Kabul Shakehand with Dehli

کابل اور دہلی کا ملاپ …… وفا یا مفاد

:Share

جب تاریخ کے اوراق پروقت کے قلم نے افغانستان کانام لکھاتواس کے ساتھ ہی تقدیرنے ایک مسلسل کشمکش کی داستان بھی رقم کر دی۔ایک سرزمین جوکبھی سلطنتوں کی راہگزررہی ، کبھی نظریات کی آزمائش گاہ،اورکبھی سامراجی قوتوں کیلئےشطرنج کی بساط۔ اسی خطۂ خاک میں،جہاں بندوق کی زبان نے صدیوں تک حکمرانی کی،آج سفارت کی نرمی نے آہستہ آہستہ سراُٹھانا شروع کیاہے۔

طالبان کی حکومت،جوکبھی محض ایک عسکری وجودسمجھی جاتی تھی، اب سفارتی دروازوں پرسیاسی گفت وشنیدکی بجائے دشمنوں کی زبان میں بات کررہی ہے اورجب ان کے وزیرِخارجہ امیرخان متقی،دہلی کی سمت قدم بڑھاتے ہیں،تویہ محض ایک سرکاری دورہ نہیں،یہ تاریخ کے گہرے سمندرمیں پھینکاگیاایک نیالنگرہے؛ایک ایسی کوشش جوبرصغیرکے دوازلی حریفوں، انڈیااورافغانستان کے درمیان ایک نئی فکری راہداری کھولنے جارہی ہے۔

تاریخ کے دھارے میں کچھ لمحے ایسے آتے ہیں جب قومیں صرف فیصلے نہیں کرتیں،بلکہ اپنے ماضی کے ساتھ مکالمہ کرتی ہیں۔ افغانستان اوربھارت کے مابین بڑھتی ہوئی قربت کا منظرآج پاکستان کےعوام کے دلوں میں ایک خاموش کرب پیداکررہاہے۔وہی پاکستان ،جس نے چالیس برس تک افغان بھائیوں کے دکھ دردکواپنادکھ سمجھا،جس نے اپنی زمین،اپنے وسائل،اپنے گھروں تک کومہمان نوازی کے نام پروقف کردیا،آج وہی قوم یہ سوچنے پرمجبورہے کہ:
کیایہ وقت کاالٹابہاؤہے یاتاریخ کی ناقدری کامظہر؟پاکستانی عوام اپنے دل کے نہاں خانوں میں یہ سوال لیے بیٹھے ہیں کہ جن افغان بھائیوں کیلئےاس ملک نے اپنی معیشت،امن اور خون سب کچھ قربان کیا،آج وہی افغان زمین ٹی ٹی پی اوربی ایل اے جیسے گروہوں کیلئےپناہ گاہ کیوں بنی ہوئی ہے؟کیوں وہی مٹی،جسے کبھی برادرانہ محبت کااستعارہ سمجھاجاتاتھا،اب دہشت اورعداوت کے لشکر وہاں سے روانہ ہورہے ہیں؟اوراس سارے منظرنامے کے پیچھے،وہی ازلی سیاسی مدِمقابل،بھارت،جس نے گزشتہ دہائیوں میں طالبان کے خلاف ہرمخالف دھڑے کوسہارادیا،اب انہی طالبان کے ساتھ مصافحے اورمفاہمت کادعویدار بن بیٹھاہے۔

یہ وہی بھارت ہے جوچندماہ قبل مئی کی جنگ میں پاکستان کے ہاتھوں رسوائی کامزہ چکھ چکاہے اب وہی بھارت،انتقام کی نفسیات کے زیرِاثر،کابل کے راستے اسلام آبادکوزک پہنچانے کے خواب دیکھ رہاہے۔یوں محسوس ہوتاہے کہ جہاں پاکستان اپنے جذبۂ اخوت کے سائے میں بیٹھاسوچ رہاہے تاریخ ایک بارپھر دوستی اوردشمنی کے چوراہے پرکھڑی ہے کہ آخرمحبت کی وہ فصل جوہم نے برسوں اپنے لہوسے سینچی،آج اس کے کانٹے ہمیں ہی کیوں چبھنے لگے ہیں؟

پاکستان کی روایتی قربت،چین کابڑھتااثر،اورروس کی نرم مداخلت کے پس منظرمیں یہ دورہ ایک خاموش مگرزلزلہ خیزسیاسی اشارہ ہے۔یہ اس امرکااعلان ہے کہ خطے کی سیاست اب صرف بندوق کے دہانے سے نہیں،قلم اورمکالمے کے وقارسے بھی نہیں بلکہ سازشی اورانتقامی مزاج سے طے ہوگی۔گوبھارت نے ابھی تک طالبان کوباضابطہ تسلیم نہیں کیا،مگرتسلیم کی بنیادہمیشہ دل کے نرم گوشے اورقلم کی شیریں مفاہمت کے الفاظ سے پھوٹتی ہے مگریہاں پاکستان کے ازلی دشمن انڈیاکے ساتھ سازشوں کے جھرمٹ اور احسان فراموشی سے اٹھتی دکھائی دے رہی ہے۔

یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے جنوبی ایشیاکی نئی سیاست کی ابتداہورہی ہے جہاں دشمنی کی راکھ سے مکالمے کاپہلاشعلہ ابھررہاہے۔یہ لمحہ دراصل تاریخ کے اس موڑکی مانندہے،جہاں ماضی کے دشمن مستقبل کے معماربننے کی تیاری کررہے ہیں،اورسفارت،جسے کبھی کمزوری سمجھاجاتاتھا،اب حکمت کاسب سے مضبوط ہتھیاربننے کی بجائے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے تیاریاں ہورہی ہیں۔

جنوبی ایشیاکی سیاسی تاریخ ہمیشہ تغیرکے طوفانوں سے عبارت رہی ہے۔یہاں اقتدارکامحوربدلتارہامگرطاقت کاجغرافیہ کبھی خالی نہیں رہا۔اس خطے میں افغانستان ہمیشہ ایک دروازے اور دیواردونوں کاکرداراداکرتاآیاہے۔ایک ایسادروازہ جوتہذیبوں کوجوڑتاہے،اور ایک ایسی دیوارجومفادات کی سرحدیں متعین کرتی ہے۔آج جب طالبان کے وزیرِخارجہ امیرخان متقی کے مجوزہ بھارتی دورے کی خبرمنظرِعام پرآتی ہے،تویہ صرف ایک سفری اطلاع نہیں،بلکہ تاریخ کے دھارے میں بدلتی ہوئی سمت کااعلان ہے کہ افغان بھائیوں پراعتماداورفخرکرنے والے ہم جیسے قلمکاربھی برسوں کی محنت اورمحبت کوبغض وعناد کے حوالے کادکھ دیکھنے کیلئے زندہ ہیں۔

تاریخ کے صفحات پرایسے لمحات کبھی کبھاررقم ہوتے ہیں جب سیاست محض اقتدارکی تدبیرنہیں رہتی،بلکہ تہذیبوں کے تصادم اور مفاہمت کے بیچ ایک فکری مکالمے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔امیرخان متقی کامجوزہ بھارتی دورہ اگراسی نوع کی ایک پیش رفت ہوتا،جوبظاہرسفارتی،مگر درحقیقت علاقائی سیاست کے توازن میں ایک نئے موڑ کی نشاندہی کرتا تو یہ بھائیوں کے درمیان ایک شاندارموقع ہوتالیکن افسوس یہ ہے کہ بالآخرافغان بھائی بھی شاطر ہندوبرہمن کی چالوں کاشکاربنتے جارہے ہیں۔

یہ دورہ دراصل علاقائی قوتوں کے باہمی رسہ‌کشی کے بیچ ایک نیاتوازن پیداکرنے کی کوشش ہے۔پاکستان اورچین،دونوں افغانستان میں اثررکھنے والے ممالک ہیں۔چین نے بیلٹ اینڈ روڈمنصوبے کے تحت چینی سرمائے کی جڑیں گہری کی ہیں،جبکہ پاکستان تاریخی وجغرافیائی رشتے کی بناپرطالبان پراثرانداز رہا ہے۔بظاہران حالات میں متقی کابھارت جانایہ پیغام دیتاہے کہ طالبان کثیرالسمتی سفارت کی راہ پرگامزن ہیں یعنی وہ ایک ملک کے زیرِاثرنہیں رہناچاہتے لیکن صد افسوس کہ حالات کسی اورسمت کی چغلی کھارہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کے طویل پس منظرمیں یہ دورہ اس وقت ممکن ہواجب طالبان رہنماؤں کومحدوداستثنادیاگیا۔امیرخان متقی کا انڈیاجانانہ صرف طالبان حکومت کیلئےپہلاباضابطہ سفارتی تجربہ ہے،بلکہ افغانستان کیلئےعالمی سطح پردوبارہ سیاسی تناظرمیں واپسی کی علامت بھی ہے۔یہ سفراس لحاظ سے بھی غیرمعمولی ہے کہ انڈیاتاحال طالبان حکومت کوتسلیم نہیں کرتا،مگراس کی خارجہ پالیسی میں اب روابط کے نئے دریچے کھلنے لگے ہیں۔

یہ دورہ اس وقت ممکن ہواجب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے طالبان رہنماؤں پرعائدسفری پابندیوں میں جزوی نرمی کی۔یوں متقی کایہ سفرمحض ایک رسمی دورہ نہیں بلکہ افغان حکومت کے عالمی ادغام کی سمت پہلاقدم ہے۔یہ دورہ ایک ایسے وقت پرہورہاہے جب چین کااثرورسوخ افغانستان میں تیزی سے بڑھ رہاہے،روس طالبان سے براہِ راست روابط قائم کرچکاہے،امریکابگرام ایئربیس کی واپسی کے بعدخطے میں اپناکردارمحدودکرچکاہے۔یوں متقی کاانڈیاجانا دراصل جنوبی ایشیامیں طاقت کے محورکی ازسرِنوترتیب کا مظہرہوتوخطے کیلئے انتہائی مفید ثابت ہوسکتاہے۔

طالبان رہنماؤں پراقوامِ متحدہ کی پابندیوں کاخاتمہ نہیں،مگرجزوی استثناایک علامتی”اعتراف”ہے کہ دنیاطالبان سے مکمل انقطاع نہیں چاہتی۔طالبان کو انڈیاکادورہ کافائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی برادری کویہ پیغام دیناچاہئے کہ طالبان اب”محض ایک داخلی قوت”نہیں بلکہ علاقائی استحکام کے ضامن کے طورپر خودکومنواناچاہتے ہیں۔انڈیا،جوکبھی طالبان کاشدیدناقداورمخالف گروہوں کاحامی رہا،اب اسی طالبان حکومت سے مکالمے کی راہ تلاش کررہاہے۔یہ منظر نامہ دراصل تبدیل ہوتے ہوئے جغرافیائی مفادات کی نئی کہانی سناتاہے۔

طالبان وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے متقی کے دورے کی تصدیق کی ہے مگرتفصیلات بیان کرنے سے احترازکیا ہے۔یہ احتیاط خوداس امرکااشاریہ ہے کہ طالبان اپنی نئی سفارت کاری میں جہاں مصلحت اوروقارکویکجاکرناچاہتے ہیں وہاں پاکستان کو بھی ایک پیغام دینامقصودہے،نہ خاموشی میں کمزوری ہے،نہ اعلان میں جلدبازی۔یہ”خاموش سفارت”دراصل ان کے نئے سیاسی بلوغت کی علامت ہے بلکہ وہ قوت ہے جوسیاست کے وقاراوررمزیت کوسمجھ چکی ہے۔متقی کاانڈیاجانامحض ایک خبرنہیں بلکہ خطے کے سفارتی نقشے پرابھرتی ہوئی نئی لکیروں کی علامت ہے۔انڈیانے ابھی تک طالبان حکومت کوباضابطہ طورپرتسلیم نہیں کیا، مگراس کے باوجوددونوں جانب سے رابطوں میں جوحرارت محسوس کی جارہی ہے،وہ اس امرکاثبوت ہے کہ سفارت کاری کادریا کبھی مکمل خشک نہیں ہوتا۔

سلامتی کونسل سے استثنادراصل طالبان حکومت کیلئےعالمی دروازوں کی نیم واپالیسی ہے۔اگست2021میں اقتدارپرقبضے کے بعدیہ پہلاموقع ہے کہ ایک طالبان وزیربھارت کاباضابطہ دورہ کرنے والاہے اوریہ محض سفارت نہیں بلکہ بحالیِ اعتبارکی ایک ابتدائی لہر ہے۔یہ عالمی سطح پرطالبان حکومت کی بتدریج قبولیت کی طرف اشارہ ہے۔گوتسلیمِ حکومت ابھی دورکی بات ہے،مگریہ سفرقبولیتِ مکالمہ کی ایک ابتدائی منزل ہے۔

انڈیا کی افغان پالیسی ہمیشہ دوانتہاؤں کے درمیان معلق رہی ہے۔ایک طرف طالبان سے تاریخی بدگمانی،دوسری جانب افغانستان میں اپنے سرمایہ کاری واثرکے تحفظ کی مجبوری۔انڈیا نے بظاہر طالبان سے فاصلہ رکھامگرپس پردہ اعتماد سازی کی کوششیں بھی جاری رکھیں یعنی تسلیم کیے بغیرتعلقات،شراکت کے بغیرموجودگی،اورفاصلہ رکھتے ہوئے قربت کے راستے پر گامزن رہتے ہوئے چانکیہ سیاست پرعملدرآمدجاری رہے۔

مئی2025میں کشمیرکے علاقے پہلگام میں فالس فلیگ حملے کے بعدانڈین وزیرِخارجہ ایس جے شنکرنے متقی سے براہِ راست رابطہ کیا۔پہلگام حملہ محض ایک سکیورٹی واقعہ نہیں تھا، بلکہ اس نے خطے میں اعتمادکی شکستگی کامنظردوبارہ ابھرا۔تاہم انڈیاکاطالبان وزیرِخارجہ سے فون پررابطہ اس امرکاغمازہے کہ دشمنی کے باوجودمکالمہ زندہ ہے۔یہ رابطہ دشمنی کے ایوان میں دوستی کی ہلکی سی سرگوشی تھی۔ماہرین کے مطابق یہ لمحہ دونوں ممالک کیلئےایک سفارتی وقفۂ تنفس ثابت ہوا،جس نے ایک منجمدتعلق میں حرارتِ مکالمہ پیداکی۔

اس دورے کی اہمیت اس وقت دوچندہوجاتی ہے جب ہم اسے چین اورروس کے بڑھتے ہوئے طالبان تعلقات کے پس منظرمیں دیکھیں۔ چین کاافغانستان میں سرمایہ کاری کے ذریعے اثربڑھ رہاہے،روس بھی سفارتی سطح پرمتحرک ہے،اورپاکستان کاتاریخی کرداراب بھی زیرِبحث ہے۔

انڈیاکیلئےیہ موقع ایک سیاسی توازنِ نوقائم کرنے کاہے۔گویادہلی اب کابل کے ساتھ ایک نیامکالمہ ترتیب دیناچاہتی ہے تاکہ بظاہرچین اورپاکستان کے بڑھتے ہوئے اثرکوسفارتی تدبیرکے پردے سے زائل کیاجاسکے۔تاریخی طورپرانڈیانے ہمیشہ ان افغان قوتوں کی پشت پناہی کی جوطالبان کے مخالف رہے خواہ وہ شمالی اتحادہویاکابل کی سابقہ حکومتیں۔طالبان کوہمیشہ پاکستان کاآلۂ کارسمجھاگیالیکن طالبان کے اقتدارمیں آنے کے بعدانڈیانے یہ جاناکہ اب انہیں نظراندازکرناخودکوماضی میں قیدرکھناہوگا۔تاہم اب دہلی کارویّہ بدل رہا ہے؛وہ جان چکاہے کہ طالبان کونظراندازکرناگویا افغان حقیقت سے انکارہے اور طالبان سے تعلقات کوبہتربنانااس کیلئے اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس وقت بھارتی فتنہ خوارج ٹی ٹی پی اوربی ایل اے کی پشت پناہی کرنے میں مزیدفری ہینڈبھی مل جائے گاجواس وقت افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشتگردی میں مصروف ہیں۔

2010 سے ہی واضح تھاکہ طالبان افغانستان کے سیاسی منظرنامے پردوبارہ ابھریں گے۔دنیاکے کئی ممالک نے اس حقیقت کومحسوس کرلیاتھامگرانڈیانے دیر کی۔تاہم2022میں دہلی نے ایک محدودسفارتی نمائندگی کے ساتھ کابل میں اپنادفترکھول کرنئے باب کاآغازکیا۔ 2025ءمیں دبئی میں وکرم مصری اور امیر خان متقی کی ملاقات،اوربعدازاں فون پررابطہ،اسی تدریجی اعتماد کی تعمیرکاتسلسل ہے۔

بگرام ائیربیس سے امریکی انخلاکے اعلان کے بعدچین،روس اورایران پُرکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی قدم،اورروس کے نئے روابط ،افغانستان میں ان طاقتوں کی موجودگی بھارت کیلئےتزویراتی دباؤکاباعث ہے۔یہ سب مل کر افغانستان کوایک عالمی سفارتی میدان بناچکے ہیں ۔ ایسے میں انڈیاکامحتاط مگر واضح قدم ایک نیاباب کھولتاہے، جو چین وپاکستان کے اثرکومحدودکرنے کی شعوری کاوش دکھاتاہے۔

متقی کادورہ اس دباؤکاجواب ہے،ایک سیاسی پیش بندی کہ دہلی اب صرف دیکھنے والانہیں،بلکہ کردار اداکرنے والافریق بنناچاہتاہے۔ یہ دورہ محض تعلقات کی بحالی نہیں بلکہ ایک سفارتی اعتراف ہے کہ طالبان کی حکومت اب خطے کی سیاست میں ایک ناقابلِ نظر اندازحقیقت بن چکی ہے۔اگرچہ طالبان پراقوامِ متحدہ کی پابندیاں اب بھی موجودہیں،مگران کاانڈیاکے ساتھ مکالمہ دراصل عالمی سفارت کاری کی نئی حقیقت کوتسلیم کرنے کے مترادف ہے۔

انڈیاطالبان سے رابطے میں ہمیشہ دوقدم آگے،ایک قدم پیچھے کی پالیسی اپناتارہاہے۔یہ محتاط رویہ اس کے تاریخی تجربے سے پھوٹا ہے کہ افغانستان کی زمین ہمیشہ دوستی کے ساتھ خطرہ بھی رکھتی ہے۔مگرمتقی کادورہ ظاہرکرتاہے کہ دہلی اب پاکستان سے بدلہ لینے کی آگ میں اس خطرے کوقبول کرچکاہے۔ ادھر متقی کادورہ یہ اشارہ دیتاہے کہ دہلی اب عملی سطح پرتعامل چاہتاہے،نہ کہ نظریاتی مخالفت۔یہ بتدریج مگرمستقل صف بندی کاثبوت ہے،ایک خاموش مگر دیرپاتبدیلی۔

مگربعض ماہرین کے نزدیک انڈیااورطالبان کی قربت افغانستان کے شہریوں میں یہ تاثربھی پیداکرسکتی ہے کہ ان کاملک اب بھی بڑی طاقتوں کے کھیل کا میدان بناہواہے۔یہ تاثرمحض سیاسی نہیں بلکہ عوامی ذہن سازی کے زاویے سے بھی اہم ہےکیونکہ کسی ملک کی شبیہہ اکثرحقائق سے زیادہ تاثرات سے بنتی ہے۔

ماہرین کاکہناہے کہ2010سے ہی طالبان کے دوبارہ اُبھرنے کے آثارنمایاں تھے۔دنیانے اس حقیقت کوقبول کیامگرانڈیاتاخیرکاشکاررہا۔ طالبان کے کابل پرقابض ہونے کے بعدانڈیانے اپنے سفارت کارواپس بلالیے،لیکن جلدہی پس پردہ رابطوں کی راہیں کھول لیں۔یہ امر بھی قابلِ ذکرہے کہ طالبان کے نائب وزیرِداخلہ ابراہیم صدرکے خفیہ بھارتی دورے نے دونوں ممالک کے درمیان ایک خاموش مگر مؤثرمواصلاتی دروازہ کھول دیاہے۔”را”کے سربراہ سے ان کی ملاقات نے انڈیاکے نئے سفارتی رویّے کی جھلک دکھائی،ایک ایسا رویہ جومخالفت سے زیادہ مصلحت پرمبنی ہے۔

انڈیااورطالبان کے مابین پسِ پردہ مذاکرات اس امرکی دلیل ہیں کہ سفارت کاری ہمیشہ اعلانیہ نہیں ہوتی۔یوں محسوس ہوتاہے کہ خطے کی سفارت اب نئے معانی اختیارکرچکی ہے۔طالبان کاانڈیاکی جانب جھکاؤاورانڈیاکی جانب سے ان کیلئےنرم گوشہ پیداہونادراصل مئی کی پاک بھارت جنگ میں مودی کی بدترین ہزیمت کانتیجہ بھی ہے۔یہ عہدماضی کی تلخیوں سے زیادہ مصلحتوں کے ادراک اورطاقت کے نئے توازن پرمبنی ہے۔یہ کہنابے جانہ ہوگاکہ افغانستان ایک بارپھرتاریخ کے چوراہے پرکھڑاہے جہاں ہرسمت سے آنے والے قدم اس کی زمین کوسفارتی دوستیوں اورمفادات کے نقش سے آراستہ توکررہے ہیں لیکن ہرحال میں اپنے اپنے مفادات کواولیت دینامقصود ہے۔

انڈیاکی طالبان پالیسی دراصل چانکیہ پالیسی کاایک مکارانہ قدم ہے،نہ تسلیم،نہ انکار؛نہ انکارسے نقصان،نہ اقرارسے انجماد،نہ شراکت،نہ لاتعلقی۔ امدادکے ذریعے موجودگی اورمکالمے کے ذریعے اثراندازی،یہی دہلی کانیادھوکہ دہی کاسفارتی منترہے کہ انڈیاکی افغان پالیسی”تسلیم کیے بغیرتعاون”کے فلسفے پر استوار ہے۔یہ ایک ایساتوازن ہے جس میں عمل زیادہ،اوراعلان کم ہے۔2022ءمیں طالبان نے دہلی میں اپناایک نمائندہ بھیجااورمحدودپیمانے پرکابل میں سفارت خانہ دوبارہ کھولامگرانڈیانے اسے افغان سفارت خانے کا باضابطہ چارج نہیں دیا۔

2024ءمیں ممبئی قونصل خانے میں طالبان نمائندے کی موجودگی کی خبریں آئیں،مگردونوں ممالک نے خاموشی کوسفارتی زبان بنائے رکھا۔طالبان کے نمائندوں کادہلی میں قیام ایک غیراعلانیہ تسلیم شدگی کے مترادف ہے۔انڈیاخاموش ہے کیونکہ وہ جانتاہے کہ بعض فیصلے وقت کے ساتھ کہے جاتے ہیں، الفاظ سے نہیں اوروہ فی الحال مغرب اوربالخصوص امریکاکی خوشنودی کوقربان کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔یہ خاموشی دراصل مکاری کی زبان ہے۔

اگرچہ روس اورچین طالبان حکومت سے قریب ہیں،لیکن اقوامِ متحدہ کی پابندیاں طالبان کی عالمی سرگرمیوں کومحدودرکھے ہوئےہیں ۔طالبان عالمی نظام میں اب بھی”مشروط شمولیت”کے حامل ہیں۔ان پرپابندیاں ہیں مگردنیاجانتی ہے کہ ان سے کٹ کرکوئی علاقائی استحکام ممکن نہیں۔اس صورتِ حال میں انڈیاکادورہ طالبان کیلئےنئے امکانات کادروازہ ہے گویاعالمی تنہائی میں ایک دستیاب سنگِ میل۔اسی لیے متقی کابھارتی دورہ ایک نرم سفارتی دروازہ کھلابھی ہے ،مقفل بھی۔

انڈیاکے افغانستان میں کئی اقتصادی،دفاعی اورثقافتی مفادات ہیں۔طالبان مخالف دھڑے اب منتشراورعالمی سطح پرغیرمؤثرہوچکے ہیں ۔انڈیااب افغانستان کونہ صرف پاکستان پردباؤ بڑھانے کیلئےدیکھ رہاہے بلکہ اسے خطے میں اپنے طویل المدتی کردارکی توسیع کا میدان بھی سمجھتاہے۔افغانستان میں انڈیاکے کئی تعمیراتی،تعلیمی اوراقتصادی منصوبے ہیں۔اس کیلئے طالبان سے قربت ایک سیاسی ضرورت ہے،اگرچہ یہ ضرورت احتیاط میں لپٹی ہوئی ہے۔

متقی کادورہ بلا شبہ چین وپاکستان کے بڑھتے اثرات کے خلاف ایک سفارتی توازن سازی کی کوشش ہے۔دہلی سرکارجانتی ہے کہ اگر وہ طالبان سے روابط قائم نہیں کرے گی توکابل میں بیجنگ اوراسلام آبادکی موجودگی غالب آجائے گی اوراس کیلئے اپنی پراکسیزکی مددکرنابھی ناممکن ہوجائے گا۔انڈیاطالبان سے تعلقات قائم کرکے یہ پیغام دیناچاہتاہے کہ کابل صرف ایک سمت کادروازہ نہیں۔یہ ایک علامتی اعلان ہے کہ دہلی اب خاموش تماشائی نہیں،فعال شریک ہے۔یوں متقی کاخیرمقدمی رویّہ،دراصل سیاسی شطرنج کی ایک محتاط چال ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق انڈیااورطالبان کی قربت افغان عوام میں یہ تاثرپیداکرسکتی ہے کہ افغانستان اب بھی دودشمن ہمسایوں کے بیچ کامیدان ہے اور افغان عوام کے خدشات بالکل درست ہیں کہ انڈیاافغان سرزمین کوپاکستان کے خلاف اپنے مقاصدکیلئےاستعمال کرنا چاہتاہے اوراس تاثرسے طالبان کی داخلی ساکھ متاثرہوسکتی ہے۔بین الاقوامی سیاست کی دنیامیں تصویر سے زیادہ تاثراہم ہوتاہے،اور یہی دہلی کی نئی آزمائش ہے۔یوں دونوں ممالک کونہ صرف سیاسی بلکہ نفسیاتی سطح پرتوازن قائم رکھناہمیشہ مشکل رہے گا۔

طالبان کے نائب وزیرِداخلہ ابراہیم صدرکاخفیہ بھارتی دورہ ان تعلقات کی غیرعلانیہ بنیادتھاجس میں وہ”را”کے سربراہ سمیت اہم حکام سے ملے جودراصل اعتمادکی پوشیدہ سازشوں کاحصہ ہے۔یہ دورہ اس وقت ہواجب پاکستان اورانڈیاکے تعلقات میں تناؤبڑھ چکاتھااور دونوں ممالک میں کشیدگی عروج پرتھی، اس لیے اس کے اشارے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ان تمام اقدامات پرپاکستان کی نہ صرف گہری نظرہے بلکہ پاکستان کیلئے باعثِ تشویش بھی ہے۔ان حالات میں متقی کادورہ مزیدشبہات کوتقویت کاباعث بن سکتاہے۔

ابراہیم صدر کوطالبان قیادت میں ملاہبت اللہ کے قریب ترین رفیق سمجھاجاتاہے اورطالبان قیادت میں نہ صرف فوجی تجربے بلکہ سیاسی شعورکی بناپراہم مقام حاصل ہے۔ان کابھارتی حکام سے ملنادراصل طالبان کے اندرونی فیصلہ سازحلقے کی نئی سمت کی نشاندہی کرتاہے یعنی اب طالبان اپنی سفارت کومحدود مذہبی زاویے سے نکال کرعلاقائی مصلحت کے سانچے میں ڈھال رہے ہیں اور ان کے سامنے اپنے خاص محسن پاکستان کی قربانیوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں، جن کوفراموش کرکے وہ ہندوبرہمن کے ساتھ گلے ملنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ان کی پالیسی سازی میں شرکت طالبان حکومت کے اسٹریٹیجک فیصلوں میں انڈیاکیلئےایک کھڑکی کھولتی ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ نے اس پیش رفت کوغیرمعمولی اہمیت دی ہے۔سنڈے گارڈیئن نے اسے طالبان سے مکالمے کے خفیہ مگرحقیقت پسندانہ اورعملی تعلقات کے آغازسے تعبیرکیا۔یہ اس بات کااظہارہے کہ انڈیااب افغانستان کے ساتھ جذبات نہیں،مفادات کےآئینے میں تعلقات کی ازسرِنوتعبیر کررہاہے۔یہ دراصل دہلی کیلئےسفارتی فتح کے نئے باب کی علامت ہے،جس کوپاکستان سے بدلہ لینے کیلئے اہم موقع سمجھ رہاہے۔

یہ دورہ خواہ وقتی سفارتی تدبیرہویامستقبل کے اشتراک کی بنیاد،مگراس نے ایک بات واضح کردی ہے کہ سیاست کے دروازے کبھی مکمل بندنہیں ہوتے۔ امیرخان متقی کادورہ محض ایک سفارتی واقعہ نہیں،بلکہ جنوبی ایشیاکے سیاسی موسم کی تبدیلی کااشارہ ہے۔جہاں کبھی نظریات کی خندقیں تھیں،اب مصلحت کے پل تعمیرہورہے ہیں۔طالبان اورانڈیاکے درمیان بڑھتی ہوئی گفت وشنیداس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اب خطے کی سیاست آدرشوں سے زیادہ عملی ضرورتوں اورمفادات کے تابع ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب طاقت کے توازن بدلتے ہیں تو الفاظ بھی سمت بدل لیتے ہیں۔

یہی وہ لمحہ ہے جب کابل کی وادیوں سے نکلنے والی سفارت کی ہوادہلی کے ایوانوں تک پہنچی ہے،اورشایداسی ہوامیں خطے کی آئندہ سیاست میں چانکیہ کی مکاریاں بھی پنہاں ہے۔جہاں مفاداورمصلحت کی راہیں ملتی ہیں،وہاں قومیں ایک ایسے نئے باب کی تحریر شروع کردیتی ہیں جہاں انسانیت کی تباہی کے باب نیاخون کشیدکرنے کیلئے بے تاب نظرآتے ہیں اورشاید یہی باب،برِصغیرکے دیرینہ تعلقات میں تباہی کی ایک اورنئی سیاہ رات کاآغازہوسکتاہے۔یہ کہنا بجاہوگاکہ متقی کایہ مجوزہ دورہ اس خطے کی تاریخ میں ایک ایسا باب کھولنے والاہے،جس میں الفاظ کم ہوں گے،مگرمعنی گہرے،اورخدانخواستہ دنیاکی دائمی تاریکی کاسبب بھی۔

وقت گواہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان بھائیوں کوبرادرِدینی وہمسایہ کی حیثیت سے دیکھا۔ہم نے کبھی اقتدارنہیں چاہا،صرف امن اور احترام کے خواہاں رہے۔مگرآج جب کابل کے دروازے دہلی کی جانب کھلتے دکھائی دیتے ہیں،تواسلام آبادکے دروازوں پرحیرت اور دکھ کے سائے چھاجاتے ہیں۔یہ درست ہے کہ سفارت کاری کے میدان میں مفاداکثراحساسات پرغالب آجاتاہے،لیکن قوموں کے تعلقات صرف مفادات سے نہیں،بلکہ اخلاص کی تاریخ سے بنتے ہیں۔

پاکستان کی سرزمین پرآج بھی لاکھوں افغانوں کی یادیں زندہ ہیں،وہ خیمے،وہ مہمان نوازیاں،وہ بھائی چارے کی شامیں جنہوں نے کبھی دونوں قوموں کے درمیان فاصلوں کومٹادیاتھامگراب جب افغان مٹی سے پاکستان مخالف تحریکوں کوطاقت ملتی ہے،اوربھارت اس پورے کھیل کاخاموش ہدایت کاربن کر ابھرتاہے،توپاکستانی عوام کے دل میں یہ سوال ضروراٹھتاہے کیایہ وہی افغانستان ہے جس کیلئےہم نے اپنی نسلیں قربان کیں؟بھارت کی جانب سے طالبان کودی جانے والی مسکراہٹ دراصل انتقام کانقاب ہے،اورافغان قیادت کو یہ سمجھناہوگاکہ جو ہاتھ دہلی آج بڑھارہاہے،وہ کل اسی کواپنی سیاسی مصلحتوں کی قربان گاہ پرچھوڑدے گا۔تاریخ کاسبق یہ ہے کہ دوستی کے خنجرہمیشہ دشمن کے غلاف سے نکلتے ہیں۔

پاکستان آج بھی مکالمے اورامن کاخواہاں ہے،لیکن وہ یہ بھی جانتاہے کہ اگرمحبت کی زمین پرنفرت کے بیج بوئے جائیں،توموسم خواہ کتناہی بدل جائے، پھول کبھی نہیں کھلتے۔اب فیصلہ کابل کے ہاتھ میں ہے کہ وہ محبت کے قرض کووفامیں بدلتاہے یامفادکے سودمیں گم کردیتاہے۔تاریخ خاموش نہیں رہے گی،وہ گواہی دے گی کہ کس نے بھائی چارے کے چراغ روشن کیے اورکس نے دشمنی کے ایندھن سے انہیں بجھادیا۔

وقت کے افق پرابھرنے والاہرنیادن اپنے ساتھ ایک نیاسوال لے کرآتاہے کیاطالبان کادہلی کی سمت سفر،تاریخ کے زخموں پرمرہم بنے گایامحض ایک وقتی تدبیر؟یہ سوال ابھی اپنی پوری صداکے ساتھ گونجنے کوہے۔انڈیااورافغانستان کے درمیان یہ نیاباب محض دو ممالک کی قربت نہیں،بلکہ خطے کی ذہنی نقشہ گری کی ازسرِنوتشکیل ہے۔یہ تعلق اس سچائی کو ظاہر کرتا ہے کہ دنیاکی سیاست میں دشمنی ابدی نہیں ہوتی،مفادہمیشہ متحرک رہتا ہے۔

طالبان،جوکبھی دنیاسے کٹے ہوئے ایک نظریاتی گروہ کے طورپرجانے جاتے تھے،اب عملیت پسندی کے دریچوں سے جھانکنے لگے ہیں۔اوربھارت، جو ہمیشہ طالبان کامخالف رہااور فاصلے پرکھڑاطالبان مجاہدین کے خون کے پیاسوں کامعاون بنارہا،اب تاریخ کی دہلیز پرآکرسفارت کی زبان میں طالبان کے مستقبل کی بات کررہاہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں بے رحم تاریخ ظالم سیاست سے ہاتھ ملارہی ہے، اورجغرافیہ مردودمفاہمت کی لکیروں سے خودکودوبارہ رقم کررہاہے۔متقی کایہ دورہ شایدکسی معاہدے کی بنیادنہ بن سکے،مگریہ اس سوچ کی بنیاد ضرور رکھے گاکہ جس محسن ملک پاکستان کی مددسے ہم آج اس مقام کوپہنچے ہیں،ان سے بات چیت کے دروازے بند کرکے اس کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ تعلقات استوارکرکے اپنی نسلوں کیلئے آخرہم تاریخ میں کن الفاظ میں اپناتذکرہ چھوڑکرجا رہے ہیں۔

تاریخ ایک بارپھرقلم سنبھال رہی ہے،اب دیکھنایہ ہے کہ دہلی اورکابل کاملاپ اس نئے باب میں دشمنی کانوحہ لکھتاہے یامفاہمت کا عہدنامہ۔میری اب بھی یہ دلی دعاہے کہ ان دوبرادرملکوں کے وہ مخلص اکابرین جومایوسی کی چادرمیں منہ چھپائے اشک بہارہے ہیں، ایک مرتبہ پھرفریقین کے دلوں کوجوڑنے کی کوئی ایسی سبیل نکالیں جس کیلئے غزوہ ہندکی بشارتیں منتظرہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں