The Knock Of A Bloody Revolution

خونی انقلاب کی دستک

:Share

کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جومسلسل ہوتے رہتے ہیں لیکن کسی کواس کااحساس نہیں ہوپاتایااحساس توہوتاہے لیکن اس کی تہہ تک پہنچناعام آدمی کے بس میں نہیں ہوتا۔وہ یہی سمجھتارہتاہے کہ جوکچھ ہورہاہے وہی سچ ہے۔اگرکسی شخص نے وجہ جاننے کی کوشش کی تواسے بڑی مشکلوں اورآزمائشوں سے گزرناپڑتاہے اوراس کے بعدیہ ثابت کرناکہ جوکچھ پیش کیاجارہاہے،وہ کس حدتک غلط ہے،آسان کام نہیں ہوتا اورپھرجہاں خبریں سیکنڈوں میں دنیاکےایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچانے کیلئے بڑے بڑے آلات ہوں توایسی حالت میں کوئی سچائی کیوں سنے اورکیسے اس پریقین کرے؟

کچھ ایسی ہی صورتحال اس وقت اقوامِ عالم میں مسلمانوں کے ساتھ ہے۔نائن الیون سے قبل دہشتگردی کی اصطلاح نہ مقبول تھی اور نہ ہی خاص وعام کواس کے لب لباب سے واقفیت تھی۔نائن الیون کیسے ہوا؟یہ ایک ایسارازہے جس کی تہہ تک پہنچنے کیلئے کم از کم ایک صدی درکارہے۔اگرنبیوں کے ظہورکازمانہ ہوتاتوشائدمسلمانوں کواللہ تعالیٰ کی جانب سے پھرکسی گائے کے گوشت کاٹکڑا کاٹ کراس پرمارنے کاحکم دیاجاتااوریوں نائن الیون کارازکھل جاتا۔عراق اور افغانستان حملوں کی زدسے بچ جاتے اوردہشتگردی کی اصطلاح بھی زورنہ پکڑتی لیکن اب کیاہوسکتاہے،یہ رازکھلے گایانہیں،یہ تواس وقت کی نسل ہی بتائے گی البتہ بھارت میں صدیوں سے نجوم کاکام کرنے والے اوردوسروں کاحال بتانے والے جوتشی مسلسل پاکستان کے مسقبل سے خوفزدہ ہیں۔

بہرحال نائن الیون ایک بارہوا،صرف دوٹاورگرے،جولوگ اس حملے میں مارے گئے یقیناوہ بے گناہ تھے اوراسلام میں بے گناہوں کو نشانہ بنانے کی قطعاً اجازت نہیں۔اس حادثے کے بعدسے امریکاتوپرسکون ہے البتہ مسلم دنیاخاک وخون میں لوٹ پوٹ ہورہی ہے اور ایساکرنے کیلئے دہشتگردی کی اصطلاح کاسہارالیاگیا۔ دہشتگردی تواتنی نہیں پھیلی البتہ دہشتگردی کی اصطلاح خوب پھلی پھولی اور خوب پروان چڑھی۔اب تودہشتگردی کی اصطلاح کوسمجھنااتناآسان ہے کہ ایک چھوٹا سابچہ بھی اس کی تاریخ بتاسکتاہےیعنی دہشت گردی کامطلب”نائن الیون”اوردہشتگردکامطلب”مسلمان”۔اب ایساکہناغلط ہے یاصحیح، دنیاکوسمجھاتے رہئے۔ مودی جوخودگجرات میں بے گناہ مسلمانوں کی ہولی کھیل چکااوراب مسلسل کشمیرمیں دہشتگردی کررہاہے،وہ بھی اپنے ناپاک منہ سے پاکستان کودہشتگرد کہتاہے جب کوئی ثبوت مانگے جائیں تواپنے جھوٹ کوسچ بنانے کیلئے بیان آجاتاہے کہ لیکن کون سنتا ہے۔

بھارت میں مسلمان اقلیت میں ہیں،یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے،بہت سے حقوق انہیں اس لئے دئے جاتے ہیں کہ وہ اقلیت میں ہیں اوربہت سے حقوق اس لئے چھین لئے جاتے ہیں کہ ان کی حیثیت اقلیت کی سی ہے،یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ بھارت میں بہت کچھ ہوتا ہے،انہیں لوٹاجاتاہے، ماراجاتا ہے،عزتیں پامال کی جاتی ہیں،جیلوں میں ڈالاجاتاہے اوران پرکوئی آنسوبہانے والانہیں ہوتا۔وجہ صاف ہے کہ یہودوہنوداپنے جرائم چھپانے کیلئے دنیاکی توجہ ہٹانے کیلئے مسلمانوں پرساراملبہ گراکرخوداس کی اوٹ میں اپناغلیظ اور گھناؤناچہرہ چھپانے کی کوششیں کررہے ہیں۔اس پروپیگنڈے کاکتنااثرہوتاہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کاایک جج یہ کہہ رہاہےکہ بھارت میں طالبانائزیشن کی اجازت نہیں دے سکتا۔یہ بھی بڑی حیرت کی بات ہے کہ ان سے یہ سوال پوچھاہی نہیں گیا
تھاکہ بھارت کے مسلمان طالبان بنناچاہتے ہیں انہیں اس کی اجازت دی جائے بلکہ مقدمہ کچھ اورتھااوراس پرفیصلے کے ساتھ ساتھ کچھ اورکہہ دیاگیا۔اب ذرائع ابلاغ کوکیاچاہئے تھا،بات بہت ہی اہم تھی،یہی ان کاموضوع تھااورچونکہ بات جمہوریت کے اہم ستون سے نکلی تھی اوربہت ہی اہم شخصیت نے اس پر اپنی زبان کھولی تھی توظاہرہےاس پرکچھ کہنااورساتھ ہی نمک مرچ لگانے میں کیاحرج تھا!تومعا ملے پرخوب شورمچا،اصل مقدمے پرعدالت میں بحث ہوئی اورنہ ہی ذرائع ابلاغ میں۔

ان دنوں سوشل میڈیا کے منہ زور گھوڑے کی لگامیں تھامنا کوئی آسان کام نہیں رہالیکن ایسابھی نہیں کہ ہم اس بے قابو فتنے کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور خود کو اسی بہاؤکے حوالے کر دیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ جان سکیں کہ ترقی کے نام پر جو غلامی کا پھندا ہے،اس کی حقیقت کیا ہے اور اس سے بچنے کیلئے ہمیں کیا کچھ کرنا ہو گا۔ہمیں سب سے پہلے اس بات پرغور کرنا ہو گا کہ ہم جیسے پسماندہ ملکوں میں بڑے بڑے موٹر وے،شاندار ایئرپورٹ،شہری زندگی کے چمک دمک والے منصوبے،عالمی فاسٹ فوڈ کی دکانیں،ہر طرح کے فیشن برانڈ، شاپنگ مال،عالمی معیارکے تھیٹر، سینما گھر اور ثقافتی مرکز کیوں کھولے جاتے ہیں؟غربت کی ماری ان اقوام کاایساجزیرہ نماروشن چہرہ کس مقصد کیلئےتخلیق کیاجاتاہے؟یہ تمام پسماندہ ممالک سرمایہ کاری کیلئے دنیابھرمیں بدنام سمجھے جاتے ہیں ،لیکن کوئی سوال نہیں کرتاکہ فاسٹ فوڈکے ریستورانوں،فیشن کی دکانوں اور دیگرمصنوعات پرآپ کی سرمایہ کاری خطرے میں کیوں نہیں پڑتی؟

جس ملک(پاکستان)میں چھ کروڑلوگ بس کانمبرتک نہ پڑھ سکتے ہوں وہاں شاندارایئرکنڈیشنڈبس چلادی جائے؟جہاں روزانہ لاکھوں لوگ صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے جان لیوابیماریوں کاشکارہوجائیں وہاں ان کے کچے مکانوں اورتعفن زدہ محلوں کے درمیان سے چمکتی ہوئی موٹروے گزرے؟ایک چمکدار سڑک جس کے دونوں جانب کروڑوں مفلوک الحال رہتے ہوں،جن کی بستیاں ایک ہزارسال پرانے دورکی یادگارمعلوم ہوں اورموٹروے پرسفرکرنے والے بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھے وہاں پرموجودلوگ زندگی کو ایسے دیکھیں جیسے افریقہ کے سفاری پارک میں گاڑیاں گزارتے ہوئے قدرتی ماحول میں اچھلتے کودتے جانوروں کو دیکھتے ہیں۔

پاکستان جیسے غریب وافلاس کاشکارلیکن زمینی وسائل سے مالامال ملک ایک عالمی تماشہ گاہ ہےجہاں کے رہنے والے کروڑوں لوگوں کی تعلیم،صحت،رہائش اور روزگارکیلئےکوئی قرضہ نہیں دیتا،جہاں معاشی اورصنعتی ترقی کیلئےکوئی امدادمہیانہیں کرتابلکہ صرف اورصرف بڑے بڑانفراسٹرکچربنانے کیلئےدنیابھرکے ممالک اورعالمی مالیاتی ادارے دولت کی بوریاں اوربڑی بڑی سفارشات لے کران ملکوں پرٹوٹ پڑتے ہیں۔یہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟

ان ممالک کے سیاسی رہنما،دانشوراورصحافی اگرصرف دوکتابوں کامطالعہ کرلیں توانہیں ہرایسے”شاندار”منصوبے سے نفرت ہونے لگے گی۔انہیں وہ مستقبل نظرآجائے جوہراس غریب ملک کامقدربنا،جنہوں نے ان منصوبوں کیلئےاپنی قوموں کوقرض کی دلدل میں اتارا،ان منصوبوں کی تعریف وتصریف سے شہرت کے محل کھڑے کیے لیکن ان عوام کوصحت،تعلیم،صاف پانی،سیوریج،امن وامان ،بنیادی رہائش اورروزگارفراہم نہ کرسکے۔ان حکمرانوں کے نام کی تختیاں ان ائرپورٹوں،موٹرویز،ثقافتی مراکزاوریاد گاروں پرلٹکتی رہیں اورعوام کی نسلیں غربت وافلاس کے باوجودان عیاشیوں کیلئےلیاگیاقرض اداکرتی رہیں۔

یہ دونوں کتابیں ایک ایسے معیشت دان نے لکھی ہیں جودنیابھرکے ممالک میں ایسے تباہ کن منصوبے لے کرجاتارہااوران منصوبوں کی وجہ سے یہ تمام ملک بدترین انجام تک پہنچے۔یہ شخص جان پرکنزہے۔اس کی پہلی کتاب”دی سیکرٹ ہسٹری آف امریکنز”2006 میں اور دوسری کتاب”کنفیشنزآف این اکانومک ہٹ مین” 2009میں شائع ہوئیں۔خوش قسمتی سے ان دونوں کتابوں کااردو ترجمہ”ایک معاشی غارت گرکی کہانی”اوردوسری کتاب”امریکی مکاریوں کی تاریخ” کے عنوان سے شائع ہوچکی ہیں۔ یہ دونوں کتابیں کسی ناول کی طرح دلچسپ،حیرت ناک اورسنسنی سے بھرپورہیں۔مصنف نے پانامہ، کولمبیا،وینزویلا،ایکویڈور، انڈونیشیا،مصر اورافریقہ کے ممالک میں اپنی سرگرمیوں کی داستانیں بیان کی ہیں۔اس کی کتابیں پڑھنے کے بعدآپ کواپنے رہنماؤں کی بے ضمیری،وطن فروشی اوربددیانتی پرروناآنے لگتا ہے ۔آپ سوچنے پرمجبورہوجاتے ہیں کہ کھیتوں میں کام کرنے والا،سڑک پربجری کوٹنے والا ،مشینوں پر زندگی ختم کرنے والا،نائی، موچی ،ترکھان،جولاہااورکمہاران شاندارانفراسٹرکچرپراجیکٹس اورترقی کی علامت موٹرویزاورشہری سہولیات کاقرض اتارتے،افلاس اوربیماری میں خون تھوکتے زندگی کی بازی ہارجاتاہے۔پرکنزاپنی کتابوں میں اس ساری سازش کے تین مدارج بتاتاہے۔

مصنف بتاتاہے کہ دنیا بھر کے وہ تمام امیر ممالک جن کی نظر غریب ممالک کے معدنی وسائل پر ہوتی ہے وہ میرے جیسے ”معاشی ضرب کار “اکنامک ہٹ مین “پالتے ہیں۔ان افراد کی تنخواہ اوراخراجات وہ بڑی بڑی کنسٹرکشن کمپنیاں اور تیل ومعدنی وسائل پرقبضہ کی خواہش مندکارپوریشن اٹھاتی ہیں۔ان معاشی ضرب کاروں کو جس بھی ملک میں بھیجاجاتاہے،یہ اس کے حوالے سے بڑی بڑی سڑکوں،ائیرپورٹوں اور دیگر خوشنما منصوبوں سے بھری رپورٹیں تیارکرتے ہیں ۔ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کس طرح اس غریب ملک کو زیادہ سے زیادہ قرضے کی دلدل میں ڈبویا جا سکتا ہے۔جہاں دو رویہ سڑکوں کی ضرورت ہوتی ہے وہاں مستقبل کی منصوبہ بندی کابہانہ بناکرچارروّیہ اورچھ رویہ سڑکوں پرزوردیاجاتاہے۔یہاں وہ اپنے ایک ہم پیشہ کی مثال دیتاہے جس نے انڈونیشیاکے بارے میں ایک حقیقت پسندانہ اسکیم بنائی تو اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔اس کے بعد پرکنز کو ذمے داری سونپی گئی اوراس نے25گنالاگت کے منصوبے بناکرپیش کیے،جنہیں عالمی بینک اورقرضہ دینے والے ممالک نے خوش دلی سے قبول کرلیا۔جب ایسے منصوبے تیار ہو جاتے ہیں تو پھر یہ”ہٹ مین”اس ملک کی سیاسی قیادت، بیورو کریسی اور دیگر کارپردازوں کو انتہائی خوشنماطریقے سے بریفنگ دیتاہے۔

اس دوران اس کی تلاش ایسے بددیانت،لالچی،بے وقوف یاشہرت کے بھوکے اہل اقتدارپرہوتی ہے جوان منصوبوں سے سستی شہرت بھی کمائیں اورمال بھی بٹوریں۔یہاں ان لوگوں کاایک جتھابن جاتاہے۔ہرکوئی میٹنگوں میں ان کی تعریف میں رطب اللسان ہوتا ہے۔انہیں ملک کی بقااورسلامتی کی علامت بتاتا ہے۔یوں جب یہ منصوبے منظورہوجاتے ہیں تواس امیرملک یامالیاتی ادارے سے قرضے کی رقم کابندوبست بس ایک کارروائی سی ہوتی ہے۔حیرت ناک بات یہ ہے کہ یہ رقم اس امیرملک سے غریب ملک میں منتقل نہیں ہوتی۔امریکاہویافرانس،ترکی ہویاچین یہ ممالک قرضے کی یہ رقم اپنی کنسٹرکشن کمپنیوں کواپنے ہی ملک میں اداکردیتے ہیں۔رقم اسی ملک میں رہتی ہے اورقرضہ غریب ملک کے عوام کی گردن پر۔اس کے بعدان ہٹ مینوں کی بنائی ہوئی جعلی اعدادو شمار کی رپورٹوں پرمبنی پراپیگنڈہ شروع ہوتاہے: یہ موٹروے بناتوتجارت اتنے گنابڑھےگی۔ یہ بندرگاہ بنی توملک پورے مشرق وسطیٰ کی تجارت پرچھاجائے گا۔ یہ ٹرین یابس چلی پڑی توعام آدمی کے دن بدل جائیں گے۔

ان بسوں میں اوران موٹرویزپرچلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ میں مفلس،نادار،بیمار،بے روزگار،ان پڑھ اورپسماندہ لوگ سفرکرتے ہیں۔ جنہیں نہ تعلیم ملتی ہے،نہ دوا، نہ گھرمیسرہوتاہے اورنہ نوکری۔لیکن یہی لوگ ہیں جوان موٹرویز،بندرگاہوں اورایئرپورٹس کاقرض اتاررہے ہوتے ہیں۔جب کسی ملک پرڈھیر ساراقرض چڑھ جاتا ہے توپرکنز کے مطابق وہاں”عقاب”بھیجے جاتے ہیں۔یہ وہ کمپنیاں اور کارپوریشن ہوتی ہیں جن کی نظراس ملک کے معدنی وسائل، تیل، لوہا،تانبہ،سونااور دیگر دھاتوں پرہوتی ہے۔کچھ وہاں کی زرعی زمینوں پرکارپوریٹ فارمنگ چاہتی ہیں۔یہ عقاب اس قرضے میں جکڑی قوم کے وسائل پریوں ٹوٹتے ہیں جیسے بھوکے بھیڑیے۔ افریقہ اس کی بدترین مثال ہے۔

پرکنزکہتاہے کہ میں حیران ہوتاتھاکہ ان افریقی ممالک میں جہاں کروڑوں لوگ بھوک سے مررہے تھے وہاں برگر،پیزااورعالمی فوڈ ریستوران دھڑادھڑ کھلتےجارہے ہیں ۔ان کوچلانے کیلئےایک مڈل کلاس بنائی جاتی ہے جس کوکارپوریٹ کلچرمناسب تنخواہ دیتاہے۔ این جی اوزکوفنڈملتے ہیں،جن کیلئےمہنگی تعلیمی سہولیات اورمہنگے اسپتال کاعلاج ہروقت دستیاب رہتاہے۔یہ وہ لوگ ہیں جواس انفراسٹرکچرکی ترقی کواخباروں اورٹیلی ویژن پراصل ترقی بتاتے ہیں۔ایسے غریب ملکوں میں اگر کوئی ان”عقابوں” کی بات نہ مانے تولیڈروں کوموت کی نیندسلادیاجاتاہے۔

لیبیاکاقذافی،عراق کاصدام ،مصرکامحمدمرسی،چلی کاآلندے،کانگوکالوممبااورپانامہ کاصدراس کی مثالیں ہیں۔اس کے ساتھ ان ملکوں کوحقوق کی جنگ کے نام پر قتل وغارت تحفے میں دی جاتی ہے۔صرف سوڈان،روانڈااوردارفرکی لڑائیوں میں40لاکھ لوگ مارے گئے۔یوں جہاں دہشتگردوں کاراج ہووہاں ان سے معاہدہ کرکے معدنیات حاصل کی جاتی ہیں اورجہاں امن ہووہاں حکومت کوبلیک میل کرکے اپنے مطالبات منوائے جاتے ہیں۔انگولااس کی بدترین مثال ہے۔ اگر لیڈروں کوقتل کرنے سے بھی کام نہ چلے توپھراس ملک میں فوجیں اتاردی جاتی ہیں۔یہ ہے وہ گھن چکر!اس لیے جب کوئی موٹروے بنتاہے،ماس ٹرانزٹ اسکیم آتی ہے،ایئرپورٹ کی توسیع ہوتی ہے تومیں کانپ اٹھتاہوں۔23کروڑبھوکے ننگوں کے اس انجام پرجن سے اشرافیہ کی ان عیاشیوں کاقرضہ وصول کرنے کیلئے آئی ایم ایف ناک سے لکیریں نکلوارہاہے اوران کے حکم پرعائدکی ہوئی پابندیوں اوربدترین غلامی،دہشت اورخوف میں زندگی گزاریں گے۔یہ ہیں وہ حالات جوبالآخرپاکستانی معاشرہ میں خونی انقلاب کاراستہ ہموارکرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں