اپنے ہی منہ پرطمانچہ

:Share

پچھلے ایک عشرے میں ترکی کی قیادت نے اپنی معاشی پالیسیوںمیں انقلابی تبدیلیوں کی بدولت اسے دنیاکے ممتازترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں لا کھڑاکیاہے اوربیرونی سرمایہ کاری کے علاوہ اس کی برآمدات میں بھی خاصااضافہ ہوگیاہے ،یہی وجہ ہے کہ ترک عوام میں خوشحالی کا گراف تیزی سے بڑھ رہاہے لیکن کچھ بیرونی عناصر اپنے سیاسی مقاصدکی تکمیل کیلئے اس بڑھتی ہوئی ترقی کو سیاسی بدنظمی کاشکارکرکے اپنے ہدف کی تکمیل میں کوشاں ہیں۔مشہورسیاسی تجزیہ نگارمیکائل کیلی نے اپنے حالیہ کالم میں اس کی یوں نشاندہی کی ہے:
’’ترکی اس وقت ایسے سنگین مسائل سے دوچارہے جن کے حل نہ ہونے کی صورت میں امریکاسے اس کے تعلقات پٹڑی سے اترسکتے ہیں ۔ عام فہم کے مطابق یہ خیال آرائی منفی تاثردیتی ہے مگرپوری دنیااورخودترکی میں استعماری عزائم کے خلاف ذہن رکھنے والے مبصرین اورتجزیہ کاروں کے مطابق اگرامریکاکے غلبے سے چھٹکارامل جائے تواس سے زیادہ مثبت کیابات ہوسکتی ہے؟کیلی کامزیدکہناہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترک وزیراعظم طیب اردگان کواس وقت اپنے قریب ترین لوگوں کے حوالے سے بدعنوانی کے الزامات کاسامناہے مگریہ بھی سچ ہے کہ ترکی کے مسائل صرف اندرونی سطح پرنہیںبلکہ بیرونی سطح پرہیں جس کے باعث اس کی بیرونی مشکلات میں اضافہ ہوتاجارہاہے ترکی کوایسے کئی معاملات میںمسائل اورپیچیدگیوں کاسامناہے جن کے باعث امریکااورنیٹوسے اس کے تعلقات داؤ پرلگ سکتے ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ میں ٹیررازم فائنانس کے سابق تجزیہ نگارجوناتھن شینزرنے ”بزنس انسائڈر”کوبتایا:یہ محض ترک انڈر ورلڈ کا مسئلہ نہیں،اس کاتعلق عالمگیرسطح پر ”بدمعاش ریاستوں”(واضح رہے ”بدمعاش ریاست”کانام دینے والے خوددنیاکے سب سے بڑے بدمعاش اورداداگیرہیں) اوردہشتگرد عناصرسے ہے۔ جوناتھن شینزرنے اپنے وسیع تجربے کی بناء پرترکی میں چندماہ کے دوران میں چندایسی علامات کی نشاندہی کی ہے جن سے ترک مغربی تعلقات خطرے میں پڑسکتے ہیں۔گزشتہ سال دہشت گردوں کو مالیاتی وسائل کی فراہمی کے نیٹ ورکس پرنظررکھنے والی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اصولوں اورقواعدکااحترام نہ کرنے پرترکی کواپنی بلیک لسٹ پررکھ ہی دیاتھا۔جوناتھن شینزر نے جواب ”فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز”میں تحقیق کے شعبے کے نائب صدرہیں،کہاکہ ترکی کے خلاف انتہائی اقدام اس لئے ناگزیر ساہوگیاتھاکہ اس نے مسلسل سات سال تک تنظیم کے اصولوں سے روگردانی کی ہے۔اس وقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے ایران اورشمالی کوریاکوبلیک لسٹ قرار دے رکھاہے۔
ایسالگتاہے کہ اس وقت ترکی غزہ کی پٹی کے حکمران گروپ حماس کاسب سے بڑامالی معاون ہے ۔مساجداوراسکول تعمیرکرنے کے علاوہ ترکی نے حماس کوسالانہ ۳۰کروڑ ڈالر کی امدادبھی جاری کر رکھی ہے۔ شینزرکایہ بھی کہناہے کہ اگریہ بات ثابت ہوجائے کہ حماس کوترکی کی طرف سے امدادمل رہی ہے اوریہ کہ حماس کے بعض نمائندے ترکی میں تعینات ہیں تویہودنوازمغربی طاقتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہوگا۔شینزرکایہ بھی کہناہے کہ حماس میں نمبر۵یا۶کی پوزیشن کے رہنماء صلاح العروری اس وقت ترکی میں تعینات ہیں۔صلاح العروری نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے حماس کے عسکری بازوقسام بریگیڈکی بنیادرکھی تھی ۔قسام بریگیڈ نے نومبر۲۰۱۲ء میں اسرائیل کے خلاف آٹھ روزہ لڑائی میں حصہ لیا تھا اوراب بھی اسرائیلی علاقوں پرراکٹ اورمیزائل داغتی رہتی ہے۔
