تاریخ کاایک حیران کن سبق یہ ہے کہ اس کرہ ارض پرقتل وغارت،جنگ وجدل،عوامی نفرت اورغیض وغضب کی وجہ نہ لوگوں کی معاشی بدحالی رہی ہے اورنہ بھوک وافلاس،لوگ تاریخ میں کبھی بھی ان وجوہات کی بنیادپرغصے میں پاگل ہوکر ہجوم درہجوم انتقام کی آگ میں سلگتے ہوئے سڑکوں پر نہیں نکلے۔مورخین اس بات پرمتفق ہیں کہ دنیامیں کسی بھی قوم میں لوگ غربت وافلاس اور بھوک ننگ خاموشی سے برداشت کرتے رہتے ہیں اور آنے والے اچھے دنوں کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ پڑوس کی دشمنیاں بھی اپنے اپنے علاقوں اورگھروں میں خاموشی سے بیٹھے ہوئے گزاردیتے ہیں لیکن دنیامیں تباہ کن جنگیں اورخونی انقلاب ہمیشہ تاریخ کے”بگڑے ہوئے بچوں”کی وجہ سے وقوع پذیرہوئے۔یہ”بگڑے ہوئے بچے”عجیب و غریب مخلوق ہوتے ہیں۔یہ وہ نفسیاتی مریض ہوتے ہیں جن میں غروروتکبرمیں گندھی ہوئی انا انہیں اس مقام پرلے جاتی ہے جہاں وہ یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ ان کی طاقت اورہیبت کے سامنے اب کوئی نہیں ٹھہرسکتا۔وہ لوگوں کے فاقوں کا تمسخراڑانے لگتے ہیں۔ زندگی کی ہرضرورت پرریاستی ٹیکس بڑھاتے ہوئے عوام کوبہترمستقبل کیلئے یہ کڑوی گولی کھانے پرمجبورکرتے رہتے ہیں۔ اپنے مقابل عوامی طاقت کوحقیرگرداننے لگتے ہیں اوراپنے ریاستی اختیارات کوناقابل تسخیرسمجھنے لگتے ہیں۔جب عوام کی عزتِ نفس پرکاری ضربیں لگنی شروع ہوجائیں توپھرکوئی ایک واقعہ دلوں میں چھپی ہوئی تمام زیادتیوں کاطوفان بندتوڑکرایسا نکلتاہے کہ حکمرانوں کوخس وخاشاک کی طرح بہاکر لیجاتا ہے۔
انقلاب فرانس جس شخص کی تحریروں سے جاندارہواسے والٹیئرکہتے ہیں۔یہ شاعرمزاج،افسانہ نگارومصنف شخص جوتھیٹرمیں ڈرامے کرواتارہتاتھا، ایک دن بادشاہ کے ایک منہ چڑھے حواری روہان نے اسے برابھلاکہا،والٹیئرنے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ لڑائی شروع ہوئی تولوگوں نے بیچ بچاؤکی کوشش کی۔یہ منظردیکھ کرایک خاتون بے ہوش ہوگئی اورمعاملہ رفع دفع ہوگیالیکن کچھ دنوں بعدوہ ڈیوک سیلی کے گھرپرکھاناکھارہاتھا۔دروازے پردستک ہوئی اسے باہربلایاگیااورپھرمسلح افرادنےاسے مارنا شروع کردیاجبکہ روہان وہاں کھڑامسکرارہاتھا۔والٹیئرغصے میں پاگل ہوگیا۔وہ انصاف حاصل کرنے کیلئےبادشاہ پھرعدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتارہامگراسے انصاف نہ مل سکا۔اس نے تلوارزنی سیکھناشروع کی اورشہرکے غنڈوں میں اٹھنابیٹھناشروع کردیا اورپھراس کے پیچھے پولیس لگادی گئی اورگرفتارکرلیاگیا۔رہائی اس شرط پرملی کہ فرانس چھوڑکرانگلستان چلاجائے۔وہ ملک بدرتوہوگیالیکن اس کی تحریریں فرانس کے عوام کے دلوں میں آگ لگانے کیلئےوہاں پہنچتی رہیں۔
ان تاریخ کے”بگڑے ہوئے بچوں”کے حواری ایسے ہی لوگوں کے دلوں میں نفرتیں پیداکرتے ہیں۔اسی انقلاب فرانس کاایک اور کردارلیفٹیننٹ رابس پیری تھا۔جوسمجھتاتھاکہ یہ چندغنڈے ہیں جوحکومت کے خلاف شورمچاتے ہیں۔ان کاسرکچلنابہت ضروری ہے۔رابس بیری اپنے اختیارات کے حساب سے آج کے وزیرخزانہ کے مساوی تھا۔اس نے اپنی مرضی کے ججوں کوبادشاہ سے مقررکروایااورپھرہراس شخص کودھمکانا شروع کردیاجن سے بغاوت کاخطرہ تھااورپھرانہیں گرفتارکرکے سزائیں دلواناشروع کردیں۔صرف پیرس میں2600بڑے بڑے لوگ گرفتارہوکرقتل ہوئے۔ان میں آکسیجن دریافت کرنے والامشہورسائنسدان وائزراور مشہورشاعرآندرے بھی شامل تھا۔ہرمہینے میں سرقلم کرانے والوں کی تعداد1300سے زیادہ ہوگئی۔یہ وہ زمانہ تھاجب لوگوں کا ہجوم محل کے گردجمع ہواتوملکہ سے پوچھا گیاکہ لوگوں کوروٹی نہیں ملتی وہ کیاکریں تواس نے تمسخرسے جواب دیایہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے لیکن جب لوگوں کاغیض وغضب سے ابھرتااورکھولتا ہواہجوم محل کے دروازے توڑتااندرداخل ہوا تو کسی رابس پیری جیسے وزیرخزانہ کے بس میں نہ تھاکہ انہیں کنٹرول کرسکے۔
رابس پیری جبڑے پرگولی لگنے سے ہلاک ہوااورساتھی آوارہ کتوں کی طرح لوگوں کے ہجوم سے ڈرتے بھاگتے تھے۔تمسخر اڑانے والے،ان پرہنسنے والے اوران کوزمین کاحقیرترین بوجھ سمجھنے والے یادآگئے۔کسی نے خبراڑادی کہ ان کودبانے کیلئے فوج بلالی گئی ہے۔ہجوم راستے میں ہرصاحب حیثیت
کے گھروں اورگوداموں کولوٹتاآگے بڑھتارہا۔ایک گورنرباس تیل کے قلعے میں تھا۔لوگوں کومعلوم ہواکہ فوج وہاں پرہے، ہجوم ٹوٹ پڑا۔حیرت کی بات ہے کہ اس ہجوم کودیکھ کرصرف 120سپاہی گورنر کے ساتھ ٹھہرے رہے جوگاجرمولی کی طرح کاٹ دئیے گئے۔گورنرنے ہتھیارڈالے اورچند سپاہیوں کے ساتھ باہرنکلالیکن لوگوں نے جن کی آنکھوں میں اپنی ذلت کا انتقام رقص کررہاتھا،اسے قابل معافی نہ سمجھا۔نہتے لوگوں کے ہاتھوں میں قصائیوں والے چُھرے تھے۔ایک ایسے ہی چُھرے سے اس کی گردن تن سے جدا کردی گئی۔ٹھیک ایک چھو ٹی سی رودبارکے اس پارانگلستان تھا،وہاں ویساہی قحط تھا،ویسی ہی غربت تھی،لوگ مفلوک الحال کی چکی میں پس رہے تھے مگر وہاں کوئی تاریخ کا”بگڑاہوا بچہ حکمران”نہیں تھا،نہ ہی اس کے ساتھیوں میں رابس پیری جیساوزیرخزانہ اورنہ ہی روہان جیسا مصاحب تھا،اس لئے وہاں انقلاب کی چاپ تک سنائی نہ دی۔
تاریخ کے یہ”بگڑے ہوئے بچے”لوگوں کوحقیرگردانتے ہیں،عدالتوں کواپناتابع بناتے ہیں اورلوگوں کوانصاف سے محروم کرنے پراپنی توانائیاں صرف کردیتے،انہیں ہروہ آوازبری لگتی ہے جوان کی غلطیوں یاخامیوں کی نشاندہی کرے۔ان کے منہ چڑھے وزیرخزانہ یاامن وامان قائم کرنے کے نگران انہیں غداراورسازش کچلنے کامشورہ دیتے ہیں۔جوبھی لکھنے والا،بولنے والا، تحریرکانقیب نظرآجائے،اسے دھمکیاں دیتے ہیں،گالیاں سناتے ہیں اورپھراپنی ان کامیابیوں کاخراج تاریخ کے اس”بگڑے ہوئے بچے”سے وصول کرتے ہیں جس کوعلم تک نہیں ہوتاکہ اس کے پاؤں سے زمین کھینچی جارہی ہے۔اس کے اردگرد ایک آگ سلگائی جارہی ہے۔اسے لوگوں کی پھنکارتی ہوئی آنکھیں گھوررہی ہیں اوربھینچی ہوئی مٹھیاں انتقام کاانتظارکررہی ہیں اورپھر جب لوگوں کاجم غفیراٹھتاہے توان کوسب فقرے یادآنے لگتے ہیں جوان”بگڑے ہوئے بچوں”نے بولے ہوتے ہیں۔ان کاتمسخر اڑایا ہوتا ہے۔ان کی لاشوں پرمسکراتے ہوئے اس نے اپنی طاقت کامظاہرہ کیاہوتاہے۔
اکثرسوچتاہوں کہ ہروہ شخص جوایسی نفسیاتی کیفیت کاشکارہوتاہے جسے بے دلیل رعب ودبدبہ اوربڑاپن کہتے ہیں۔وہ ہمیشہ اپنی ذلت ورسوائی اورانجام کاذمہ دارکسی اورکوٹھہراتے ہیں۔یہ سب لوگ موت کی آغوش میں جاتے ہوئے سوچتے توہوں گے کہ یہ سب ان حواریوں کی وجہ سے ہوا۔کاش میں ان کی نہ سنتا،کاش ملک کی معیشت کابیڑہ غرق کرنے والے اس وزیرخزانہ کی جگہ کوئی اورہوتا۔مگرکیاکیاجائے۔تاریخ کے ہراس”بگڑے ہوئے بچے ” جس نے کسی انقلاب کاپیش خیمہ بنناہوتاہے،اسے اسی طرح کے وزیرخزانہ اچھے لگتے ہیں،پسندآتے ہیں۔گھبرائیے نہیں،اب ہمارے اردگردایسے ہی اقتدارکے نشے میں بدمست افراد کیلئے ایسے ہی انجام کاوقت بہت قریب ہے۔
اے خاک نشینواٹھ بیٹھووہ وقت قریب آپہنچاہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیرنہیں
جودریاجھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو،بڑھتے بھی چلو،بازوبھی بہت ہیں سربھی بہت
چلتے بھی چلوکہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے