کبھی یہ زمین گواہ تھی کہ جب کابل کی فضاوں میں بارودکادھواں چھایاتھا،تو پاکستان کے دشت و کوہ نے پناہ کے خیمے تان دیے ۔ 40برس تک پاکستان نے افغان مہاجرین کونہ صرف جائے امن دی بلکہ اپنے رزق،تعلیم،اورزندگی کی سہولتیں بانٹ دیں۔یہ محض سیاسی ہمدردی نہ تھی،بلکہ اسلامی اخوت اورانسانی جذبے کی ایک لازوال مثال تھی مگرآج وہی تاریخ ایک تلخ موڑپرآکھڑی ہے جہاں سرحدکے اس پارسے دوستی کی بجائے گولیوں کی زبان بولی جارہی ہے۔
کبھی یہ زمین گواہ تھی کہ جب کابل کے درودیوارپربارودکی گردچھائی تھی،توپناہ کے خیمے پاکستان کے میدانوں میں نصب ہوئے۔40برس تک یہ قوم افغان مہاجرین کی دستگیری کرتی رہی ، اپنے گھروں کے دروازے کھولے،اپنے نوالے تقسیم کیے،اوراپنے شہروں کی فضاں میں اجنبیوں کیلئےا من کاسایہ فراہم کیا۔یہی پاکستان تھاجس نے لاکھوں افغانوں کو نہ صرف جائے پناہ دی بلکہ روزگار،تعلیم اورعزتِ زیست بھی بخشی مگرافسوس!جب وقت نے وفاکا امتحان لیاتواحسان کے بدلے میں گولی چلی۔
آج وہی افغان جوکبھی ہمارے مہمان تھے،انہی سرحدوں پربارودبرسارہے ہیں جنہیں ہماری فوج نے اپنی جانوں کی قربانی دے کرمحفوظ رکھااورالمیہ یہ کہ یہ سب اس وقت ہورہاہے جب طالبان،جوخودکو اسلام کے علمبردار کہتے ہیں،مسلمانوں کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ رقصِ سیاست میں مشغول ہیں۔یہ وہی بھارت ہے جس کے ہاتھ آج بھی غزہ کے معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔وہ بھارت جواسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کرفلسطین کے مظلوم مسلمانوں پرگولہ باری میں شریک ہے۔اطلاعات کے مطابق ایک ملین سے زائد بھارتی اسرائیلی فوج کے ساتھ مل کر فلسطینیوں پرظلم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ایسے وقت میں افغانستان کادہلی کے ساتھ ہاتھ ملانا محض سیاسی بھول نہیں، اسلامی اصولوں کی کھلی نفی اورامتِ مسلمہ کے زخم پرنمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
پاکستان نے جن خیموں کوسایہ دیا،آج انہی کی راکھ سے دشمنی کے شعلے اٹھ رہے ہیں۔اوریہ منظرتاریخ کوبتارہاہے کہ بعض اوقات احسان کی مٹی پر اگنے والے پودے بھی کفرانِ نعمت کی آندھیوں میں جھلس جاتے ہیں۔یہ وہی افغانستان ہے جس کے دکھوں میں پاکستان نے اپنے زخموں کامرہم پیش کیااوریہ وہی پاکستان ہے جواب اپنی حدود کی حفاظت میں ایک بارپھر میدانِ عزم میں صف بستہ ہے۔طالبان حکومت کے کچھ اقدامات نے امت کے اہلِ فکردلوں میں تشویش پیداکردی ہے۔ وہ قوتیں جوخودکواسلام کی نمائندہ کہتی ہیں،آج علاقائی سیاست کے اس دائرے میں کھڑی ہیں جہاں ایسے ممالک سے روابط بڑھ رہے ہیں جنہوں نے حالیہ برسوں میں مسلم دنیاکے مصائب پرنہ صرف سردمہری اختیارکی ۔بلکہ ظالم وجارح کو ظلم ڈھانے میں اپنی افرادی قوت بھی مہیاکی۔یہ روش امت کے اتحادسے زیادہ انتشارکوجنم دیتی ہے۔
مولوی متقی کے دور ہندکے ساتھ ہی افغان سرحدپرکشیدگی نے نیارخ اختیارکیا۔افغان فورسزنے انگوراڈہ،باجوڑ،کرم،دیر، چترال اوربلوچستان کے علاقوں میں بلااشتعال فائرنگ شروع کی۔پاکستانی فوج نے صبراورتدبرسے کام لیتے ہوئے فوری اورمثرجوابی کارروائی کی۔اتوارکی علی الصبح ایک فیصلہ کن آپریشن کے دوران کئی افغان چوکیوں کوغیرمؤثرکردیا گیا، اور19کلیدی مقامات پرپاکستان نے اپناکنٹرول قائم کرلیا۔
پاکستانی مسلح افواج نے یہ واضح پیغام دیاکہ وطن کی سرحد کوئی مفروضہ نہیں،ایک عقیدہ ہے۔طالبان جنگجومتعددمقامات پرمورچے اورلاشیں چھوڑکرپیچھے ہٹ گئے۔باروداوراسلحہ کے ڈھیر اس شکست کی گواہی دے رہے تھے جوبے تدبیری کے ساتھ سامنے آئی۔دورانڈمیلہ،ترکمن زئی،شہیدان، جندوسر اور خرچرقلعہ جیسے مراکزمیں شدت پسندوں کے کمانڈسینٹرز کومکمل طورپرتباہ کر دیاگیا۔یہ مقام طویل عرصے سے سرحدپار کاروائیوں کیلئےاستعمال ہورہے تھے ۔پاکستان کی عسکری قیادت نے اس آپریشن کوانتقامی نہیں بلکہ دفاعِ وطن کی ناگزیرضرورت قراردیا۔
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،قطراوردیگرخلیجی ممالک نے سرحدی تصادم پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے افغانستان پر زوردیاکہ وہ اپنی سرزمین کودہشتگردسرگرمیوں کیلئےاستعمال نہ ہونے دے۔یہ ردعمل امتِ مسلمہ کے اس مشترکہ احساس کی علامت ہے کہ داخلی انتشارصرف دشمنوں کیلئے راہ ہموارکرتاہے۔
چنددن قبل منعقدہ ماسکوفارمیٹ کانفرنس میں خطے کے ممالک نے افغانستان کوواضح پیغام دیاتھاکہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے ۔تاہم افغان وزیرِخارجہ کے دور ہندکے فورابعدسرحدی تصادم کاآغازہوناخطے میں نئے سفارتی توازن کی نشاندہی کرتاہے۔چین اورروس نے بھی اس صورتِ حال پر اپنی تشویش ظاہرکی ہے،کیونکہ یہ واقعات جنوبی ایشیا کی امن بساط کوغیرمستحکم کرسکتے ہیں۔
افغانستان کی بھارت سے بڑھتی ہوئی قربت ایک فکری واخلاقی سوال ہے۔انڈیا جوحالیہ برسوں میں مشرقِ وسطی میں اپنے تعلقات کوایسے اندازمیں بروئے کار لارہاہے جوبعض اوقات مسلم دنیاکیلئیعدم اطمینان کاباعث بنتاہے،اب کابل میں سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔یہ وقت ہے کہ طالبان قیادت غورکرے کہ اسلامی اخوت محض نعرہ نہیں بلکہ عملی اصول ہے ۔ امت کے زخموں پرمرہم رکھنے کی بجائے ایسے ممالک کے ساتھ تعلق بڑھاناجوان زخموں کے اسباب میں شریک رہے، اسلامی تشخص کیلئے باعثِ تشویش ہے۔پاکستان نے ہمیشہ خطے میں امن،مفاہمت اوربھائی چارے کی پالیسی اپنائی ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ امن کاہاتھ ہمیشہ مضبوط ہاتھ ہی بڑھاسکتا ہے ۔یہ وقت صرف عسکری چوکسی کانہیں،بلکہ قومی یکجہتی،سیاسی استحکام اورفکری بیداری کا ہے۔کیونکہ سرحدوں کی اصل حفاظت توپوں سے نہیں،بلکہ قوم کے اجتماعی ایمان اورعزم سے ہوتی ہے۔
تاریخ کے آئینے میں غیرت کاچراغ دہائی دے رہا ہے۔40برس کی میزبانی،قربانی اوراخوت یہ سب پاکستان کی تاریخ کے وہ ابواب ہیں جن پرفخرکیاجا سکتاہے۔افسوس کہ ان قربانیوں کا جواب وفاسے نہیں،بلکہ شک وشبہے اورسرحدی دشمنی سے دیا گیامگرپاکستان کی تاریخ نے ہمیشہ دکھایاہے کہ یہ قوم بدلے میں بھی صبراوروقارکوترجیح دیتی ہے۔یہ وقت الزام تراشی کا نہیں،بلکہ امت کے اجتماعی ضمیرکوجگانے کاہے۔افغان عوام اوران کے رہنمااگرماضی کی یادوں کوانصاف کی روشنی میں دیکھیں،توشایدانہیں احساس ہوکہ پاکستان ان کاسب سے بڑا خیر خواہ رہاہے۔
تاریخ کے صفحات بتائیں گے کہ پاکستان نے اپنے دشمنوں کے خلاف نہیں، اپنے ایمان کے دفاع میں تلواراٹھائی۔یہ سرزمین آج بھی اس یقین پرقائم ہے کہ امن،عدل اور برادری ہی امتِ مسلمہ کاحقیقی سرمایہ ہیں۔یہ تحریرایک یاددہانی ہے کہ قومیں جب اپنے احسان فراموش ماضی کوبھول جاتی ہیں تو تاریخ انہیں دوبارہ اسی موڑپرلاکھڑاکرتی ہے جہاں سے سبق ادھورا رہ گیاتھا۔پاکستان نے اپنافرض اداکیا۔اب وقت ہے کہ دوسرافریق بھی تاریخ کے آئینے میں اپنی تصویرپہچانے۔
یہ واقعہ تاریخ کے صفحات پرایک عارضی سرخی نہیں بلکہ ایک مستقل باب ہے۔جویہ یاددلاتاہے کہ سرحدیں صرف جغرافیہ نہیں ہوتیں،وہ قوم کی غیرت اورایمان کاپیمانہ بھی ہوتی ہیں ۔اورجب کسی قوم کی غیرت کوللکاراجائے توخاموشی بھی ایک اعلان بن جاتی ہے،اوردفاع خودایک دعاکاروپ دھارلیتاہے۔ وقت کے طوفان آتے ہیں،مگرقوموں کی غیرت اگر زندہ ہوتو چراغ بجھتانہیں اورپاکستان کایہ چراغ چالیس برس سے جل رہاہے۔آج جب افغان سرحدپر فریب کی آندھی چل رہی ہے،پاکستان پھرصبر،ایمان اوروقارکے ساتھ کھڑاہیلیکن تاریخ کے صفحات گواہ رہیں گے کہ پاکستان نے مہمان نوازی کو عبادت سمجھا،اورافغانستان نے اسے کمزوری جانا۔
طالبان اگرذراٹھہرکرسوچیں توانہیں یادآناچاہیے کہ اسلام دشمنوں کے ساتھ دوستی ایمان کے بنیادی شعورسے انحراف ہے۔ وہ بھارت جس نے فلسطینی مسلمانوں پربم برسانے میں یہودکی مددکی،وہی آج کابل کی مسندوں پرمسکراہٹیں بانٹ رہاہے اوراسلام کاجھنڈا اٹھانے والے اس پرخاموش ہیں۔پاکستان کوکسی دشمن کے بارودسے نہیں،اپنی احسان مندی کی بھول جانے والی تاریخ سے خطرہ ہے۔مگرہم جانتے ہیں کہ امت کامستقبل ان قوموں کے ہاتھ میں ہے جواپنی وفاکو سیاست کے ترازو میں نہیں تولتیں۔
یہ تحریرمحض ایک واقعے کابیان نہیں،بلکہ ایک دعائیہ التجاہے کہ اے امتِ محمدﷺ!یادرکھ،جوقوم اپنے دوستوں کوبھول جائے اوردشمنوں سے مسکراکر ملے ،وہ اپنے ایمان کی چمک کھوبیٹھتی ہے۔پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت توکرے گا ہی،مگر ساتھ ہی وہ اس خواب کوبھی زندہ رکھے گاجوکبھی برصغیر کے مخلص مسلمانوں نے امتِ واحدہ کے نام پردیکھا تھا۔