اے اہلِ علم ودانش،اے تاریخ کے گواہ!آج ہم اس منظرنامے کے دہانے پرکھڑے ہیں جہاں عالمی طاقت کے ترازونئے محور کی طرف جھک رہے ہیں۔مغرب کی برتری،جوصدیوں سے دنیاکے مقدرکی حکمرانی کرتی رہی،اب مشرق کے افق پرطلوع ہونے والے نئے سورج کے سامنے جھکنے لگی ہے۔یہ طلوع صرف عسکری قوت کامظاہرہ نہیں بلکہ تہذیبی بیداری، سیاسی حکمت اور تاریخی شعورکاپیغام ہے۔
پاکستان،روس،چین اورشمالی کوریاکے رہنماؤں کی ملاقاتیں،فرنٹ سٹیج پریکجاہونا،اورعالمی تعلقات کے نئے نقشے کی تشکیل،یہ سب محض اعدادوشماراور پروٹوکول کی رسمیات نہیں بلکہ ایک نئے عہد کی پیش گوئی ہیں۔جیسا کہ قرآن نے ارشادفرمایا:اوران کے مقابلے کیلئےاپنی طاقت کی ہراستطاعت تیاررکھو۔( الانفال:60)
یہ آیت ہمیں یاددلاتی ہے کہ عالمی تعلقات اورقوموں کی بقاءکیلئےقوت اورحکمت دونوں ضروری ہیں۔آج ہم ایک ایسے لمحے کے گواہ ہیں،جہاں پاکستان اورمشرقی اتحادکے نئے توازن نے دنیاکے نقشے کوبدلنے کااعلان کیاہے۔
تاریخ کے صفحات پرجب کبھی مشرق ومغرب کے درمیان تعلقات کی تحریرلکھی جاتی ہے،تعلقات کے خطوط کھینچے جاتے ہیں، وہ لمحہ بھی ایساہی ایک تحریر کی مانندہوتاہے۔روس کے صدرولادیمیرپوتن اورپاکستان کے وزیرِاعظم شہبازشریف کی حالیہ ملاقات نے واضح کیاکہ عالمی سیاست کامحورصرف طاقت کے محاذپرنہیں بلکہ تعلقات،اتحاداورمشترکہ مفادات کے گردبھی گھوم رہاہے۔پوتن اورشہبازشریف کی حالیہ ملاقات نے یہ واضح کیاکہ عالمی سیاست کی چال اب صرف طاقت کے محاذپرنہیں بلکہ تعلقات کے جال میں بھی حرکت پذیرہے۔یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب مودی چین سے واپس آئے تھے،اورعالمی سیاسی محاذ پرمتعددمتغیرات حرکت میں تھے۔اس ملاقات کے بعدعالمی منظرنامہ ایک نئی سمت اختیار کرتا دکھائی دیا۔اس ملاقات نے نہ صرف دوممالک کے تعلقات کومضبوط کیابلکہ خطے میں طاقت کے نئے توازن کی سمت بھی واضح کی۔اس ملاقات کے بعدعالمی منظر نامہ ایک نئی سمت اختیارکرتادکھائی دیا،اوریہ واضح ہواکہ پاک،روس اورچین اتحادبھارت کیلئےسب سے بڑاچیلنج بن سکتا ہے۔
اس ملاقات میں یہ واضح ہواکہ پاکستان اب روس کے ساتھ اپنے روایتی تعلقات کونہ صرف برقراررکھے گابلکہ انہیں نئے مفاہمتی معاہدوں،تجارتی روابط اوردفاعی تعاون کے ذریعے مزید مستحکم کرے گا۔یہ منظرنامہ اس امرکی عکاسی کرتاہے کہ عالمی سیاست میں طاقت کامحورصرف عسکری قوت یا اقتصادی طاقت سے نہیں بلکہ اتحاد،تعلقات،اورعالمی اعتمادکے گردبھی گھومتاہے۔ایسے لمحے،جن میں دوممالک کے سربراہ اپنے مؤقف کوواضح کرتے ہیں، تاریخ کے صفحات پرایسے نوٹس کے مترادف ہوتے ہیں جومستقبل میں عالمی محاذکانقشہ بدلنے کاپیش خیمہ بن سکتے ہیں۔
اورنیکی اورپرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مددکرو،اورگناہ وزیادتی میں مددنہ کرو۔(المائدة 2)
یہ آیت اس بات کی یاددہانی کراتی ہے کہ حقیقی طاقت اورتعلقات نیکی،انصاف،اوراستواراصولوں پرمبنی ہوتے ہیں،نہ کہ محض مفادات اورعسکری دباؤپر۔جہاں ہاتھ بڑھیں،وہاں اثرچھڑ جائے۔
پہلےماضی کاوقت یادآتاہے،1955ء کے زمانے میں،جب سوویت یونین اپنی جڑوں پرمستحکم تھا،نکیتاخروشیف نے سرینگرمیں بھارت کویقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ہرمشکل گھڑی میں بھارت کے شانہ بشانہ کھڑارہے گا،یہاں تک کہ اگرپہاڑکی چوٹی سے بھی پکاراجائے۔مگروقت کاپہیہ رکنے والانہیں ۔ سوویت یونین اب وجودمیں نہیں،اورعالمی توازن بدل چکاہے۔خروشچیف کابھارت کیلئےوعدہ ایک تاریخی یادگاربن کررہ گیاہے،لیکن اب نیادور، نئے محاذ،اورنئے مفاہمت کے اصول نافذہیں۔مگراب وہ1955نہیں، نہ ہی سوویت یونین کی وہ قوت موجودہے۔تاریخ کے جغرافیے اورعالمی سیاست کی چالاکیاں بدل گئی ہیں،تاریخ کے جغرافیے بدل چکے ہیں۔اس جملے کی ماضی کی صدائیں آج کے روس اوربھارت کے تعلقات میں عکاس نہیں ہوتیں۔پرانے پُل نئے طوفانوں میں برقرارنہیں رہتے۔
یہ بیان ہمیں یاددلاتاہے کہ طاقت کی پالیسی،مفادات،اوراتحادی تعلقات ہمیشہ متغیرہوتے ہیں۔وہ زمانہ ماضی کی کہانی ہے،اور موجودہ روس اپنی قومی اورعالمی پالیسی کواپنی ترجیحات کے مطابق متعین کرتاہے۔وقت کی موج کبھی پہاڑوں کونہیں دیکھتی، بس ساحل بدل دیتاہے۔
اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا،جب تک کہ وہ خوداپنی حالت کونہ بدلیں۔(الرعد:11)
یہ آیت اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ عالمی اورعلاقائی سیاست کے رخ بدلنامحض خارجی قوتوں کی بجائے قوموں کی داخلی حکمت عملی اورفیصلوں کاآئینہ دارہوتاہے۔
سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعدکشمیرکے مسئلے پرروس کی پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھنے کوملی ہے۔سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعدبھی کشمیرکے مسئلے پرروس کی پالیسی میں جو تبدیلی آئی،وہ ماضی کی خروشچیف کی باتوں کی تقلیدنہیں کرتی۔ ماضی میں روس انڈیا کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ تھامگرآج وہ بھارت کے چانکیہ سیاسی مفادات کوبھی سمجھنے لگاہے،کیونکہ بھارت کی چانکیہ سیاست اسے کبھی بھی اپنے مفاد کیلئےراہیں بدلنے کی صلاحیت دیتی ہے اور روس بھارت کی اس بے وفائی کادکھ سہہ چکاہے اوروہ مودی کاکسی بھی صورت ایساعمل دہراناگوارہ نہیں کرے گا۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد،روس کے موقف میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ماضی میں روس پاکستان اوربھارت دونوں کے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتارہا،لیکن آج کی دنیامیں روس نے بھارت کے مفادات اورچانکیہ سیاست کوبہترطورپر سمجھاہے۔بھارت اپنی چالاکی اورعالمی کھیل میں حکمت عملی کے ذریعے اپنی پوزیشن مضبوط کرتارہا،جس سے روس نے بھی اپنے رویے میں تطبیق پیداکی۔آج روس بھارت کوبہترسمجھ رہاہے، مفادات کی راہوں پرکبھی بھی نظریں پھیرنامودی کی خاصیت ہے۔دنیاکاکھیل کبھی بھی ایک ہی سطرپرنہیں چلتا،ہرطاقت اپنی پوزیشن بدلتی ہے۔
یہ چانکیہ سیاست کاحصہ ہے،جہاں ہرحرکت مکاری کے حساب سے کی جاتی ہے۔یہ حقیقت عالمی سیاست کی پیچیدگی کوبھی ظاہرکرتی ہے کہ طاقت کے محورکی تبدیلی صرف عسکری یااقتصادی نہیں بلکہ سیاسی عقل،چالاکی اورمفادات کی ترجیح کے زیراثرہوتی ہے۔دھیرے دھیرے پہاڑبھی اپنی چھاؤں بدل لیتے ہیں۔
پوتن اورشہبازشریف کی حالیہ ملاقات نے خطے میں تعلقات کی ایک نئی تہہ کھولی ہے۔ملاقات میں پوتن نے واضح کیاکہ پاکستان اب بھی روس کاروایتی ساتھی ہے۔پوتن نے پاکستان کواپناروایتی شریک قراردیا،اوردونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات،تجارتی روابط،اورخطے میں تعاون پرتبادلہ خیال کیا ۔اس موقع پرشہباز شریف نے اعتراف کیاکہ پاکستان روس کے ساتھ مضبوط تعلقات استوارکرناچاہتاہے،اوریہ بات کہتے ہوئے پوتن اثبات میں سر ہلارہے تھے۔
دفترِخارجہ کے بیان کے مطابق،پوتن نے حالیہ سیلاب اورقدرتی آفات کے تناظرمیں پاکستان کے عوام کیلئےدکھ کااظہارکیااور شہبازشریف کی قیادت کوسراہا۔یہ اجلاس عالمی سیاست میں طاقت کے نئے توازن کاپیش خیمہ تھاکیونکہ پاکستان اورروس کے درمیان تعلقات مضبوط ہونے سے بھارت کیلئے ایک نیامحاذکھل گیاہے۔جہاں دوکنارے ملیں،وہاں دریاکی روانی بدل جاتی ہے۔
پوتن نے شہبازشریف کوروس میں نومبرمیں ہونے والے ایس سی اواجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی۔اس پرشہبازشریف نے کہاپاکستان اور روس مشترکہ طورپرتعلقات کومضبوط بنانے کی جانب بڑھ رہے ہیں تاکہ ہمارے عوام کے مفادکے ساتھ ساتھ خطے میں امن اورخوشحالی کوبھی فروغ دیاجاسکے۔
“دوستی کی راہ میں پہاڑبھی سرنگ بن جاتے ہیں اورمشکل وقت میں دوست کاہاتھ سب سے قیمتی ہوتاہے”۔شہبازشریف نے پوتن سے کہاکہ پاکستان روس کے ساتھ تعلقات مضبوط کرناچاہتاہے،جبکہ بھارت اورروس کے تعلقات کااحترام بھی کرتاہے۔پوتن نے اثبات میں سرہلاکر اس عزم کی توثیق کی۔”اثبات میں سرہلانا،اعتماد کی بنیادہے”۔یہ مکالمہ عالمی سیاست میں توازن اورمفاہمت کا ایک عملی مظہرتھا،جوخطے میں امن اورتعاون کے نئے امکانات کھولتاہے۔
نئی عالمی ترتیب میں طاقت کامرکزاب گلوبل ساؤتھ کی طرف منتقل ہوچکاہے۔اس منظرنامے میں بھارت کیلئےضروری ہے کہ وہ پاکستان،چین، روس، ایران اوردیگرممالک کے ساتھ تعاون کرے تاکہ خطے کی اجتماعی ترقی ممکن ہو۔مئی2025ءکی حالیہ پاک بھارت جنگ سے مودی ابھی تک سبق حاصل کرنے کی بجائے اپنی ہزیمت کاادھارچکانے کیلئے بے تاب نظر آتاہے کیونکہ پاکستان نے چنددنوں میں اس کے دماغ سے عالمی طاقت بننے کا خناس خاک میں ملادیاہے۔
ادھردوسری طرف پیش رفت سے ظاہرہوتاہے کہ پاکستان نے یہ سمجھ لیاہے اورعالمی تعلقات میں نئے کردارکیلئےتیارہے۔اسی لئے روس کے صدر نے پاکستان میں حالیہ سیلاب اوردیگر قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات پردکھ کااظہارکیا،اوروزیرِاعظم شہبازشریف کی قیادت میں پاکستان کی بحالی کے عزم کی تعریف کی۔یہ عالمی تعلقات میں انسانی ہمدردی اورسیاسی شعورکی ایک جھلک تھی،جودکھ اورالم کے درمیان بھی حکمت عملی کی ضرورت کواجاگرکرتی ہے۔
جوبھی مصیبت تم پرآئے،وہ تمہارے اپنے اعمال کے سبب ہے،اوراللہ بہت کچھ معاف کرتاہے۔(الشوریٰ:30)
پوتن نے شہبازشریف کونومبر میں روس میں ہونے والے ایس سی اواجلاس میں شرکت کی دعوت دی،جس سے تعلقات کومضبوط بنانے کی نئی راہیں مزیدکھل گئیں ہیں۔یہ دعوت محض رسمی تعارف نہیں بلکہ خطے میں طاقت کے نئے توازن اورعالمی تعلقات کیلئےایک اہم پیغام تھی۔روس کی اس دعوت سے واضح ہوتاہے کہ پاکستان اب عالمی منطقے میں اپنی اہمیت کے ساتھ کھڑاہے اور خطے میں مستحکم تعاون کیلئےایک فعال کرداراداکرسکتاہے۔یہ ملاقات اس بات کی بھی غمازی کرتی ہے کہ عالمی طاقتیں صرف عسکری یااقتصادی نہیں بلکہ سیاست،اتحاداورباہمی اعتمادکی بنیادپراپنی پوزیشن مستحکم کرتی ہیں۔دعوت ایک چراغ ہے،جو اندھیروں میں بھی رہنمائی کرتاہے۔
پاکستان اورروس مشترکہ طورپرتعلقات کومضبوط بنانے کی جانب بڑھ رہے ہیں تاکہ ہمارے عوام کے مفادکے ساتھ ساتھ خطے میں امن اورخوشحالی کوبھی فروغ دیاجاسکے۔سوشل میڈیاپروڈیو میں دکھایاگیاکہ شہباز شریف،صدرشی،پوتن اورکم جونگ ان سابق چینی فوجیوں سے ملاقات کررہے ہیں۔یہ علامت ہے کہ پاکستان اب عالمی منظرنامے پرفرنٹ سٹیج پرکھڑاہے۔اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ پاکستان اب فرنٹ سٹیج پرکھڑاہے،اوریہ عالمی منظرنامے میں اس کی موجودگی کی علامت ہے۔تاریخ کے اس محاذپر پاکستان وہ کشتی ہے جوطوفان میں بھی اپنی راہ بدلتی نہیں۔
تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ بھارت کوفوری طورپرایک تعلیم یافتہ اورعالمی حالات سے باخبروزیراعظم کی ضرورت ہے۔موجودہ خارجہ پالیسی نے بھارت کومحدوداورخطے میں غیرمستحکم کردیاہے۔دفاعی ماہرین کایہ بھی کہناہے کہ اب طاقت کامرکزگلوبل ساؤتھ کی طرف منتقل ہوچکاہے،اور تجزیہ کاروں کااس بات پرمکمل اتفاق ہے کہ بھارت کوفوری طورپرایک تعلیم یافتہ اورعالمی حالات سے باخبروزیراعظم کی ضرورت ہے تاکہ صحیح قیادت کے ذریعے نہ صرف داخلی مسائل حل کیے جائیں بلکہ خطے میں مؤثرکرداراداکیاجاسکے۔موجودہ خارجہ پالیسی نے بھارت کوغیرم ستحکم اورمحدودکردیاہے۔بھارت کیلئےضروری ہے کہ وہ چین، پاکستان،روس اوردیگرممالک کے ساتھ تعاون کرے تاکہ خطے کی اجتماعی ترقی ممکن ہو۔
وزیرِ اعظم نے ملاقات کے بعد کہا کہ پاکستان اور روس مشترکہ طور پر تعلقات کو مضبوط بنانے کی جانب بڑھ رہے ہیں تاکہ عوام کے مفاد کے ساتھ ساتھ خطے میں امن و خوشحالی کو فروغ دیا جا سکے۔ یہ بیان عالمی سیاست میں نئے توازن کی ضرورت اور پرامن تعاون کے اصول کی نشاندہی کرتا ہے۔ طاقت کا استعمال ہمیشہ عسکری قوت یا دھونس کے ذریعے نہیں ہوتا، بلکہ مشترکہ مفادات، تعلقات کی مضبوطی اور اعتماد کی فضا قائم کرنے سے بھی ممکن ہے۔
سب مل کراللہ کی رسی کومضبوطی سے تھامواور فرقہ بندی نہ کرو۔(آل عمران:103)
یہ آیت اس بات کی یاددہانی ہے کہ عالمی تعلقات میں اتحاداوراشتراک سے ہی استحکام ممکن ہے۔
دفاعی ماہرین اورتجزیہ کاروں کے مطابق،عالمی طاقت کانیامحورگلوبل ساؤتھ کی جانب منتقل ہورہاہے۔یہ تبدیلی بھارت سمیت دیگرممالک کیلئےچیلنج اور موقع دونوں ہے۔نئی عالمی معیشت اورسیاسی توازن میں طاقت کی مرکزیت کونظراندازنہیں کیاجاسکتا۔ ملاقات میں شہبازشریف نے پوتن کوبتایا کہ گزشتہ سال دوطرفہ تجارت میں اضافہ روس سے تیل کی درآمدکی وجہ سے ہوا۔ زراعت،اسٹیل،ٹرانسپورٹ اوربیلاروس-پاکستان کوریڈور میں نئے معاہدے بھی طے پائے۔یادرہے کہ تجارت کے پل ہمیشہ دوستی کے پل کے ساتھ جڑتے ہیں اورسورج ہمیشہ اپنی جگہ پرنہیں رہتا،کبھی مغرب توکبھی مشرق میں طلوع ہوتاہے۔یہ استعارہ اس حقیقت کی عکاسی کرتاہے کہ طاقت کے دورانئے مستقل نہیں،بلکہ وقت کے ساتھ محاذبدلتے اوراتحاد قائم ہوتے ہیں۔
پاکستان اورروس کے تعلقات کی مضبوطی خطے میں توازن اورامن کیلئےایک نئی روشنی ہیں۔یہ ملاقات صرف دورہنماؤں کا اجلاس نہیں بلکہ عالمی سیاست کے نئے باب کااعلان ہے۔تاریخ کے آئینے میں یہ منظرنامہ اس بات کی گواہی دیتاہے کہ طاقت کے توازن اورعالمی قیادت کی سمت اب مشرق کی جانب جھک رہی ہے۔
اس نئے منظرنامے میں بھارت کوسمجھناہوگاکہ گلوبل ساؤتھ کے ترقیاتی راستے میں پاکستان،چین،روس،ایران اوردیگرممالک کے ساتھ تعاون لازمی ہے۔عالمی سیاست میں یک طرفہ حکمرانی ممکن نہیں رہی،اورتعاون کی فضاقائم کرناہی خطے کے امن اور خوشحالی کاضامن ہے۔یہاں یہ بات بھی بھارت کیلئے اہم ہے کہ غزہ اور اسرائیل کے خونی معرکے میں مودی کا اسرائیل میں ایک ملین کے قریب ہندوؤں کاغزہ کے بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلناایران اور مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک کیلئے ایک ایسا سنحہ ہے جس پروہ بھارت کے اس عظیم گناہ کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے۔ جہاں ہاتھ ملیں،وہاں دریاکی روانی بھی بدل جاتی ہے اورتاریخ میں یہودوہنودکایہ اتحاد ان کی آنے والی نسلوں کیلئے ہمیشہ شرمندگی کاباعث بنے گا۔
تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ پاکستان نے اپنے رویہ سے ثابت بھی کردیاہے کہ وہ اب بھی خطے میں غربت کے خاتمے کیلئے بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات کیلئے تیارہے لیکن بھارتی چانکیہ سیاست میں مکاری سے متحارب فریق کودھوکہ دیناعین جائزسمجھاجاتا ہے جس کی وجہ سے مودی اب بری طرح اقوام عالم میں ننگاہوچکاہے جبکہ”ایکس”پرشہبازشریف کی وہ ویڈیو پوسٹ،جس میں وہ صدرشی،پوتن،کم جونگ ان اورسابق چینی فوجیوں سے ہاتھ ملارہے ہیں،اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔یہ منظرعالمی سیاست میں پاکستان کی فعال شمولیت اورخطے میں اعتمادسازی کامظہرہے۔
شہباز شریف فرنٹ سٹیج پران اہم رہنماؤں کے ساتھ کھڑے ہیں،جس سے ظاہرہوتاہے کہ پاکستان عالمی سیاست میں اپنی اہمیت کو بڑھارہاہے اور بھارت کے مقابلے میں اپنامؤقف مضبوط کررہاہے۔شہبازشریف نے وڈیوپوسٹ میں لکھاکہ پاکستان پوتن،شی اورکم کے ساتھ فرنٹ سٹیج پرکھڑے ہو کردنیاکودکھایاکہ پاکستان خطے میں عالمی طاقتوں کے ساتھ برابرکاکھلاڑی ہے۔یہ منظرمودی کی تباہ کن خارجہ پالیسی کے اثرات اورخطے میں نئے توازن کی عکاسی کرتاہے۔یادرہے کہ فرنٹ سٹیج پرکھڑے ہونا،کسی کھیل میں مرکزی کھلاڑی بننے کے مترادف ہے۔قیادت کاچراغ بغیرعلم کے اندھیروں میں محوہوجاتاہے۔
وزیراعظم شہبازشریف ان خصوصی مہمانوں میں شامل تھے جنہیں وکٹری ڈے کی تقریب میں مدعوکیاگیا،جبکہ مودی کواس تقریب میں مدعونہیں کیاگیاجبکہ شہبازشریف،پوتن اورکم جیسے رہنماؤں کے ساتھ شریک ہوئے۔یہ منظرعالمی سیاست میں بھارت کے محدودکردارکی عکاسی کرتاہے۔یہ واضح پیغام تھاکہ پاکستان عالمی تعلقات میں مؤثرشراکت دارکے طورپرکھڑاہے۔
پاکستان نہ صرف روس اورچین کے ساتھ تعلقات قائم کررہاہے بلکہ امریکاکے قریب بھی ہے مگرعالمی اسٹیج پرروس اورچین کے ساتھ موجودگی نے اس کی اہمیت کوبڑھادیاہے۔یہ حقیقت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ عالمی طاقتوں کے درمیان پاکستان کی اہمیت اورکردارقابلِ قدرہوچکاہے۔ دانشمندی سے بُناہوارشتہ،عالمی سیاست کاسب سے زیادہ عمدہ اورمضبوط ہتھیار ہوتاہے لیکن اس کی دیکھ بھال کیلئے ہمہ وقت چوکس اورہوشیاررہنے کی ضرورت ہوتی ہے وگرنہ لمحوں کی خطا،صدیوں کی سزابن کر کارکردگی کوتنکوں کی طرح بہالیجاتی ہے۔بھارت اورامریکاکی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح مودی سینہ پھلاکراوراکڑی گردن سے ٹرمپ کو”مائی فرینڈ”کہہ کرمخاطب ہوتاتھاکہ گویامودی اورٹرمپ ایک ہی گود میں پلے بڑھے ہیں لیکن مودی خوداپنی ہی تاریخ بھول گیاکہ کس طرح پانڈوں کی مفاداتی طویل جنگیں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں نگل گئیں۔
تھنک ٹینک بروکنگزانسٹیٹیوشن کی سینئرفیلوتنوی مدن نے”ایکس”پرشہبازشریف اورپوتن کے درمیان مکالمے کاویڈیوکلپ شیئرکیا اورلکھا”میمزاپنی جگہ،مگرحقیقت کی دنیاالگ ہے۔”یہ بیان عالمی سیاست میں تصاویراورمیمزکے پیچھے موجودحقیقت کواجاگر کرتاہے۔
پوتن بیک وقت کئی محاذوں پرمتوازن کرداراداکررہے ہیں اورشہبازشریف سے ملاقات میں کہتے ہیں کہ وہ روس اورپاکستان کے تعلقات کوقدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں اورانہیں مزیدمضبوط و متحرک بنانے کی بات کرتے ہیں۔یہ حکمت عملی عالمی توازن اور خطے میں اعتمادسازی کامظہرہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں۔پہلگام کے بعدٹرمپ کی وجہ سے روس کامؤقف اکثرلوگوں کی نظرسے اوجھل رہ گیاتھا۔روس نے پہلگام کے حملے کے بعدبھارت کومایوس کیا لیکن عالمی میڈیااورعوام کی توجہ کم رہی۔یہ عالمی سیاست میں نظراندازکیے گئے لمحوں کی اہمیت کوظاہرکرتا ہے۔اس واقعے سے یہ ظاہرہوتاہے کہ عالمی سیاست میں حقائق ہمیشہ فوری منظرعام پرنہیں آتے،بلکہ پوشیدہ حکمت عملی حرکت کرتی ہے۔
تھنک ٹینک اوآرایف کے بھارت-روس تعلقات کے ماہرالیکسی زخاروف نے لکھاکہ مودی کے چین سے واپس جانے کے بعد،پوتن اورشہبازشریف نے دوطرفہ ایجنڈے پرتبادلہ خیال کیاجس کے پاک روس کے مستقبل کے تعلقات پرانتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔یہ ملاقات تجارت،تعاون اورخطے میں استحکام کی علامت تھی جوآئندہ چل کرایک مضبوط شراکت داری میں بھی تبدیل ہونے کاامکان ہے۔یہ بات درست ہے کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست اوردشمن نہیں ہوتے۔
پوتن نے پاکستان کوروایتی پارٹنرقراردیا،تجارتی تعلقات بڑھانے اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تعاون بڑھانے کاعزم ظاہر کیا،اور وزیراعظم کو ماسکو کے دورے کی دعوت بھی دی۔شہباز شریف نے پوتن کاشکریہ اداکیا کہ انہوں نے پاکستان کی حمایت کی اورجنوبی ایشیا میں متوازن کرداراداکرنے کاموقع فراہم کیا،ساتھ ہی کہا، ہم آپ کے انڈیاکے ساتھ تعلقات کااحترام کرتے ہیں،یہ بالکل درست ہے،لیکن ہم بھی روس کے ساتھ بہت مضبوط تعلقات قائم کرناچاہتے ہیں۔طاقت کے میدان میں ہرہاتھ کاوزن اہم ہوتا ہے،اورتعلقات کاپل سب سے مضبوط پُل ہے۔یہ بیان عالمی سیاست میں مفاہمت، احترام اورتوازن کے اصول کی عکاسی کرتاہے۔
اب آخری اور اہم بات یہ ہے کہ ابھی مودی کے چین کے دورے کی سیاہی بھی خشک نہ ہوپائی تھی کہ انڈین جنرل چوہان نے اس دورے کی ساری قلعی کھول دی ہے۔مودی کی ایس سی اواجلاس میں شرکت محض ایک سفارتی عمل نہ تھا،بلکہ خطے کی بدلتی ہوئی بساط پرایک شطرنجی چال بھی تھی۔اس کے فوراًبعدانڈیاکے چیف آف ڈیفنس نے چین اورپاکستان کو”چیلنج”قراردےکر دراصل یہ اقرارکیاکہ شنگھائی تعاون کی میزپرمسکراہٹیں کچھ اورتھیں اورسرحدوں پرخنجر کی چمک کچھ اور۔یہ اعلان دراصل اندرونی اضطراب کاغمازہے۔جنرل انیل چوہان کایہ کہناکہ چین کے ساتھ سرحدی تنازع سب سے بڑاچیلنج ہے،اس حقیقت کی شہادت ہے کہ ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں پرلگی سرحدی لکیریں آج بھی ان کے دلوں میں آگ بھڑکاتی ہیں۔گویامستقبل کامنظرنامہ بھی اسی برفانی بارودکے گردگھومے گا۔
پاکستان کے ساتھ پراکسی وارکودوسرابڑاچیلنج قراردیناانڈین عسکری ذہن کی پرانی سوچ کاتسلسل ہے۔پاکستان کو”ہزارزخموں” کی حکمت عملی کاطعنہ دینا،دراصل اپنے اندرونی زخموں کی پردہ پوشی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جوقوم دوسروں کوزخموں کا طعنہ دیتی ہے،اس کے اپنے ناسورکبھی نہیں بھرتے
جنرل چوہان کاتبصرہ ایسے وقت میں سامنے آیاجب چین کے شہرتیانجن میں ہونے والی ایس سی اوکانفرنس میں انڈیااورچین کے تعلقات میں گرمجوشی کے آثارظاہرہوئے۔مگرسفارت کی مسکراہٹ اورمیدانِ جنگ کی تلخی دوالگ حقیقتیں ہیں۔اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیرِاعظم شہباز شریف نے کی اورعالمی مبصرین کے مطابق پاکستان نے سفارتی شطرنج میں ایسی چال چلی کہ بھارت کے مہروں کوبے بس کردیاہے۔
ڈپٹی آرمی چیف راہل سنگھ نے بھی اسی سازکاایک اورسُرچھیڑااورچین–پاکستان اتحادکوتنقیدکانشانہ بنایا۔ان کے بقول چین نے انڈیا–پاکستان تنازع کوایک”لائیولیب”کے طورپربرتا،جہاں وہ یہ دیکھتارہاکہ اس کے دیے گئے ہتھیارکس طرح کام کرتے ہیں۔یہ بیان دراصل بھارتی عسکری قیادت کے اندیشوں اورناکامی کی دستاویزہے۔آپریشن سندورکے بعدجنرل انیل چوہان نے شنگریلا ڈائیلاگ میں کہاکہ پاکستان نے ممکنہ طورپرچین کے کمرشل سیٹلائٹ کی مددلی۔یہ الزام دراصل اپنی ناکامی کاملبہ دوسروں پر ڈالنے کاایک اوچھاحربہ ہے۔شواہد نہ ہونے کے باوجودیہ تاثردیاگیاکہ ٹیکنالوجی کی مدد سے بھارت کوشکست ہوئی۔
بلومبرگ ٹی وی کودیے گئے انٹرویومیں جنرل چوہان نے کہا:اہم یہ نہیں کہ طیارے مار گرائے گئے بلکہ اہم یہ ہے کہ ایساکیوں ہوا۔گویا سوال کی دھند میں حقیقت چھپانے کی کوشش کی گئی۔انہوں نے مارگرائے گئے طیاروں کی تعدادبتانے سے گریزکیا۔یہ خاموشی خودایک اعلان ہے،ایک ایسااعتراف جوزبان سے ادانہیں ہوامگرخاموشی کی زبان میں سب کچھ کہہ گیا۔تاریخ میں بعض اوقات نہ کہناہی سب سے بڑااعتراف ہوتاہے۔اوریہ سب کچھ ایسے وقت میں کہاگیاجب چین بھارت کے تجارتی رویے پراپنے تحفظات کااظہارکررہاہے۔پچاس فیصدٹیرف کی مخالفت دراصل اس امرکی گواہی ہے کہ میدانِ جنگ کے ساتھ ساتھ بازارکی معیشت بھی دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کامحاذہے۔
اوراب،اے اہلِ نظر!وہ لمحہ آگیاہے جب تاریخ نے اپنی کتاب کے صفحات پلٹے اورمستقبل کاباب مشرق کے ہاتھ میں لکھنے کی صدابلندہوئی ہے۔ طاقت کے نئے محورکی علامت، پاکستان اورمشرقی اتحادکی یکجہتی،اورعالمی تعلقات میں توازن کی نوید،یہ سب ہمیں یہ باورکراتے ہیں کہ دنیاکی قیادت اب یکطرفہ نہیں رہی۔
ماضی کے زوال،جیسے رومی سلطنت کی شام،اندلس کی غروب آفتاب،اوربرطانیہ کی سلطنت کاڈھلنا،آج کی روشنی میں ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ہرقوم،ہرعہداورہرطاقت کاسورج طلوع اورغروب ہوتاہے۔آج کامشرق ایک نئے عزم،مستقل مزاجی اورحکمت کی روشنی کے ساتھ طلوع ہوا ہے،اوریہ سورج نہ صرف مشرق کے رہنمابلکہ دنیا کیلئےنئے توازن کی علامت ہے۔جیسا کہ قرآن نے فرمایا:
اورنہ کمزورپڑواورنہ غمگین ہو،تم غالب رہوگے اگرتم ایمان والے ہو۔(العمران:139)
یہ پیغام آج کے عالمی منظرنامے کیلئےبھی اتناہی موزوں ہے مشرق نے اپنی قوت،حکمت اوراتحادکے ذریعے عالمی قیادت کے سفرکاآغازکردیاہے۔آج ہم ایک ایسے عہدکے گواہ ہیں جہاں تاریخ نے کروٹ لی،اورمستقبل کافیصلہ اب مشرق کے ہاتھ میں ہے۔