جوناتھن شینزرکے نزدیک ترکی کاحماس سے تعلق حیرت انگیزہے کیونکہ ایک طرف توترکی یوری یونین اورامریکاسے بہترتعلقات کے قیام کیلئے کوشاںرہتاہے اوردوسری طرف دہشتگردی کے خاتمے کی امریکی کوششوںکاتمسخراڑارہاہے۔امریکانے حماس کودہشتگردتنظیم قراردے رکھاہے (مگرپوری دنیاپریہ حقیقت اظہرمن الشمس ہوچکی ہے کہ امریکابہادر نے انسداددہشتگردی کے نام پر عالمگیردہشتگردی کی جومہم شروع کی اس میں ایک طرف وہ خود دنیاکاسب سے بڑادہشتگردثابت ہوا،دوسری طرف عبرتناک اورشرمناک ہزیمت سے دوچارہوکرمراجعت کررہاہے)۔شام کے معاملے میں بھی ترکی کارویہ مغرب بالخصوص امریکاکیلئے اضطراب اورپریشانی کاموجب بنا ہے ۔ایک طرف تواس نے شام کی اپوزیشن کومالی امدادجاری رکھی ہے دوسری طرف اسلحہ بھی بھیجتا رہاہے لیکن اب تک انسانی اسمگلنگ بھی روکی نہیں جاسکی ۔شام میں القاعدہ کے ایک بڑے فنانسر اورسہولت کار عبدالرحمان النوم کودہشتگردوں کی فہرست میں شامل کیاہے وہ جنیوامیں قائم انسانی حقوق گروپ کاقطری سربراہ ہے۔”فنانشل ٹائمز”نے جب استنبول میں رابطہ کیاتوعبدالرحمان النومی نے شام میں القاعدہ کومالی امداددیئے جانے میں کوئی کرداراداکرنے سے انکارکیا۔جوناتھن شینزرکا کہنا ہے کہ اگران تمام معاملات کوملاکردیکھاجائے توایساکچھ بھی نہیں جوآسانی سے سمجھ میں نہ آسکے۔
مشہورِزمانہ سعودی ارب پتی یاسین القاضی سے بھی ترک وزیراعظم طیب اردگان کے گہرے تعلقات ہیں۔واضح رہے کہ القاعدہ،حماس اور دیگر جہادی گروپوں کی فنڈنگ کے الزام میں امریکی محکمہ خزانہ نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں یاسین القاضی کو”اسپیشل ڈیزگنیٹیڈگلوبل ٹیررسٹ”کی
حیثیت سے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔حیرت انگیزبات یہ ہے کہ یاسین القاضی کوجب پہلی مرتبہ دہشتگردوں کی فہرست میں رکھاگیاتب اس کے تمام ادارے ترکی میں کام کررہے تھے۔ اردگان نے ایک عشرے سے بھی زائد مدت تک یاسین القاضی کادفاع کیاہے ،انہیں غیرمعمولی مراعات حاصل ہیں،وہ پاسپورٹ اورویزے کے بغیرکبھی بھی ترکی کا سفرکرسکتے ہیں۔بدعنوانی کے الزامات میں ترک عدلیہ نے جن چند شخصیات کی گرفتاری کاحکم دیاان میں یاسین القاضی کانام بھی شامل تھامگراس حکم پرکبھی بھی عمل نہیں کیاگیا۔ یاسین القاضی کاطیب اردگان کے بیٹے ہلال سے قریبی تعلق ہے ۔جوناتھن شینزر کا کہنا ہے کہ کہ اب تک یہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ ترک وزیراعظم اور ان کے بیٹے کایاسین القاضی سے کیاتعلق ہے؟اہم بات یہ ہے کہ گیارہ بارہ سال سے وہ ترکی میں ہے اوراسے ہرسطح پرغیرمعمولی تحفظ حاصل ہے۔
جن دنوں ایران پرامریکانے سخت اقتصادی پابندیاں عائدکررکھی تھیں،تب ایران نے مارچ ۲۰۱۲ء سے اکتوبر۲۰۱۳ء تک”گیس فار گولڈ”مہم چلائی تھی جس کے دوران اس نے کم وبیش ۱۳/ارب ڈالر حاصل کئے ۔اس معاملے میں اسے ترک حکومت کی طرف سے غیر معمولی معاونت حاصل رہی۔ترکی نے اقتصادی پابندیوں کو ناکام بنانے میں ایران حکومت کی بہت مددکی ۔بات یہیں پرختم نہیں ہوتی ، ترکی نے ایک ایسی چینی کمپنی سے میزائل خریدنے کامعاہدہ کیاہے جسے امریکانے جوہری پھیلاؤ کے حوالے سے واچ لسٹ پررکھاہو ا ہے اورجس کے خلاف کاروائی کاحکم بھی دیا جا چکا ہے ۔
ترک حکمران جماعت اے کے اورفتح اللہ گولن کی تحریک کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے جب تک رجب طیب اردگان اندرونی مسائل سے نہیں نمٹیں گے تب تک بیرونی محاذ پر بھی انہیں متوجہ اور متحرک ہوناپڑے گا۔امریکااوریورپ کوناراض کرنے والے اقدامات اورحقائق سے جسٹس اینڈڈویلپمنٹ پارٹی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔امریکانہیں چاہتا کہ ترکی اس راہ پرچلتارہے جس پر وہ چل رہاہے کیونکہ اس کے نتیجے میں خطے میں امریکی مفادات کوشدیدنقصان پہنچنے کااحتمال ہے۔ امریکاکیلئے سب سے بڑامسئلہ ہے کہ ترکی نے مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اس قدرمتنوع خارجہ پالیسی اپنارکھی ہے کہ وائٹ ہاؤس اب تک طیب اردگان انتظامیہ پر زیادہ اثراندازہونے کی پوزیشن میں نہیں آسکا۔ شینزرکا کہناہے کہ شام کے معاملے میں امریکی پالیسی ناکام رہی۔ایران سے متعلق پالیسی اپنے ہی منہ پرطمانچہ کے مترادف ہے اورپورے خطے میں امریکاکی انسداد دہشتگردی کی پالیسی بھی زیادہ کارگرثابت نہیں ہوسکی۔واشنگٹن میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ ممکن ہے ان تمام معاملات کی پشت پرترکی ہی ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں