The price of pride, the echo of war

غرور کی قیمت، جنگ کی گونج

:Share

دنیاکی تاریخ اورنقشے پربعض ایسے لمحات شاذونادرآتے ہیں جب الفاظ بارودسے بھاری اورجملوں کی کاٹ تلواروں کی دھار سے بڑھ جاتی ہے،اورایک جملہ کسی توپ کے گولے سے زیادہ مہلک ثابت ہوتاہے۔آج جب جنوبی ایشیاکی دوایٹمی قوتیں،انڈو پاک،لفظوں کی تلواریں نیام سے نکال کرایک دوسرے پربرسارہی ہیں،توہواؤں میں صرف سیاسی تناؤہی نہیں،بلکہ تاریخ کے پنوں سے اُٹھتی ہوئی وہ گردبھی محسوس ہورہی ہے جس نے ماضی میں تہذیبوں کوملبے میں بدل دیاتھا۔

گذشتہ چندروزسے پاکستان اورانڈیاکے تعلقات میں شدیدکشیدگی دیکھی جارہی ہے،جس کی وجہ دونوں ممالک کے درمیان لفظی جنگ،سندھ طاس معاہدے کومتنازعہ بنانے کی کوششیں،اورباہمی طورپرجارحانہ بیانیہ ہے۔یہ تناؤنہ صرف خطے کی سلامتی کیلئےخطرہ ہے بلکہ عالمی برادری کی تشویش کاباعث بھی بناہواہے۔پاکستان اوربھارت کے درمیان حالیہ دنوں میں جاری لفظی جنگ ایسی ہی ایک ہولناک کیفیت کی غمازہے۔

چندروزکی خبروں اوربیانات نے ایک ایسے آتش فشاں کی صورت اختیارکرلی ہے جوکسی بھی لمحے ایٹمی لاوااُگل سکتاہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کاانتباہ کہ”انڈیانے پاکستان کاپانی بند کیاتواسے اقدامِ جنگ تصورکیاجائے گا”،محض ایک رسمی بیان نہیں بلکہ ایک ایسااعلان ہے جس کے پس منظرمیں قومی غیرت کی پوری تاریخ رقص کررہی ہے۔دوسری جانب مودی کا یہ کہناکہ”حملہ آوروں اورحملے کی سازش کرنے والوں کوان کے تصورسے بھی بڑی سزاملے گی”،ایک ایساجارحانہ اشارہ ہے جو جنوبی ایشیا کے امن کی بنیادوں کولرزارہاہے۔

وزیردفاع پاکستان،خواجہ آصف،کے جذبات میں لپٹاہوایہ جملہ کہ”پاکستان اپنے ہرشہری کی موت کابدلہ لے گا”،دشمن کویہ پیغام دے رہاہے کہ پاکستانی قوم کے صبرکاپیمانہ لبریزہوچکاہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے تحمل کی تلقین ایک ایسابوسیدہ مرہم ہے جو ناسوربنتے زخم پررکھاجارہاہے۔یہ سب ایک ایساخطرناک منظرنامہ تشکیل دے رہاہے جہاں معمولی سی لغزش پوری دنیاکو تاریک کرسکتی ہے۔

1960کے معاہدے کی روسے دریائے سندھ،جہلم،اورچناب کاپانی پاکستان کوجبکہ راوی،بیاس،اورستلج کاپانی انڈیاکودیاگیا۔یہ معاہدہ دنیاکاسب سے طویل المدتی امن معاہدہ سمجھاجاتاہے،جس نے1965اور1971کی جنگوں کے دوران بھی کام جاری رکھا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کوپانی کے استعمال،ڈیموں کی تعمیر،اورآبی تنازعات کے حل کیلئےایک مکینزم مہیاکیاگیا۔انڈیانے معاہدے کے آرٹیکل12کے تحت اسے”جزوی طورپر معطل”کرنے کااعلان کیاہے،جسے پاکستان نے”جنگی اقدام”قراردیتے ہوئے سختی سے ردکیاہے۔جس کامطلب ہے کہ وہ پاکستان کے حصے کے دریاؤں پرڈیموں کی تعمیریاپانی کابہاؤروک سکتا ہے۔پاکستان کامؤقف یہ ہے کہ انڈیاکے یہ اقدام”بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی”اور”جنگ کی دعوت”ہے۔پاکستان کے مطابق، دریائے چناب پرانڈیاکے زیرِتعمیرکشن گنگاڈیم سے پانی کے بہاؤمیں40%تک کمی آسکتی ہے،جوزراعت اورپینے کے پانی کے بحران کاباعث بنے گی۔

عالمی بینک کی ثالثی میں طے پانے والاسندھ طاس معاہدہ دریاؤں کے پانی کے تناسب کوطے کرتاہے اورگزشتہ6دہائیوں میں کئی جنگیں اوربحران جھیلنے کے باوجودقائم رہاتھا۔انڈیاکایہ قدم پانی کو”جنگی ہتھیار”کے طورپر استعمال کرنے کی کوشش سمجھاجا رہاہے۔انڈیاپانی کوہتھیاربناکرپاکستان کومعاشی طورپرکمزورکرناچاہتاہے۔

پاکستان کی90%زراعت دریاؤں کے پانی پرانحصارکرتی ہے۔پانی کی کمی سے زرعی تباہی کی وجہ سے گندم،چاول،اورکپاس کی پیداوارمتاثرہوسکتی ہے۔پانی کی قلت سے پاکستان میں سماجی بے چینی اورانڈیاکے خلاف عوامی ردعمل بڑھ سکتاہے مگر آج جب بھارت اس معاہدے کی جزوی معطلی کی بات کررہاہے،توپانی کامسئلہ،جوزندگی کاسرچشمہ تھا،ہتھیاربننے جارہا ہے ۔ سندھ طاس معاہدہ کے قائم ستون کومودی حکومت گرانے کی دہمکیاں دی رہی ہے۔سندھ طاسمعاہدہ،جووقت کی کئی آندھیوں، جنگوں اورفتنہ سامانیوں کے باوجودقائم رہا،آج بھارتی اقدام کی صورت میں اپنی پہلی سنجیدہ لغزش کاسامناکررہاہے۔پانی جیسا بنیادی اورفطری وسیلہ اب سفارتی میزوں پرایک ہتھیارکی حیثیت اختیارکرچکاہے۔اگربھارت اس معاہدے کو یکطرفہ طورپر معطل کرکے پاکستان کے حصے کے پانی کوروکنے کی کوشش کرے،تویہ عمل محض ایک معاہدہ شکنی نہیں بلکہ فطرت کے قانون اور انسانیت کے ضمیرپرایک کاری ضرب ہوگا۔مورخین جانتے ہیں کہ پانی کی جنگیں میدانوں سے زیادہ انسانوں کے دلوں میں لڑی جاتی ہیں اوران کی تباہی کادائرہ سرحدوں سے آگے بڑھ کرتہذیبوں کے وجودکوچکناچورکردیتاہے۔

مودی نے دھمکی دی کہ”حملہ آوروں کوان کے تصورسے بڑی سزاملے گی”،جبکہ پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے کہاکہ “ہرشہری کی موت کابدلہ لیاجائے گا”۔دونوں ممالک کی قیادت اپنے عوامی بیانیے میں جارحانہ لہجہ اپنارہی ہے،جس سے عوامی جذبات بھڑک رہے ہیں۔اقوام متحدہ نے دونوں ممالک سے تحمل اورمذاکرات کی اپیل کی ہے،مگراب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نظرنہیں آتی مگریہ زبانی جمع خرچ اب وقت کی شدت کامقابلہ کرنے کیلئےناکافی معلوم ہوتاہے۔دنیاکو،خاص طورپربڑی طاقتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ محض تلقین پراکتفانہ کریں،وہ اپنے کردارکومحض بیانات تک محدودنہ رکھیں،بلکہ عملی ثالثی کا کرداراداکریں—ورنہ خطے کاامن لمحوں میں دھواں ہوسکتاہے۔

خدشہ اس بات کاہے کہ لفظی جنگ سے بات بڑھ کرفوجی تصادم کی طرف جارہی ہے اورماضی کی طرح دونوں ممالک سرحدوں پرفوجی چھیڑچھاڑ یا محدودفوجی کارروائیوں کاراستہ اختیارکرسکتے ہیں،فوجی محاذآرائی کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیرمیں کنٹرول لائن پرگولہ باری اورفائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہوسکتاہے جیساکہ2019کے پلوامہ حملے کے بعدہواتھا۔2019ءکی طرح انڈیا”سٹرائک انسائیڈپاکستان”(بالاکوٹ ایئرسٹرائیک)کی طرزپر ہوائی یامیزائل حملہ کرسکتاہے۔بحیرہ عرب میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔معاملہ مزیدخراب ہونے کی صورت میں فیصلہ کن جواب کی حکمت عملی کے طورپر روایتی جنگ میں شکست کی صورت میں ایٹمی ہتھیارکے استعمال سے صرف خطہ ہی نہیں بلکہ ساری دنیاکے متاثرہونے کا قوی امکان موجودہے۔دونوں ممالک کے پاس150-160ایٹمی ہتھیارہیں۔کسی بھی بڑے تصادم کانتیجہ لاکھوں اموات اورماحولیاتی تباہی ہوسکتا ہے ۔

ایسی صورتحال میں بھی ایٹمی جنگ کاخطرہ عالمی دباؤکوبڑھاسکتاہے۔اگرچہ موجودہ صورتحال تشویشناک ہے،لیکن تاریخی تجربات اورایٹمی طاقت ہونے کے ناطے دونوں ممالک مکمل جنگ سے گریزکریں گے۔ممکنہ طورپریہ تناؤمحدودفوجی جھڑپوں، سفارتی دباؤ،یاپانی کے معاہدے پرمذاکرات تک ہی محدودرہے گا۔بین الاقوامی برادری کافوری مداخلت کرنااوردونوں طرف کیلئے بات چیت کاراستہ ہموارکرناہی اس بحران کوسلجھانے کاواحدذریعہ نظر آتاہے۔

آج جب زمین پرایک نیاسنگین بحران سراٹھارہاہے،یہ سوال ازحداہمیت اختیارکرگیاہے کہ کیاامریکااس آتش فشاں کے دھانے کوبند کرسکتاہے؟ امریکا ،چین،یاسعودی عرب جیسے ممالک ثالثی کی کوشش کرسکتے ہیں۔امریکاپہلے ہی اس بحران کو”انتہائی تشویش ناک”قراردے چکاہے۔عالمی بینک بھی سندھ طاس معاہدے کی بحالی کیلئےاقدامات کرسکتاہے۔دونوں ممالک معاشی بحران(مہنگائی،بیرونی قرضے)کاشکارہیں۔طویل جنگ دونوں کیلئےتباہ کن ہوسکتی ہے،جس کی وجہ سے حکومتیں ممکنہ طورپرتصادم سے گریزکریں گی۔دونوں ایٹمی طاقتیں ہونے کے ناطے کسی بھی بڑے تصادم کوباہمی طورپرایٹمی جنگ،یقینی تباہی(ایم اے ڈی)کی نظریے کی روشنی میں دیکھاجاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کاروں کاخیال ہے کہ جنگ کی صورت میں”جیتنے والاکوئی نہیں ہوگا”۔

مودی کی حکومت کشمیراورقومی سلامتی کے بیانیے کوجہاں اپنی آئندہ انتخابی مہم کاحصہ بناتی چلی آرہی ہے،اسی طرح بی جے پی کی اکھنڈبھارت کی سوچ پاکستان کے خلاف سخت مؤقف کوہوادے رہی ہے۔انڈیایہ سمجھتاہے کہ اس وقت پاکستان24٪ مہنگائی،کرنسی کی کمی اوردوماہ بعدایک مرتبہ پھرآئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی صورت میں پاکستانی معیشت مکمل طورپر دباؤ میں آجائے گی اورپاکستان کودیوالیہ کی طرف لیجانے کے بعدامریکی،اسرائیلی اوران کے تمام مغربی اتحادیوں کی طرف سے شدیددباؤکے بعداس کی ایٹمی طاقت کومعزول کیاجاسکے گا۔

ایسی صورتحال میں پاکستانی فوج کی جانب سے قومی سلامتی کے بیانیے پرسختی سے عملدرآمدکااعلان ہوجائے گااوریقیناًجہاں امریکااس خطے میں انڈیاکو اپنااسٹریٹیجک پارٹنرسمجھتاہے وہاں چین پاکستان کاایک ایسااہم اتحادی ہے جس نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ اسے پاکستان کی سلامتی اسی طرح عزیزہے جس طرح امریکاکواسرائیل کی کی سلامتی عزیزہے۔اس کے ساتھ ہی یواے ای،سعودی عرب،ترکی کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک بھی پاکستان کی جہاں مالی مددکرسکتے ہیں وہاں ان حالات کوقابومیں رکھنے کیلئے مذاکرات کیلئے پلیٹ فارم مہیاکرسکتے ہیں۔

تاریخ شاہدہے کہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ میں توچابک دستی سے کام لیتی ہیں،مگرانصاف کی ترازوکوتھامنے میں ان کی انگلیاں اکثرلرزنے لگتی ہیں۔امریکاچاہے تواپنی سفارتی طاقت کے بل پراس بھڑکتے تنورمیں کچھ ٹھنڈک بھرسکتاہے،مگراس کیلئےضروری ہے کہ وہ مساویانہ اورغیر جانبدارانہ کرداراداکرے،وگرنہ ایک جانب دباؤمزیدخطرات کوجنم دے سکتا ہے۔کیادونوںممالک ماضی کی جنگوں اوربحران سے سبق حاصل کرنے کی بجائے ایسی تاریخ کودہرانے کی حماقت کریں گے جب کارگل جنگ1999ءمیں محدودجنگ کے باوجوددونوں ممالک کوبھاری جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑاتھا۔

2019ءپلوامہ کے فالس فلیگ آپریشن کے بعدانڈیاکے فضائی حملے کے بعدپاکستان کی طرف سے طیارہ گرانے اورقیدی واپس کرنے کے عمل نے جہاں یہ ثابت کیاکہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے کس قدرحساس اورچوکس ہے وہی اس نے اس نےنے واضح پیغام دیاتھاکہ خطے میں تصادم کو”کنٹرول”کرنابھی اس کیلئے اسی صورت ممکن ہے اگراس کی سرحدوں کی مکمل حفاظت ہو۔علاوہ ازیں2001-2002ءمیں انڈیانے10ماہ تک لاکھوں فوجیوں کی سرحدپرتعیناتی کرکے پاکستان کے اعصاب کواچھی طرح ازمالیاتھاجبکہ اس وقت بھی ایٹمی جنگ کے خطرات پیداہوگئے تھے۔

1965،1971،اور1999کی جنگیں دونوں ممالک کیلئےتباہ کن رہی ہیں۔ان تجربات نے ثابت کیاہے کہ جنگ کسی مسئلے کاحل نہیں۔تاہم انڈیاکا سندھ طاس معاہدہ توڑناپاکستان کی زراعت اورپینے کے پانی کیلئےخطرہ ہےاگرانڈیایہ قدم اٹھاتاہے توپاکستان کی جانب سے فوجی ردعمل کاامکان بڑھ جاتا ہے۔خطرہ کی بات یہ ہے کہ گودی میڈیامودی کی حکومت کوتقویت دینے کیلئے قوم پرست بیانیہ عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئےاستعمال ہورہاہے، جو تناؤکومزیدہوادے سکتاہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ مستقبل میں جنگی تباہی کے امکانات کے پیشِ نظرماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کیا جائے ۔

سندھ طاس معاہدے کوبحال کرنے کیلئے عالمی بینک یااقوام متحدہ کوفوری حرکت میں آکرانڈیاکواس حماقت پرتنبیہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ہی کشمیرپر”سیاسی حل”کی بات چیت (مثلاً2003کی جنگ بندی لائن کااحترام)کی ضمانت دیتے ہوئے کشمیرجیسے سب سے پرانے ایجنڈے پر سرگرمی کے ساتھ قراردادوں پرعملدرآمدکاحکم دیناچاہئے۔اقتصادی اورسفارتی جنگ (تجارت بندکرنا،سفارت کاروں کونکالنا)کے تناؤکوجلدازجلد ختم ہوناچاہئے۔سائبر جنگ کے ذریعے بنیادی ڈھانچے کونشانہ بنانے کے عمل کافوری خاتمہ ہوناچاہئے۔دونوں ممالک “سرحدپار”کارروائی کر کے اپنی عوامی حمایت بڑھانے کی کوششوں کو ترک کریں گے،کیونکہ یہی عوامل بعدازاں ایٹمی جنگ کے خطرات کاسبب بنتے ہیں۔

تاریخ کااٹل سبق ہے کہ جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔برصغیرکی تاریخ ہمیں بارباریہی پیغام دیتی ہے کہ جنگوں نے صرف شکستیں دی ہیں، نہ کہ عزتیں ۔کارگل ہویاممبئی حملے،لاہور معاہدہ ہویاآگرہ سمٹ—ہرتجربہ یہ چیخ چیخ کرکہہ رہاہے کہ تصادم، خواہ جتنابھی محدودہو،بالآخربربادی کوجنم دیتا ہے۔
علامہ اقبال کی گہربارصداآج بھی ہمارے کانوں میں گونجتی ہے:
جنگ اپنے اصولوں پہ اگرچہ ہے قتال
ہے مگرعشقِ وطن کارِدرویشاں بھی
اورمیرکی دردبھری شاعری ہمیں یہ نصیحت دیتی ہے:
جنگ وجدل سے شہراجڑے،بستی ویران ہوئی
اے میر!اب کے ہم بھی چپ رہے،دل خون ہوا

پاکستان اوربھارت کے بیچ بڑھتاہواتناؤمحض سیاسی چپقلش نہیں،بلکہ ایک ایسانازک موڑہے جہاں ایک غلط قدم،نسلوں کی بربادی کاپیش خیمہ بن سکتا ہے ۔ جنگ کی راہ میں نہ کوئی فاتح ہوتاہے نہ مغلوب،فقط مائیں اپنی گودیں اجاڑتی ہیں اورتہذیبیں اپنے خواب دفن کرتی ہیں۔یہ خطہ،جس کی مٹی محبتوں کی خوشبوسے معطرہونی چاہیے تھی،آج نفرت کی بارودسے سلگ رہی ہے۔اگراب بھی ہوش کے دامن کونہ تھاماگیا،توتاریخ ایک اورنوحہ لکھنے پرمجبورہوجائے گی۔وقت کاتقاضاہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت اپنے غرورکو تھام کرحکمت کاچراغ روشن کرے—کہ جنگ کے میدانوں میں اگرکوئی چیزہمیشہ ہارتی آئی ہے،تووہ انسانیت ہے۔یہ وقت اشتعال اورغرورکی منڈی میں تلواریں چمکانے کانہیں بلکہ تدبراورحکمت کی راہوں پرچراغ جلانے کاہے۔
عقل کوتنقیدسے فرصت نہیں
عشق پراعمال کی بنیادرکھ

آج اگرعقل تنقیدکے تیربرسانے میں مصروف رہی اورعشقِ وطن محض نعروں کاایندھن بن کررہ گیا،تودونوں ملکوں کامقدرتباہی کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔تاریخ کے اوراق ہم سے یہ سوال کررہے ہیں کیاہم تہذیب کے وارث بنیں گے یابربادی کے سوداگر ؟

چندسنجیدہ تجزیہ کاروں کایہ خیال کہ ماضی کی تلخ یادیں دونوں ملکوں کومکمل تصادم سے بازرکھیں گی،ایک امید کی کرن ضرورہے۔1947ءسے لے کرکارگل اورممبئی حملوں تک،دونوں ممالک نے بارہاتلخیاں جھیلیں اوربارہاپچھتاوے کازہرچکھاہے۔ شایداسی تجربے نے دونوں قوموں کے فیصلہ سازوں کویہ شعوردیاہوکہ مکمل جنگ کی راہ ہلاکت کی شاہراہ ہے،اورکوئی بھی ذی شعورقوم اپنے ہی ہاتھوں اپنی بربادی کاپروانہ جاری نہیں کرتی۔ماضی کا یہی بہترین سبق ہے جوآج کی کشیدگی میں بھی یہی پیغام دے رہاہے۔

وقت کاتقاضاہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت اپنے غرورکوتھام کرحکمت کاچراغ روشن کرے—کہ جنگ کے میدانوں میں اگرکوئی چیزہمیشہ ہارتی آئی ہے،تووہ انسانیت ہے۔جب نفرت کی آندھیاں سرحدوں کے دونوں طرف چراغ گل کرنے لگیں،تودانشمندی کا تقاضاہے کہ تلواریں نیام میں رہیں اورزبانیں مرہم کی صورت اختیارکریں۔

پاکستان اوربھارت کے بیچ بڑھتاہواتناؤمحض سیاسی چپقلش نہیں،بلکہ ایک ایسانازک موڑہے جہاں ایک غلط قدم،نسلوں کی بربادی کاپیش خیمہ بن سکتا ہے۔جنگ کی راہ میں نہ کوئی فاتح ہوتاہے نہ مغلوب،فقط مائیں اپنی گودیں اجاڑتی ہیں اورتہذیبیں اپنے خواب دفن کرتی ہیں۔یہ خطہ،جس کی مٹی محبتوں کی خوشبوسے معطرہونی چاہیے تھی،آج نفرت کی بارودسے سلگ رہی ہے۔اگراب بھی ہوش کے دامن کونہ تھاماگیا،توتاریخ ایک اورنوحہ لکھنے پرمجبورہوجائے گی۔

ایسے میں ایک حکایت رہنمائی کرتی ہے کہاجاتاہے کہ دوشہزادے تخت کی جنگ میں الجھ گئے۔دونوں کے درمیان ایک ندی بہتی تھی۔برسوں کی لڑائی سے ندی سوکھ گئی،مٹی پھٹ گئی،زرخیززمین بنجرہوگئی۔جب ہوش آیاتونہ تخت بچاتھانہ تخت نشیں—فقط ایک بےجان ملبہ اورصحرائی ہواان کااستقبال کرتی تھی۔تب ایک بزرگ نے کہاجوزمین خون سے سیراب ہو، وہاں کبھی محبت کے پھول نہیں کھلاکرتے۔

یہ دنیاکاواحدایساخطہ ہے جہاں چارباضابطہ تسلیم شدہ نیوکلئیرممالک ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں اورایران پانچواں ملک ہے جو اس صلاحیت کے بالکل قریب ہے۔ان حالات میں توعالم انسانیت اورساری دنیا کیلئےدیرپااورمستقل امن اس لئے ضروری ہے کہ کوئی معمولی چنگاری اس بارودی خطے کوساری دنیا سمیت صفحہ ہستی سے مٹاسکتی ہے۔

اب ضرورت اس امرکی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مستقل امن قائم کرنے کیلئے مضبوط ضمانتوں کے ساتھ فوری طورپر ان اقدامات پرعملدرآمد شروع کیاجائے:
سندھ طاس معاہدے کوفوری بحال کرنا۔
کشمیر پربات چیت کیلئےغیرجانبدارفورم کاقیام۔
دہشتگردی کے خلاف مشترکہ تعاون۔
میڈیااورعوامی بیانیے میں اعتدال۔

جب نفرت کی ہوائیں چراغوں کوبجھانے پرتُلی ہوں،جب سیاسی جوش وخروش،عقل وفہم کے تاج کوزمین پرپھینک دے،تووہ لمحہ آجاتاہے جب ایک پوری نسل کے خواب،میدانِ جنگ کی گردمیں گم ہوجاتے ہیں۔ایسے وقت میں قیادت کی اصل عظمت اسی میں ہے کہ وہ انتقام کی تپتی ہوئی راہوں کوچھوڑکرمفاہمت کے باغات کی طرف لوٹے۔وقت کاتقاضاہے کہ غرورکی زنجیریں توڑی جائیں اورحکمت کاپرچم بلندکیاجائے۔تباہی سے پہلے ہوش کی اس صداپرکان دھرنے کی ضرورت ہے۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ خداوندِوقت اس خطے کے مقتدررہنماؤں کے دلوں میں وہ نورِبصیرت پیداکرے جس سے وہ عداوت کی دھند کوچیرکرمحبت کے افق تک پہنچ سکیں اوراس دھرتی پرنفرت کی تیزہواؤں کی جگہ امن کے بادِنسیم کاگزرہو۔برصغیرپرتباہی کی آندھی اورجنگی بادلوں کی بجائے ہوش کے چراغ روشن کردے تاکہ انسانیت ہارنے اورآنے والی قیامت سے محفوظ رہ سکے۔ آمین۔

حتمی پیغام یہ ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ جنگیں مسائل حل نہیں کرتیں۔دونوں ممالک کواپنی عوام کی بھلائی کیلئےتنازعات کے پرامن حل پرتوجہ دینی چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں