یہ تحریرقصدِتحقیق اورقصدِ بیان کی ایک مشترکہ تلمیح ہے؛جس کامقصدمحض واقعات کاسرسری ذکرنہیں بلکہ ان کے پسِ منظر، معنوی امواج،اورتاریخی صدائیں ضبطِ نثری میں سموکرایک جامع ادبی تصویرپیش کرناہے۔ہم اس مطالعے میں ڈیورنڈلائن،دوحہ کے مذاکرات کے لحظات،طالبان کے رہنماؤں کے بیانات،اورپاکستانی قومی حساسیت کی صداکوایک فکری تناظرمیں کھول کررکھیں گے۔
جب قوموں کی تقدیرکے فیصلے تاریخ کے صحن میں لکھے جاتے ہیں توالفاظ نہیں،عہدبولتے ہیں۔یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جب امت کا ضمیراپنی آزمائشوں سے گزرتاہے اورہرقول،ہروعدہ ایک امانت بن جاتاہے۔دوحہ کی نشست بھی ایک ایساہی باب تھی—جہاں ماضی کے زخم،حال کے سوال اورمستقبل کی اُمید ایک میزپرجمع ہوئے۔اسلامی اخوت کے پرچم تلے ہونے والی اس گفت وشنیدنے نہ صرف سیاسی حرارت کوجنم دیابلکہ امت کے فکری ارتعاش کوبھی عیاں کیا۔یہ داستان دراصل امتِ مسلمہ کے اتحاد،صداقت اوروعدۂ وفاکی آزمائش کاوہ امتحان ہے جس میں تاریخ خودقاضی بن کرکھڑی ہے۔
پاکستان اورافغانستان کے درمیان واقع سرحد،جسے ڈیورنڈلائن کہاجاتاہے،جنوبی ایشیاکی سب سے اہم مگرمتنازع جغرافیائی حدہے۔ اس لائن کاقیام1893ء میں برطانوی حکومت اورافغانستان کے حکمران امیرعبدالرحمن خان کے درمیان ایک معاہدے کے تحت عمل میں آیا۔یہ سرحدنہ صرف دونوں ممالک کے باہمی تعلقات بلکہ خطے کی سیاست پربھی گہرے اثرات مرتب کرتی آئی ہے۔اس سرحد کی قانونی حیثیت،اس کے اطلاق اوراس کے نتیجے میں بننے والے سیاسی/نسلی تقسیم کے پسِ منظرپرافغانستان اورپاکستان کے درمیان دیرپاتنازعات رہے ہیں۔تاریخی کاغذات اوربین الاقوامی دستاویزات اس معاہدے کے وجودکوثابت کرتی ہیں،جبکہ افغانستان کی مختلف حکومتوں نے متعددادوارمیں اس کی قانونی/سیاسی حیثیت کوچیلنج کیاہے۔
انیسویں صدی کے اواخرمیں برطانوی ہندوستان اورروسی سلطنت کے درمیان وسطی ایشیامیں اثرورسوخ کی جنگ جاری تھی،جسے تاریخ میں گریٹ گیم کہاجاتاہے۔برطانیہ نے گریٹ گیم کے دوران افغانستان کوروس کے اثرسے دوررکھنے کیلئےایک بفراسٹیٹ کے طورپراستعمال کیا۔اس وقت افغانستان کی سرحدیں واضح نہیں تھیں،خاص طورپرمشرقی جانب برطانیہ کیلئے افغانستان ایک بفراسٹیٹ کی حیثیت رکھتاتھاتاکہ روسی پیش قدمی کوجنوبی ایشیاکی طرف روکاجاسکے۔
ڈیورنڈلائن دراصل پاکستان اورافغانستان کے درمیان وہ سرحدہے جو1893ءمیں ایک معاہدے کے تحت قائم کی گئی تھی۔اسی تناظر میں سرمورٹیمر ڈیورنڈ، جوبرطانوی خارجہ امورکے سیکرٹری برائے ہندوستان تھے،کابل پہنچے اورامیرعبدالرحمن خان کے ساتھ12 نومبر1893ءکوایک معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے پرافغانستان کے امیرعبدالرحمن خان اوربرطانوی حکومت کے نمائندے سر مورٹیمرڈیورنڈنے دستخط کیے۔اس معاہدے کے مطابق افغانستان اوربرطانوی ہندوستان کے درمیان ایک سرحدمقررکی گئی جوبعد میں ڈیورنڈلائن کہلائی۔اس سرحدکابنیادی مقصدبرطانوی ہندوستان اورافغانستان کے درمیان سیاسی وانتظامی حدودکاتعین کرناتھاتاکہ دونوں حکومتوں کے اثرورسوخ کے علاقوں میں وضاحت پیداہوسکے اورحدودطے کی جاسکیں۔
ڈیورنڈمعاہدہ12نومبر1893ءکوطے پانے والے معاہدے کی نوعیت اوردفعات بالاتفاق یہ طے پائیں:
٭دستاویزات،بشمول برطانوی اوربعدازاں امریکی سرکاری آرکائیوزمیں اس کے متن کاحوالہ موجودہے۔اس معاہدے کوبعدکی انگوٹھا بندیوں/ معاہدات نے بطورحوالہ تسلیم کیا۔معاہدے کے بعدسے یہ لائن تقریباً2,600–2,640کلومیٹر(1,600–1,640میل)تک دکھائی جاتی ہے—روایتی ماخذ اس فاصلے،جغرافیائی حدوداورلمبائی کی حدودکے بارے میں یکساں ہیں۔
٭سرحد(ڈیورنڈلائن)کے دونوں طرف کے علاقوں کی سیاسی اورانتظامی حدودمتعین کی گئیں۔اس کے تحت افغانستان اوربرطانوی ہندوستان کے درمیان ایک واضح سرحدقائم کی گئی۔اس سرحد کے مشرقی حصے میں واقع قبائلی علاقے برطانوی عملداری میں شامل کیے گئے۔افغانستان نے تسلیم کیاکہ خط کے
مشرق میں واقع قبائلی علاقے برطانوی عمل داری میں آئیں گے۔
٭معاہدے نے پشتون قبائل کوزمینی طورپرتقسیم کیا—قبائلی رابطے سچ مچ معمول کے مطابق رہے مگرطاقت اورسرحدی کنٹرول میں تبدیلی نے معاشرتی اورسیاسی تقسیم کو مستقل نوعیت دی۔(تاریخی تجزیے اورعلاقائی مطالعات دستیاب ہیں)۔
٭بین الاقوامی شواہدبرصدور کے مطابق راولپنڈی/انگلش افغان معاہدات(1919اور1921حوالہ جات)میں ڈیورنڈلائن کے وجودکاحوالہ رہا، جوتاریخی طورپراس لائن کے ریکارڈڈ وجودکی تائیدکرتاہے۔
٭معاہدہ کو”مستقل سرحد”کے طورپرتسلیم کیاگیا۔
٭امیرعبدالرحمن خان کوبرطانیہ کی جانب سے مالی امداداورسیاسی حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی اور اس پرعملدرآمدبھی ہوا۔
ڈیورنڈلائن موجودہ پاکستان کے شمال سے لے کرجنوب تک پھیلی ہوئی ہے اس میں خیبرپختونخوا،قبائلی اضلاع،اوربلوچستان کے کچھ حصے شامل ہیں۔یہ چترال،دیر،باجوڑ،مہمند،خیبر، وزیرستان، اوربلوچستان کے کچھ حصوں سے گزرتی ہے۔یہ سرحد34°شمالی عرض البلدکے قریب سے گزرکربلوچستان تک جاتی ہے۔پاکستان کامؤقف ہے کہ1893ءکامعاہدہ ایک ریاستی ڈیورنڈلائن ایک بین الاقوامی طورپرتسلیم شدہ قانوی سرحدہے جودوخودمختار ریاستوں کے درمیان طے پایا،اس لیے1947ءکے بعدپاکستان نے برطانوی ہندوستان کے قانونی وارث کی حیثیت سے اس معاہدے کو برقراررکھا،اس لیے یہ بین الاقوامی قانون کے مطابق آج بھی نافذالعمل ہے۔مزیدبرآں،1919ءمیں ہونے والے راولپنڈی معاہدے کے ذریعے جب افغانستان نے برطانیہ کے ساتھ امن قائم کیا،تواس نے بالواسطہ طورپرڈیورنڈلائن کی حیثیت کوتسلیم کیا۔
پاکستان نے1947ءمیں آزادی حاصل کرنے کے بعدبرطانوی ہندوستان کاقانونی جانشین ہونے کے ناتے اس معاہدے کی ذمہ داریاں اورحقوق اپنے ذمے لیے۔اس بنیادپرپاکستان کا مؤقف ہے کہ یہ سرحدبین الاقوامی سطح پرتسلیم شدہ ہے اورکسی ازسرِنومعاہدے کی ضرورت نہیں۔دوسری طرف افغانستان یہ مؤقف اختیارکرتاہے کہ یہ معاہدہ زبردستی کے حالات اور برطانوی دباؤمیں طے پایاتھااورامیرعبدالرحمن خان کواس پردستخط کرنے پرمجبورکیاگیا،اس لیے یہ غیرمنصفانہ،غیرقانونی اورغیرمستقل تھالہٰذا،کابل کے مطابق،اس معاہدے کی آئینی حیثیت مشکوک ہے،اوراس پرافغان عوام کی مرضی شامل نہیں تھی لہٰذااسے ازسرِنوطے کیاجاناچاہیے۔افغانستان کاکہناہے کہ یہ سرحدپشتون قبائل کودوحصوں میں تقسیم کرتی ہے،جوایک ہی نسلی اورثقافتی اکائی کے افراد ہیں۔1947ءمیں پاکستان کے قیام کے بعد افغانستان نے اقوامِ متحدہ میں واحدملک کے طورپرپاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی،اوردعویٰ کیاکہ ڈیورنڈلائن دوبارہ مذاکرات کی متقاضی ہے۔
ڈیورنڈلائن نے پشتون قوم کودوحصوں میں تقسیم کردیا—ایک حصہ افغانستان میں اوردوسراپاکستان میں۔یہی تقسیم بعدازاں پشتون قوم پرستی کی بنیاد بنی ۔ اسی وجہ سے پشتون قوم پرست سیاست(جیسے خدائی خدمتگارتحریک یابعدمیں بعض افغان حکومتیں)ہمیشہ اس سرحدکومتنازع قراردیتی رہیں۔تاہم،عملی طورپرسرحددونوں ممالک کے درمیان ڈی فیکٹوحدفاصل کے طورپر کام کررہی ہے۔
افغان حکومتوں نے مختلف ادوارمیں پختونستان کے تصورکوفروغ دیاجبکہ پاکستان نے اپنے قبائلی علاقوں کوبتدریج ملکی انتظامی ڈھانچے میں شامل کرچکاہے۔ یہ سرحداس لحاظ سے منفردہے کہ اس کے دونوں جانب قبائل صدیوں سے آزادانہ آمدورفت کرتے رہے ہیں۔تاہم،دہشتگردی اوراسمگلنگ کے بڑھتے خدشات کے باعث پاکستان نے2017ءسے اس پرباڑلگانے کاعمل شروع کیا،جس سے اب یہ سرحد عملی طورپربندہوچکی ہے۔
عملاًدیکھاجائے توڈیورنڈلائن دونوں ممالک کے درمیان ڈی فیکٹوسرحدکے طورپرکام کررہی ہے۔پاکستان نے اس پرباڑلگاکراپنی انتظامی حدودکومزیدواضح کردیاہےجبکہ افغانستان میں بعض حلقے اب بھی اسے متنازع قراردیتے ہیں۔یوں ڈیورنڈلائن ایک ایسی سرحدہے جونہ صرف جغرافیائی بلکہ تاریخی،سیاسی اور تہذیبی لحاظ سے بھی خطے کی پیچیدہ حقیقتوں کواجاگر کرتی ہے۔
پاکستان سرحدپرباڑلگاچکاہے تاکہ سیکیورٹی اوراسمگلنگ کے مسائل پرقابوپایاجاسکے۔طالبان حکومت(2021ءکے بعد)باضابطہ طور پرڈیورنڈلائن کوتسلیم نہیں کرتی،لیکن عملی طورپرکئی مقامات پرپاکستانی کنٹرول کوقبول کرتی ہے اورباڑلگاتے ہوئے بھی طالبان نے اس پرکوئی اعتراض نہیں کیا۔دوسری جانب پاکستان اسے اپنی بین الاقوامی سرحدقراردیتاہے اوراس کے تحفظ کوقومی سلامتی کا لازمی حصہ سمجھتاہے۔سرحدی جھڑپیں وقتاًفوقتاًہوتی رہتی ہیں،خصوصاً چمن اورطورخم کے علاقوں میں،لیکن مجموعی طورپریہ لائن دونوں ممالک کے درمیان حقیقتِ حال کے طورپر قائم ہے۔
ڈیورنڈلائن نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پورے وسطی ایشیاکے جغرافیائی توازن میں اہم مقام رکھتی ہے۔اس کاتاریخی وجودایک ایسے دورکی یادگارہے جب سامراجی قوتیں اپنی جغرافیائی حدود قائم کررہی تھیں۔اگرچہ افغانستان اسے اب بھی متنازع سمجھتاہے،لیکن بین الاقوامی قانون،تاریخی شواہداورعملی حقیقت کے مطابق ڈیورنڈلائن پاکستان اورافغانستان کے درمیان مستقل بین الاقوامی سرحدکی حیثیت رکھتی ہے۔یہ سرحددونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کاباعث ضروررہی ہے،مگرمستقبل میں خطے کے امن،تجارت،اور استحکام کیلئےاس کی باہمی قبولیت ناگزیرہے لیکن بدقسمتی سے طالبان کی موجودہ رجیم کاپاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ایماء پرفتنہ الخوارج اورفتنہ الہندکی سرکوبی کی بجائے انہیں اپنے محسن پاکستان کے خلاف استعمال کرکے بلیک میلنگ کیلئے استعمال کابھانڈہ بیچ بازارمیں پھوٹ گیاہے اورپہلی مرتبہ طالبان نے باقاعدہ پاکستان کے خلاف لشکرکشی کی فاش اورفحش غلطی کرکے خود اپنے اقتدارکے وجودکو شدیدترین زخمی کرلیاہے۔
اورترکی کی ثالثی میں فوری سیز فائرپربات چیت ہوئی جہاں اگلے یادرہے کہ اکتوبر2025میں دوطرفہ جھڑپیں شدت اختیارکرگئیں،جن کے بعددوحہ
ماہ استنبول میں ہونے والی ملاقات تک جنگ بندی کااعلان کیاگیاہے جس میں پاکستان اوردیگرتمام اسلامی ملکوں کی طرف سے اس مطالبہ کوتسلیم کیاگیاکہ افغانستان اپنی سرزمین کودہشتگردی کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا—یاد رہے کہ اس سے قبل ماسکو فارمیٹ کانفرنس میں بھی خطے کے تمام اہم ممالک کامشترکہ اعلامیہ جاری ہواتھاجس میں افغانستان کو دہشتگردوں کی سہولت کاری کوبند کرنے کاکہاگیاتھااورطالبان کے وزیرخارجہ ملامتقی نے اس کی حامی بھی بھری تھی لیکن بدقسمتی سے اس معاہدہ کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان پرچارمختلف علاقوں سے فتنہ الخوارج اورفتنہ ہندنے دہشت گردی کے حملے کئے اورافغانستان سے آئے ہوئے ددہشتگردبھاری مقدارمیں اپنی لاشیں اوراسلحہ چھوڑکر فرار ہوگئے۔
یادرہے کہ پاکستان نے2017کے بعدسے سرحدپرباڑ/فینس لگانے کاعمل تیزکیااور2021–2024میں متعددرپورٹس نے اس فریم کو دستاویزی شکل دی۔طالبان کی حکومت نے بعض حوالوں میں بین الاقوامی دباؤیامذاکراتی فراہمی سے خودکومتعلقہ قراردیا؛دوحہ میں مذاکرات اورثالثی کے ذریعے دونوں فریق نے جہاں جنگ بندی کے احترام کایقین دلایاوہاں اس جھڑپوں کی بڑی وجہ افغانستان سے ہندوستان کی پراکسیزکومکمل ختم کرنے کی شرط سرفہرست ہے۔
اکتوبر2025میں دونوں ممالک نے قطر/ترکی میں ثالثی کے ذریعے عارضی سیزفائراورفالواپ مذاکرات طے کیے—تاہم نفاذکا انحصارطالبان کی جانب سے افغان سرزمین پرموجودغیرملکی/ عسکری گروہوں کے کنٹرول پرہے۔متعددرپورٹس نے واضح کیاکہ پاکستان کامطالبہ یہی ہے کہ افغان طالبان اپنی سرزمین سے پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشتگردتنظیموں”ٹی ٹی پی” اور “بی ایل اے” سمیت دیگرگروپوں کواپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔
تاریخی طورپرڈیورنڈلائن کاوجوددستاویزی طورپرثابت ہے،مگراس کی سیاسی اورسماجی قبولیت متنازع رہی ہے۔موجودہ منظرنامے میں تین چیزیں خاص طور پرخطرناک ہیں:
(1)َٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کی افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں؛
(2) طالبان انتظامی یکجہتی کا فقدان اوراندرونی گروہی اختلافات(جن میں حقانی نیٹ ورک کامضبوط اثر شامل ہے)؛اور
(3)سیزفائریامعاہدات کاناقص نفاذجوکشیدگی کونئے مراحل میں داخل کرسکتاہے۔ان عوامل کے امتزاج سے خطے میں تشدد،بین الاقوامی مداخلت اوربڑے پیمانے پرانسانی وسیاسی نقصان کاخطرہ درمیانہ تازیادہ درجے تک بڑھ جاتاہے۔
دوحہ کی محفل نے ابتدامیں پندرہ گھنٹے کاصبرآزماتحفہ پیش کیا—ایک طویل انتظارجس میں ہرشخص کاحوصلہ اورہرموقف کی فضاآزمائش میں مبتلارہی۔ میزبان قطرنے روایتی سفارتی مہارت سے دونوں وفودکوالگ الگ سمجھایا،درجۂ حرارت کوکم کرنے کی کوشش کی،گویاوہ ایک نازک بخاری کی طرح تھا جو گرمی کوبرابربانٹ کرتناؤکونرم کردے۔اس انتظارکے بعدجب براہِ راست مکالمہ شروع ہواتو محسوس ہواکہ الفاظ کے بیچ میں ایک نئی شفافیت کی بجائے شقاوت نے جنم لے لیاہے۔
ملاعمرکے فرزندملایعقوب نے ابتدامیں بلندلہجہ اختیارکیا؛ایسی آوازجوبسااوقات درخت کی شاخ کی طرح زورلگاتی ہے مگرجڑیں کمزور ہوں توجھٹکے میں ٹوٹ پڑتی ہیں۔پاکستان پردباؤڈالنے کی دھمکی کاانداز،جواس امیدپرمبنی تھاکہ خوف سے پالیسی بدل جائے گی،بطورِحربہ ناکارہ ثابت ہوا—پاکستانی وفدنے خاموش وقارسے یہ پیغام دیا:‘‘ہم واپس لوٹ سکتے ہیں،آپ دوسراراستہ اپنالیجیے۔’’ یہ مؤقف دراصل ایک ایسے اخلاقی اورعملی توازن کی عکاسی کرتاہے جس نے ملاؤں کےجغرافیےکے نیچے سے زمین کھینچ دی۔
طالبان نے معاملات کواپنے ہاتھ سے رخصت ہوتے دیکھاتوفوری طورپرملائشیاکے وزیراعظم کومددکیلئے پکارلیا۔کبھی کبھار مذاکرات میں تیسرے فریق کو لانابھی مفیدہوتاہے؛ملائیشیاکے وزیر اعظم کودرمیان لانے کی کوشش اسی شِق پرمبنی تھی۔ان کی خواہش تھی کہ معاملہ جنگ بندی اورافغان ٹرانزٹ کی بحالی تک محدودرکھاجائے،اورپیچیدہ سوالات مثلاًٹی ٹی پی یاسرحدی دراندازی کو‘‘پاکستان کااندرونی معاملہ’’قراردے کرمعاملے سے نکالاجائے۔یہ وہ لمحہ تھاجب مذاکرات ایک حد بندی کی جانب دھکیلے گئے—مگریہ حدود اسی وقت ناقابلِ قبول کہہ کررد کر دیئے گئے کہ یہ اندرونی مسائل سے فرارکاکوئی حل نہیں۔
شہبازشریف اورپاکستانی وفدنے یکسوئی سے اس دلیل پراصرارکیاکہ جنگ کی ابتداٹی ٹی پی اوربی ایل اے کی دراندازی سے ہوئی، اورجب تک یہ بنیادی سبب رفعِ دفع نہ ہوں،جنگ بندی کاموضوع قابلِ غورنہیں۔یہ مؤقف صرف ایک سفارتی دعویٰ نہیں بلکہ سرحدی حقِ خودداری اورقومی سکیورٹی کے ایک ضابطے کاعملی اظہارتھاجس کومیزبان سمیت میزپرسر جوڑکر بیٹھے ہوئے دیگرتمام دوستوں نے جائزقراردے دیا ۔دلچسپ نکتہ یہ کہ میزپرہاری ہوئی بازی دیکھ کرملایعقوب،جودوروزقبل ڈیورنڈلائن کوتسلیم کرنے سے انکاری تھے،بالآخراس مقام پرپہنچے کہ “ہماری سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اورہم سرحدوں کااحترام کریں گے”۔یہ تبدیلی صورتِ حال کی نرمیت بھی تھی اورممکنہ سیاسی بردباری کی غمازی بھی۔طے پایاکہ بات چیت کااگلا مرحلہ استنبول ترکی میں ہوگااوروہاں نئے نکات کوچھیڑیں گے۔
پاکستان کی چندمذہبی جماعتیں افغان طالبان کی طرف ہمدردی کااظہارکرتے ہوئےاکساتی ہیں کہ پاکستان امریکاکاتابع ہے اوراسی وجہ سے افغانستان میں اس کے کردارپرسوال اٹھایاجاتاہے۔یہ موقف جذباتی بنیادپرمضبوط ہوسکتاہے،مگرجب ہم منطق اورتاریخ کے آئینہ میں دیکھتے ہیں توتضادات نمایاں ہوجاتے ہیں۔
دلِ پرہاتھ رکھ کراس کاجواب دیں:طالبان نے گزشتہ دہائی میں جس ملک میں وفاداری کادفترکھولا،وہاں امریکاکاسب سے بڑااڈا “العدید”موجودہے—وہیں سے افغانستان کے مشن کوکنٹرول کیاجارہاتھا۔اگربرادرِاسلامی ملکیت کااصول سچ تھاتووہاں کی موجودگی پرطالبان کی خاموشی ایک سخت تضادپرمبنی ہے۔یہ معاملہ ایک اخلاقی آئینہ پیش کرتاہے جس میں غیرواضح عزائم اورمفادات کے پیچیدہ رنگ نظرآتے ہیں کہ قطرکی سرزمین پرافغانستان میں جارحیت کرنے والے ملک امریکاکے سب سے بڑے فضائی اڈے پرتوان کوکوئی اعتراض نہیں جہاں سے کئی مرتبہ افغانستان پرفضائی حملے بھی کئے گئے۔
ترکی،جونیٹوکارکن ہے اوربعض اوقات اس کے فوجی افغانستان میں متعین رہے،اب مذاکرات کااگلااسٹیج ہے اوردوحہ کے ساتھ ترکی بھی پاک افغان مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں۔حیرت انگیزطورپرنہ طالبان نے ترکی پر‘‘کافروں کے ساتھ دوستی’’کالطیف طنزکیا، نہ پاکستانی جماعتوں نے آج تک اردوان کے خلاف کڑوی زبان اختیارکی۔یہ صورتِ حال اس حقیقت کی گواہ ہے کہ علاقائی سیاست میں شکوک وشہبات اکثریک طرفہ نہیں بلکہ متوازن،اورکبھی کبھار معاملاتی ہوتے ہیں۔
نجانے کیوں مجھے تین دہائیاں قبل قندھارمیں امیرملاعمرکے وہ وعدے اوروہ الفاظ جومحض نوشتۂ عہدنہیں بلکہ روحِ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں،بے اختیار یادآرہے ہیں جوانہوں نے پاکستانی وفد کی موجودگی میں ایمان افروزخطاب میں کہے تھے:”میرے پاکستانی بھائیو! ہم قیامت تک آپ کے احسانات نہیں بھولیں گے…جہاں آپ کاپسینہ گرے گاوہاں ہمارالہوگرے گا۔”یہ تقریرایک دورکےاخلاقی سرٹیفکیٹ کی مانندتھی جس نے دوقوموں کے تعلق کوایک مقدس روایت کی حیثیت دی اورپاکستانی قوم آج تک اپنے اس بھائی کے الفاظ کواعتماد کے مضبوط قلعے کی طرح محفوظ رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔
آج کاسربراہ اعلیٰ،ہیبت اللہ اخوندزادہ،جواُس وقت محض18سالہ نوجوان تھا،یقیناًان تالیفات اوربیانات کواپنے ضمیرکے کسی گوشے میں سما کررکھتاہوگا ۔وہ داخلی چکاچونداوربیرونی تقاضوں کے بیچ جومحاسبات محسوس کرتاہوگا،وہ ان یادوں کی تپش سے متاثرہوسکتاہے مگریہ بھی دیکھناہوگاکہ سیاسی قیاس اور عملی تقاضے اکثراخلاقی وعدوں کوکس طرح تولتے ہیں اوران کایہ امتحان دنیاوآخرت کی کامیابی وناکامی کافیصلہ ثابت ہوسکتاہے۔یقیناًرات کے کسی پہلومیں ان کاضمیربھی ان سے یہ سوال توکرتاہوگالیکن کیاوہ اس کومطمئن کرپائیں ہیں؟
ملایعقوب اس تقابلِ ماضی وحال کازندہ چہرہ ہے؛جب اس وقت وہ پانچ سال کابچہ تھا،اس کے کانوں نے ممکنہ طورپراپنے والدکے اخلاقی عہدسنے تھے۔آج جب وہ خودحکومت کی نشست پرہے،سوال یہ ہے کہ کیاوہ ان وعدوں کوصادقانہ جواب دے سکتاہے یاوقت اوراختیارنے اسے مختلف راہ دکھائی ہے؟
تاریخ آخری انصاف کرنے والی ہے،مگریہاں نیزان کیلئے بھی انسانی ضمیرکاسوال بھی سرِ فہرست ہے اوریقیناًوعدے کی میزسے اٹھ کرالجزیرہ ٹی وی پرانٹرویودیتے ہوئے کوئی خلش تومحسوس کی ہوگی۔
دوحہ کے وعدوں کے فوراًبعدالجزیرہ ٹی وی کی پوشیدہ ذمہ داری یاروشنی نے وہ لمحہ دوبارہ زندہ کیا—گویاوعدے اورمفادات کی پیمائش میں کوئی دیرنہیں کی جاتی۔میڈیااکثروہ آئینہ ہوتاہے جولمحۂ حاضرکے عمل وعکس کوفوراًعوام کے روبرورکھ دیتاہے؛اس صورت میں بھی یہی ہوااورتاریخ نے یہ کرداراپنے اندرمحفوظ کرلیاہے تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں خوداس کامحاسبہ کریں گی۔
یہاں یہ امردلچسپی سے خالی نہیں ہوگاکہ سابق نائب صدرامراللہ صالح نے واضح طورپرلکھااورپوسٹ کیاکہ دوحہ مذاکرات میں طالبان کے پاس عملی طور پرانکاریاشروط لگانے کاآپشن نہیں تھا، اورپاکستان نے سفارتی طورپرطالبان کوتنہائی کاایک ایسادباؤدیاکہ عالمی سطح پریہ تاثرپیداہواکہ طالبان یاتو’فتنہ الخوارج’کی حمایت کررہے ہیں یاانہیں قابونہیں کرپاتے۔
افغان وزیرِدفاع(ملامحمدیعقوب)نے دوحہ معاہدے میں کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانیاں دیں،مگربعدازاں مختلف پلیٹ فارمز(الجزیرہ) پران کے بیانات نے تشویشیں پیداکی کہ سٹیٹ کے اندر مختلف آوازیں موجودہیں۔اس نے بین الاضلاع اعتمادکی کمی کواجاگرکیا۔یقیناًان کایہ رویہ اگلے مصالحتی دورمیں ان کیلئے ایک شدیدترین دباؤکی صورت میں ایک سوالیہ نشان بن کرمشکلات کاباعث بن سکتاہے۔
یہ گفت وشنیدایک محض سفارتی واقعہ نہیں؛یہ ایک آئینہ ہے جس میں خطّے کے سیاسی اخلاقی،جغرافیائی مفادات،تاریخی یادیں اور ذاتی وعدے سب عکس اندازسے دکھائی دیتے ہیں۔آخرمیں یہ کہنابجاہوگاکہ مذاکرات کاحقیقی محاسب عوام اورتاریخ کرے گی—جب الفاظ عمل میں بدلیں گے یاجب وعدے خاک میں ملیں گے۔اسی روزہوگاجب ہم اس باب کوبند کریں گے یانئی شروعات کااعلان کریں گے۔
تاریخ کی عدالت میں وعدے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں،اورقوموں کے ضمیران وعدوں کے محافظ ہوتے ہیں۔دوحہ کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی—یہ امت کے مستقبل کے باب کادیباچہ ہے،جس کے حرف ہم سب کے عمل سے لکھے جائیں گے۔وقت کادریچہ کھل چکاہے؛اب یہ ہمارے اختیارمیں ہے کہ ہم اس میں صداقت کی روشنی ڈالیں یامنافقت کااندھیرا۔جب امت اپنے وعدوں پرقائم رہتی ہے تواللہ تعالیٰ اس کے اعمال میں برکت عطاکرتاہے،اورجب وہ ان سے روگردانی کرتی ہے توتاریخ اس کے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لیتی ہے۔ یہی پیغام دوحہ کے مذاکرات نے ایک بارپھرہم سب کے سامنے رکھاہے