جس کے پاس یقین کی دولت ہواس سے بڑاکوئی خوش نصیب نہیں ہوتا۔صرف یقین نہیں،یقین محکم…..!اس طرح کایقین کہ چاہے کچھ ہوجائے،دنیا ادھرسے ادھرہوجائے،سورج نکلے گااورنکلے گابھی مشرق سے۔یہ ظلمت شب ختم ہوگی،اندھیراختم ہوگا،ان ظالموں کی پسپائی ہوگی اورسچ کی کرنیں ان کونگل لیں گی…… دراصل یہی ہے اسرارکائنات جس پرفکرکرنے کی دعوت دی گئی ہے،تدبرکرنے کاحکم دیاگیاہے۔۔۔۔ توکیاغورنہیں کرتے قرآن میں اور اگروہ غیراللہ کے پاس سے ہوتاتوضرور اس میں بہت اختلاف پاتے۔(النساء:82)یقین کامل ہوتوکشتی کتنی ہی شکستہ کیوں نہ ہوبالآخرکنارے پرلگ ہی جاتی ہے چاہے چاروں طرف سونامی جیسے طوفانوں نے گھیر رکھاہولیکن وہ جواپنے تکبراورغرورکے ٹائی ٹینک پربڑے نازاں ہوتے ہیں ان کی تباہی اوربربادی کا عبرتناک منظربھی تاریخ کے اوراق میں موجودرہتا ہے تاکہ کوئی ان سے سبق سیکھ سکے۔ نہ زمین میں اکڑکرچل،اللہ کسی خوپسنداورفخرجتانے والے شخص کوپسندنہیں کرتا۔
ہم اپنی زندگی میں بھی اس کے مظاہردیکھتے ہیں۔آپ کہتے ہیں ناں کہ فلاں جان تودیدے گالیکن میرااعتمادنہیں توڑے گا،مجھے اس پر پورایقین ہے،لیکن اکثریہ خواب شرمندہ تعبیرنہیں ہوتے لیکن ایسابھی ناممکن نہیں۔یہ انسانوں کی بستی ہے،ہرطرح کے لوگ ہیں یہاں۔ بدلتے موسم کی طرح بدلتے لوگ، گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے لوگ!منہ پرمکرجانے والے لوگ!لاکھ کہیں آپ نے یہ کہا تھا… کہیں گے نہیں،بالکل نہیں!”نہیں نہیں آپ سمجھے نہیں، میں نے یہ نہیں کہا”تحریری معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں،ایک کاغذ کاٹکڑاہی توہے اورپھریہ کون سا قرآن وحدیث ہے؟آپ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ حلف اٹھاناتوکوئی بات ہی نہیں،کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے یہاں!
لیکن یہ ڈاکٹرفوزیہ صدیقی کس مٹی کی بنی ہوئی ہے کہ مسلسل کئی سالوں سے اپنے آنسؤوں کاڈھول ہرمحاذپر پیٹ رہی ہے۔یہ اکیلی منزل کے حصول پرنکلی لیکن اب ایک ایسے قافلے کی میرکارواں بن گئی ہے کہ اس کوجھٹلانے والے پریشان وپشیماں ہیں۔اسلام آباد کی سڑکیں،پارلیمنٹ کے ارکان اورمیڈیابھی اس کی ہمت کوسلام پیش کررہے ہیں۔آپ میں اخلاص ہوتوقسمیں کھانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔میرامانناہے کہ اپنی نیت خالص رکھو،کسی توقع کی امید مت رکھو،ہرشے سے بے نیازاخلاص نیت!اگرآپ اخلاص نیت سے کام کرتے ہیں اوروہ بگڑبھی جائے تواندرسے آوازآتی ہے کہ میں نے توبہت اخلاص سے یہ کام کیاتھااس کے نہ ہونے میں بھی کوئی اللہ کی مرضی ہوگی،کوئی پچھتاوانہیں ہوتا،اوراگرآپ نے بری نیت سے کوئی اچھاکام کیاہے اوروہ بارآوربھی ہوگیا، پھل پھول دینے لگ گیا،واہ واہ بھی ہونے لگی لیکن اندرسے آوازپیچھانہیں چھوڑتی،،کام توٹھیک ہوگیالیکن نیت توٹھیک نہیں تھی ناں،باہرکی واہ واہ سے کیا لینا،اندرسے سرشارہوناچاہئے۔
باہرسے بنجرہوں لیکن اندرسے شاداب
بس یہ ہے اصل،اورکچھ نہیں!
ایک چھوٹاساگاؤں تھا،لوگوں نے گائے بھینسیں پالی ہوئی تھیں اوران کادودھ شہرمیں آکربیچاکرتے تھے۔شہراورگاؤں کے درمیاں ایک بڑی پرزورندی تھی ۔سب گوالوں کے پاس اپنی اپنی مضبوط کشتیاں تھیں اوروہ صبح سویرے ہی شہرکارخ کرکے دودھ فروخت کرکے گھرلوٹ آتے تھے مگران میں ایک ایسا بھی تھاجس کے پاس غربت کی بناءپرکوئی سواری نہیں تھی اوروہ دوسروں کے رحم وکرم پر تھا۔اگرکسی کواس غریب پرترس آجاتاتواپنے ساتھ کشتی پرسوارہونے کی اجازت دے دیتاوگرنہ اکثردھتکاردیا جاتا۔اپنی اس غربت کے ہاتھوں بہت پریشان تھا۔
ایک دن اسے کسی نے شہرمیں ایک باباجی کاپتہ دیا،اپنی قسمت آزمائی کیلئے وہاں پہنچا،روتے ہوئے اپنی بپتاسنائی،باباجی نے مذاق میں کہہ دیا”تجھے اللہ پر یقین ہے ناں؟”تووہ غریب فوری بولا”جی!پکا یقین ہے”توباباجی بولے کہ آئندہ ندی کے اس کنارے آنکھیں بند کرکے اللہ کویادکرکےندی میں پاؤں رکھنا،ندی تمہیں خودہی دوسرے کنارے پہنچادے گی اوراسی طرح واپسی کاسفربھی طے کرلینا۔” دوسرے دن وہ ندی پر پہنچا اورباباجی کے بتائے ہوئے طریقہ پرعمل کیا ،اورجب کھولیں توندی کے دوسرے کنارے پرتھا۔بہت خوش ہواوہ۔ اب تواس کامعمول تھا کہ ندی پرآتا،پورے یقین سے آنکھیں بند کرکے ندی میں پاؤں رکھتااورپارچلاجاتا۔رب نے برکت دی اور اس کاکام چل نکلا۔
ایک دن اسے خیال آیاکہ میں بھی کس قدرخودغرض ہوں،جس نے مجھے یہ راہ دکھائی میں اسے توبھول ہی گیا۔یہ خیال آتے ہی سارے کام کاج چھوڑکرانہی باباجی کے پاس پہنچاجواپنے چیلوں کے درمیاں گپ شپ میں مصروف تھے۔سلام کیااورایک طرف ہوکر بیٹھ گیا۔ باباجی پہلے تونظریں چراتے رہے لیکن پوچھ لیاکہ کیسے آئے ہو۔اس نے شکریہ اداکرتے ہوئے باباجی کوتمام چیلوں سمیت گھرمیں کھانے کی دعوت دی جوباباجی نے فوری قبول کرلی۔باباجی اپنے مریدوں کے ساتھ اس غریب کے گھرجانے کیلئے جب ندی کے کنارے پہنچے تووہ وہاں ان سب کے استقبال کیلئے موجودتھا۔بہت خوش ہواوہ،باباجی سے کہا:چلئے آئیے، توباباجی بولے کہ میاں کشتی کہاں ہے؟تب وہ بہت حیران ہوا،اورکہنے لگاکہ باباجی آنکھیں بندکیجئے اوراللہ کانام یادکریں توندی آپ کوخودہی دوسرے کنارے پر پہنچادے گی۔اس نے آنکھیں بندکیں اوردوسرے کنارے جب پہنچاتودیکھاکہ باباجی ابھی دوسرے کنارے پرہی کھڑے ہیں۔اس نے بلند آواز سے باباجی کوجب پکاراتوباباجی نے بڑے غصے سے سے کہاکہ تم نے ہمیں ندی میں غرق ہونے کوبلایاہے؟تجھے تمہارایقین مبارک!
میں اپنے اردگردعجیب سے حالات دیکھ رہاہوں۔عجیب عجیب سے لیکچرسن رہاہوں۔لیکن ان سے ہوکچھ بھی نہیں رہا….بس شوربڑھ رہاہے اورسماعت متاثر ہورہی ہے اورکچھ بھی نہیں……اس لئے کہ سچائی کیلئے زبان صادق کاہونابہت ضروری ہے۔مجبورومقہور ڈاکٹرفوزیہ اوران کی ٹیم ہرجگہ اس امیدپر دہائی دے رہی ہے کہ شائدان پتھروں میں کوئی سوراخ ہوسکے۔ہرکوئی اس کوجھوٹی تسلی دیکراس کے زخموں سے کھیل رہاہے۔اقتدارکے ایوانوں میں بیٹھے افراد میڈیاکے سامنے مجبورومقہورفوزیہ کوبھی دیکھ رہے ہیں، حکمران پارٹی کی ایک خاتون وزیرنے میرے بھرپورگلہ وشکائت کرنے پرسب کے سامنے اپنی بے بسی کاجب اظہارکیاتومجھ سے رہانہ گیااورکہناپڑاکہ کیاجھوٹ بولنے والوں کے ہاتھوں مدینہ ریاست کاخواب شرمندہ تعبیرہوسکتاہے؟حالانکہ اسی خاتون وزیر کے پہلے دورمیں ہی پاکستان سے ایک کثیرتعدادکوقصرفرعون کے فرعون کے ہاتھوں بیچاگیا۔اسلام آبادکی انہی سڑکوں پرفوزیہ اوران کے ساتھی بارہامقتدر حلقوں کوان کے وعدے یاددلاتے رہتے ہیں۔ان سب کامحض یہ قصورہے کہ یہ سب قوم کی بیٹی عافیہ کی رہائی کیلئے کئے گئے وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں لیکن کیامجال ہے کہ ان کواپنے وعدوں کاکوئی پاس ہویااس خیانت کے جرم کاکوئی احساس ہو۔ان کے تکبرکاتویہ حال ہے کہ جس ملک کے ولی عہدکے پاؤں پکڑ کر سودپرقرض لیتے ہیں،انہی کے سفیرکے سامنے اس طرح اکڑکر متکبرانداز میں تانگ پرٹانگ رکھ کربیٹھ کرتصویربنواتے ہیں گویاکسی مفلوک الحال ملک کافقیر کوئی التجاکرنے دربارمیں باریابی کیلئے حاضرہواہے۔ مجھے یادہے جب یہی خاتون وزیرکمانڈوصدرکی تعریف کرتے ہوئے تھک نہیں رہی تھی تواس وقت بھی میرے اس مطالبے نے ان کے منہ کاذائقہ بدل دیاتھااورآج ایک سوال پراپنی سیاست کوچمکانے کیلئے ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے ساتھ ایسی ہمدردی لیکن نتیجہ لا حاصل!
ڈاکٹرفوزیہ اورمیڈیاکے توسط سے کئی مرتبہ یہ امیدہوئی کہ شائداب ڈاکٹرعافیہ پرتعذیب کادورختم ہوجائے گاجبکہ ڈاکٹرعافیہ نے اپنے خصوصی پیغام میں نہ صرف شدت سے پاکستان آنے کی خواہش کااظہارکیااورعمران خان کونہ صرف اپناہیروبھی بتایابلکہ جیل سے بھی عمران خان کیلئے عالم اسلا کاخلیفہ بننے کی دعاؤں کابھی ذکرکیا۔ان کی بہن ڈاکٹرفوزیہ نے خودمیڈیامیں بڑے دکھ کے ساتھ اس کاذکرکیاکہ عافیہ صدیقی کوامریکی جیل حکام یہ کہہ رہے ہیں کہ اگرتم اپنادین بدل لوتوتمہیں فوراًرہاکردیں گے۔فوزیہ صدیقی کا مزیدکہناتھاکہ رپورٹ کے مطابق عافیہ صدیقی کوجنسی طورپربھی ہراساں کیاجاتاہے اورانہیں عبادت بھی نہیں کرنے دی جاتی۔
فوزیہ صدیقی کاکہناہے کہ اب بھی عافیہ صدیقی کوواپس لانے کے تین راستے ہیں۔پہلاتویہ کہ پاکستان اُس عالمی معاہدے کاشریک بن جائے جس میں مجرمان کواپنے ملک منتقل کیاجاسکتاہے۔امریکاپہلے سے ہی اس معاہدے پردستخط کرچکاہے تاہم پاکستان اس معاہدے کارکن نہیں۔اس حوالے سے درکارایک قانونی نقطہ عافیہ صدیقی کی جانب سے اس منتقلی کی درخواست تھی اورفوزیہ صدیقی کے مطابق عافیہ صدیقی کی جانب سے عمران خان کوپیغام اسے سلسلے کی ایک کڑی تھاجس پرآج تک عمل نہیں کیاگیا اورنہ ہی اس کی کوئی وجہ بتانے کوکوئی تیارہے۔
فوزیہ صدیقی کایہ چشم کشادعویٰ ساری قوم کوسمجھنے پرمجبورکررہاہے کہ آخرجب امریکاکے نائب اسسٹنٹ اٹارنی جنرل بروس شوارٹس نے ایک خط میں آفرکی تھی کہ اگرپاکستان اس معاہدے میں شرکت کرلیتاہے توامریکاعافیہ صدیقی کوواپس بھیجنے کیلئے تیارہے اورایک اطلاع کے مطابق آج بھی یہ خط۔ پاکستانی حکام کے پاس موجودہے۔قوم نئے پاکستان بنانے والوں سے یہ مسلسل یہ مطالبہ کررہی ہےکہ اس مجبورومقہوربیٹی کے ساتھ اس نارواسلوک کیاجوازہے؟
فوزیہ صدیقی کاکہناہے کہ عافیہ کوپاکستان لانے کادوسراراستہ امریکااورپاکستان کے مذاکرات تھااورمریکاکی طرف سے مثبت اشاروں سے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کوآگاہ بھی کیاگیاتھاجبکہ اس ملاقات کیلئے کراچی سے اسلام آبادتک سفرکرنے والی ڈاکٹرفوزیہ کوباوجودوعدے کے طوہاًکرہاًچندمنٹ دیئے گئے،ان کے اس ناروا سلوک سے ہی پتہ چل گیاہے کہ انہوں نے ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے کس قدراپنی ذمہ داری کوپوراکیاہوگا۔
تیسراراستہ صدارتی معافی کاہے۔اگریادہوتواوباماکے دورِحکومت میں عافیہ صدیقی کی صدارتی معافی کی تیاری کی جارہی تھی تاہم پاکستانی حکومت نے بروقت کارروائی نہیں کی۔اس جرم عظیم کے مرتکب ذمہ داروں پرآج تک اگریہاں کوئی کاروائی نہیں ہوسکی تویقیناًڈاکٹرعافیہ پرہونے والے مظالم پراس کی،اس کے بچوں،فوزیہ بہن اوربوڑھی ماں کی منتظرآنکھوں اوردل سے نکلتی ہوئی آہوں کی شکل میں ایک بہت ہی مضبوط”ایف آئی آر”کٹ چکی ہے اوراس مقدمے میں ملوث تمام مجرموں کی سزاکیلئے ایک ہی ایف آئی آرکافی ہے۔
مجھے لگتاہے کہ ہمیں بے یقین رہبروں نے گھیرلیاہے،چاروں طرف جعلی پن……..یہ بے یقین رہبراپنی قوم سے کئی سالوں سےایسی باتیں کررہے ہیں جن پران کوخودبھی یقین نہیں ہے اوراب اگلےانتخاب سے قبل ایک مرتبہ پھرجھوٹی ہمدردی،جھوٹے دلاسے اوراپنی مجبوریوں کاتذکرہ کرکےیہ پرانے شکاری نئے جال میں پھانسنے کی تدابیرپرعمل پیراہیں۔بس یہی مسئلہ ہے ہمارا۔
میرے رب!ہمیں وہ رہبردے جسے اپنے کہے پریقین کامل ہو،یہ طوفان بلاخیزہماراکچھ بھی نہیں بگاڑسکے گا۔بس ضرورت ہے یقین کامل کی،اورہم سب اتنا توجانتے ہیں ناں کہ کل کاسورج ضرورطلوع ہوگا،اورہوگابھی مشرق سے،آپ یقین رکھئے یہ جوچاروں طرف اندھیراہے ناں گھپ اندھیرا …… یہ توایک جگنوجتنی روشنی کامقابلہ بھی نہیں کرسکتا،ضرورطلوع ہوگاسورج اورپسپاہوگایہ اندھیرا… …..فوزیہ!تم اپنے آنسوؤں کاسورج اس یقین کے ساتھ جلائے رکھو کہ انہی چراغوں سے اب ایسی روشنی ہوگی کہ اندھیرے اب کبھی لوٹ کرواپس نہ آئیں گے۔یقین رکھوکہ میراعلیم الصدوراورکارسازرب ہراس آنسو سے واقف ہے جوتم سب نے اس کڑی آزمائش میں مسکراتے ہوئے اپنی پککوں کے پیچھے چھپاکررکھے ہیں۔میرارحیم وکریم اورچیونٹی کے چلنے کی آوازسننے والارب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اس حافظ بیٹے کی مناجات کوضرورسن رہاہے اور بوڑھی ضعیف والدہ کے تکلیف اورصدمے سے نڈھال اٹھتےہوے ہاتھوں کی لاج ضرور رکھے گاکہ میرامالک الملک رب توہم سب کی شہہ رگ سے زیادہ قریب بستاہے،بس یقیں محکم کے احساس کی ضرورت ہے۔زمانہ گواہ ہے کہ اندھیروں کے یہ تمام سفیراورابلیس کے گماشتے جواس وقت اقتدارکے نشے میں فرعون بن چکے ہیں، اپنے انجام کوپہنچ کررہیں گے،ان کے دیئے ایک ایک کرکے بجھ رہے ہیں۔کچھ بھی نہیں رہے گا،بس نام رہے گامیرے رب کا!
دیکھتی ہے جوں ہی پسپائی پہ آمادہ مجھے
روح کہتی ہے بدن سے،بے ہنرمیں بھی توہوں
دشت حیرت کے سفرمیں کب تجھے تنہاکیا
اے جنوں میں بھی توہوں،اے ہم سفرمیں بھی توہوں