل،ہندومہاسبھاکی سنگت میں بی جے پی کامودی جیسےجلادصفت ڈکٹیٹرحکمران کے دورحکومت میں نہ صرف مسلمان بلکہ تمام اقلیتیں انتہائی غیر محفوظ ہوگئی ہیں اوربرہمنوں کاایک انتہائی قلیل حکمران ٹولہ ہندوستان کونہ صرف ہندووں کاملک بنانے پرتلاہواہے بلکہ ہندوستان میں رہنے والے تمام شہریوں کوجبراًہندوبنانے کی پالیسی پرعمل کررہاہے۔

خاص کر مسلمان جس نازک ترین دورسے گذررہے ہیں،جن خطرات وچیلنجوں سے نبردآزماہیں،وہ کسی سے مخفی نہیں ہے،اورایسا معلوم ہوتاہے کہ ہر طرف کی فضامسلمانوں کی مخالف ہوگئی ہے،اوربے چارہ مسلمان اپنی بے بسی وبے گناہی کی دہائی دے رہاہے، اوراپنے مذہب،رواداری،حب الوطنی کاواسطہ دے رہا ہے،اورایک چٹیل میدان میں بے بس ولاچارکھڑاچیخ رہاہے اورزبان حال سے پکاررہاہے کہ کہ جینے کیلئے مجھے خوداپنی منزل کاتعین کرنا ہوگااوراب مزید کسی سیاسی جماعت کاوقتی رحم وکرم اوردھوکے پریقین کرناخودکشی سے کم نہیں ہوگا۔

بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بعد مسلم طالبات کو ان کے مذہبی ،آئینی اور،قانونی حق سے محروم کرنے پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔سیدابوالحسن علی حسنی ندوی نے ایک موقع پر،قدآورشخصیتوں،اورٹھاٹھیں مارتاہواانسانی سمندرکومخاطب کرتے ہوئے اپنے ولولہ انگٰیز خطاب میں فرمایاتھاکہ’’ہم اس ملک کے مالی اورچمن آراہیں،اس ملک کوسنوارنے میں اپنی پوری توانائی اور بہترین صلاحیتیں صرف کی ہیں،اسی صورت میں فطرت کاتقاضہ ہے کہ ہم اس ملک کوتاراج ہوتے،اس کانقشہ بگڑتے، یااس کاکوئی نقصان ہوتے گوارہ نہیں کرسکتے،اس کی پوری تاریخ اوریہاں کے آثارومشاہدہماری عظمت پارینہ کا شاہدعدل ہیں،تاج محل کاحسن،قطب مینارکی بلندی،جامع مسجد شاہجہانی کاشکوہ وجلال،اورلال قلعہ کی سطوت وعظمت اس حقیقت کی شہادت دیتی ہیں کہ! “ابھی اس راہ سے گزراہے کوئی کہے دیتی ہے شوخی نقش پاکی”لیکن اگرآج مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندوی بقیدحیات ہوتے توبابری مسجد کی شہادت اوران متعصب ہندووں کی موجودہ مسلم دشمنی،منافقت اورموجودہ حکمرانوں کامسلم دشمن روّیہ دیکھ کر یقیناًدوقومی نظریہ کودرست قراردیکربھارتی مسلمانوں کیلئے ایک نئے ملک کامطالبہ کرتے۔
ہوئے شہید لہوکولٹادیاہم نے
وطن کی خاک کودلہن بنادیاہم نے
ہرایک گل میں ہمارے لہوکی خوشبوہے
ابھی بھی پوچھ رہے ہیں کیادیاہم نے

اپنا تبصرہ بھیجیں