Tomorrow's Mir Jafar And Mir Sadiq

کل کامیرجعفراورمیرصادق

:Share

دنیاامن وسلامتی کی آرزومندہے،کم سے کم زبان سے توسب اسی امن اورسلامتی کے دعویدارہیں لیکن اس امن وسلامتی کی ایک شرط ہے ایک بنیادہے اگریہ شرط پوری نہ ہواوریہ جب بنیادمیسرنہ آئے توہماری اس انسانی دنیاکاامن اورسلامتی فقط ایک دعویٰ اورخالی آرزو ہی رہے گی۔وہ شرط اوربنیادعدل ومساوات ہے جب تک عدل وقائم نہ ہواور سب کے ساتھ برابرکاسلوک نہ ہوسکے تو امن وسلامتی کا دعویٰ بھی جھوٹاہے اوراس کیلئے آرزو بھی خام خیالی ہے کیونکہ امن و سلامتی سے پہلے عدل ومساوات ضروری ہے اورعدل وانصاف کے بغیرقیامِ امن ناممکن ہے۔

سوئے اتفاق اوربد قسمتی سے دنیامیں تصادم کی فضاہے،ظلم وناانصافی ہے اورسب سے یکساں سلوک مفقودہے۔یہ بھی عجب ستم ظریفی ہے کہ یہ ظلم اور ناانصافی صرف مسلمانوں سے روا رکھی جارہی ہے۔ظالمانہ تصادم کی فضا کاعملی شکاربھی مسلمان ہیں ۔اس سے بھی عجیب ترین بات یہ ہے کہ اس تصادم اور ظلم وفسادکی جڑبھی مسلمانوں کوٹھہرایاجارہاہے اورعجیب ترین بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ کیفیت چپ چاپ برداشت کرلی ہے،کم سے کم دنیابھر کے مسلم حکمران توبالکل چپ ہیں،اس پراحتجاج بھی نہیں کررہے جیسے کچھ دیکھتے نہ ہوں،جیسے کچھ سمجھتے نہ ہوں۔اس المناک صورت حال کاسبب یہ ہے کہ یہاں عوام اور حکمرانوں کے درمیان وسیع خلیج حائل ہے۔اس کانتیجہ یہ ہے کہ ہمارے یہ حکمراں اسلام مخالف قوتوں کے رحم وکرم پرہیں اورعالمِ اسلام ظالم لٹیروں کی زدمیں ہے۔

اگرصحیح جمہوری فضاہوتی تودنیابھرکے مسلم عوام اوراسلامی دنیا کی یہ حالت نہ ہوتی۔آج بھی اگرمسلم عوام اوران کے حکمراں متحدہوکراس امتیازی سلوک کے خلاف زوردارآوازیں اٹھائیں تویہ فضابدل سکتی ہے۔امن وسلامتی کے جھوٹے دعویداراپنی اپنی قوم کے سامنے رسواہوکربے اثرہوسکتے ہیں کیونکہ حسنِ اتفاق سے ان کے اپنے اپنے ملک کے عوام جمہوری قوتوں کے رحم وکرم پرہوتے ہیں اوریہ عوامی جمہوری قوتیں جس طرح اپنے جھوٹے حکمرانوں کو برداشت نہیں کرتیں،وہ پسماندہ قوموں سے ظلم و ناانصافی اورڈبل معیارکی بھی مخالف ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ اسلامی دنیاکے عوام دنیاکے جمہوری عوام تک رسائی اورربط کی صورت پیداکریں توپھروہی ہوسکتاہے جوبش،ٹونی بلئیراوراس کے اتحادیوں کے ساتھ ہوا۔

گوعراق ابھی تک مکمل آزادنہیں ہوالیکن عراقی عوام آزادہوگئے ہیں کہ انہوں نے ظلم کومستردکردیاہے،ان کی اوران کے قاتل کی حقیقی صورتحال دنیا کے جمہوری عوام تک پہنچ گئی ہے جواپنے حکمرانوں سے حساب لے سکتے اورلیتے ہیں۔اگرآپ کی نظر تاریخ پرہے توآپ محض مسلمان ہونے کے سبب اس ظالمانہ تہمت اورتصادم سے بچ بھی سکتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ پر جارحانہ چڑھائی سے صلیبی جنگوں کاآغازکس نے کیابلکہ یہ بھی کہ یہ کس نے کروایا؟چار سو سال تک انسانیت کاخون پانی کی طرح بہتا رہاجن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی،مال لوٹاگیا،ملک چھینے گئے،یہ سب سلوک مسلمانوں سے تھااوریورپ کے صلیبیوں نےکیاتھا ۔پہلی اوردوسری عالمی جنگیں کس نے شروع کیں؟پرانے سامراجیوں نے۔آج یہ ظالمانہ تصادم کی فضاکس نے پیدا کی؟آج کے نئے سامراجیوں نے۔میں لیبیا،عراق،اشام اورافغانستان کاتذکرہ نہیں کروں گامگریہ توسوچیں کہ سب کچھ کس نے کرایا؟آپ کی یاددہانی کیلئے صرف ایک لرزہ خیزواقعہ ہی پیش کردیتاہوں:

حکم ہواتمام مردوں کوایک جگہ اکٹھاکیاجائے۔فوجی شہرکے کونے کونے میں پھیل گئے۔ماؤں کی گودسے دودھ پیتے بچے چھین لیے گئے۔بسوں پرسوار شہر چھوڑکر جانے والے مردوں اورلڑکوں کوزبردستی نیچے اتارلیاگیا۔لاٹھی ہانکتے کھانستے بزرگوں کو بھی نہ چھوڑاگیا۔سب مردوں کواکٹھاکرکے شہرسے باہر ایک میدان کی جانب ہانکاجانے لگا۔ہزاروں کی تعدادمیں لوگ تھے۔عورتیں چلارہی تھیں۔گڑگڑارہی تھیں۔اِدھر اعلانات ہو رہے تھے:”گھبرائیں نہیں کسی کوکچھ نہیں کہاجائے گا، جوشہرسے باہرجاناچاہے گا اسے بحفاظت جانے دیاجائے گا۔”زاروقطارروتی خواتین اقوامِ متحدہ کے اُن فوجیوں کی طرف ملتجی نظروں سے دیکھ رہی تھیں جن کی جانب سےدعویٰ کیاگیاتھاکہ شہرمحفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن وہ سب تماشائی بنے کھڑے تھے۔شہرسے باہرایک وسیع وعریض میدان میں ہرطرف انسانوں کے سرنظرآرہےتھے۔گھٹنوں کے بل سرجھکائے زمین پرہاتھ ٹکائے انسان،جواس وقت بھیڑوں کابہت بڑاریوڑمعلوم ہوتے تھے۔دس ہزار سے زائدانسانوں سے میدان بھرچکاتھا۔اچانک ایک طرف سے آوازآئی”فائر”!سینکڑوں بندوقوں سےآگ کے شعلے بیک آوازگولیوں کی تڑتڑاہٹ گونجیں لیکن اس کے مقابلے میں انسانی چیخوں کی آوازاتنی بلندتھی کہ ہزاروں کی تعدادمیں برسنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی دب کررہ گئی۔

ایک قیامت برپاتھی۔ماؤں کی گودیں ایک پل میں اجڑگئیں،سروں کے تاج آنکھوں کے سامنےتڑپتے رہے ۔دھاڑیں مارمارکررونے کی آوازیں آسمان تک پہنچ رہی تھیں۔سینکڑوں ایکڑپرمحیط میدان میں خون،جسموں کے چیتھڑے اورنیم مردہ کراہتے انسانوں کے سوا کچھ نظرنہ آتاتھا۔ابلیسی خونی رقص جاری تھااورانسانیت دم توڑرہی تھی۔ان سسکتے وجودوں کاایک ہی قصورتھاکہ یہ کلمہ گو مسلمان تھے۔اس روز80سالہ بوڑھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹوں اورمعصوم پوتوں کی لاشوں کےتڑپتےپرخچے اڑتے دیکھے۔بے شمارایسے تھے جن کی روح شدتِ غم سے ہی پروازکرگئی۔

شیطان کایہ خونی رقص تھماتوہزاروں لاشوں کوٹھکانے لگانے کیلئےبڑے بڑے گڑھے کھودکرہزارہزارلاشوں کوایک ہی گڑھے میں پھینک کرمٹی سے بھر دیاگیا۔ یہ بھی نہ دیکھاگیاکہ لاشوں کے اس ڈھیرمیں کچھ نیم مردہ سسکتے اورکچھ فائرنگ کی زد سے بچ جانے والے زندہ انسان بھی تھے۔لاشیں اتنی تھیں کہ مشینری کم پڑگئی۔بے شمارلاشوں کویوں ہی کھلاچھوڑدیاگیااورپھررُخ کیاگیاغم سے نڈھال ان مسلمان عورتوں کی جانب جومیدان کے چہار جانب ایک دوسرے کے قدموں سے لپٹی رورہی تھیں۔انسانیت کاوہ ننگا رقص شروع ہواکہ درندے بھی دیکھ لیتے تو شرم سے پانی پانی ہوجاتے۔شدتِ غم سے بے ہوش اورذہنی توازن کھوجانے والی خواتین کاریپ کیاگیا۔ خون اورجنس کی بھوک مٹانے کے بعدبھی چین نہ آیاتوان کے سروں کانشانہ لیکرگولی داغ دی گئی۔اگلے کئی ہفتوں تک پورے شہرپرموت کاپہرہ طاری رہا۔ڈھونڈ ڈھونڈ کراقوامِ متحدہ کے پناہ گزیں کیمپوں سے بھی نکال نکال کرہزاروں مردوزن کو گولیوں سے بھون دیاگیا۔محض دودن میں50ہزارنہتے مسلمان زندہ وجودسے مردہ لاش بنادیے گئے۔

یہ تاریخ کی بدترین نسل کشی تھی۔ظلم وبربریت کی یہ کہانی سینکڑوں ہزاروں سال پرانی نہیں،نہ ہی اس کاتعلق وحشی قبائل یادورِ جاہلیت سے ہے۔یہ 1995کی بات ہے جب دنیااپنے آپ کوخودساختہ مہذب مقام پرفائزکیے بیٹھی تھی۔یہ مقام کوئی پس ماندہ افریقی ملک نہیں بلکہ یورپ کاجدید قصبہ سربرینیکاتھا۔یہ واقعہ اقوامِ متحدہ کی نام نہادامن فورسزکے عین سامنے بلکہ ان کی پشت پناہی میں پیش آیا۔اگرآپ سمجھتے ہیں کہ یہ مبالغہ آرائی ہے توایک بارسربرینیکاواقعے پراقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کابیان پڑھ لیجیے جس نے کہاتھاکہ یہ قتلِ عام اقوامِ متحدہ کے چہرے پربدنماداغ کی طرح ہمیشہ رہے گااور دنیاکے تمام سمندروں کاپانی بھی ان دھبوں کودھونے کیلئے ناکافی ہے۔

نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعدبوسنیاکے مسلمانوں نے ریفرنڈم کے ذریعے سے اپنے الگ وطن کے قیام کااعلان کیا۔ بوسنیاہرزیگویناکے نام سے قائم اس ریاست میں مسلمان اکثریت میں تھے جوترکوں کے دورِعثمانی میں مسلمان ہوئے تھے اور صدیوں سے یہاں آبادتھے لیکن یہاں مقیم سرب الگ ریاست سے خوش نہ تھے۔انہوں نے سربیاکی افواج کی مدد سے بوسنیاکے شہر سربرینیکاکامحاصرہ کرلیاجوکئی سال تک جاری رہا۔اقوامِ متحدہ کی امن افواج کی تعیناتی کے ساتھ ہی باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ اب یہ علاقہ محفوظ ہے لیکن یہ اعلان محض ایک جھانساثابت ہوا۔کچھ ہی روزبعد سرب افواج نے شیطان صفت جنرل ملادچ کی سربراہی میں شہرپر قبضہ کرکےمسلمانوں کی نسل کشی کاوہ انسانیت سوزسلسلہ شروع کیاجس پرتاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔اس دوران نیٹو افواج نے مجرمانہ خاموشی اختیارکیے رکھی کیونکہ معاملہ مسلمانوں کاتھا۔

آج اس واقعے کو27سال گزرنے کے بعدبھی میرادل خون کے آنسورورہاہے اورآج کی مہذب دنیااپنے مکروہ اورمنافق چہرے سے اس داغ کودھونے میں ناکام ہے۔یہ انسانی تاریخ کاواحدواقعہ ہے جس میں مرنے والوں کی تدفین پچیس سال سے جاری ہے۔آج بھی سربرینیکا کےگردونواح سے کسی نہ کسی انسان کی بوسیدہ ہڈیاں ملتی ہیں توآبدیدہ آنکھیں ان کابوشہ لیتے ہوئے انہی شہداءکے پہلومیں دفن کردیتی ہیں۔میلوں پرمحیط جگہ جگہ قطاراندرقطارکھڑے پتھراس بات کی علامت ہیں کہ یہاں وہ لوگ دفن ہیں جن کی اورکوئی شناخت نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ مسلمان تھے۔اب تویہ واقعہ آہستہ آہستہ یادوں سے بھی محوہوتاجارہا ہے۔مکاراورمہذب دنیاکوہولوکاسٹ تویادہے لیکن مسلمانوں کاقتلِ عام یادنہیں۔پچاس ہزارمردوں،عورتوں اوربچوں کاقتل اتنی آسانی سے بھلادیاجائے؟ مجھ جیسے پاگل اوردیوانے اس خون آلودتاریخ کاباربارتذکرہ کرکے نام نہاد مہذب معاشروں کوان کااصل چہرہ دکھاتے رہیں گے۔ اس واقعے میں ہمارے لیے ایک اوربہت بڑاسبق یہ بھی ہے کہ کبھی اپنے تحفظ کیلئےاغیارپربھروسہ نہ کرواوراپنی جنگیں اپنے ہی زورِبازوسے لڑی جاتی ہیں۔

ہٹلرکے آنے تک مسیحی دنیاخصوصاًیورپ یہودیوں کادشمن تھا،ان سے نفرت کرتاتھا،اپنے معاشرے سے انہیں نکال باہرکرناچاہتاتھا ۔ دونوں عالمی جنگوں میں اگرسودخوروں کے قرضے نہ ہوتے تویہ جنگیں ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکتی تھیں۔سودی کاروبارکس کے پاس تھا؟انہی یہودیوں کے ہاتھ میں۔ دونوں جنگوں میں لگنے والے یہودی سرمائے نے مغرب کوپنجۂ یہودمیں جکڑدیاتھا۔دوسری عالمی جنگ اوربعدکے حالات سے توساری دنیا سودکے جال میں پھنس گئی تھی اوریہ جال یہودیوں شکاریوں کے ہاتھ میں تھا!گزشتہ صدی کے دوران سودخوروں نے سودی پیسے سے مسلمان حکمرانوں کوخریدناچاہاتھا مگر منہ کی کھائی،یہی پیسہ مغرب کے حکمرانوں کوجکڑنے کیلئے دیاگیا۔پہلے یورپ کوپھرامریکاکو،چنانچہ آج سب پنجہ یہودمیں ہیں لیکن یہودی وسیہ کاری ملاحظہ ہوکہ وہ انہی پرانے اور نئے سامراجیوں سے مسلمانوں کوپٹوارہاہے اورمسلمان سوتے رہے یاسلادیئے گئے،آج بھی سورہے ہیں یاسلائے جارہے ہیں۔

اسلام اور مسلمانوں سے یہودی عداوت اورحسدایک فطری ردعمل ہے۔ اس عداوت اورحسدکی ایک لمبی تاریخ ہے جو طویل بھی ہے اورتلخ بھی۔ایک وقت تھاجب مکہ اورعرب کے تمام بت پرست اوریہودی اسلام اورمسلمانوں کے خلاف متحدتھے،آج بھی متحدہیں،پہلے مشرکین مکہ اوریثرب وخیبرکے یہودی اسلام کے خلاف متحدتھے۔آج بھی تل ابیب اورنئی دہلی نے ایک مدت کے بعدایک دوسرے کوپہچان لیاہے۔پہلےاتحادخفیہ تھالیکن ایڈوانی اور شیرون نے اسے ایک کھلی حقیقت بناکرمسلمان دنیاکوپیغام دیاجس کومودی ونیتن نے عروج پرپہنچادیا۔کل بھی دونوں کادشمن مشترک تھااورآج بھی مشترک ہے۔اس اشتراک، عداوت اورحسدنے یہودوہندوکومسلمانوں کے خلاف ایک بنارکھاہے۔یہودوہنوددونوں کی خواہش ہے کہ نئے اورپرانے سامراجی انہیں تعاون کیلئے اپنے مہرے بنائیں توخونِ مسلم میں ہاتھ رنگ کرمن کوشانتی ملے اورلوٹ مارمیں سے کچھ حصہ بھی ملے مگرقدرت نے نئے سامراجیوں کوننگاکردیاہے اورامریکا اورمغرب کے جمہوریت پرست عوام ایک ہوکرانہیں تاریخ کی گمنامی میں دھکیل رہے ہیں مگریہ یہودوہنود اب بھی نہیں بدلے۔

وہ عدل وانصاف کی ہرآوازپرتلملا اٹھتے ہیں،وہ ہرصورت میں کچھ نہ کچھ لے مرنے کی فکرمیں رہتے ہیں کہ فلسطین اورکشمیر میں کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کاخون بہاتے رہیں۔مسلمانوں کیلئے یہ موقع ہے کہ مغرب کے امن پسنداورانصاف کے داعی تنظیموں سے اپنارابطہ ازسرِنومرتب کریں۔اسی خدشے کے پیشِ نظر مسلم ملکوں کیلئے داخلی،علاقائی اورعالمی مسائل پیدا کرکے الجھانےکی سرتوڑکوشش موجودہ وسیہ کاری اورخفیہ سازش کاحصہ ہے۔صہیونیوں کو پہلے خطرہ صرف پاکستان کے ایٹمی اسلحے سے تھا مگراب ہماری افواج کی حربی صلاحیت کے بعدان کی نیندیں حرام ہیں جس کے بعدانہوں نے انتہائی مکاری کے ساتھ عوام کوفوج کے ساتھ لڑانے کیلئے اپنے کارندوں کومیدان میں اتاراہواہے۔

مودی کشمیرمیں وہی کھیل کھیل رہاہے جواسرائیل کاجنونی دہشت گرد فلسطین میں کھیل رہاہے۔آزادی مانگنے والاہر کشمیری بھارت کے نزدیک پاکستان ک اایجنٹ ہے اس لئے اسے8لاکھ فوج مارنے میں حق بجانب ہے۔پاکستان کے حکمراں تواقتدارکی کرسی کیلئے ایک دوسرے کادامن تارتارکرناہی اپنافریضہ سمجھتے ہیں جبکہ آج بھی کشمیری میدان عمل میں اپنی جانوں کانذرانہ پیش کررہے ہیں۔دراصل کشمیری اب اس بات سے آگاہ ہوچکے ہیں کہ اگرافغانستان جیساملک دنیاکی سب سے بڑی سپرطاقتوں اوراس کے اتحادیوں کوشکستِ فاش پرمجبورکرسکتاہے توبھارتی بنیاتواس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔کشمیریوں نے اپنے خون کے ساتھ جوحریت کی داستانیں رقم کی ہیں کیاوہ رائیگاں جائیں گی،نہیں،ایساکبھی نہیں ہوسکتاتاہم ان کیلئے لمحہ فکرہے جوجلسوں میں گلاپھاڑپھاڑکر میرجعفر اورمیرصادق کانام لیتے ہیں،کشمیرکے بارے میں ان کاعمل انہیں کل کامیرجعفراورمیرصادق کی فہرست میں نہ کھڑاکردے!

اپنا تبصرہ بھیجیں