Trump's peace plan and Saudi response

ٹرمپ کا امن منصوبہ اور سعودی ردعمل

:Share

ڈونلڈ ٹرمپ20جنوری2025ءکواپنے دوسرے صدارتی دورکاآغازکرنے دوبارہ وائٹ ہاؤس واپس آرہے ہیں اور ان کی متوقع کابینہ کی نامزدگیوں سے اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ کس قدر اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کرسکیں گے اور بالخصوص ایران کے اسرائیل پرجوابی حملوں کے وقت ٹرمپ کے بیانات نے بھی واضح کردیاتھاکہ وہ آئندہ کن پالیسیوں پر کام کرنے جارہے ہیں۔ان میں سے سب سے زیادہ قابلِ ذکرمشرق وسطیٰ میں امن کیلئےاُن کی وہ تجویزتھی جس پران کے پہلے صدارتی دورکے دوران عمل نہیں کیاگیاتھا۔کیااب ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی پراسرائیل کوسعودی عرب اوراسلامی دنیاکیلئے قابلِ قبول ریاست بنانے کامنصوبہ دوبارہ شروع ہوگا؟

ٹرمپ کے دوسرے صدارتی دورکاآغازایک ایسے وقت میں ہورہاہے جب غزہ کی پٹی میں ایک سال سے زائدعرصے سے جنگ جاری ہے اورچارسال پہلے کے مقابلے میں امریکا سمیت دنیاکوایک مختلف حقیقت کاسامناہے۔اس صورتحال میں یہ خدشات یقین کی حدکوچھونے لگے ہیں کہ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کیلئےمنصوبہ،جسے میڈیامیں”صدی کی ڈیل”کے نام سے جاناجاتاہے،اس کے نفاذکیلئے اسرائیل کی نہ صرف مکمل حمائت کریں گے بلکہ طاقت کے استعمال سے بھی گریزنہیں کریں گے اوراسے ہرحال میں مستقبل میں نافذکرنے کی کوشش کریں گے اوراس منصوبہ کوانہوں نے فلسطینیوں کیلئے”شایدایک آخری موقع”قراردیاتھا۔فلسطینیوں کی بے چینی مزیدبڑھ گئی ہے کیونکہ وہ اس منصوبہ کواس بین الاقوامی قانون کی بنیاد پرفلسطینیوں کے حقوق سے متصادم سمجھتے تھے،خاص طورپرسرحدوں،پناہ گزینوں اوریروشلم کے مسائل کے حوالے سے روئے زمین سے بیت المقدس کے وجودکومکمل ختم کرے وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیرہے جوتمام عالم اسلام کیلئے ایک چیلنج ہوگا۔

جہاں تک نتن یاہوکاتعلق ہے انہوں نے اس منصوبے کااعلان کرتے ہوئے کہاتھاکہ”صدی کامعاہدہ اس صدی کاایک اہم موقع ہے،اور ہم اسے ضائع نہیں کریں گے”۔یہی وجہ ہے کہ عالمی سیاسی امورکے تجزیہ کاروں کوتوقع ہے کہ ٹرمپ اپنی اگلی مدت میں مشرق وسطیٰ کے اپنے امن منصوبے کودوبارہ شروع کریں گے لیکن اسے ایک نئی شکل میں دوبارہ شروع کرنے کے امکانات کے بارے میں بہت سے مباحثے جاری ہیں۔

28جنوری2020کوٹرمپ نے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کااعلان کیاتھاجس میں سخت شرائط کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست کے قیام،مغربی کنارے کی بستیوں اوروادی اُردن کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کرنے،اورفلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کااطلاق نہ کرنے کامطالبہ کیاگیاتھا۔اس منصوبے میں فلسطینیوں کوایک ریاست قائم کرنے کاحق دیاگیاہے لیکن اس منصوبے میں اسرائیل کوایک”یہودی ریاست”کے طورپرتسلیم کرنے سمیت”تمام قسم کی دہشتگردی کوواضح طورپرمستردکرنے”کی شرائط شامل تھیں۔اس منصوبے کے مطابق مجوزہ فلسطینی ریاست کو”غیرعسکری” کر دیا جائے گااوراسرائیل کے پاس وادی اُردن کے مغربی علاقے میں سکیورٹی اورفضائی حدود کے کنٹرول کی ذمہ داری ہوگی جبکہ حماس،جوغزہ کی پٹی کاانتظام سنبھالتی ہے کو”غیرمسلح”کیاجائے گا۔

ٹرمپ کے پہلے دورِصدارت میں مجوزہ فلسطینی ریاست کاجونقشہ تجویزکیاگیاتھااس کے مطابق1967سے اسرائیل کے زیرقبضہ تمام فلسطینی علاقوں پرفلسطینی ریاست قائم نہیں ہوگی اورنہ ہی اس سے متصل ہوگی۔اس منصوبے میں اس بات پربھی زوردیاگیا کہ یروشلم”اسرائیل کاغیرمنقسم دارالحکومت رہے گا”جبکہ فلسطینی دارالحکومت مشرقی یروشلم کے حصے میں ہوگا۔اس منصوبے میں کہاگیاکہ”فلسطینی دارالحکومت کفرعقب،شوافات کے مشرقی حصے اورابودیس میں ہوسکتاہےاوراسے یروشلم یاریاست فلسطین کی طرف سے کوئی دوسرانام دیاجاسکتا ہے ۔
اس منصوبے میں فلسطینی پناہ گزینوں کے”اپنے گھروں کوواپسی”کے حق کی شرط نہیں رکھی گئی تھی اورتین تجاویزدی گئیں تھی جن میں:نئی فلسطینی ریاست میں واپسی،ان کامیزبان ممالک میں انضمام،یااسلامی تعاون تنظیم میں شرکت کے خواہشمند ممالک میں تقسیم شامل تھی۔اس منصوبے میں یروشلم میں مسجداقصیٰ کے کنٹرول کے بارے میں کہاگیاکہ”صورتحال جوں کی توں رہے گی، اوراسرائیل یروشلم میں مقدس مقامات کی حفاظت جاری رکھے گااورمسلمانوں،عیسائیوں،یہودیوں اوردیگرمذاہب کیلئےعبادت کی آزادی کی ضمانت دے گا”۔منصوبے کے تحت،اردن یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں برقراررکھے گا۔

اسرائیلی امورکے مصنف اورنذیرمجالی کاکہناہے کہ ٹرمپ کے نئے دور میں اس امن منصوبے کی واپسی کے امکانات بہت زیادہ ہیں لیکن ضروری نہیں کہ یہ اسی شکل اورشرائط میں دوبارہ پیش کیاجائے۔مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ واشنگٹن کے مطابق دنیا’’صدی کے معاہدہ”نامی امن منصوبے کوایک ترمیم شدہ،تبدیل شدہ شکل میں دیکھیں گے اورٹرمپ اسے”ڈیل آف دی سنچری 2″کے طورپر پیش کرسکتے ہیں۔برطانوی تجزیہ نگارکے مطابق اس ممکنہ نئے مسودے میں”فلسطینیوں کے سیاسی حقوق کے معاملے کوبالآخر حتمی طورپرختم کرنے اورانہیں کچھ اقتصادی حقوق دے کرمطمئن کرنے کی کوشش کی جائے گی”۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ امن منصوبہ اپنی پرانی شکل میں”اب درست نہیں رہا”۔اورفی الحال نئے زمینی حقائق نئی تجاویزکی بنیادہوسکتے ہیں ۔

ٹرمپ صرف معاہدوں کے حوالے سے سوچتے ہیں اوریہ فرض کرتے ہیں کہ انہیں معاملات کابہترعلم ہے اوراس سوچ کے تحت وہ مذاکرات کاحصہ بنیں گے اورایسے معاونین کے گروہ سے متاثرہوں گے جن کی اکثریت صیہونی نظریے کی حامی ہے۔اس امن معاہدے میں اثراندازہونے والے دیگرفریقین جن میں فلسطینی،عرب اوراسلامی ممالک ہیں کہ وہ اسے کسی حالت میں قبول نہیں کریں گے اورزمینی حالات اوربگاڑسے علاقائی اورعالمی امن کودرپیش عالمی امن کیلئے ناقابل برداشت ہوگا۔تاہم گذشتہ سال کے واقعات اس کی بنیادہوں گے اگرٹرمپ انتظامیہ ایک نئی ڈیل تجویزکرناچاہتی ہے اوروہ اپنے سابقہ امن منصوبے کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں،بلکہ ایک اورنئے معاہدے کے بارے میں بات کررہے ہیں،جس میں زمینی حقائق کومدنظررکھتے ہوئے دوریاستی حل کی طرف فریقین کوحقیقی اندازمیں مجبورکیاجائے گالیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے اب تک کے عمل میں امریکااوراس کے اتحادیوں کی پشت پناہی شامل ہے جس سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔

اسرائیلی امورکے ماہرتجزیہ کارمجالی کے مطابق مسئلہ فلسطین کا”دوریاستی حل ہی مثالی حل ہے۔دوریاستی حل کامعاملہ اب بھی حقیقت پسندانہ اورمناسب حل ہے،حالانکہ موجودہ اسرائیلی حکومت امن پسند حکومت نہیں ہے۔دوریاستی حل کودنیانے قبول کیاہے، اوراسے ترک نہیں کیاجاناچاہیے کیونکہ”اسے ترک کرناان لوگوں کی خدمت ہے جومکمل اسرائیلی سرزمین کے نظریے کے حامی ہیں،جوفلسطینی عوام کے کسی حق کوتسلیم نہیں کرتے”۔

یقیناًسعودی عرب اورخطے کے دیگرممالک بھی اس تجویزکی حمایت کرتے ہیں کہ دوریاستی حل وہ آپشن ہے جوابھی بھی میزپر ہے کیونکہ یہ سب کے مفادات کومدنظررکھتاہے،اورواضح طورپر فلسطینی ریاست کے قیام کے اصول کومتعین کرتاہے اورجوعرب فریقین کیلئےسب سے اہم نکتہ ہے۔یہ وہ بنیادہوگی جس سے اسرائیل کے تعلقات معمول پرلانے اوراسے تسلیم کرنے کے معاملے پر نئے سعودی امریکی مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں۔خطے کے موجودہ حالات کے پیشِ نظردوریاستی حل کاآپشن ہی بچاہے جسے عرب ممالک،خاص طورپرسعودی عرب خطے کے دیگر ممالک قبول کرسکتے ہیں۔

دوریاستی حل ایک ایساحل ہے جس سے خطے کے علاوہ بیشتراسلامی ممالک سیاسی طورپرچمٹے ہوئے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زمینی حقائق میں اس کاکوئی وجودنہیں نظرآرہااورنہ ہی مستقبل میں یہ ہوگا،اوراس طرح یہ اپنی مجوزہ شکل میں ہی ختم ہونے کی طرف بڑھ رہاہے۔ٹرمپ اپنے دورحکومت میں اقوام عالم کی طرف سے منظوردوریاستی حل کے آپشن کوختم کرنے کیلئے کوئی نیامنصوبہ بھی پیش کر سکتے ہیں جوخطے کے جغرافیہ سے جڑاہوانظرآئے جس میں اسرائیل کوطاقتورملک بناکر خطے میں امریکی حاکمیت کومضبوط کیاجائے۔اسرائیل نے غزہ جنگ کو غزہ سے لے کر مقبوضہ مغربی کنارے اور لبنان سے لیکرگولان کی پہاڑیوں تک اورحتیٰ کہ اردن کے ساتھ سرحدتک کودوبارہ کھینچنے کیلئےایک سیکورٹی بہانے کے طورپراستعمال کیاہے۔اسرائیل کوسیکورٹی کے نظریے کے مطابق دوبارہ ترتیب دینے کی خواہش ہے،اوراس طرح سے فلسطینی ریاست کے وجودیادوریاستوں کے درمیان بقائے باہمی کاتصوراورخیال کم ہو جائے گااوراسرائیل ٹرمپ انتظامیہ پرزمینی مسائل کیلئے ایک عملی حل نکالنے کیلئےدباؤڈالے گا۔

اس سلسلے میں قوی امکان ہے کہ ٹرمپ کے منصوبے میں اسرائیل کے زیرقبضہ مغربی کنارے کے بڑے علاقوں کاالحاق شامل کرنے کے بعد،اسرائیل سرحدوں کودوبارہ بنانے، زمینوں کوملحق کرنے،اپنی سرحدوں کووسیع کرنے،اورنئے بفرزونزبنانے کیلئےسکیورٹی جغرافیہ کودوبارہ ترتیب دینے کے عمل سے فائدہ اٹھائے گا۔جس کیلئے ٹرمپ نے آرکنساس کے سابق گورنرمائیک ہکابی کواسرائیل میں اگلے امریکی سفیرکے طورپرمنتخب کیاہے،جنہوں نے2017میں کہاتھاکہ”مغربی کنارے جیسی کوئی چیزنہیں ہے،یہ یہودیہ اورسماریہ ہے۔اسرائیلی بستیوں کے نام جیسی کوئی چیزنہیں ہے،یہ برادریاں ہیں،یہ محلے ہیں،یہ شہرہیں۔ قبضے جیسی کوئی چیزنہیں ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ مغربی کنارے پرفلسطینی آبادی پرمشتمل علاقوں کےعلاوہ جہاں پرخودمختاری کامکمل اعلان نہیں کیاجا سکتا،اسرائیل ایساکچھ کرنے پربھی زورڈال سکتاہے کہ مغربی کنارے کااسرائیل کے ساتھ الحاق جاری رہے جہاں تمام اختیارات اسرائیل کے پاس ہوں۔جس کاثبوت یہ ہے کہ اس ماہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کے ذمہ داراسرائیلی وزیر بیزلیل سموٹریچ نے اپنی وزارت کومغربی کنارے میں بستیوں پرمکمل اسرائیلی خودمختاری مسلط کرنے کی تیاری شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ادھردوسری طرف سعودی عرب یہ سمجھتاہے کہ اسرائیل اورسعودی عرب کے درمیان سفارتی وسیاسی تعلقات کی بحالی صرف ان دوممالک کے درمیان ہی نہیں بلکہ یہ اسلامی دنیااور یہودیت کے درمیان تعلقات کی بحالی ہے،لہذایہ صرف سیاسی نہیں بلکہ مذہبی اہمیت کے حامل بھی ہے اوریہ ہی وجہ ہے کہ سعودی عرب مسئلہ فلسطین کیلئے دوریاستی حل پرمضبوط مؤقف اپنائے ہوئے ہے اورریاض میں ہونے والی اسلامی کانفرنس میں ولی عہدمحمدبن سلمان کے خطاب نے امریکااوراس کے اتحادیوں مغربی ممالک کو واضح پیغام دیاہے ۔

ولی عہدکواس بات کامکمل ادراک ہوچکاہے کہ سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی وسیاسی تعلقات بحال ہونے کافائدہ ریاض سے زیادہ امریکااوراسرائیل کوپہنچتاہے کیونکہ یہ اسرائیل کوصرف عرب دنیاہی میں نہیں بلکہ اسلامی دنیامیں ایک قابل قبول ملک بنا دے گااورسعودی عرب کیلئےیہ ایک بہت بڑی اوربھاری قیمت ہے جبکہ اسرائیل کوایک فلسطینی ریاست جس کادارالحکومت مشرقی یروشلم ہو،کوتسلیم کرکے خطے میں امن کی یہ ذمہ داری اداکرنی چاہیے۔

اس امکان کے باوجود کہ فلسطینی کسی بھی عرب ملک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرآنے کوقبول نہیں کریں گے،موجودہ وقت میں اس مسئلے کانقطہ نظرمختلف ہوناچاہیے۔وہ ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں وہ آزادریاستیں ہیں جن کے اپنے مفادات ہیں،اورفلسطینیوں کوان میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے،اگروہ(ممالک)سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں ان کامفادہے تویہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔اگرفلسطینیوں کولگتاہے کہ یہ تعلقات ان کے قومی حقوق پراثراندازہوسکتے ہیں تووہ دوستانہ طریقے سے ان ممالک کی اس طرف توجہ مبذول کروائیں۔

اہم سفارتی ذرائع کے مطابق ان سفارتی تعلقات کی بحالی کواستعمال کرتے ہوئے اسلامی ممالک”اسرائیلی قبضے سے فلسطین کی آزادی اورایک فلسطینی ریاست کے قیام اورفلسطینی نظریات پیش کرکے ان کی مددکرسکتے ہیں اورجس منصوبے کے بارے میں بات کی جارہی ہے اس میں اسرائیل اورعرب ممالک کے درمیان ایک جامع امن پلان شامل ہے،جس کے بدلے میں اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، اور ہمیں اسی پر توجہ مرکوزکرنی چاہیے۔

یاد رہے کہ اس ماہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کیلئےفلسطینی ریاست کے قیام کی شرط رکھی تھی۔ سعودی عرب نے امریکی انتخابات سے پہلے یہ کہاتھاکہ دوریاستی حل کی شرط تعلقات میں بحالی کانقطہ آغازہے،نہ کہ فلسطینی ریاست کے قیام کوسفارتی تعلقات کے ساتھ مشروط کرنا۔سعودی عرب کو احساس ہے کہ طاقت کاتوازن اس کے حق میں نہیں ہے،اوراس لیے وہ دوسرے عرب اوراسلامی ممالک کی طرح اصولی مؤقف اختیارکیاہے لیکن حقیقت میں وہ اس وقت غزہ میں جنگ کے دوران ان پتوں کواستعمال کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔

ٹرمپ کے ممکنہ اگلے امن منصوبے سے متعلق اُردن اورمصرکی جانب سے کسی بھی نتائج یاکردارسے متعلق خدشات،خصوصاً فلسطینیوں کوان ممالک میں بھیجنےکے امکان پرسرکاری امریکی مؤقف اب بھی قاہرہ اورعمان کے اصرارکومدنظررکھتاہے۔مسئلہ فلسطین کوختم کرنے اورکسی بھی تصفیے کو مستردکرنے کابوجھ “فلسطینیوں کوان ممالک کی طرف جانے کیلئےدھکیلنے” کاباعث بن سکتاہے۔اس وقت”سٹیٹس کو”کی پالیسی اپنائی جارہی ہے اور سب نے غزہ جنگ،رفح بارڈرکی بندش اورمغربی کنارے کے شمالی علاقوں پراسرائیلی کنٹرول کی مخالفت کی ہے۔

آنے والے برسوں میں تمام رہنمااس مسئلہ کے عملی حل کے بارے میں سوچیں گے جوزمینی حقائق اورجغرافیائی تبدیلیوں کومدنظر رکھ کرنکالاجائے گااورجسے اسرائیل پیش کرے گا۔جب “صدی کے معاہدے”کی تجویزپیش کی گئی تھی تواس وقت اردن نے اپنے وزیرخارجہ ایمن صفادی نے”کسی بھی یکطرفہ اسرائیلی اقدامات کے خطرناک نتائج سے خبردارکیاتھااور1967کی سرحدوں پرمبنی دو ریاستی حل کی پاسداری پرزوردیاتھا۔مصری وزارت خارجہ نے کہاتھاکہ”قاہرہ مسئلہ فلسطین کوبین الاقوامی قانونی جوازاوراس کے فیصلوں کے مطابق حل کرنے کے حوالے سے امریکی اقدام کی اہمیت کوسمجھتاہے۔تاہم امریکی اسرائیل نوازتھنک ٹینک کے حلقوں میں بڑھتے ہوئے نقطہ نظرکی بات کی جائے تووہ عرب ممالک کوفلسطینیوں کے تئیں اپنی انسانی ذمہ داریاں اداکرنے پرزوردے رہے ہیں لیکن خطے کے ممالک کواس بات کابخوبی ادراک ہوگیاہے کہ ایسے مرحلے میں ان کوکیسے دباؤکاسامنا کرناپڑ سکتا ہے ۔

اسلامی کانفرنس ریاض میں ولی عہدمحمدبن سلمان نے اسی دباؤکے جواب میں امریکااوراس کے تمام اتحادیوں سمیت اسرائیل کو جوواضح پیغام دیاہے وہ دراصل ایران کی حمائت سے کہیں زیادہ خطے کے ممالک کواسرائیل کے خطرہ سے آگاہ کرنامقصودہے اورسعودی عرب نے اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کااعلان ہے۔امریکااورمغربی یورپ سعودی عرب کی طرف سے غیرمتوقع اعلان کے پیچھے چین کی اس خاموش سفارتکاری کی کامیابی بھی سمجھتاہے جس کوخطے کے تمام ممالک سے امریکی اثرورسوخ کے دفن اورکفن کی علامات سے بھی تعبیرکیاجارہا ہے ۔کیاامریکااسرائیل کوقربانی کابکرابناکراپنے مفادات کاتحفظ کرنے کی پالیسی پر عملدرآمدکرنے کی کوشش کرے گایاپھراسرائیل امریکامیں اپنے دوستوں کومددکیلئے پکارے گا۔اگرایسا ہوگیاتوٹرمپ کاوائٹ ہاؤس میں قیام مختصربھی ہوسکتاہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں