اگرآپ کویادہوتوماضی قریب میں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والی مقتدرشخصیات کے چند ہونہار،نونہال آج نہ صرف ارب پتی ہیں بلکہ کھلے بندوں اپنی بیش بہادولت کابھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔کتنے ہی اعلیٰ عہدوں پرفائزسرکاری افسر،سیاستدان اورٹیکنوکریٹ بیرونی ممالک میں دادِعیش دے رہے ہیں حالانکہ ان میں سے کئی ایک کے خلاف بھاری رشوت اورسنگین بد عنوانی کے مقدمات زیرِالتواتھے،جن کی پہلے این آراو کے تحت گلوخلاصی ہوئی،بعدازاں سیاسی جوڑتوڑکے قوم کی تقدیرسنوارنے کانعرہ لیکرحکومت میں آئے توسب سے پہلے قانون سازی کرکے اپنے مقدمات سے گلوخلاصی کرواکے دودھ میں دھلے بن کرایک مرتبہ پھرقوم کے نہ صرف خادم بن گئے بلکہ جن پرقومی دولت کے کھربوں روپے لوٹنے کاالزام تھا،ان کو باقاعدہ ایوان صدربلاکرعزت کی خلعت پہناکراورگلے میں پاکستان کی اعلیٰ خدمت کامیڈل پہناکرقوم کے ساتھ کھلواڑکرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی۔یہ وہ مقدرکے سکندر بھیڑئےہیں جوبھیڑکی کھال پہن کردوبارہ مملکتِ خداداد کی قسمت کے مالک بن گئے ہیں۔
ان میں کچھ توایسے تھے جومملکتِ خدادادپاکستان کے مالیاتی شعبے کے نگران بھی تھے اورپالیسی سازبھی،جب تک ہوا کارخ موافق رہاوہ سیاہ وسفید کے مالک بنے رہے۔ان کواپنااوران مہربانوں کامفاد،جن کے وہ ممنونِ احسان تھے،اس قدر عزیزتھاکہ ستم رسیدہ عوام کی بھلائی کاخیال تک بھلا بیٹھے،ملک توکیا،آنے والی نسلوں تک کوگروی رکھتے گئے۔اشرافیہ کوعیش و عشرت کی لت ڈال گئے۔ہمارے عظیم دوست چین کے عظیم ترین انقلابی قائدماؤزے تنگ اورچواین لائی نے سادگی کواپنایا،وہ اوران کے ساتھی سختیاں جھیلتے رہے،جن اصولوں پر قائدین خودکاربند ہوں،عوام کیلئے ان کودل وجان سے قبول کرنااوران پربخوشی عمل کرنانہائت آسان ہوجاتاہے۔انقلاب کے بعدپہلی نسل کی قربانیاں رنگ لائیں اورچین اب دنیاکاایک عظیم ترین ملک بن گیاہےاورہم ہاتھ میں کشکول لئے پھرتے ہیں کوئی پوچھتا نہیں۔
امریکاکی بارگاہ میں سربسجودہیں،جس کے منشی اورکارندے حکم چلاتے ہیں اورہم بلاچوں چراں حکم بجالاتے ہیں۔ستم بالائے ستم ان کارندوں میں سے بہت سے ہماراہی کھاتے ہیں اور خوب کھاتے ہیں مانگ تانگ کے۔کئی دفعہ ناک کی لکیریں کھنچ کر،جوقرضہ ہم غیرممالک یامالیاتی اداروں سے لیتے ہیں،اس میں سے یہ”فرشتے”مشاورت اورخدمات کے نام پربہت کچھ ہتھیالے جاتے ہیں۔”مالِ غنیمت”میں سے کچھ سکے وہ”مقامی ہم جولیوں”کی جھولی میں بھی ڈال دیتے ہیں تاکہ نہ صرف اصل کھیل پردوں کے پیچھے چھپارہے بلکہ سنہری کلغیوں والے مرغانِ چمن بہارکے گیت اس وقت تک گاتے رہیں جب تک حکومت نہ بدل جائے۔
حکومت بدلتے ہی یہ موسمی مینڈک تھوڑی دیرکیلئے اس طرح خاموش ہوجائیں گے جیسے دلدل میں گھس گئے ہوں مگر جلدہی پھرنکل آئیں گے۔ راگ پھرشروع ہوگامگرسُرتال پہلے سے مختلف۔اب خانہ بربادی کاذکرہوگا،ستیاناس اوربربادی کے ایسے قصے سنائیں جائیں گے کہ سننے ولا توبہ توبہ کاوردکرتے کانوں کوہاتھ لگائے اورسوچے کہ یہ حسین ملک کتنا بدقسمت ہے کہ اس میں بھیڑیئے نہ صرف دندناتے پھرتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی ایک اعلیٰ مقامات تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ طالع آزماایسی چکنی مٹی سے بنے ہوتے ہیں کہ عوام کے اعتماد کی مقدس امانت بھی ان کی گھٹی میں پڑے حرص و ہوس کاکچھ نہیں بگاڑسکتی،نہ صرف پوری ڈھٹائی سے وہ موقع ملتے ہی کھیل کھیلتے ہیں بلکہ اپنی”جرأت وبہادری”پر فخرکرتے ہیں۔بعدمیں پکڑے جائیں توبھی اپنے کئے پرنادم ہونے کی بجائے یوں سینہ تان کراپنادفاع کرتے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کوبھی یہ کہناپڑ جاتاہے کہ”کرپٹ عناصرشرمندہ نہیں بلکہ وہ اکڑکربڑے فخرکے ساتھ چلتے ہیں….. ان سے کئی کئی ملین ڈالرعدالتوں کے حکم پرحکومت نے وصول بھی کئے،اس کے باوجود وہ گالف کھیل رہے ہیں،معاشرہ کوان سے الگ تھلگ رہناچاہئے اوران کابائیکاٹ کرنا چاہئے۔”لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ کرپشن کی یہ موذی بیماری توان طبیبوں کے گھروں میں بھی ڈیرہ بسائے بیٹھی ہے جواس کاعلاج تجویزکررہے ہیں۔
خطاتومعاشرہ کی بھی ہے۔اچھائی برائی میں تمیزکمزورپڑجائے،عجزوانکسارکمزوری کی علامت تصورہونے لگے،برائی سے بچنابزدلی ٹھہرے اورچور ڈاکورہزن کیلئے دلوں سے نفرت مٹ جائے توکیوں نہ بھیڑیئے بھیڑوں کے گلے کے نگہبان کاکرداراداکریں۔عموماًکہاجاتاہے کہ انسان کی سرشت میں مضمرہے کہ ہرانسان دل کی گہرائیوں میں نہ صرف نیکی اور بدی کاواضح احساس رکھتاہے بلکہ وہ برائی کے خلاف جدوجہد کے جذبہ سے بھی عاری نہیں۔حالات کاجبرالبتہ اسے خاموش رہنے پرمجبورکردیتاہے۔روزمرہ مشاہدہ اسے واضح اشارے دیتاہے کہ خواہ مخواہ”پنگا” لینا سراسرحماقت ہے۔جو سرپھرے پرائی آگ میں کودپڑتے ہیں ان کے نہ صرف پاؤں جھلس جاتے ہیں،بعض اوقات یہ تن سوزی انہیں عالمِ نزع سے عدم کی منزل تک لے جاتی ہے۔
عقلمندی،انہیں ناانصافی،ظلم اوربے رحمی سے نبردآزماہونے کی بجائے خاموش رہنے اوربہت کچھ”پی جانے”کی ترغیب دیتی ہے،یوں ان کی قوتِ برداشت کادائرہ پھیلتاجاتاہے جس سے برخودغلط ظالموں کاحوصلہ بڑھتاہے۔وہ چنگیزخان کے لشکریوں کی طرح ہرمرغزارپرچڑھ دوڑتے ہیں۔بڑھتے ہوئے طوفان کے سامنے نہ صرف نہتے اوربے بس عوام کی طاقت جواب دے جاتی ہے بلکہ انسانیت کی روح تک ان کاساتھ چھوڑ دیتی ہے۔آٹھوں پہرگردش کرنے والاآسمان پھرعجیب وغریب منظردیکھتاہے۔مفتوحہ شہرمیں ایک ممتازشہری کسی غیرمسلح تاتاری کے ہتھے چڑھ جاتاہے،اسے وہی لیٹ جانے کاحکم ہوتاہے جس کی بلاچوں چراں تعمیل ہوتی ہے۔تاتاری یہ کہہ کر”یہیں لیٹے رہناجب تک میں کیمپ سے تلوارلاکر تمہاراگلہ نہ کاٹ دوں”چلاجاتاہے۔معزز شہری بے حس وحرکت پڑارہتاہے،نہ اسے فرارکا خیال آتاہے ، نہ جان بچانے کی سوجھتی ہے۔کافی دیر کے بعد تاتاری آتاہے،اس کا گلہ کاٹ دیتاہے۔
حدسے بڑھ جانے والی سفاکی غلامی کوجنم دیتی ہے۔کوئی بھی خواہ مخواہ گردن کٹوانانہیں چاہتا۔نہتے انسانوں کا جمِ غفیر توپ وتفنگ سے مسلح لشکر کےسامنے کیسے ٹھہرسکتاہے،خصوصاًجب قتل عام کااذن ہوچکاہویاہوسکتاہو۔ہلاکو خان نے اہلِ بغدادکوتہ تیغ کیاتودریاکاپانی گلرنگ ہوگیا، نادر شاہ نے دلی کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔گلیوں میں انسانی خون بارش کے پانی کی طرح بہنے لگا۔1857ءمیں بارباراجڑنے والی دلی کوپھرویساہی المیہ پیش آیا۔ شہزادگان کی لاشیں کئی دن درختوں سے لٹکتی رہیں،نازونعمت میں پلے بڑھے کتنے ہی اہلِ ثروت خون کی ہولی کی بھینٹ چڑھ گئے،جو بچ رہے وہ فاتحین کی قدم بوسی کو بڑھے۔اپنی وفادای کایقین دلانے کیلئے ایڑھی چوٹی کازورلگایا،تابعداری کوشرطِ استواری سے یوں سنواراکہ وہ اصل ایمان ٹھہری۔
جسٹس مرحوم رستم کیانی نے1959ءمیں دیئے گئے خطبہ یومِ اقبال میں ایک شوریدہ سرشاعرکے اس شعرکاحوالہ دیا تھا:
دیکھتاکیاہے میرے منہ کی طرف
قائد اعظم کاپاکستان دیکھ
جسٹس مرحوم رستم کیانی اس وقت حکومت کے قانونی مشیرتھے۔ان سے رائے طلب کی گئی تھی کہ اس پرکون سی دفعہ لگتی ہے۔انہوں نے کہا کہ”خدا کے بندو!وہ توصرف یہ کہتاہے کہ میرے منہ کی طرف کیادیکھتے ہو،پاکستان کی طرف دیکھو،کیا یہ وہی ملک ہے جوقائداعظم نے تراشا تھا ” ……..اب توغالباًروحِ پاکستان بھی اپنے”جانثاروں”سے یہ سوال کرتی ہوگی۔کیاہم سے کوئی جواب بن پاتاہے؟ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی لمحے میں بھی یہ سوچنے یا معلوم کرنے کی زحمت بھی گوارہ کی کہ مملکتِ خدادادپاکستان کیونکرصفحہ ہستی پرنمودارہوا؟ بانیانِ پاکستان کے خواب کیاتھے؟آرزوئیں،تمنائیں اورآدرش کیاتھے؟بابائے قوم نے کیاسوچاتھا،کیاچاہاتھا،کون سی منزل متعین کی تھی؟کیسے وہاں تک پہنچناتھا؟وہ منزل کن اندھیروں میں کھوگئی،نشانِ منزل بھی کوئی دکھائی پڑتاہے یانہیں؟تاریخ گواہ ہے کہ آزادی تو کبھی بھی التجاؤں اوردرخواستوں سے نہیں ملی۔
صحرائے سینامیں40سال تک بھٹکنے کے بعدحضرت موسیٰ کی قوم کوبھی بالآخرمنزل مل گئی تھی۔احساسِ زیاں اگردامن گیرہوجائے توکیاخبرہم بھی گم گشتہ راہوں کوازسرِنوپالیں۔اپنی اپنی ذات کی قیدسےآزادہوجائیں۔ذاتی مفادکوہی زندگی کا واحد مقصدسمجھناترک کردیں۔ملک وقوم کی فلاح وبہبودکونہ صرف اپنافرض سمجھیں بلکہ اس کیلئے تھوڑی بہت قربانی دینے کیلئے تیارہو جائیں۔کیاوہ ایک نئی صبح نہیں ہوگی جب ہم میں سے کئی ایک دیوانے سچ کوبرملاسچ کہنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔کتناہی خوشگواراجالاہوگاجب جماعتی وفاداریوں سے بالاترہوکر،یاری دوست اور برادری کی زنجیروں سے آزادہوکرہمارے اربابِ اختیارحق وانصاف کے تقاضے پورے کریں گے،قائدکے حسین چہرہ پرجمی گردجھڑنے لگے گی۔ پہلی مرتبہ ایسااحتساب شروع ہواہے۔ایک کڑاامتحان ہے اورقوم بھی ہاتھوں میں پھندہ لئے منتظرہے۔دیکھیں کون کون جھولتاہے!