"The Front of Words and the Voice of History"

“لفظوں کا محاذ اور تاریخ کی صدا”

:Share

آج میں اس دھرتی کی تقدیرکیلئےاپنے ملک کے اہلِ قلم،اہلِ فکراوروہ جودل رکھتے ہیں،ان سے مخاطب ہونے کی جسارت کررہا ہوں۔جب ہم تاریخ کے سنگِ میل پرکھڑے ہیں،تو ہوائیں فقط ہوانہیں،یہ وقت کانوحہ پڑھ رہی ہیں۔جنوبِ ایشیا کی فضائیں وہی ہیں، لیکن ان میں وہ صدیوں پرانی دھڑکنیں گونج رہی ہیں جوکبھی پانی کے کناروں پرتہذیبوں کی بنیادڈالتی تھیں،اورکبھی انہی پانیوں پر جنگ وجدل کی کشتیاں بہالے جاتی تھیں۔یہ وقت عام نہیں، یہ گھڑی محض لمحوں کی روانی نہیں۔یہ وہ لمحہ ہے جوقوموں کی پیشانیوں پرتاریخ کی مہریں ثبت کرتاہے۔یہ وہ لمحہ ہے جہاں الفاظ،خنجروں کی نوک پررکھے جاتے ہیں،اورفیصلے،صرف قراردادوں میں نہیں،قوموں کے ضمیرمیں تحریرکیے جاتے ہیں۔

یہ کوئی معمولی لمحہ نہیں—یہ وہ گھڑی ہے جب الفاظ،بارود سے زیادہ بھاری ہوچکے ہیں۔جب ایک جملہ،توپ کے گولے سے بڑھ کردھماکہ خیزہے۔جب بیانات،میدانِ جنگ کی گھن گرج سے کہیں بلندترہیں۔جب لہجے،سرحدوں کوپارکرتے ہیں اورتلواروں کی کاٹ سے زیادہ دلوں کوچیرتے ہیں۔یہ وہ لمحہ ہے جوقوموں کی پیشانیوں پرتاریخ کی مہریں ثبت کرتاہے۔یہ وہ لمحہ ہے جہاں الفاظ، خنجروں کی نوک پررکھے جاتے ہیں۔

یہ وقت عام وقت نہیں ہے۔یہ وہ گھڑی ہے جس پرتاریخ اپناقلم رکھتی ہےاورتقدیراپنے فیصلے لکھتی ہے۔جنوبی ایشیاکے افق پرجو بادل چھائے ہوئے ہیں ،وہ صرف سیاست کی گرد نہیں۔یہ تاریخ کی وہ راکھ ہے جوماضی کی تباہ تہذیبوں سے اُٹھ رہی ہے۔جنوبی ایشیاکی ہوائیں،آج کوئی عام ہوانہیں،یہ وقت کی سسکیاں ہیں۔یہ ماضی کی بازگشت ہے۔یہ مستقبل کی لرزتی ہوئی پیش گوئی ہے۔جنوبی ایشیاکے افق پرجوبادل چھائے ہوئے ہیں،وہ محض موسمی تغیرنہیں، یہ تاریخ کی وہ گردہے جوتہذیبوں کے ملبے سے اٹھتی ہے۔ پاکستان اوربھارت—دوایٹمی قوتیں—آج ایک ایسی نوکِ سناں پرکھڑی ہیں،جہاں ایک معمولی لغزش،ایک ناپختہ بیان،ایک ناقابلِ برداشت حرکت،ہمیں اس دہانے پرلاسکتی ہے جہاں انسانیت کی سانس بھی محض ماضی کاقصہ بن جائے۔

ہندوستان اورپاکستان—یہ محض دوملک نہیں،بلکہ دوتاریخیں،دویادداشتیں،دوخواب ہیں،جوکبھی ایک ہی خواب تھے۔ان کے درمیان جوتناؤاُبھراہے ،وہ صرف سفارتی قضیہ نہیں،بلکہ وہی پرانی صداہے جوہمالیہ کی چوٹیوں سے لے کرسندھ کی وادیوں تک سنائی دیتی ہے۔ہمیں یادہے،ہم کوسب کچھ یاد ہے۔

جب دوایٹمی قوتیں۔۔۔ایک دوسرے کے خلاف زبان کی بارود لے کرنکل آئیں توسمجھ لویہ صرف سرحدی کشیدگی نہیں،یہ انسانی تہذیب کے کنگرے پرلٹکتی ہوئی وہ آخری صداہے جو ہمیں خبردارکررہی ہے۔پاکستان اوربھارت،دوایٹمی قوتیں،آج زبانوں سے آگ برسارہی ہیں،اوریہ زبان کی بارودکسی روزاس دنیاکودہکتی، چنگھاڑتی آگ بناسکتی ہے۔

اوراب،جب کوئی یہ کہتاہے کہ”ہم پانی بندکردیں گے”—تویہ پانی نہیں،یہ تہذیب کاوہ چشمہ ہے جسے بندکرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ قومی غیرت کااستعارہ ہے۔۔۔یہ گنگا،یہ سندھ—یہ صرف دریانہیں،یہ ہماری تاریخ کی رگیں ہیں۔ان رگوں کوکاٹنا،محض ہائیڈروپالیٹکس نہیں،یہ اس دھرتی کی للکارہے جسے قربانی کی تاریخ نے سینچاہے۔یہ تاریخ سے بغاوت ہے۔بھارت کاپانی بندکرنے کی دھمکی،یہ صرف پانی نہیں،یہ ہماری زندگی کی رگ کاٹنے کی کوشش ہے۔

مودی کا بیان—کہ حملہ آوروں کوتصورسے بڑی سزاملےگی،یہ فقط بیان نہیں،یہ ایک خطرناک اشارہ ہے۔اس جملے میں صرف الفاظ نہیں،ایک گھمنڈکی گھنٹی بجتی ہے۔یہ وہی گھنٹی ہے جوتاریخ کے ہرظالم کے قدموں سے بندھی ہوئی تھی—کبھی نمرود کے ساتھ،کبھی فرعون کے ساتھ،کبھی ہٹلرکے ساتھ ۔ اوراب مہاشےمودی کاغلط فہمی پرمبنی بیان جوجنوب ایشیاکے امن کولرزارہاہے۔

اس کے جواب میں پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کاوہ بیان—کہ اگربھارت نے پانی روکاتواسے اقدامِ جنگ سمجھاجائے گا—تویہ اعلان،صرف حکومت کابیان نہیں،یہ کوئی معمولی سفارتی جملہ نہیں،یہ22کروڑدلوں کی دھڑکن ہے،یہ اس قوم کی وہ صدائے بازگشت ہے جس کی درجنوں مثالیں تاریخ کے اوراق میں مسکرارہی ہیں۔ ابھی کل کی توبات ہے کہ چونڈہ میں دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی لڑائی میں قوم کے سپوتوں نے وہ کارنامے دکھائے کہ بھارتی ٹینک چلانے والا کی طرف خاکی وردی والاجونہی اس کاتعاقب کرتاہے تووہ اپنے ٹینک کو”ریورس”واپس بھگاناشروع کردیتاہے۔ہم نے اقبال کی نظموں میں سناتھالیکن دشمنوں نے اپنے آنکھوں دیکھے ان واقعات کوکتابوں میں رقم کردیا:
خودی کوکربلنداتناکہ ہرتقدیرسے پہلے
خدابندے سے خودپوچھے،بتاتیری رضاکیاہے

آئیے!پہلے سندھ طاس معاہدے کے متعلق جانتے ہیں کہ آخریہ پانی کے ہتھیارکاآغازکہاں سے ہوا؟
1960ءمیں سندھ طاس معاہدہ پاکستان اوربھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا۔یہ معاہدہ برصغیر کے بڑے دریاؤں کے پانی کی تقسیم کاضابطہ فراہم کرتاہے۔معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا—ستلج،بیاس،اورراوی—بھارت کودئیے گئے،جبکہ تین مغربی دریا—سندھ،جہلم، اور چناب—پاکستان کودیے گئے۔یہ معاہدہ اب تک خطے میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے امن کی بنیاد رہاہے،باوجوداس کے کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان کئی جنگیں اورکشیدگیاں ہوئیں۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ حال ہی میں بھارت نے سندھ طاس معاہدے پردوبارہ غورکرنے یااس سے پیچھے ہٹنے کی بات کی ہے۔ بعض بھارتی رہنماؤں اور حکومتی بیانات میں یہ اشارہ دیاگیاہے کہ بھارت مغربی دریاؤں کے پانی کومکمل طورپراستعمال کرنے کی کوشش کرے گا،جس پرپاکستان کاانحصارہے۔ بھارت کے اس مؤقف کوبعض مبصرین”پانی کوجنگی ہتھیار”کے طور پراستعمال کرنے کی کوشش قراردے رہے ہیں۔

بھارت نے مغربی دریاؤں پرمتعددڈیم اورہائیڈروپاورجیسے کہ بگلیہار،کشن گنگا،اوررتلے ڈیم منصوبے شروع کیے ہیں،ان منصوبوں سے اگرچہ براہ راست پانی کارخ موڑناممکن نہیں،تاہم ان کی مددسے پانی کے بہاؤکومحدودوقت کیلئے روکاجاسکتاہے،جوکہ فصلوں کیلئے اہم اوقات میں پاکستان کیلئے نقصان دہ ہو سکتاہے۔بھارت نے اقوام متحدہ یادیگرعالمی پلیٹ فارمزپرسندھ طاس معاہدے کے بعض نکات پراعتراضات اٹھائے گئے اورپاکستان کی شکایات کے حل میں تاخیرکامعاملہ اب تک جاری ہے۔

جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کابڑاانحصارزراعت پرہے اورزراعت کیلئے پانی کی مستقل فراہمی ناگزیرہے۔پانی کی کمی سے فصلوں کی پیداوارمتاثرہوسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ کوپاکستان کی رگِ حیات سمجھاجاتاہے۔پاکستان کے کئی ہائیڈروپاورمنصوبے دریاؤں کے پانی پر منحصرہیں۔پانی کی کمی توانائی کے شعبے میں بھی بحران پیداکرسکتی ہے۔ دریاؤں کے بہاؤمیں کمی سے ماحولیاتی نظام بھی متاثرہوسکتاہے،خاص طورپرسندھ ڈیلٹا میں نمکیات کاپھیلاؤبڑھ سکتاہے۔اور برسوں سے یہ محسوس کیاجارہاتھاکہ مودی حکومت جو ہندو قوم پرستی کی علمبردارکہلاتی ہے،یہ واضح ہوگیاتھاکہ پانی پرکشیدگی دونوں ملکوں کے درمیان مزیدتناؤکوجنم دے سکتی ہے،جوکہ خطے میں امن کیلئے خطرناک ہوگااوراب یہ شک یقین کی شکل اختیار کرگیا ہے

عالمی برادری نے سندھ طاس معاہدے کوایک کامیاب ماڈل قراردیتے رہیں ہیں اوریہی وجہ ہے پاک وہندکی چارجنگوں کے باوجود اس معاہدے کوہتھیار کے طورپراستعمال کرنے کی کوشش نہیں کی گئی،یہی وجہ ہے عالمی برادری اس کی حفاظت پرزوردے رہی ہے لیکن اب یوں محسوس ہورہاہے کہ خطے میں مودی ایک نئے چانکیہ کی شکل میں اپنے ہاں انتخابات میں کامیابی کیلئے اور اپنے اقتدارکودوام دینے کیلئے اپنے ہی شہریوں کے ساتھ فالس فلیگ آپریشن کا سہارالیکراس خطے کوایٹمی جنگ کے خطرات سے قریب ترکرنے کی احمقانہ کوششیں کررہے ہیں۔

مگراس سے پہلے کہ ہم اس اندھے کنویں میں جھانکیں،آئیں ذرارک کرتاریخ سے کچھ سیکھ لیں۔
کیاتم نے روم کی تباہی نہیں دیکھی؟کیابغدادکے جلتے ہوئے کتب خانے،تمہارے خوابوں میں نہیں آتے؟کیاہیروشیمااورناگاساکی کے سائے،آج بھی ہمارے ضمیر پر لرزہ طاری نہیں کرتے؟ کیاہیروشیمااورناگاساکی کے کھنڈرات کے مناظر اور مارے جانے والوں کی چیخیں تمہیں سنائی نہیں دے رہیں؟ کیاہیروشیمااورناگاساکی کے نوحےابھی تک تمہارے بہرے کانوں کے پردے پھاڑنے کیلئے کافی نہیں؟

یادرکھو!ایٹم بم صرف ہتھیارنہیں—وہ نسلوں کازہرہے۔ایک باروہ راکھ برسادے توصدیوں تک صرف خاموشی جنم لیتی ہے،اوروہ بھی ایسی خاموشی جسے نہ اذان توڑتی ہے،نہ کسی مندرکاسنکھ،نہ کسی گرجاگکرکی گھنٹیاں،نہ ماں کی لوری،نہ بچے کی ہنسی۔

تواے اس خطے کے باسیو!کیاہم بھی اپنی آنکھوں سے وہ دن دیکھنے کے متحمل ہوسکتے ہیں،جب ہماری زمینیں جلیں،آسمان سیاہ ہو جائے،اوردریاخون کی طرح بہنے لگیں؟اورآج اگرکوئی ہمیں للکارتاہے،اگرکوئی ہمارے دریاؤں کوروکنے کی دھمکی دیتاہے تووہ صرف پانی نہیں روک رہا،وہ حیات کی رگ کاٹنے کاعندیہ دے رہاہے۔

پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کاوہ دوٹوک بیان،ٹھیک اوربروقت بیان—کہ پانی روکاتو اسے اعلانِ جنگ سمجھاجائے گا—یہ کسی جذباتی مہم جوئی کانعرہ نہیں،بلکہ ایک تاریخی عزم کااعادہ ہے۔یہ وہی پاکستان ہے جس نے لاکھ قربانیاں دے کرآزادی لی،یہ وہی قوم ہے جواپنے شہیدوں کے لہوکوپرچم کارنگ سمجھتی ہے،اوریہ وہی وطن ہے جس کی مٹی میں غیرت رچی ہوئی ہے،نہ کہ مصلحت۔

ہم جانتے ہیں ایٹمی جنگ کامطلب کیاہوتاہے۔نہ صرف بربادی بلکہ نسل کُشی،خاموش قبرستان ،اورتابکاری کی لاشیں،ایٹم بم صرف دھماکہ نہیں کرتا۔ وہ نسلیں مٹادیتاہے۔وہ ماؤں کی گودیں سونی کردیتاہے۔وہ صدائیں چھین لیتاہے۔وہ اذانیں خاموش کردیتاہے۔وہ ہمیشہ کیلئے مندروں کے سنکھ خاموش کردیتاہے۔گرجاگھروں کی گھنٹیوں کے نام ونشان مٹ جاتے ہیں۔ وہ تہذیبوں کوراکھ کر دیتاہے،کوئی ماتم کرنے والابھی نہیں بچتا۔

یہ وقت ہے جب ہم محض ردِعمل سے آگے بڑھ کرفہم،حکمت،اورعزم کی راہ اپنائیں۔یادرکھیں!مگرہم جنگ کے نہیں،امن کے وارث ہیں۔ہم خنجر نہیں ،قلم کے قائل ہیں لیکن اگر خودمختاری پرآنچ آئی توپھرہماری خامشی۔آسمان کی گرج بن جائے گی۔ہم صرف تلوارنہیں ،ہم قلم بھی ہیں۔ہم صرف افواج نہیں،ہم افکاربھی ہیں۔ہم صرف بم نہیں،ہم دعابھی ہیں۔ہم جنگ نہیں چاہتے،ہم امن کے پروردہ ہیں مگر ہم اس امن کی قیمت قومی وقارپرنہیں چکائیں گے۔

ہاں،ہم جنگ نہیں چاہتے۔ہم صلح کے خواہاں ہیں۔ہم علم وعمل کے سفیرہیں لیکن اگرہماری خودمختاری پرہاتھ ڈالاگیاتوپھریادرکھوہم اپنے بازوؤں سے ایٹم نہیں پھینکیں گے،ہم اپنی وحدت سے وہ دھماکہ کریں گے کہ جس کے بعدقیامت تک کسی اوردہماکے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ان شاءاللہ۔

اب وقت ہے کہ ہم متحدہوں—جیسے چٹانیں دریاکوروکتی ہیں،ویسے ہم ہرسازش کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیواربن جائیں۔ہم اختلافات کوپسِ پشت ڈالیں،لسانی،مسلکی،سیاسی تقسیم سے اوپراُٹھیں اورایک ایساپاکستان پیش کریں جونہ صرف ایٹمی قوت ہو،بلکہ اخلاقی قوت،تہذیبی روشنی،اورفکری استقلال کاعلمبردارہو۔ہندوستان اگرطاقت کے نشے میں ہمیں آزماناچاہتا ہے،تووہ جان لے— پاکستان نہ کبھی جھکاہے،نہ جھکے گا۔مگرہمارایہ عزم،دنیا کیلئے بھی ایک پیغام ہے،اگرایٹمی جنگ ہوئی—توصرف دوقومیں نہیں جلیں گی،انسانیت کامستقبل راکھ ہوجائے گا۔

جن کے ہاتھوں میں فیصلہ ہے،ان کے دلوں میں احساس بھی ہوناچاہئے۔جواقتدارکے ایوانوں میں بیٹھے ہیں،وہ یہ نہ بھولیں کہ قوموں کاانجام میزپرنہیں ،قبرپرلکھاجاتاہے۔اقوام متحدہ، عالمی طاقتیں،انسانی حقوق کے علمبردارتم سب کہاں ہو؟کیاتمہاراضمیرصرف اس وقت جاگتاہے جب کسی تیل کے کنویں پرخطرہ ہو؟کیاکروڑوں جانوں کاامن،تمہاری سفارتی پیچیدگیوں سے کمترہے؟اگردنیانے آج آوازنہ اُٹھائی،توکل صرف سناٹاباقی رہ جائے گااور دنیا کے ضمیر کویہ پیغام دیناچاہتاہوں کہ اگرتم نے خاموشی اختیارکی توکل تاریخ تمہیں معاف نہیں کرے گی اور پاکستان۔۔۔پاکستان رہے گا،تاقیامت رہے گااوروہ رہے گااپنے عِلم،اپنے قلم،اپنے پرچم،اوراپنے عزم کے ساتھ!

اب میں اقوام عالم کے امن پسندشہریوں سے سوال کرتاہوں کہ کیاہم وہ دن دیکھناچاہتے ہیں؟کیاہم چاہتے ہیں کہ ہمارے شہروں پروہ سائے منڈلائیں جنہوں نے ناگاساکی اورہیروشیماکواندھا اوربہراکردیاتھا؟نہیں۔۔۔ہرگزنہیں،ہم ایسی جنگ نہیں چاہتے لیکن اگرمجبور کئے گئے توپھردنیاکویہ جان لینا چاہئے کہ یہ جنگ صرف دہلی اوراسلام آباد کے درمیان محدودنہیں ہوگی بلکہ یہ جنگ ساری انسانیت کواندھیروں میں دھکیل دے گی۔اگرایٹمی جنگ چھڑگئی تودہلی،ممبئی،کلکتہ،لاہور،اسلام آباد،یہ سب کچھ فقط جغرافیہ نہیں رہے گا،یہ انسانی ضمیر پرجلتے ہوئے بدنما داغ بن جائیں گے۔

یہ وقت ہے جب ہمیں،جی ہاں ہمیں—اہلِ پاکستان کواوراقوام عالم کوبالخصوص مودی جنگی مافیاکو—الفاظ کاایک نیاقلعہ بناناہے، ایک نئی فصیل،جوتوپ کے گولوں سے نہیں،علم، وقار اورتدبرسے قائم ہو۔کیونکہ جس دن الفاظ شکست کھاجائیں،اس دن انسانیت بھی ہارجاتی ہے۔ہمیں یادرکھناہوگاکہ جنگیں صرف میدان میں نہیں،اذہان میں بھی لڑی جاتی ہیں۔اوراگرہم نے اس فکری محاذپرشکست کھائی،توہماری ایٹمی قوتیں بھی صرف خاموش دیو ثابت ہوں گی—وہ دیوجن کے پاس طاقت توہو،مگربصیرت نہ ہو۔

اے اہلِ وطن!خطرہ قریب ہے،مگرہلاکت لازمی نہیں۔جنگ قریب ہے،مگرامن ناممکن نہیں۔اگرہم نے عقل کے چراغ کوبجھنے نہ دیا، اگرہم نے تاریخ کے سبق کویادرکھا،اگرہم نے اپنی آوازکوتلوارنہیں،امن کاچراغ بنایا—توشاید ہم اس تاریکی سے ایک نئی روشنی کشیدکرسکیں۔

پس آئیے،ہمارے لفظ توپ نہ بنیں،تلوارنہ بنیں،بلکہ وہ نغمے ہوں،جن میں صلح کاترنم ہو،تاریخ کی گونج ہو،اورمستقبل کایہ وعدہ پنہاں ہوکہ ہم امن کے باسی توہیں لیکن قومی غیرت ہمیں جینے کاحق سکھاتی ہے اورجوہمیں مارنے کیلئے سازشیں کررہے ہیں،ان کویہ ذہن نشین کرلیناچاہئے کہ خودزندہ رہنے کی خواہش رکھنے والوں کودوسروں کی زندگی سے کھیلنے کاکوئی حق نہیں اور قدرت کابھی یہ اصول ہے کہ ظلم آخرظلم ہے،بڑھتاہے تومٹ جاتاہے۔

اے میرے دیس کے باسیو!ہمیں علم کے ہتھیارسے لیس ہوناہے،ہمیں کردارکی اونچائیوں پرکھڑاہوناہے،ہمیں اپنے اتحادسے دنیاکوبتانا ہے کہ یہ ملک نہ کبھی جھکے گا،نہ بکے گا،نہ مٹایاجا سکے گا۔ان شاءاللہ

اے اہلِ پاکستان!آؤسیسہ پلائی ہوئی دیواربن جاؤ،اپنے اختلافات کودفن کردو،لسانیت کو،فرقہ پرستی کو،سیاست کی وقتی کشمکش کو پسِ پشت ڈال دو،آج ہمیں اتحادکی زنجیربنناہے،جیسے دریا بند کرتے ہیں،ہم فتنے بندکریں گے۔آج وقت ہے کہ ہم صرف ایٹمی طاقت نہیں،بلکہ اخلاقی،فکری اورتہذیبی طاقت بن کردنیاکے سامنے کھڑے ہوں۔

آخرمیں یاددہانی کیلئے اہم نکات کوقوم کے نام اپنی پکارکودہرادیتاہوں کہ:
٭جب پانی روکاجائے،توسمجھوسانس روکی جارہی ہے—اورہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
٭ہم ایٹمی قوت سہی،مگرہماری اصل طاقت وحدت،وقاراورانصاف ہے۔
٭پاکستانی مٹی میں غیرت رچی ہے،مصلحت نہیں۔
٭اگرخامشی رہی—توکل صرف سناٹاباقی رہ جائے گا۔
٭نہ دبیں گے،نہ بکیں گے،پاکستان کیلئےہرقربانی قبول ہے۔
٭یہ ملک فقط جغرافیہ نہیں،یہ ایک نظریہ ہے—جومٹایانہیں جاسکتا-
٭پاکستان شہیدوں کی دھرتی ہے اورہمارے سارے شہیدہمارے سروں کے تاج ہیں۔
٭ایٹمی جنگ صرف دوممالک کونہیں،پوری انسانیت کوراکھ کردے گی۔ایٹمی جنگ نہ صرف ایک تہذیبی قیامت ہوگی بلکہ قیامت سے پہلے قیامت ثابت ہوگی۔
ہمارے مقتدراربابِ اختیار کیلئے ضروری ہے کہ:
پاکستان کوسفارتی سطح پرمعاملے کوبھرپورطریقے سے اٹھاناچاہیے۔
اندرون ملک پانی کے انتظام کوبہتربنانے کی ضرورت ہے تاکہ ممکنہ قلت سے نمٹاجاسکے۔
متبادل توانائی ذرائع،جیسے سولراورونڈپاور،کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
علاقائی اوربین الاقوامی ثالثی فورمزکوفعال طریقے سے استعمال کرناچاہیے۔
اورآخرمیں،میں آپ سب کواقبال کی وہ صدایاددلاتاہوں جوآج پھرگونجتی ہے
نہیں ہے ناامیداقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرانم ہوتویہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اس زوردارعزم کے ساتھ:
قوم پرقربان ہے اپنی جان،دھرتی پرقربان ہے ساری آن۔۔۔۔اسلام اورپاکستان کاپرچم ہمیشہ سربلندرہے گا۔۔ان شاءاللہ ٭
پاکستان زندہ بادوہمیشہ پائندہ باد

اپنا تبصرہ بھیجیں