The twist of history, the bitterness of time

تاریخ کی کروٹ،وقت کی کڑواہٹ

:Share

زمانہ کب کروٹ بدلتاہے،یہ اہلِ اقتدارجاننے سے قاصررہتے ہیں۔قومیں خوابوں میں جیتی ہیں،اورتاریخ ہوش کی گواہی میں لکھی جاتی ہے۔تاریخ کی رفتارتیزترہوچکی ہے۔قوموں کی تقدیریں اب فقط معرکۂ میدان میں نہیں،بلکہ عسکری بیانیے،سفارتی چالوں،اور جغرافیائی علامتوں میں لکھی جاتی ہیں۔ قومیں صرف الفاظ سے نہیں،عمل سے پہچانی جاتی ہیں اورجب قومیں صرف نعرے سناتی ہیں،مگرجب عمل کامیدان سجے تودم سادھ لیتی ہیں،توتاریخ ان سے سوال کرتی ہے—کیاتم صرف نعرہ فروش تھے؟یاکچھ کرنے کا بھی ہنررکھتے تھے؟

برصغیرکی دوبڑی ریاستوں—پاکستان اوربھارت—کے درمیان حالیہ فضائی جھڑپ جہاں بظاہرایک علاقائی تناؤتھا،وہیں ایک عالمی طاقت—چین—نے اس قضیے میں جس اندازسے خاموشی سے برتری حاصل کی،وہ بذاتِ خودایک تاریخی وجیو-اسٹریٹیجک مطالعے کاتقاضاکرتاہے۔ہندوپاک کے مابین حالیہ فضائی کشاکش بظاہردوریاستوں کے درمیان تھی،مگراگرآنکھیں کھلی ہوں اوربصیرت موجود ہو،تویہ صرف برصغیرکے افق پرنہیں،بلکہ ایشیاکی جیو اسٹریٹجک تصویرپرکندہ ایک فیصلہ کن لمحہ تھا—اوراس تصویرکااصل معمار بیجنگ تھایاپاکستان؟

یہ محض دوہمسایہ ایٹمی طاقتوں کی روایتی گرماگرمی نہ تھی،بلکہ یہ معرکہ چینی عسکری صنعت،نظریہِ پرجوش قوم پرستی،اور سفارتی ہنرکی کامیاب مشق تھی —جس نے نہ صرف ایشیابلکہ دنیاکو بھی متوجہ کیاکہ اب سپرپاورزکی نئی صف بندی میں فولادی دوست کہاں کھڑاہے۔برصغیرمیں پاکستان کے خلاف طبلِ جنگ بجانے والی انڈین فوج جب چین کی برفیلی چوٹیوں پرخاموشی کی چادر اوڑھ لیتی ہے،توسوال یہ نہیں ہوتاکہ وہ کیوں خاموش ہے،سوال یہ ہوتاہے کہ کیایہ خاموشی دراصل شکست کاپردہ تونہیں؟

یہ مقالہ ان جھڑپوں کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ اصل فاتح چین رہایاپاکستان —نہ فقط عسکری صنعت کے اعتبار سے بلکہ نظریاتی اور سفارتی فضاپراپنی بالادستی کے ذریعہ۔میری کوشش ہوگی کہ آج کے آرٹیکل میں بھارت وپاکستان کی حالیہ فضائی جھڑپ کاتاریخی وعسکری تناظر،چین کاغیراعلانیہ مگرکلیدی کردار،چینی دفاعی صنعت کی عالمی مارکیٹ میں ساکھ ، اروناچل پردیش میں ناموں کی تبدیلی کاجغرافیائی مفہوم اورخاص وقت کے تعین اوربھارت کاسہ طرفہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ محاذ کھولنے کاتفصیلی ذکرکروں۔

معرکہءآسمان پرتھا،مگراس کی گونج بازارِدنیامیں سنی گئی۔پاکستان نے جب چین کے اشتراک سے تیارکردہ جے10اورجے17طیارے فضامیں بلند کیے ،تویہ صرف لڑاکاپرندے نہ تھے،بلکہ یہ پاک چین کی دفاعی صنعت کے اعتماد کے پرتھے،جنہوں نے دنیاکوبتایاکہ “پاک فوج”اور”پیپلزلبریشن آرمی”کی پیداواراب صرف پریڈگراؤنڈکی زینت نہیں،بلکہ جنگی میدان کی تسخیرکاہنربھی رکھتی ہے۔ چینی کرنل ژوبونے یہ بات یوں کہی،جیسے تاریخ کے کسی نئے صفحے پردستخط ہورہے ہوں۔

یہ لڑائی چین کی دفاعی صنعت کیلئےایک تشہیرتھی،ایسی تشہیرجوکتب خانوں میں نہیں،بلکہ پاک فوج نےمیدانِ جنگ میں لکھی۔ واقعی،یہ پہلی بارتھاکہ چین کے لڑاکاطیارے حقیقی جنگی صورتِ حال میں آزمائے گئے،اوربقول مشرقی حکمت،پتھرپرلکیریں تبھی کھنچتی ہیں جب فولادحرکت میں آئے۔

پاکستان اوربھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی اُس وقت شدت اختیارکرگئی جب بھارت نے اپنے فضائی حملے کو”آپریشن سندور”کانام دیا۔دونوں جانب سے ڈرونز،میزائل،اورلڑاکاطیارے استعمال ہوئے۔بھارت نے فرانسیسی ساختہ رافیل اورروسی طیاروں کوتعینات کیا جبکہ پاکستان نے چین کے تعاون سے تیارکردہ جے-10اورجے-17طیاروں سے بھرپورجوابی کارروائی کی ۔پاکستانی فضائیہ نے سرحدپارکیے بغیرمیزائل حملے کیے جن میں چھ بھارتی طیاروں کی تباہی کے دعوے شامل ہیں۔اگرچہ بھارت کی جانب سے باضابطہ تردیدکی گئی،لیکن رافیل کمپنی نے تین طیاروں کی تباہی کی تصدیق کردی،جوبذاتِ خودایک تاریخی موڑکی حیثیت رکھتاہے۔رافیل کمپنی کے سربراہ کواپنی کمپنی کی سبکی اورخفت مٹانے کیلئے یہ تسلیم کرناپڑاکہ ہم طیارے فروخت کرتے ہیں،لڑنے کیلئے حوصلہ نہیں لیکن اس کے باوجودعالمی مارکیٹ کے سٹاک ایکسچینج میں اپنی کمپنی کے حصص کی گرتی قیمتوں کو سہارا دینے میں ناکم رہے اوراس کے مقابلے میں رافیل کاشکارکرنے والے پاک چین کی مشترکہ کاوش جے ایف 17تھنڈرکی حصص کی اچانک بڑھتی قیمت نے عالمی خریداروں تک یہ بھرپوراعتمادکاپیغام پہنچادیا۔

ہندوستانی میڈیااوراس کاعسکری بیانیہ جب پاکستان کے خلاف انگارے اگلتاہے،تویوں محسوس ہوتاہے کہ شایداگلے لمحے فتحِ کابل و اسلام آبادکااعلان کردیا جائے گالیکن جب یہی سپہ سالار مشرقی لداخ کی برف پوش وادیوں میں چینی سائے دیکھتے ہیں توزبانیں گنگ، توپیں خاموش،اوربیانات غائب ہوجاتے ہیں۔ سابق سیکرٹری خارجہ شیام سرن کایہ اعتراف،کہ انڈین فوج یاتوکارروائی کرنانہیں چاہتی یا پھراس کی سکت نہیں رکھتی،دراصل بزدلی کاسفارتی اعتراف ہے۔ یہ وہی زبان ہے،جوپاکستان پرگرجتی تھی،اب چین کے سامنے لرزاں ہے،آخر کیوں؟

چینی پیپلزلبریشن آرمی کے سابق کرنل ژوبونے عالمی میڈیاسے بات کرتے ہوئے کہاکہ یہ فضائی لڑائی چین کی دفاعی صنعت کیلئےبڑی تشہیرتھی ۔ اس سے قبل چین کوکبھی اپنے پلیٹ فارمزکوجنگی صورتحال میں آزمانے کاموقع نہیں ملاتھا۔واقعی،جے-10کی میدانِ جنگ میں کامیاب آزمائش کے بعدچینی کمپنی “چنگڈوایئرکرافٹ”کے حصص میں40فیصداضافہ ہوا،اس تناظر میں فتح وکامیابی کاسہرا پاکستان کے بہادراورجری کردارکےلائیوڈیمانسٹریشن کوجاتاہے جواس بات کاواضح ثبوت ہے کہ معرکہ صرف میدان میں نہیں،بلکہ عالمی اقتصادی منڈیوں میں بھی جیتاگیا۔ یہ کارکردگی چین کے ہتھیاروں کونہ صرف ایشیابلکہ افریقا،مشرقِ وسطیٰ اورلاطینی امریکا کی مارکیٹوں میں معتبربناسکتی ہے۔

انڈین فضائیہ کے ترجمان ایئرمارشل اے کے بھارتی کایہ اعتراف کہ’’جنگ میں نقصان معمول کی بات ہے‘‘—دراصل خاموش اعترافِ شکست تھا۔بھارتی حکومت کااس معاملے میں محتاط رویہ،عالمی میڈیا کی رپورٹس،اوررافیل کمپنی کی تصدیق—سب مل کر یہ اشارہ دیتے ہیں کہ حقائق اب بیانیے سے بڑے ہو گئے ہیں۔یہی وہ لمحہ ہے جہاں چین نے سفارتی محاذپر بھی بھارت کوپیچھے چھوڑا۔نہ بیان،نہ تقاریر،نہ الزامات—فقط نتائج۔اوریہی خاموشی چینی سفارت کاری کاخاصہ ہے۔

انڈین فضائیہ کے فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے،جن کی خریدپراربوں کے سودے کیے گئے،پاکستانی میزائلوں کے سامنے عاجز نکلے۔تین طیاروں کی تباہی کی تصدیق رافیل کمپنی کے ترجمان نے کردی،مگر دہلی کے ایوانِ اقتدارمیں سکوت ایساچھایاجیسے آگرہ کالال قلعہ ماتم کررہاہو۔ایئرمارشل اے کے بھارتی کایہ کہناکہ’’جنگ میں نقصان معمول کی بات ہے‘‘،دراصل اعترافِ شکست کاایسا پردہ ہے جوقوم پرستی کے دبیزہالے میں لپیٹ دیاگیا۔یہ بیان چیخ چیخ کر کہتاہے کہ تم نے زخم چھپانے کی کوشش کی،مگرخون رستا رہااوردنیا دیکھتی رہی۔

پاکستانی طیارے،جن کی پروازیں پاک سرزمین پرمحدودرہیں،مگرجن کے میزائلوں نے سرحدپاردشمن کونشانِ عبرت بنایا،صرف عسکری مہارت کامظہر نہیں تھے،بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ،پاک چین حکمت عملی کاغیرعلانیہ تجربہ تھا۔پاکستان کی فتح دراصل چین کی کامیاب عسکری مارکیٹنگ تھی۔اسی تجربے کے بعدچنگڈو ایئرکرافٹ کمپنی کے حصص میں40فیصداضافہ محض اقتصادی اشاریہ نہیں،بلکہ اس بات کابین ثبوت ہے کہ اب معرکہ صرف بندوق اوربارودکانہیں،برانڈاوربیانیے کابھی ہے۔

یادرہے کہ جب وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے خوداعتراف کیاکہ بڑی تعداد میں چینی فوجی ایکچوئل کنٹرول لائن پارکرکے انڈین حدود میں آگئے ہیں،تویوں محسوس ہواجیسے ہندوستان کی جغرافیائی خودداری کوبرفانی بوٹوں تلے رونددیاگیاہو۔یہ صرف ایک سرحدی خلاف ورزی نہ تھی،بلکہ چینی خوداعتمادی کی فتح اورانڈین دعوؤں کی پسپائی تھی۔اس پوری پیش قدمی پراگرکوئی چیز نمایاں نہیں تھی،تووہ انڈیاکاعسکری ردِعمل تھا۔زبانیں جوپاکستان کے خلاف دہکتی تھیں ،وہ چین کے آگے سہم گئیں۔

اس سلسلے میں ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش کی،گویاایک ایسابادشاہ جسے دوشہزادوں کی لڑائی میں صلح کرانے کا شوق ہو،مگرچین نے اس پیشکش کویوں مستردکیا جیسے کوئی کہے ہم اپنے معاملات خودسلجھانے کے قابل ہیں،تم اپناراستہ لو۔یہ رداس بات کااعلان تھا کہ چین خودمختاربھی ہے،خودکفیل بھی،اورخود مدبر بھی ۔یہی متانت،یہی خوداعتمادی اسے اس خطے کابلا شرکتِ غیرے قوت بنانے جا رہی ہے۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ چین کی اس خوداعتمادی سے پاکستان کے مقتدربھی سبق حاصل کریں۔اپنے دل سے عالمی مالیاتی اداروں کا خوف دل سے نکال کرباہرپھینکیں جس طرح پاکستان نے پہلی مرتبہ امریکی اورمغربی اسلحہ سازکمپنیوں کے سفاکانہ رویے کودیکھتے ہوئے اپنارخ مغرب سے مشرق کی طرف کیاجس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔

سیزفائرکے چنددن بعدچین نے ایک نئی سفارتی اورنفسیاتی حکمتِ عملی اپنائی،جب انڈیا،پاکستان سے نمٹنے میں مصروف تھا،چین نے ایک خاموش مگرفکری حملہ کیا،اروناچل پردیش کے27مقامات کے نام چینی اورتبتی زبانوں میں تبدیل کردیے۔ان میں پہاڑ،درے، ندیاں،جھیلیں،بستیاں اوررہائشی علاقے شامل ہیں۔یہ اقدام نہ صرف انڈیاکے جغرافیائی دعوؤں پر علامتی ضرب تھابلکہ اس طرح بیجنگ نے دنیاکو ایک بارپھریہ پیغام دیاکہ نقشے صرف کاغذپرنہیں ، حکمرانی کے ذہنوں میں بنتے ہیں۔اس عمل سے یہ ثابت ہواکہ چین اور پاکستان صرف علامتی طاقت نہیں بلکہ سافٹ پاورکے میدان میں بھی پوری قوت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ ناموں کی تبدیلی فقط لسانی مشق نہیں،بلکہ تاریخی دعوے کاآہنی اظہارتھی،جواس وقت کی گئی جب انڈیاکی عسکری توجہ مغرب میں پاکستان پرمرکوزتھی۔یہ عمل گویاٹرائیکا(انڈیا،اسرائیل،امریکا)کویہ کہہ رہا تھاجب تم مشرق کی طرف دیکھوگے،تمہیں زمین پروہ نام دکھائی دیں گے جو تمہارے نہیں۔اورجب تم نقشہ کھولوگے،تمہارے لفظ تمہارے نہیں رہیں گے ۔

نیپال،پاکستان اورچین—یہ تینوں ممالک انڈیاکے تین جانب واقع ہیں،اورتینوں سے اس وقت تناؤکی کیفیت ہے۔مگرسوال یہ ہے کہ انڈیا تین طرفہ محاذ کھول کرکس خواب میں اور جغرافیائی خوش فہمی میں مبتلاہے؟ نیپال ایک چھوٹاساملک سہی،مگراس کی سفارتی خودداری نے انڈین پالیسی سازوں کے ہوش اڑادیے۔پاکستان عسکری ونظریاتی لحاظ سے مضبوط ترہو چکاہے،اورچین ایک عالمی طاقت ہے جومعاشی وعسکری ہرمیدان میں انڈیاکومات دے چکاہے۔یہ ایساہی ہے جیسے ایک مچھر،تین شیرکی کمین گاہوں میں جا گھسے—اورسمجھے کہ بادل ہوں،برس کرنکل جاؤں گا۔

بادی النظرمیں یہ جھڑپ انڈیااورپاکستان کے درمیان تھی،مگردرحقیقت یہ پاک چین کی سہ فریقی حکمتِ عملی کی کامیابی تھی۔عسکری سطح پرپاکستانی افواج کی میدانِ عمل میں خصوصی سٹریٹیجک کارکردگی میں چینی ہتھیاروں جے-10اورجے-17کی کامیاب آزمائش کی کامیاب جانچ اورعالمی مارکیٹ میں تشہیر ، چینی ایوی ایشن کمپنی کے حصص میں غیرمعمولی ایوی ایشن کمپنی کے حصص میں غیرمعمولی اضافہ اوردوسراسفارتی سکوت میں نفسیاتی بالادستی پر بھارت کودومحاذوں(پاکستان واروناچل)پرالجھاکر عالمی سطح پراس کی علاقائی طاقت کی تصویرکودھندلا کرنا اورتیسرادنیاکویہ باورکرواناکہ پاکستان کے عملی مظاہرے کے بعدچین اب نہ صرف صنعتی طاقت ہے،بلکہ جنگی بیانیے کاقائدبھی بن گیاہے اوریقیناً یہ ٹارگٹ دونوں ملکوں کے اشتراک سے حاصل ہوا ہے۔یہ تمام پہلواس امرکاواضح اشارہ ہیں کہ چین نے ایک غیرعلانیہ جنگ پاکستان کے میدانِ جنگ میں کارکردگی کی بناءپربغیرفائرنگ کیے جیتی ہے۔

پاکستان کی عسکری کامیابی بجا،مگرپاکستان کی اس بہادرانہ کاوش کے بعداس معرکہ کاکوئی اصل فاتح ہے تووہ بیجنگ ہے جس نے نہ بندوق چلائی،نہ ایندھن جلایا،نہ سپاہی کھپائے—مگر اس کی کمپنی کے شیئرزآسمان کوچھونے لگے،اس کے ہتھیاروں نے عملی سند حاصل کی،اس کے سیاسی بیانیے کوتقویت ملی، اور اس کے جغرافیائی خوابوں میں نئے رنگ بھرے گئے۔یہی وہ حکمت ہے جسے سیاستِ مشرق کہتے ہیں،جہاں خاموشی گولی سے زیادہ مؤثر،اورنقشہ جنگ سے زیادہ کاری ہوتی ہے۔اسی لئے کہاگیاہے کہ فتح اس کی جوخاموشی سے بازی لے جائے۔

جنگیں صرف توپ سے نہیں جیتی جاتیں،ان کے پیچھے وہ دماغ ہوتے ہیں جوتاریخ کامزاج بدل دیتے ہیں۔پاک چین نےخاموشی سے، حکمت سے،اور وقت کے مزاج کوسمجھ کرشایدیہی کچھ کردکھایاہے۔ایک بصیرت انگیزتمثیل یادآتی ہے۔جب وقت فیصلہ دیتاہے،تو قومیں اُسے تاریخ سمجھ کرمحفوظ کرتی ہیں،مگرجوقومیں اُسے نظراندازکریں،وہ عبرت بن جاتی ہیں۔پاک چین دوستی کے اشتراک نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا،اوراپنے بیانیے،ہتھیار،اور حکمت کوایک نئی سطح پرپہنچادیا۔اب یہ عالمی منظرنامے کاایک ناقابلِ انکارسچ ہے—اورشایدایشیاکامرکزبھی بدل رہاہے۔

انڈیاکی خاموشی کوبعض حلقے حکمت کہتے ہیں،مگرتاریخ کہتی ہے کہ حکمت وہی جووقت پرہو،جوابی ہو،اورجیت پرمنتج ہو۔اگر دشمن تمھاری حدودمیں داخل ہوجائے،اورتم زبان سے بھی ردنہ کرسکو،تو یہ خاموشی نہیں،بزدلی ہے۔پاکستان کے خلاف ہرروز جنگی نغمے گانے والے ٹی وی چینلزاورجرنیل،چین کے خلاف گویاگنگامیں ڈبکی لگاکرپرہیزگارہوگئے۔یہ خاموشی بتارہی ہے کہ دشمن کوجانچنے کی نہیں،پہچاننے کی ضرورت ہے۔

انڈیاکی سرحدی شجاعت کاچین کے آگے دم سادھ لیناخاموشی کاجغرافیہ نہیں بلکہ ہندوؤں کے مکارسیاسی گُروچانکیہ کااصول ہے کہ طاقتورکوفوری خدامان کرسجدے میں پڑجاؤ،یہی وجہ ہے کہ دنیاکایہ واحدمذہب ہے جس کے خداؤں کی تعدادکروڑوں میں ہے جس میں چوہے اورسانپ بھی شامل ہیں اورجونہی اس کوکمزوردیکھوتواسی خداجس کے آگے سجدہ ریز ہوتے رہے ہو، انہیں ٹھوکروں کی زدمیں لاتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں ایک لمحہ تاخیرنہ کرو۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی میڈیامیں خودمودی کواسلحے کے ڈھیرکے سامنے خاص قسم کی پوجااورسجدوں کی تصاویرعام بھی ہوئیں اوررافیل طیاروں کی حفاظت کیلئے پوجاکے طورپرانڈیاکاوزیردفاع ان جہازوں کے ٹائروں کے نیچے انڈے اوردیگراشیاء رکھ کرعبادت کرتارہااورعالمی میڈیا اب ایک مرتبہ پھران جاہلانہ رسوم کواپنے ناظرین کودکھارہاہے۔یہ صرف انڈیاکامسئلہ نہیں،ہراس قوم کاہے جہاں میڈیامصلحت کا،سیاسی نعرے کا،اورعوام خاموشی کاشکارہو۔

پاکستان اورچین کی برف پوش وادیوں میں توپیں شایدنہ بولیں،مگرتاریخ اورسچائی برف میں بھی بولتی ہے اوروہ تاریخ یہ کہہ رہی ہے کہ تم وہ ہوجوکمزورکے خلاف بپھرے،اورطاقتورکے سامنے سہم گئے۔تم وہ ہوجوجغرافیے پردعویٰ تورکھتے ہومگرجغرافیائی حکمت سے نابلدہو۔تم وہ ہوجوچین کوچیلنج نہیں، خاموشی میں سلام کرتے ہواورپاکستان کوکھلے عام دہمکیاں دیکراپنے اقتدارکادوام چاہتے ہو۔

انڈیاکاپاکستان کے خلاف عسکری جوش خطے میں عدم استحکام کاباعث ہے،جبکہ چین کے سامنے اس کی خاموشی دوعملی سیاست اورنعرہ فروش عسکریت کی عکاس ہے۔ان حالات میں برصغیرمیں توازنِ طاقت تیزی سے مشرق کی طرف جھک رہاہے—اورپاک چین دوستی وہ آفتاب بن رہاہے،جس کی روشنی نہ صرف مشرق بلکہ جنوب ایشیاکی تاریخ کوبھی نئے سانچے میں منوراورڈھال رہی ہے۔

اس مقالے کے تجزیے سے یہ حقیقت آشکارہوتی ہے کہ جنوبی ایشیاکی حالیہ فضائی کشیدگی میں جہاں پاکستانی قوم نے سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی طرح تمام سیاسی اختلافات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی یکجہتی کے ساتھ رب تعالی کے سامنے اپنی پوری عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے آپریشن بنیان المرصوص کے سائے تلے فتح مبین کا سہرااپنے سروں پرسجاکردشمنوں کویہ واضح پیغام دیاہےکہ وطن کی حفاظت کیلئے ہم سب ایک ہیں،اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرناہوگا کہ چین نے بھی عسکری صنعت،جغرافیائی سیاست، اورسفارتی فہم کاایساامتزاج پیش کیا جوکلاسیکی سیاست میں کم ہی نظرآتاہے۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ قوم کے اندراس اتفاق کے ماحول کومزیدطاقتوربنانے کیلئے سیاسی انارکی کوختم کرنے کیلئے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جس سے قوم میں مزیدیکجہتی اور سیاسی نااتفاقی جودشمنی کی حدوں کوچھورہی تھی،ہمیشہ کیلئے اگرختم نہیں تواس میں خاطر خواہ کمی لائی جائے۔جس طرح ہم نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات کی نئی بنیادرکھی ہے،چین اورترکی کی مددسے اپنے تمام دوستوں کے ساتھ ایک مرتبہ پھرنہ صرف ہاتھ ملائے ہیں بلکہ گلے لگ کرشکایات کوہمیشہ کیلئے دورکرنے کیلئے ایسے اخلاص کی ضرورت ہے جس کیلئے رب نے تمام امت مسلمہ کوایک دوسرے کابھائی بھائی قراردیاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں