The clash of civilizations and the test of Pakistan

تہذیبوں کاتصادم اورپاکستان کی آزمائش

:Share

تاریخ کے اوراق میں کبھی کبھی ایسے لمحے نمودارہوتے ہیں جوسطحی نگاہوں سے محض ملاقاتیں دکھائی دیتے ہیں،مگر بصیرت کی نگاہ میں وہ تاریخ کے دھارے بدلنے والے لمحے بن جاتے ہیں۔دنیاایک نئے عبوری دورسے گزررہی ہے۔روس و یوکرین کی جنگ کے شعلے ابھی ختم نہیں ہوئے کہ مشرقِ وسطیٰ کابگڑتامنظرنامہ،ایک نیاسوالیہ نشان لیے سامنے آگیاہے. تہذیبوں کے تصادم کاپراناتصوراب محض تھیوری نہیں بلکہ حقیقت بن چکاہے۔ ایران اوراسرائیل کے مابین بڑھتی کشیدگی نے ایک ایسادھواں اٹھادیاہے جس کی لپٹیں خلیج فارس سے ہوتی ہوئی،واشنگٹن،تل ابیب،تہران،بیجنگ، ماسکواورنئی دہلی تک پہنچ چکی ہیں۔ایران کاحیفہ اورتل ابیب پرحملہ،اس بات کی علامت ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے جنگی افق پراب صرف عسکری حملے نہیں بلکہ علامتی تہذیبی واربھی شامل ہوچکے ہیں۔

بین الاقوامی تناظرمیں تہذیبی تصادم اورصف بندی کی نئی بساط بچھاکردنیاکانقشہ تبدیل کرنے کی سازشیں شروع ہوچکی ہیں۔ کلیدی عالمی مظاہرمیں امریکااسرائیل کابے مثال حلیف کاکرداراداکرتے ہوئے تمام عالمی قوانین اوراخلاقیات کوپاؤں تلے مسل رہا ہے جبکہ ایران اپنے دفاعی نظریے کو ’’اسلامی مزاحمت‘‘کالباس پہناچکاہے۔روس،امریکاکی عسکری مداخلت کامخالف ہے اور چین خاموشی سے اپنی موجودگی مستحکم کررہاہے۔یورپی ممالک چاہنے کے باوجوداس بحران میں کھل کرکرداراداکرنے سے قاصرہیں۔

عرب ریاستیں تذبذب میں ہیں۔سعودی عرب مصالحت پرمائل،امارات محتاط اورقطردودھاری پالیسی پرکھڑاایک بڑی آزمائش میں مبتلاہے کہ اس نے اربوں ڈالراپنی گرہ سے لگاکرہزاروں میل دوربسنے والے قصرسفید کے مکین کواپنی سریع الحرکت افواج کو علاقہ کاسب سے بڑابحری اڈہ بناکرپیش کردیا اوراب اگراس اڈے کونشانہ بنائے جانے کی دہمکی پرعمل ہوجاتاہے توقطرکی برسوں کی محنت کے بعدجاری خوشحالی خاکسترہوسکتی ہے۔اس سارے تناظر میں اگرکسی ملک کی ایک”خاموش موجودگی” عالمی حلقوں میں توجہ حاصل کررہی ہے تووہ پاکستان ہے۔

دنیاکے افق پرجب افلاک سیاست کے ستارے گردش میں آتے ہیں،اورتہذیبوں کے مابین کشیدگی کی بجلیاں کڑکنے لگتی ہیں،تب ایک خاموش ملاقات بھی گونج دارپیغام بن جاتی ہے۔واشنگٹن کی سنگین فضامیں جب جنرل عاصم منیر،پاکستان کی عسکری قیادت کاپیکرِوقار،وائٹ ہاؤس کی دہلیزپر قدم رکھتاہے،تویہ محض ایک رسمی مصافحہ نہیں ہوتابلکہ تہذیبوں کے مابین ایک خاموش مکالمہ آغازپاتاہے۔پاکستان کاکردارنہایت پیچیدہ اورحساس نوعیت کاہے۔بطورایک ایٹمی اسلامی ریاست،اس کی پوزیشن دنیابھرمیں منفردہے۔جنرل عاصم منیرکی امریکی صدرڈونلڈٹرمپ سے غیرمعمولی ملاقات اسی حساسیت کامظہرہے۔

یہ ملاقات محض ایران واسرائیل کے تناؤکے تناظرمیں نہیں دیکھی جاسکتی،کیونکہ درحقیقت یہ مکالمہ اُس بڑے منظرنامے کا ایک جزہے جس میں طاقت کی بساط پرنئی چالیں چلی جارہی ہیں۔یہ اس وقت ہواجب مشرقِ وسطیٰ میں آتش وآہن کے بادل چھائے ہوئے ہیں،حیفہ کی بندرگاہیں جل رہی ہیں،تل ابیب دھواں دھواں ہے،اورتہران کے ایوانوں میں صدائے احتجاج گونج رہی ہے۔

حالیہ دنوں واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے درودیوارایک ایسی ہی ملاقات کے گواہ بنے جب جنرل عاصم منیراورامریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے مابین ایک ’’غیرمعمولی‘‘اور’’شیڈول سے طویل‘‘ملاقات ہوئی۔اس ملاقات کومحض رسمی مصافحہ نہ سمجھاجائے، بلکہ اسے تہذیبی مکالمے،عسکری توازن،سفارتی چالاکی اورمستقبل کی عالمی سیاست کی تمہیدکے طورپردیکھاجانا چاہیے ۔
اس ملاقات کی گونج صرف پاکستان اورامریکاکے تعلقات کی فضاتک محدودنہیں،بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی دھڑکتی ہوئی نبض، ایران اوراسرائیل کے درمیان سلگتاہواتنازع،اورمسلم دنیاکے مجموعی مؤقف سے مربوط ہے۔ٹرمپ اورجنرل منیرکی ملاقات میں مشرق وسطیٰ کے حالاتِ حاضرہ، بالخصوص ایران واسرائیل کشیدگی،پرتفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ یہ ملاقات محض پروٹوکول کا حصہ نہیں رہی بلکہ اسے واشنگٹن میں اسٹریٹیجک کامیابی کے طورپردیکھاجارہاہے۔ٹرمپ نے جنرل منیرکا”شکریہ”اداکیاکہ انہوں نے بھارت کے ساتھ ممکنہ جنگ کوروکنے میں کردارادا کیا ۔

امریکی تجزیہ نگاربارباراس ملاقات کو”شراکت داری میں نئی پیش رفت”قراردے رہے ہیں۔اس کے پیشِ نظرپاکستانی فوج نے خطے میں اپنی عسکری ساکھ برقراررکھی جبکہ سفارتی سطح پربھی امریکاکے ساتھ تعلقات مستحکم ہوئے،خاص کراس وقت جب پاکستان توازن برقراررکھتے ہوئے چین کے ساتھ بھی جدید دفاعی لین دین کررہاہے۔

صدرٹرمپ نے ملاقات کے بعدجوجملے اداکیے،وہ محض رسمی سفارتی جملے نہیں،بلکہ اس بات کاعندیہ تھے کہ ایران کے حوالے سے اُن کی معلومات اورتعلقات گہرے ہیں:”وہ(جنرل عاصم منیر)ایران کوبہت اچھی طرح جانتے ہیں۔شایددوسروں سے بہتر”۔یہ جملہ فقط ایک شخصیت کی معلومات کااظہارنہیں،بلکہ امریکاکی داخلی پالیسی اوراسرائیل کی پشت پرموجودامریکی ذہنیت کی سفارتی علامت کی بھی ایک جھلک ہے۔گویاایران کے ساتھ اُن کی دانستہ خاموش وابستگی اب بے نقاب ہورہی ہے۔ ایسے بیانات سفارتی چالوں میں کئی بار”مذاکرات کے دروازے”کھلے رکھنے کاحربہ ہوتے ہیں۔

ٹرمپ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ،بظاہرسیاسی لطافت میں لپٹے ہوئے،درحقیقت ایک غیرمعمولی فہم کی غمازی کرتے ہیں۔ وہ ایران کو”شاید دوسروں سے بہتر”جانتے ہیں—ایک ایسااعتراف جوبسااوقات بادلوں کے پیچھے چھپے سورج کی ماننداپنی روشنی نہیں دکھاتامگرگرمی ضروردیتاہے۔ان کے یہ الفاظ کہ”ہم اس صورتحال سے خوش نہیں”،سفارتی ادب کاوہ قرینہ ہے جس میں بیزاری کی تلخی خوش گفتاری کی شکرمیں لپیٹ دی جاتی ہے۔پاکستان،جوازل سے ہی تلوارکی دھاراورپل صراط پرچلنے کاعادی رہاہے،ایک بارپھراس تاریخ کے موڑپرکھڑا ہے جہاں اسے اپنی پالیسی کاکمال دکھانا ہوگا—نہ بے نیازی کادعویٰ،نہ بے نیازی کی ہزیمت،بلکہ حکمت کی روشنی اورخودداری کی رہنمائی۔

یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ جنرل عاصم منیرنے اس ملاقات سے محض چندروزقبل ایران کاسرکاری دورہ کیاتھا، جہاں ایرانی عسکری قیادت سے اہم مذاکرات ہوئے۔اس پس منظرمیں ٹرمپ سے ان کی گفتگومحض رسمی نوعیت کی نہیں ہو سکتی۔پاکستان،جواسلامی دنیاکی واحدایٹمی طاقت ہے،ایران اورسعودی عرب کے مابین ثالثی کاکردارماضی میں بھی اداکرچکا ہے۔اگرچہ بظاہر اس وقت جنگی اتحادمیں اس کی شمولیت کاکوئی اشارہ نہیں،مگرپس پردہ مذاکرات اورقیادت کی صفوں میں مشورے جاری ہیں۔جنرل عاصم منیرکااس وقت متحرک ہونا، بقول غالب:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہرخواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں،لیکن پھربھی کم نکلے
ایران کے ساتھ ان کے حالیہ روابط اسی’’خاموش توازن‘‘کی دلیل ہیں جوپاکستان مشرقِ وسطیٰ میں قائم رکھناچاہتاہے۔

مارکوروبیو(وزیرخارجہ)اورسٹیووٹکوف(مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی)کی شرکت اس ملاقات کورسمی کی بجائے’تزویراتی نشست‘ میں بدل دیتی ہے۔ گویااس امرکی دلیل ہے کہ گفتگوکادائرہ محض خیرسگالی کے جملوں سے کہیں آگے بڑھ کرہے۔ پاکستانی وفد میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی موجودگی اس بات کاعندیہ ہے کہ انٹیلی جنس شیئرنگ یامشترکہ معلومات پربھی تبادلۂ خیال ہوا۔ ایران کاذکرواضح،اسرائیل کاذکرمبہم—یہ اس ملاقات کی’سفارتی ترتیب‘کی کلیدہے۔

وہ تمام چہرے،جن کے لب خاموش تھے،آنکھیں مگرسوال کرتی تھیں۔۔۔۔۔۔کیاپاکستان،ایک اسلامی ایٹمی طاقت،اس متوقع تصادم میں ثالث کاکرداراداکرے گا،یامحض تماشائی رہے گا؟جنرل عاصم منیرکاایران کاحالیہ دورہ، جسے بعض حلقے محض روایتی قرار دیتے ہیں،اس ملاقات کے پس منظرکومعنی کی نئی پرتیں عطاکرتاہے۔ایران کی فوجی قیادت سے ان کے تبادلۂ خیال کے تناظر میں،وائٹ ہاؤس میں ان کی موجودگی محض ایک رسمی عمل نہیں،بلکہ بقولِ اقبال
زمانہ آیاہے بے حجابی کا،عام دیدارِیارہوگا
سکُوت تھاپردہ دارجس کا،وہ رازاب آشکارہوگا

ایران اوراسرائیل کے درمیان جنگ اپنی شدت سے جاری ہے اورایسے موقع پرجنرل عاصم منیرکاقصرسفیدمیں ایساوالہانہ استقبال اورٹرمپ کایہ کہہ کراستقبال کرناکہ میرے لئے جنرل عاصم منیرسے ملناایک اعزازہے،اس کے بعدان تمام دل جلوں کے ذہن میں امریکی بے وفائی کے گزشتہ تمام تاریخی مناظرایک فلم کی طرح چلناشروع ہوجاتے ہیں کہ بارہاپاکستان کو وفاداری کے صلہ میں دشمنوں کے ہاتھوں چرکے لگانے میں قصرسفید کے مکینوں کابڑاعمل دخل رہا۔اب ایک مرتبہ پھریہ خاطرداری دیکھ کردل گھبرارہاہے کہ کہیں پاکستان کواس ممکنہ جنگ کاحصہ تونہیں بناجارہا؟غالب یادآگئے:
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتاتھادورجام
ساقی نے کچھ ملانہ دیاہو شراب میں

یہ سوال بظاہرسادہ لیکن باطن میں نہایت پیچیدہ ہے۔پاکستان کسی بھی طرح اسرائیل کے ساتھ عسکری اتحادکامتحمل نہیں ہوسکتا۔ اسلامی نظریاتی اساس،عوامی جذبات،اورپارلیمانی تاریخ—سب اس کے خلاف ہیں۔مگرامریکاجیسے طاقتوراتحادی کے ساتھ تعلقات کی نزاکت کونظراندازبھی نہیں کیاجاسکتا۔

اس وقت پاکستان کی پالیسی تین نکات پراستوارہے۔
غیرجانبداری وہ پہلا نکتہ ہے کہ اس جنگ میں کسی فریق کی کھلی حمائت نہ کی جائے۔
دوسرانکتہ ثالثی کے کردارکاہے کہ ایران وسعودی عرب کی طرح ایران واسرائیل میں کشیدگی کوکم کرانے میں کرداراداکرنے کیلئے کہاجائے۔
اورتیسرااہم نکتہ داخلی توازن کاہے کہ ملک کے اندرکسی بھی قسم کے فرقہ وارانہ ردِعمل یانظریاتی تقسیم سے بچاؤکیلئے خاموشی اختیارکی جائے۔
مگرسوال یہ ہے کہ کیا’’غیرجانبداری‘‘کی یہ تلواردونوں دھاروں کوکاٹنے کی طاقت رکھتی ہے؟کیانیتن یاہوکاوہ زہرآلودبیان جس میں وہ ایران کے بعدپاکستان کے ایٹمی پروگرام کوختم کرنے کاارادہ رکھتے ہیں،اس بیان کے بعدکیااسرائیل کسی بھی ایسی کوشش پربرملاپہلے معافی مانگ کربیان واپس لے سکتاہے،اس کاجواب آنے والے ایّام دیں گے۔

ان تمام واقعات میں اگرکوئی خاموش کردارہے،تو وہ روس ہے،جوپسِ پردہ بیٹھ کرشطرنج کی چالوں کاجائزہ لے رہاہے۔ماسکو کی جانب سے امریکاکو دیا گیایہ انتباہ—ایران اوراسرائیل کے تنازع میں مداخلت سے بازرہے،ورنہ پوراخطہ عدم استحکام کا شکارہوجائے گا۔روس کی موجودگی اس بات کا اظہار ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی جنگ،اگربھڑکی،تویوکرین یاشام کی طرح محدود نہیں رہے گی—بلکہ پوری دنیاکی طاقتیں اس میں کھینچی چلی آئیں گی۔گویا اس عظیم جنگ کی طرف اشارہ ہے جو”پراکسی” سے نکل کر”براہِ راست”میں ڈھل سکتی ہے۔

چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لن جیان نے واضح طورپرکہاہے کہ چین…ایران کے خلاف اسرائیل کے حملوں سے”گہری تشویش”کااظہارکرتا ہے…اورکسی بھی صورت میں مزید کشیدگی کوجاری نہیں دیکھناچاہتا۔بیجنگ نے کہاہے کہ تنازع کاحل صرف سیاسی وسفارتی راستوں سے ہونا چاہیے ،اور کسی فوجی مداخلت پرسخت تحفظات ہیں۔چین نے اپنی ایران کے ساتھ تیل اور انفرا سٹرکچرمیں معاہدوں کوسامنے رکھتے ہوئے اقوام متحدہ میں ثالثی کےکردارکاعزم ظاہرکیاجیساکہ گزشتہ صلح نامہ(ایران-سعودی)کے بعدبیلٹ اینڈ روڈ کی کامیابی کاجُزہے۔چین بیلٹ اینڈروڈکے مفادات کے تحفظ کیلئے ہرممکن کوشش کرے گا۔

چین نے پہلی بارجنگ بندی کیلئےجامع اورمتوازن چارشرائط پیش کیں،جس سے اس کاسفارتی اثرخاصابڑھاہے۔
1-صدرشی جن پنگ نے اسرائیل پرزوردیاہے کہ وہ”جلدازجلد”فوری اورغیرمشروط جنگ بندی کویقینی بنائے تاکہ اس خوفناک کشیدگی میں مزیداضافہ نہ ہو۔
2-چین اورروس دونوں اس نکتے پرزوردے رہے ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام جیسے مسائل کاحل فوجی نہیں بلکہ صرف سفارتی ڈائیلاگ اورسیاسی مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے۔
3-صدرشی نے اس امرپربھی زوردیاکہ ایران اوراسرائیل دونوں اپنی سرزمین پرمقیم غیرملکی شہریوں کوبلارکاوٹ نکالنے کے انتظامات کریں ۔
4-صدرشی نے کہاکہ وہ اہم عالمی طاقتوں کی مثبت ثالثی،بالخصوص امریکاکوفعال کرداراداکرنے کیلئےکہہ رہے ہیں تاکہ کشیدگی کم ہواورامن کی راہ ہموارہو۔

چین اورروس نے مل کراسرائیل کے حملوں کو”یواین چارٹرکی خلاف ورزی”قراردیتے ہوئے کہاکہ خطے میں فوجی مداخلت کے شدید نقصانات ہوسکتے ہیں۔عالمی فوجی اقدامات کی صورت میں خطے میں جاری جنگ کے شعلے دنیاکواپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔عالمی میڈیاجاری اسرائیل ایران جنگ میں چین کے کردارکورپورٹ کرتے ہوئے تسلیم کیاہے کہ بیجنگ نے خودکو “امن کے سفارتی ضامن”کی حیثیت سے پیش کیاہے۔خودامریکی نیوزویک نے اعتراف کیاہے کہ چین نے امریکی توجہ کافائدہ اٹھاتے ہوئے سفارتی پل بڑھانے کی حکمت اپنائی ہے۔

اسی طرح الجزیرہ نے بھی رپورٹ کیاہے کہ چین اورروس نے مشترکہ طورپراس بات پرزوردیاکہ مسئلہ فوجی نہیں،سیاسی اور سفارتی حل طلب ہے ۔اسی طرح ٹائم اوررائٹرزنے متنبہ کرتے ہوئے رپورٹ کیاکہ چین نے امریکی حملے کے حوالے سے خبردارکیاکہ ایسی مداخلت”عالمی عدم استحکام” کاخطرہ ہے ۔

سوال یہ ہے کہ کیاروس اورچین کی پوزیشن امریکی حملے کومؤخرکرواسکتی ہے؟چین اورروس کی مشترکہ مزاحمت امریکی فوجی آپشن پرایک مضبوط توازن پیداکرتی ہے۔خدشہ ہے کہ ٹرمپ اگلے دوہفتوں میں حملے کافیصلہ کرسکتے ہیں،مگرعالمی طاقتوں کے دباؤنے ٹرمپ کومحتاط کردیاہے۔اقوام متحدہ سمیت متعددممالک نے بھی زوردیاہے کہ طاقت سے مسئلہ حل نہیں، سیاسی راستے اپنانے چاہئیں۔اس پس منظرمیں امریکی مددکے بغیراسرائیل کا مکمل حملہ خطرناک حدتک خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

اس مرحلے پرسیاسی و سفارتی حل ہی چین–روس مشترکہ موقف اورمغربی ممالک کے دباؤنے ٹرمپ کے فوجی آپشن پرپابندی عائدکردی ہے۔
زیادہ ممکن دکھائی دیتے ہیں،اورفوجی محاذپرکسی صورت میں بریک لگنے کے آثارنمایاں ہیں۔چین کامؤثراور متوازی مقام،روس کے ساتھ مضبوطی اورعالمی میڈیاکے مشترکہ موقف نے امریکی فوجی آپشن کودباؤمیں رکھاہے۔یوں امریکا کوموجودہ تناؤمیں جنگ آگے بڑھانے کیلئے سخت سوچناپڑے گا۔چین،جوایران کاخاموش مگربااثراتحادی ہے،خاموشی سے مگر محتاط اندازمیں اس پورے منظرنامے کودیکھ رہاہے۔ایسے میں پاکستان کوہرقدم پھونک پھونک کررکھناہوگا۔

چین نے ایران–اسرائیل تنازع میں گہری تشویش کااظہارکیاہے،فوجی مداخلت کی بجائے سفارت کاری کاراستہ اپنایا،اوراپنا بین الاقوامی ثالثی کرداراجاگرکیا۔عالمی میڈیانے چین-روس موقف کوایک نئے عالمی توازن کی نمائندگی کے طورپررپورٹ کیا،جو امریکی فوجی آپشن پرمخصوص حدودعائدکرتانظرآرہاہے۔امریکا،اگرچہ حملے کے امکانات طے کررہاہے،مگرچین اورروس کے مشترکہ دباؤ کی وجہ سے فی الحال اس پالیسی کو مؤخرکرنے کاامکان زیادہ محسوس ہوتاہے۔

برطانوی وزیراعظم کئیرسٹارمرنے ٹرمپ کومشورہ دیاکہ ایران کے خلاف عسکری کارروائی سے اجتناب کیاجائے۔برطانوی وزیراعظم کایہ مشورہ ایک نیااشارہ دیتاہے کہ مغرب کے اندربھی ایران کومکمل دشمن قراردینے پراتفاقِ رائے نہیں۔اس طرح یورپی طاقتیں بھی چاہتی ہیں کہ خلیج فارس ایک نئی جنگ کی آگ کاشکارنہ ہو۔یہ مشورے دراصل خفیہ سفارتکاری کی وہ جھلکیاں ہیں جوبظاہرامن کاپیغام لیے ہوتی ہیں،مگرباطن میں طاقت کے توازن کواپنے مفادمیں موڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔

اس پوری کہانی میں بھارت بھی ایک سرگوشی کی مانندموجودہے۔حیفہ،جوکبھی نوآبادیاتی ہندوستان کی بندرگاہوں سے جڑارہا، اب اسرائیلی اہمیت کا مرکزہے اورایرانی میزائلوں کاہدف۔یہ محض اتفاق نہیں کہ تہران کی نگاہ تل ابیب سے گزرتی ہوئی دہلی کے ماضی کی گلیوں سے بھی واقف ہے۔ بھارت اوراسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات،اورحیفہ کی تاریخ،اس تناظر میں ایران کا اس مقام پرحملہ محض جنگی حکمت عملی نہیں بلکہ علامتی انتقام کی صورت اختیارکرتاجارہاہے۔یہ حملے صرف جغرافیہ کو نہیں،بلکہ تاریخ کوبھی نشانہ بنارہے ہیں۔

حیفہ،اسرائیل کی وہ بندرگاہ ہے جس پرایرانی حملوں کی خبریں عالمی میڈیاپرچھائی رہیں۔مگربہت کم لوگ جانتے ہیں کہ حیفہ کبھی ہندوستانی فوجیوں کی آماجگاہ بھی رہا۔پہلی جنگِ عظیم میں برطانوی افواج کے ساتھ شامل ہندوستانی سپاہی اسی شہر کی مٹی میں دفن ہوئے ہیں۔یہودوہنودکاخطرناک ایجنڈے پرمبنی اتحاداب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ایک طرف گریٹراسرائیل کانقشہ اس بات کی گواہی دے رہاہے کہ وہ کس طرح تمام عالم عرب کواس کاحصہ سمجھتے ہوئے مسلمانوں کے مقدس شہرمدینہ کوبھی اس کاحصہ بنانے پرعمل پیراہے وہاں شدت پسندہندوآرایس ایس کااکھنڈبھارت کامنصوبہ یہ ہے کہ جس ملک کی سرحدیں بحرہندسے ملتی ہیں،وہ اکھنڈبھارت کاحصہ ہیں اورمودی اسی جماعت کی نمائندگی کررہاہے۔

ادھرکینیڈاکے وزیراعظم مارک کارنی نے ایک گھٹیاچال چلتے ہوئے مودی کوجی سیون میں شرکت کی دعوت دی جس پرسکھ برادری نے شدید احتجاج کے منصوبے شروع کردیے ہیں۔جس کے بعدکینیڈانے ایک مرتبہ پھرمودی حکومت پرسخت مؤقف اختیارکرتے ہوئے سکھ رہنماہردیپ سنگھ نِجر کے قتل کے الزام میں انٹیلی جنس ملوث ہونے کی تحقیقات پرزوردیاہے۔اس سے ایک مرتبہ پھربھارت اورکینیڈاکے تعلقات تناؤکاشکارہوگئے ہیں ، اوراگرکینیڈانے مزیدسیاسی یاسفارتی اقدامات کیے،تومودی حکومت پربین الاقوامی دباؤاورسخت ہوجائے گا۔

بھارتی گودی میڈیااورسوشل میڈیاپرمودی مخالف رجحانات میں تیزی آئی ہے۔انڈیاٹائمزپرشائع نیوزکے مطابق،ٹرمپ نے بھارت–پاکستان جنگ کامذاق یہ کہتے ہوئے روکاکہ دونوں کو عالمی تباہی سے بچالیاہے۔اس بیان کے ردِعمل میں بھارت کی پرائمری میڈیامیں بھی عوامی سطح پرشدیدتنقید اور طنزیہ بیانات سامنے آرہے ہیں جن میں سرنڈرمودی جیسے نعروں کابھی آغازہوگیاہے۔سیاسی تجزیہ نگاریہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ رجحان مستقبل میں کسی بڑی تحریک کی بنیادبن سکتاہے،اگرمخالفین اسے منظم کریں یاکوئی کرائسس سرِاٹھائے تومودی کوگھربھیجنے میں آسانی ہوجائے گی۔

ان حالات میں یہ ملاقات محض دوافرادکی گفت وشنیدنہیں،بلکہ تہذیبوں کے تصادم،اسلامی دنیاکے اتحاد،اورعالمی طاقتوں کے نئی صف بندیوں کاپیش خیمہ ہے۔پاکستان اس وقت تاریخ کے ایک ایسے موڑپرکھڑاہے جہاں ہراک قدم ہے دلیلِ شعورودانش کا، ذراسالغزشِ پابھی فناکاپیغام دے سکتی ہے ۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ پاکستان،اپنے نظریاتی اساس، سفارتی دانش،اورعلاقائی ہم آہنگی کے تقاضوں کوسامنے رکھتے ہوئے،ایک ایساکردارادا کرے جونہ صرف جنگ سے روکے،بلکہ اسلامی دنیاکی فکری اور عملی قیادت کانیا باب بنے۔

پاکستان اس وقت نہ صرف ایک جغرافیائی مقام پرکھڑاہے بلکہ تاریخ کے دھارے پرنکتۂ اتصال بن چکاہے۔اس کی خاموشی دراصل ایک صداہے—دانش کی،خودداری کی،اورحکمتِ عملی کی۔کیاپاکستان اس تپتی ریت پراپناقدم رکھے گا؟یاپھرحکمت، صبر،اورغیرجانبداری سے ایک نئے باب کاآغاز کرے گا؟یہ فیصلہ صرف عسکری قیادت کانہیں،بلکہ پوری قوم کی دانش وبینش کاامتحان ہے۔ایک پیغام تہذیبوں کو،طاقتوں کو،اورتاریخ کو،کہ پاکستان اب صرف تماشائی نہیں،ایک فکری کردارہے۔

یادرکھو!یہ صرف ملاقات نہیں تھی۔۔۔یہ ایک پیغام تھا!

اپنا تبصرہ بھیجیں