Treatment is essential

مداواضروری ہے

:Share

جب سے متعصب مودی نے اقتدارسنبھالاہے،بھارت میں آرایس ایس اوربی جے پی کے غنڈوں نے تمام اقلیتوں کاجینادوبھراور انڈیاکوقبرستان بنا کررکھ دیاہے اوربالخصوص مسلمانوں پربہیمانہ ظلم وستم کی انتہاءہوگئی ہے۔یہ متعصب غنڈے جب جی چاہے کسی مسلمان کوپکڑکرکسی بھی جگہ لے جاتے ہیں،ایک غنڈہ موبائل پرفلم بناتاہے،دوسرامسلمان کوحکم دیتاہے ، جے شری کاکانعرہ لگاؤ ۔حکم عدولی پربے پناہ تشددکیاجاتاہے اوراگرمضروب مجبوری میں ان کے حکم کی تعمیل کرے تو اسے بارباریہ نعرہ لگانے پرمجبورکیاجاتاہے،اس پرجب دل نہیں بھرتا توپاکستان اوراسلام کوغلیظ گالیاں دینے پرمجبورکیاجاتاہے جس کے بعدسرعام ہاتھ میں پکڑے ہوئے گنڈاسے یاتلوارسے خوفناک وار کرکے اس کوموت کے گھاٹ اتاردیاجاتاہے اورمجبورو مقہور جان بخشی کیلئے گڑگڑاتاہواشہیدہوجاتاہے جس کے بعدآرایس ایس کادوسراغنڈہ اس کی لاش پرتیل چھڑک کرآگ لگادیتاہے اورپاکستان کو دہمکی دیتا ہے کہ بھارت کے خلاف جہادبندکرو،ورنہ یہاں مسلمانوں کایہی حشر کریں گے۔یہی سلسلہ مقبوضہ کشمیرمیں قابض بھارتی فوج نے بھی شروع کررکھاہے۔وہ کشمیری نوجوانوں کوپکڑکران پربہیمانہ ظلم وستم اورمارپیٹ کے دوران انہیں بھی پاکستان اوراسلام کوگالیاں دینے پرمجبورکرتے ہیں اورڈھٹائی کایہ عالم ہے کہ بعدازاں سوشل میڈیاپریہ ویڈیو وائرل کی جاتی ہے تاکہ کشمیری مسلمانوں دلبرداشتہ ہوکرجدوجہد آزادی میں حصہ نہ لیں۔

مجھے ایک پاکستانی دوست نے بتایا:میں نے ایک ایساہی ویڈیوکلپ جوآرایس ایس نے وائرل کیاتھا،اپنی فیس بک پرچندروزکیلئے لگایاتومیری فیس بک اور پیج دودن کیلئے بندکردیئے گئے ۔حیرت تواس بات پرہے کہ وہی ویڈیوکلپ جس بھارتی پیج سے میں نے لیاتھا،وہ کئی ماہ سے ایسے ویڈیو کلپ چلارہاہے اور اب بھی کئی ایسے خوفناک ویڈیوکلپ اس کی فیس بک پر چل رہے ہیں لیکن اس پرکوئی پابندی نہیں۔میں نے تویہ کلپ ان پاکستانیوں بقراطیوں کیلئے وائرل کیاتھاجو دن رات اس متعصب بھارت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اورانہیں اس وقت نیندنہیں آتی جب تک وہ کسی بھارتی فلم کودیکھ نہ لیں اور بے شرمی کی حد تویہ ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کراچی کے تاجروں سے ملکی ترقی کیلئے آگے بڑھنے کی جب دعوت دے رہے تھے توپاکستانی تاجرجس نے اسی ملک کے باسیوں سے اربوں روپے کمائے،وہ میڈیاکے سامنے وزیراعظم کوبھارت سے تعلقات بہتربناے کی دعوت دے رہے ہیں جبکہ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ مودی اوراس کے چیلے پاکستان کے بارے میں کیاکیابیانات دے رہے ہیں اوربالخصوص ان دنوں انتخابی مہم میں پاکستان اور مسلمانوں کے بارے میں جوزبان استعمال ہورہی ہے،کیاکوئی غیرت مندپاکستانی ان افرادکے ساتھ ہاتھ ملانے کاسوچ بھی سکتاہے؟

بھارتی دہشتگردی اوربھارتی دہشتگردوں کے کرتوت ہمارے اپنے ایسے ہی مہربان قوم کے سامنے نہیں لانے دیتے،یہی وجہ ہے کہ ہم آج پوری دنیا میں انتہائی نچلے درجے کوپہنچ چکے ہیں۔جہاں تک بھارت کی دہشتگردحکومت کاتعلق ہے تواس نے وندے ماترم ،سوریہ نمسکاراوریوگاکے نام پرمسلمانوں کے مذہبی استحصال کے ساتھ ساتھ ہرزہ سرائی کاسلسلہ بھی شروع کررکھاہے حتیٰ کہ یہاں تک کہاگیاکہ جوسوریہ نمسکارنہیں کرتااسے ہندوستان چھوڑ کرچلاجانا چاہئے۔بعض فرقہ پرست لیڈروں کے مطابق یوگاکرنے سے اسلام منع نہیں کرتا کیونکہ یوگاتوایک قسم کی ورزش ہے جوصحت کیلئے سودمند ہے۔ان کایہ بھی کہناہے کہ کئی مسلمانوں ملکوں میں یوگاکیاجاتاہے توپھربھارتی مسلمانوں کویوگاپرکیوں اعتراض ہے لیکن یوگاکی حمائت میں بات کرنے والے فرقہ پسندمسلم دشمنوں کویہ معلوم ہوناچاہئے کہ کچھ مسلمان ملکوں میں یوگاکیاجاتاہے لیکن وہاں یوگاکے دوران منتروں کاجاپ اورسوریہ نمسکار نہیں کیاجاتامگربھارت میں یوگاکے نام پرمسلمانوں کومجبورکیاجاتاہے کہ وہ سوریہ نمسکارکریں۔اوم کاجاپ کریں۔اس مذموم پروگرام میں بلا تفریق سارے ہندوستانیوں بشمول مسلم اقلیت کی شرکت پرحکومتی اصرارغیرجمہوری،غیر اخلاقی اوراسلام مخالف طرزِعمل ہے۔

چندسال قبل سب وکاس کانعرہ لگاتے ہوئے مودی حکومت نے مسندِ اقتدارپرتسلط جمایامگراب تومودی کے دورِحکومت میں فرقہ پرستی انتہاءکوپہنچ چکی ہے جبکہ یوگامیں شامل سوریہ نمسکار اوراشلوکوں پرمبنی منترپڑھنے کاعمل بھارتی سیکولرآئین کی روشنی میں ملنے والے بنیادی مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔مودی حکومت کے نمائندے غیرجمہوری بیانات دینے اورمسلمانوں کی مذہبی جذبات مجروح کرنے کی پالیسی پرعمل پیراہیں اور گائے کاگوشت کھانے والوں کوپاکستان بھیجنے کی دہمکی دینا،گھرواپسی اورچارشادیوں کا تمسخراڑاناان کامعمول بن چکاہے۔یوگااصل میں گیان اوردھیان کاایک طریقہ ہے جس کا مقصد بھگوان کے آگے خودسپردگی ہے۔سوریہ نمسکاریعنی سورج کی پوجایوگاکااہم عنصرہے۔ یوگابنیادی طورپریوگ سے نکلا ایک لفظ ہے جس کے معنی جوڑکے ہیں۔یوگ کی تاریخ اورپس منظرسے یہی معلوم ہوتاہے کہ یہ درحقیقت ہندوؤں میں عبادت کا ایک طریقہ ہے۔ بنیادی طورپرہندوازم کابنیادی فلسفہ ہے جس میں آتما(روح)پرماتما(بھگوان)اورشریر(جسم)کومراقبے کے ذریعے ایک ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یوگ کاپہلاطریقہ ہندوؤں کے مطابق ان کے بھگوان شنکرنے ایجادکیاتھااوردوسراطریقہ پنانچلی نام کے یوگ گرونےشروع کیاتھا ۔لوگ ہندوؤں کے علاوہ بدھ مت کے ماننے والوں میں بھی رائج ہے۔یہ محض ایک ورزش نہیں کیونکہ اس کی ایک مذہبی حیثیت رہی ہے۔یوگ کے دوران مذہبی اشلوک کی ادائیگی بھی اس کاحصہ ہے۔ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہزاروں آشرم قائم ہیں اور حکومت کی طرف سے انہیں سرکاری امدادبھی دی جاتی ہے جبکہ مودی کی حکومت کی تشکیل میں اہم کرداراداکرنے والے”بابا رام دیو”یوگاکے سب سے بڑے پیروکارہیں اورانہی کی کوششوں سے اقوام متحدہ میں یوگاکاعالمی دن منانے کااعلان کیاگیاتھاجس میں بھارتی فرقہ پرست وزیراعظم اورآرایس ایس کے پرچارک مودی نے اہم کردارادا کیا۔مودی حکومت بھارت کوہندوراشٹربنانے کے ایجنڈے پرعمل پیراہے اوریوگاکا عالمی دن منانے کے پیچھے بھی حکومت کامقصدکارفرماتھا۔

مودی نے اپنے اقتدارکے پہلے سال میں27ستمبر2014ءکواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے69ویں سیشن میں خطاب میں بین الاقوامی برادری سے یوگاکےانعقاد کی اپیل کی تھی۔11دسمبرکوجنرل اسمبلی نے اس تجویزکو21جون کوعالمی یوگاڈے منانے کی تجویزکواتفاق رائے سے منظورکرلیا۔ مودی سرکارچانکیہ کے نقش قدم پرچل رہی ہے۔اس کی دوواضح پالیسیاں ہیں ،اوّل ان تمام جھوٹے وعدوں کوبھارتی عوام کے دماغ سے صاف کردیا جائے جومودی نے الیکشن کے دوران کیے تھے تاکہ ہندوستانی عوام سمجھنے کے اہل ہی نہ رہیں کہ ان کے ساتھ کوئی دھوکہ یاٹھگی ہوئی ہے اورناراض ہونے کی بجائے مودی کی مالاجپتے رہیں۔ دوم ،ہندواکثریتی طبقے کے دماغوں میں ہندتواکے مفروضے کااس طرح پرچارکیاجائے کہ انہیں یوں لگے کہ اب وہ ایک ہندودیش کے شہری ہیں اورہندوسنسکرتی دنیامیں سب سے اعلیٰ ہے اورہندوعوام کویہ فضیلت سنگھ پریواراورمودی کے طفیل ہی مل سکی ہے۔ان دونوں پالیسیوں کو ہندوستانیوں کے دل ودماغ میں متواترپختہ کیاجارہاہے۔ویدک کال میں جنگی جہازوں کااستعمال اس قدیم دورمیں جدید میڈیکل سائنس کی کرشماتی سرجری سے بھی زیادہ پیچیدہ آپریشن اوراب یوگاکی اچانک اس قدرتبلیغ الیکشن کے دوران مودی باقاعدہ اعلان کرتے تھے کہ انہیں خودبھگوان نے بھیجاہے تاکہ اس دیش کاکلیان کرسکیں۔

آج سے پچاس سال قبل امریکااوریورپ سے سیاح کثیرتعداد میں بھارت آناشروع ہوئے،اس زمانے میں ہندوعوام سادھوؤں اور سنتوں کوکسی اور دنیاکی مخلوق سمجھتے تھے اوران کو سمجھنے کیلئے ان کے آشرموں میں قیام کرتے تھے۔ان سادھوؤں،سنتوں کی سیوا کرتے اوربدلے میں تین چیزیں (بھنگ،گانجااوریوگا)ساتھ لے جاتے۔ان سیاحوں کیلئےرشی کیش،ہری دوار کے آشرم ہی ٹھکانے تھے جہاں ہندویوگی اورسادھوچلم کے کش کے ساتھ دیگربیہودہ اعمال کی تعلیم دیتے تھے۔ان لوگوں نے امریکااور یورپ میں بھی آشرم قائم کیے اورلوگوں کویوگاکی تعلیم دینے لگے جس سے کروڑوں ڈالرکماتے۔ہندودھرم میں تمام علوم کاسرچشمہ وید ہیں اورویدوں کے عالم اورتخلیق کاروں نے یہ سسٹم ایجادکیا،اس لئے مختلف آسنوں کے دوران مختلف دیوتاؤں سے شکتی اور صحت پرارتھناکی جاتی ہے،ان کی تعریف کی جاتی ہے۔سوریہ(سورج)آسن میں سورج کے سامنے ڈنڈوت کیاجاتا ہے۔منتراور اشلوک پڑھ کران سے مددکی درخواست کی جاتی ہے۔ظاہرہے کہ مسلمان یوگاتوکرسکتے ہیں لیکن اشلوکوں کے وردسمیت یہ تمام اعمال انجام نہیں دے سکتے جوغیراللہ کی پرستش پرمحمول ہیں مگرسب کے سب مسلمان ہرمذہبی رسم کی تہ تک پہنچتے کی حاجت محسوس نہیں کرتے اوران کی آزاداورغیرجانبدارطبیعت بے حدمضررساں بھی ثابت ہورہی ہے،دوسری طرف مسلمانوں اوردیگر غیرہندوؤں کومرتد کرنے کی مہم سونے پر سہاگے کاکام دے رہی ہے۔

جس مذہب میں ہرطاقتورکوخدامان کراس کوسجدے کرناشروع کردیئے جائیں،سواارب کی آبادی کے کروڑوں بھگوانوں کی پرستش کی جاتی ہو،جس مذہب کی اساس گائے کی تقدیس ہواورجوبے شماراوہام اورلایعنی رسوم کامجموعہ ہو،اسے کوئی غیرہندوکس طرح قبول کرے۔یہ وہ لاینحل مسئلہ ہے جوآج کل مودی سرکارمیں ہندوستان کے ان تمام باشندوں کیلئے سوہانِ روح بن گیا ہے جو ہندودھرم پرایمان نہیں رکھتے،اس صورتحال سے بھارت کے عیسائی،پارسی،بدھ مت کے ماننے والے،کیمونسٹ حتیٰ کہ دہریے بھی پریشان ہیں۔اس صورتحال کامحرک ہندوؤں کا روحانی گرومدھویوسدا شیو گولواکرہے۔اس نے مودی سرکارکی شہہ پاکراپنانعرہ ہندوراشٹرا بڑی تیزی سے بلندکیاہے۔وہ ڈنکے کی چوٹ پراعلان کررہاہے کہ ہندوستان میں بسنے والے تمام غیر ہندواپنی جان کی امان چاہتے ہیں توہندودھرم اور ہندو بودوباش اختیارکرلیں بصورت دیگران کی زندگی ہلاکت کی زدمیں رہے گی۔ مدھو یوسراشیومدت سے ہندودھرم کاپرچارکررہاہے۔وہ تمام مسلمانوں،عیسائیوں،بدھوؤں،پارسیوں حتیٰ دہریوں کوبھی تاکید کررہاہے کہ ہندوراشٹرکا فلسفہ قبول کرلوکیونکہ ہندوفلسفہ قومیت کی بنیادہے۔

بھارت کے کیمونسٹ ہندوتراشٹراکے فلسفے پرتعجب کااظہارکررہے ہیں۔وہ پوچھتے ہیں کہ اگرمذہب ہی قومیت کی بنیادمان لیا جائے توپھربھارت اورنیپال دونوں ملک ایک ہی دھرم کو ماننے والے ہیں،یہ دونوں آپس میں ضم ہوکرایک قوم کیوں نہیں بن جاتے ۔برمااورسری لنکایکساں نوعیت کاایک ہی دستوراختیار کیوں نہیں کرتے؟ اکثرپڑھے لکھے تعصب سے ماوراء لوگ ہندودھرم کے تضادات پرحیرت کااظہارکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پروفیسرڈی این جھا،پروفیسرآرایس شرما،رومیلاتھاپراورڈی سی کوسمبی نے مستندتاریخی حوالوں سے لکھاہے کہ ہندوستان کے قدیم برہمن گائے کاگوشت کھایا کرتے تھے جبکہ نیپال کے ہندوتوآج بھی ہرقسم کی خوشی کی تقاریب میں بیل کے گوشت کاپکوان پکاتے ہیں۔اس صورتحال میں گاؤکشی کے نام پر مسلمانوں کوکیوں قتل کردیاجاتا ہے؟

ہندودھرم کاایک اہم اثاثہ ویدہیں لیکن اس کے متن میں یکسانیت نہیں ہے۔گاندھی اپنی روزانہ کی دعائیہ مجلس میں قرآن کریم،انجیل اورگیتاکے اسباق پڑھاکرتے تھے۔ہرچندان کایہ عمل مذہبی سے زیادہ سیاسی تھاکیونکہ وہ ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگوں کو ایک قوم بناناچاہتے تھے۔جسٹس دیپک دوااورمودی بھی گیتاپڑھتے ہیں۔احمدآبادکاشاعراحسان جعفری عالمگیرانسانیت پریقین رکھتا تھا،جواہر لال نہروکاپیروکارتھا۔اس نے زندگی بھر پیرا،گوتم بدھ اورگورونانک جیسے شخصیات کے محاسن پرنضمیں لکھیں لیکن گجرات میں مسلم کش فسادات کے ذمہ دار مودی کے چیلوں نے انہیں بھی نہیں بخشا۔اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اوراس کے گھرکے سارے اثاثہ کو جلاکرخاکسترکردیا۔اسی طرح احمدآبادہی کی ایک مغنیہ رسولاں بائی کا گھربھی جلادیا حالانکہ وہ ہرنغمے کی دھن سے پہلے رام اورکرشن کے نام کاپاٹھ پڑھاکرتی تھی۔

یہ آج کے بھارت کی وہ سرگرمیاں ہیں جنہوں نے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔شدھی یعنی مسلمانوں کوہندوبنانے، مسلمانوں کی بستیاں جلانے اوران کاخون بہانے کی تحریک ہندوستان میں بہت پہلے سے موجودتھی لیکن اب مودی حکومت میں یہ تحریک ایک وبااور بلائے بے اماں کی شکل اختیارکرچکی ہے۔آج خودبھارت میں ہرصاحبِ ضمیرشخص یہ سوال کر رہا ہے کہ کیااب بھارت کاسیکولرآئین اندھااورانسانی حقوق کاکاعالمی منشوراپاہج ہو گیاہے؟کیااب بھارت میں کسی مہذب انسان کواپنے افکارکے مطابق زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں؟

مودی سرکارکی منافقت کایہ عالم ہےکہ سادھوکے بھیس میں جب بھی کبھی امن کے اشلوک دہراتاہے توکوئی بھی یقین کرنے کو تیارنہیں ہوتا۔جنگی جنون میں مبتلامودی کئی مرتبہ یہ ایسے اکھنڈبھارت کانعرہ لگاچکاہے کہ بحرہندکے ساحل پربسنے والاہرملک اکھنڈبھارت کاحصہ ہے اوردوسری طرف ان کے سرپرست یہودی گریٹراسرائیل کے مبینہ نقشے کی سرحدیں بحرہندسے منسلک دکھائی گئی ہیں۔یہودوہنودکی درپردہ دوستی اب کھل کرسامنے آچکی ہے اورابھی حال ہی میں بھارتی ائیرفورس نے اسرائیل سے ہارڈ ویئر حاصل کرنےکے بعد “راکس” نامی نیم بیلسٹک میزائل کاتجربہ کیاہے۔ اسرائیل کی طرف سے تیار کردہ راکس سسٹم کی رینج250کلومیٹرہے اوراسے”ایس یو30ایم کے جیٹ”کے ذریعے لانچ کیاگیا ہے تاکہ پاکستان کے جوہری مقامات کونشانہ بنایاجا سکے۔

بھارتی خبررساں ادارے “پرنٹ” کے ذریعے اس کی کامیابی کا اعلان کیاہے،جس کے بعدیقیناًخطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی نئی دوڑ کاآغازہوگیاہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ فضاسے زمین تک مارکرنے والاایٹمی میزائل ہے جس کواسرائیلی دفاعی ٹیک کمپنی رافیل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹم نے ڈیزائن اور بنایاہے اوراس میزائل کی ٹیکنالوجی بھی ہندوستان کومنتقل کرنے کامعاہدہ ہواہے تاکہ ہندوستان اب اپنے ملک میں مزیدمیزائل بناسکے۔نئے میزائل نے بھارت کے پاکستان کے اہم انفراسٹرکچربشمول اس کی جوہری تنصیبات پرحملہ کرنے کے قابل ہونے کا خدشہ بڑھادیا ہے۔

یونیورسٹی آف البانی، یوایس اے سے ماہر تعلیم کرسٹوفر کلیری اورایم آئی ٹی سے وپن نارنگ نے2018میں خبردارکیاتھاکہ پاکستان کے پاس ٹیکٹیکل نیوکلیئرہتھیارہیں لیکن اس مفروضہ کا کوئی ثبوت آج تک مہیانہیں کیاجاسکا-یہ چھوٹے جوہری ہتھیار جوعین اہداف پراستعمال کیے جاسکتے ہیں، انڈیا کو “سٹریٹجک فالج”میں ڈال سکتے ہیں۔پاکستان اوربھارت کےمابین پہلے “استعمال نہ کرنے”کی جوہری پالیسی توموجودہے لیکن بصورت جنگ میں پاکستان کے پاس ان ٹیکٹیکل ہتھیاروں کی بناء پریہ صلاحیت موجودہے جوبڑے جوہری ہتھیاروں کی نسبت کہیں زیادہ تباہ کن ہیں جبکہ اب بھارت کو اسرائیلی میزائل”راکس” کے حصول کے بعدیہ صلاحیت ہوگئی ہے۔

کرسٹوفرکلیری اوروپن نارنگ کے اس بے بنیادمفروضے پرکیسے یقین کیاجائے جس کاآج تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آسکا۔ ایسے ہی مفروضے پرعمل کرتے ہوئے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی اوروہاں ڈیڑھ ملین افرادکواب تک موت کے گھاٹ اتاردیاگیاجبکہ اقوام متحدہ میں خودامریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل نے شرمندگی کے ساتھ عراق پرناجائزحملے کی اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا لیکن ہزاروں سال پرمحیط تہذیب سے مالامال ملک کوتباہ کرکے اس کوصدیوں پیچھے دھکیل دیاگیا،اس عظیم نقصان کوکون پوراکرے گا۔

مارچ 2013میں،براؤن یونیورسٹی میں واٹسن انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیزکے ذریعہ آج تک کی عراق جنگ کی کل لاگت کا تخمینہ7 1.7ٹریلین ڈالرلگایاگیاتھا۔دفاعی اورمعاشی ماہرین کاکہناہے کہ امریکی معیشت پرجنگ کی کل لاگت2053تک سودکی شرح سمیت3ٹریلین ڈالرسے6ٹریلین ڈالرتک ہوگی،جیساکہ واٹسن انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں بیان کیاگیاہے کہ ستم ظریفی تویہ ہے کہ امریکی اوراتحادی افواج کی تسلیم شدہ غلطی کاتاوان نجانے کب تک عراقی تیل کی صورت میں وصول کیاجاتارہے گا۔

غزہ فلسطین میں حالیہ اسرائیلی ظلم وستم ابھی ختم نہیں ہوئے کہ اسرائیل نے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کرکے درجن سے زائدافراد کو شہیدکردیاجس کامقصدغزہ پرہونے والے جرائم پرپردہ ڈالنے اوراپنے مغویوں کی بازیابی پرناکامی اورشکست سے توجہ ہٹاتے ہوئے ایران کے جواب پرامریکااوراس کے اتحادیوں کوایک بڑی جنگ میں ملوث کرنامقصودتھا۔اس واقعے کے فوری بعدایرانی صدرکاپہلی اسلامی ایٹمی قوت کا تین دن دورے کوناکام بنانے کیلئے امریکاکاکھلی دہمکیاں دینابھی اس سازش کاپتہ دیتاہے کہ ایسے موقع پرمودی کااسرائیل کے اشتراک سے میزائل کاتجربہ کرنایقیناً شکوک شبہات بڑھادیتاہے کہ کہیں عراقی جنگ شروع کرنے کے بے بنیادبہانے کواس خطے میں دہرانے کی سازش تونہیں بنائی گئی جس کے بعدیہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ”پہلے استعمال نہ کرنے”کی پالیسی کوہوامیں اڑاتے ہوئے یہ خوفناک کھیل شروع کر دیاجائے جس کیلئے اس خطے میں مودی جیسے مکارکواستعمال کرتے ہوئے کہیں عالمی جنگ کاطبل نہ بجادیاجائے۔ان خدشات کی بناءپریقیناًمودی جیساجنونی اب دنیا کیلئے ایک ایساخطرہ بن گیاہے کہ دنیاکے امن کیلئے اس کامداواازحدضروری ہوگیاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

twelve − one =