The chess of politics and the decision of fate

شطرنجِ سیاست اور تقدیر کا فیصلہ

:Share

دنیاکی سیاست محض معاہدوں اوراجلاسوں کانام نہیں؛یہ تقدیرکے کاغذپرلکھی جانے والی وہ تحریرہے جسے وقت کی انگلیاں اور قوموں کے فیصلے مل کررقم کرتے ہیں۔کبھی تخت اورتاج دوست بن جاتے ہیں اورکبھی برادرانِ ملت بھی ایک دوسرے کے حریف ہوجاتے ہیں۔ یہی سیاست کاالمیہ اورمکافاتِ عمل بھی ہے اوریہی تاریخ کاحسن۔

آج ایشیاکی فضاؤں میں بھی ایک نیاباب کھل رہاہے۔تیانجن کی زمین پرجب دنیاکی دوقدیم تہذیبوں کے نمائندے،مودی اورشی جن پنگ،آمنے سامنے بیٹھے توسفارت کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔کچھ نے کہایہ نئی شروعات ہے،کچھ نے کہایہ وقتی ضرورت کا دھوکاہے مگرحقیقت یہ ہے کہ ہر ملاقات تاریخ کی ندی میں ایک پتھرپھینکتی ہے،جس کی لہریں دورتک جاتی ہیں۔

پاکستان کیلئےسوال یہی ہے:کیادہلی اوربیجنگ کایہ قرب ہمیں اندیشوں میں ڈالنے کیلئےہے یاامکانات کے نئے درواکرنے کیلئے؟ کیایہ سیاست کی وہی شطرنج ہے جہاں دوستی اوردشمنی بس ایک چال کانام ہے؟

دنیاکی سیاست کبھی سیدھی راہوں پرنہیں چلتی۔یہ بازی گاہِ ہستی ہے،جہاں ہرکھلاڑی کبھی بادشاہ بنتاہے،کبھی محض پیادہ رہ جاتا ہے۔آج کامنظرنامہ بھی کچھ ایساہی ہے؛دہلی اوربیجنگ کی ملاقات نے خطے کی فضاؤں میں ایک نئی ہلچل ڈال دی ہے۔

مودی اورشی جن پنگ کی ملاقات ایک ایساواقعہ ہے جس نے پورے خطے کی فضاؤں میں سوالیہ نشان ثبت کردیاہے۔مودی اور شی جن پنگ کی ملاقات کوبعض لوگ نئی شروعات کانام دیتے ہیں،مگرتاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بڑے زخم محض ایک مصافحے سے مندمل نہیں ہوتے۔یہ ملاقات سفارتی نوعیت کی تھی،لیکن خطے کے توازن کے اعتبارسے اس کے اثرات کونظراندازنہیں کیا جاسکتا۔کیادہلی کی بیجنگ سے بڑھتی قربت اسلام آباد کیلئےکسی اندیشے کی خبرلاتی ہے؟یایہ صرف سفارتی بساط پروقتی چال ہے،جسے تاریخ کی ہوائیں بہالے جائیں گی؟سوال یہ ہے کیایہ قربت پاکستان کیلئےکسی اندیشے کی گھنٹی ہے یاایک نئے موقع کی نوید؟پاکستان کیلئےاصل سوال یہ ہے کہ کیایہ قربت بیجنگ–اسلام آبادتعلقات پرمنفی اثر ڈالے گی؟یایہ دہلی کاوقتی سفارتی حربہ ہے جوامریکی دباؤکے جواب میں اختیارکیاگیاہے؟

تیانجن کی فضائیں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے گونج اٹھیں۔شنگھائی تعاون تنظیم کااجلاس،جس میں برصغیرکے دونوں ہمسایہ ممالک شریک ہوئے،تیانجن کی فضاؤں کوسیاست کے شورسے بھردیاگیا۔ایک طرف مودی نےچینی صدرسے ملاقات کیلئے جب ہال میں پہنچتے ہی جونہی مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایالیکن چینی صدراس ہاتھ کوتھام نہ سکے اورآگے بڑھ گئے، دوسری طرف پاکستان کے وزیراعظم نے اسی شہرکی جامعہ میں دوستی اوراخلاص کی ایک لازوال داستان دہرائی،پاکستان کے وزیراعظم نے اسی شہرکی جامعہ میں پاک–چین دوستی کے چرچے کونئی تازگی عطاکی۔ایس سی او،خطے کی بڑی طاقتوں کاایک پلیٹ فارم ہے۔اس میں دہلی اوراسلام آباد دونوں کی موجودگی بذاتِ خودایک علامت ہے کہ علاقائی سیاست کامرکز ایشیاکی سرزمین ہے،نہ کہ مغرب کے ایوان۔پاکستان کے وزیراعظم نے جہاں پاک–چین دوستی کواجاگرکیا،وہیں دہلی نے بیجنگ کے ساتھ براہِ راست رابطے کی راہ نکالنے کی کوشش کی، یوں یہ اجلاس محض رسمی نہیں رہا،بلکہ خطے کے بدلتے توازن کاایک آئینہ بن گیا۔یہ منظرگویادو متوازی خطوط تھے،جوتاریخ کے کاغذپرایک ساتھ کھنچ گئے۔

چینی صدرشی کاابتدائی جملہ ہی عالمی منظرنامے کی لرزتی بنیادوں کاعکاس تھا۔ان کے لبوں سے نکلاہواجملہ”دنیاافراتفری کا شکارہے”کسی خطیب کاوعظ نہیں،وقت کے آئینے میں جھلکتی ہوئی حقیقت تھی۔یہ جملہ بین الاقوامی سیاست کے موجودہ بحرانوں کاعکاس ہے۔یہ الفاظ محض ایک سفارتی بیان نہ تھے،بلکہ آنے والے دورکے ہنگاموں کی خبربھی تھے۔گویاقرونِ وسطیٰ کاوہ دور یادآگیاجب سلطنتیں زوال پذیرتھیں اورنئی سپرپاورزجنم لی رہی تھیں ۔یوکرین کی جنگ،مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی،اورمعاشی عدم استحکام؛سب اس بیان میں جھلکتے ہیں۔

شی نے یاددلایاکہ چین اورانڈیادوقدیم تہذیبوں کے وارث ہیں؛ڈریگن اورہاتھی کودشمنی نہیں بلکہ رقص میں شراکت داربنناچاہیے۔یہ جملہ کسی شاعرکی استعاراتی پروازمعلوم ہوتاہے۔چین اوربھارت دونوں قدیم تہذیبوں کے امین ہیں۔شی نے”ڈریگن اورہاتھی”کی رقص کی مثال دیکر تعلقات کومثبت رنگ میں پیش کیامگریہ استعارہ دراصل ایک سوال بھی ہے:کیایہ رقص ہم آہنگی کاہوگایارقابت کا؟یاپھرزمین لرزانے والازلزلہ؟

مودی نے بھی جواباً2.8 ارب نفوس کی تقدیرکواس تعاون کے ساتھ وابستہ بتایا۔مودی نے بھی اربوں عوام کے مفادات کی بات تو کی،لیکن تاریخ کاسبق یہ ہے کہ محض آبادی طاقت کی ضامن نہیں ہوتی۔تاریخ کاسبق یہ ہے کہ محض تعدادسے قومیں نہیں بنتیں؛ ایمان،استقلال اورقربانی سے قوموں کی بنیادقائم ہوتی ہے۔مگرسوال یہ ہے کہ یہ رقص دوستی کاہوگا یا طاقت کے توازن کی تلواروں پرایک نازک کرتب؟

ملاقات کے ایجنڈے میں سب سے نمایاں امریکاکاٹیرف تھا—اصل پس منظرتویہ ہے کہ روسی تیل کی خریداری پرامریکانے انڈیا کی مصنوعات پر50 فیصدٹیرف لگاکربھارت پرمعاشی شکنجہ کساہے۔یہ صرف ایک تجارتی قضیہ نہیں بلکہ استعمارکی وہ پرانی چال ہے جوکبھی کپاس کے دھاگے سے لگی تھی اورآج توانائی کے چشموں پرآ کررُکی ہے۔یہ اس نے دہلی کونئے دوست ڈھونڈنے پرمجبورکیا۔یوں مودی کابیجنگ کارخ کرنا،واشنگٹن سے کشیدگی کا سیدھانتیجہ ہے۔

ماہرین کی رائے ہے کہ یہ ٹیرف دہلی کی برآمدات اورصنعتوں کیلئےکسی آسیب سے کم نہیں اورامریکی ٹیرف دہلی کی برآمدات اورمینوفیکچرنگ سیکٹرپر کاری ضرب ہے۔یہ بھارت کی اندرونی سیاست اورعوامی روزگارپربراہِ راست دباؤڈال سکتاہے۔یہ ٹیرف دہلی کی صنعتوں کوگھن کی طرح چاٹ جائے گااوریہی مسئلہ بیجنگ کے خوابوں کوبھی گدلارہاہے۔

یہی ٹیرف چین کے عالمی منصوبوں کیلئےبھی رکاوٹ بن رہاہے۔یوں یہ قضیہ صرف دہلی تک محدودنہیں بلکہ بیجنگ کوبھی متاثر کرتاہے۔خاص طورپروہ منصوبے جوعالمی سطح پرتجارت اورتوانائی کے بہاؤکوبہتربنانے کیلئےہیں۔اس لیے چین بھی بھارت کو اپنے قریب لانے میں دلچسپی رکھتاہے لیکن وہ انڈیا کے اس مکافاتِ عمل سے بھی باخبرہے اوروہ اس بات سے بھی واقف ہے کہ مودی اس وقت روس اورچین کے کندھے پربیٹھ کرامریکاکی دوبارہ قربتوں کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہاہے۔سوال یہ ہے کہ کیایہ دونوں قدیم تہذیبیں محض ضرورت کے تحت اکٹھی ہورہی ہیں یاواقعی دلوں کوقریب لاناچاہتی ہیں؟

1962ءکی جنگ اورگلوان وادی جیسے سانحات آج بھی تعلقات پرسایہ ڈالے ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیاماضی کے خونریز تنازعات اورسرحدی جھگڑوں کے بعداب بیجنگ اوردہلی واقعی نئے سرے سے تعلقات قائم کرنے میں سنجیدہ ہیں؟یایہ محض وقتی ضرورت کی ڈورہے جوکسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے؟بعض تجزیہ نگاراسے”ٹرننگ پوائنٹ”کہتے ہیں مگرٹرننگ پوائنٹ اور دھوکہ دہی کی یوٹرن میں صرف ایک لمحے کافاصلہ ہے۔سوال یہ ہے کیادونوں ممالک اب حقیقتاً تعلقات کونئی بنیادوں پراستوار کرناچاہتے ہیں یایہ محض وقتی ضرورت ہے؟
بعض حلقے مودی کے اس دورۂ چین کو”ایک ممکنہ ٹرننگ پوائنٹ”قراردیتے ہیں،مگرتاریخ کے صفحات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ٹرننگ پوائنٹ اور یوٹرن میں صرف ایک لکیرکافاصلہ ہوتاہے۔کچھ مبصرین اسے”اہم موڑ”کہتے ہیں،مگراس میں خطرہ یہ بھی ہے کہ یہ محض یوٹرن ثابت ہوکیونکہ دہلی کی پالیسی ہمیشہ”موقع پرستی”سے عبارت رہی ہے۔پانی کے ذخائرپر تنازع، دلائی لاماکا قضیہ،اورسرحدی جھگڑے…یہ سب اس تعلق کے چہرے پر چھپے ہوئے زخم ہیں۔کوئی بھی زخم بناعلاج کے نہیں بھرتا۔

دنیاکی نظریں ہمیشہ چین–امریکاتعلقات پررہتی ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ اگربیجنگ اوردہلی ہاتھ ملابھی لیں توکیاان کے زخم مندمل ہوجائیں گے؟ یا دشمنی کی چنگاری خاکسترمیں چھپی رہے گی؟پاکستان کی فضامیں سوال یہ ہے:کیادہلی اوربیجنگ کایہ میل اسلام آبادکیلئےخطرے کاپیغام ہے؟یاالٹا،یہ موقع ہے کہ بیجنگ دہلی کوقریب لاکراسلام آباداورنئی دہلی کے بیچ برف پگھلانے کی کوشش کرے؟دنیاکی سیاست زیادہ ترواشنگٹن اوربیجنگ کے تعلقات کے گردگھومتی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس دائرے میں ماسکواوربیجنگ دہلی کوکتناقریب آنے دیں گے کیونکہ وہ مودی کے مکارانہ کردارسے بخوبی واقف ہوچکے ہیں بالخصوص روس جواس کاکئی دہائیوں سے ساتھ دے رہاتھا،اس کاساتھ چھوڑکرجس طرح مودی امریکاکے تلوے چاٹناشروع ہوگیاتھا،اس کے بعدروس کیلئے بھی مودی پریقین کرنابڑاکٹھن ہے۔

پانی کے مسائل،دلائی لاما،اوردریاؤں پرمنصوبے…یہ وہ فالٹ لائنزہیں جن پراعتمادکی عمارت قائم کرناآسان نہیں۔دلائی لاماکا مسئلہ دہلی اوربیجنگ میں ہمیشہ سے کانٹے کی مانندہے۔اسی طرح دریاؤں پربڑے منصوبے مستقبل کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کرسکتے ہیں۔پانی کی سیاست آئندہ صدی کی سب سے بڑی جنگ کاسبب بن سکتی ہے۔دوسری طرف پاکستان کے وزیراعظم کی تقریر ایک اعلانِ وفاتھی۔انہوں نے کہا:”ہماری دوستی ہرامتحان میں کھرے سونے کی طرح ثابت ہوئی ہے۔”یہ الفاظ سفارت کے تھے،مگراس کے پیچھے تاریخ کی گواہی ہے؛جب چین تنہاتھاتوپاکستان اس کے ساتھ کھڑا تھا،اورجب پاکستان پردباؤآیاتوبیجنگ نے دوستی نبھائی۔

مبصرین کہتے ہیں کہ دہلی اوربیجنگ کے تعلقات وقتی ہیں۔ان میں وہ گہرائی نہیں جوپاک–چین رشتے میں ہے۔پاکستان اورچین کی دوستی کسی تجارتی معاہدے کانتیجہ نہیں،یہ دلوں کی ہم آہنگی اورضرورتوں کی یکسانیت کانچوڑہے۔اسی طرح پلوامہ کے بعدکی تلخی اب بھی دہلی اوراسلام آبادکے بیچ دیوارکی مانندکھڑی ہے۔پلوامہ حملے اوربعدکی صورتحال نے دہلی–اسلام آباد تعلقات کو مزیدمشکل بنادیا۔یہ کشیدگی دہلی–بیجنگ تعلقات پربھی اثر اندازہوتی ہے،کیونکہ چین پاکستان کوایک اسٹریٹجک شراکت دارسمجھتا ہے۔

خطے کاالمیہ یہ ہے کہ بھارت کے بیشترہمسایوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں جبکہ چین کی دوستی پاکستان،بنگلہ دیش،سری لنکا اورافغانستان تک پھیلی ہوئی ہے۔اس کے برعکس چین نے پورے خطے میں تجارت اورسرمایہ کاری کے ذریعے اپنے رشتے مضبوط کیے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کبھی واشنگٹن کے درپردستک دیتاہے،کبھی ماسکوکادامن تھام لیتا ہے، اور کبھی بیجنگ کے دربارمیں جابیٹھتاہے۔لیکن قرآن کا قانون یہ ہے:
یعنی جنہوں نے اللہ کے سواسہارالیا،ان کاسہارامکڑی کاجالاہے،جوذراسی ہواسے بکھرجاتاہے۔

سوال یہ ہے:کیادہلی اوربیجنگ کی قربت اسلام آباد کیلئےخطرے کی گھنٹی ہے؟یامحض وقتی شورہے جس کی بازگشت زیادہ دیر باقی نہیں رہتی؟دہلی–بیجنگ قربت اسلام آبادکیلئےلازمی طورپر خطرہ نہیں۔بلکہ ممکن ہے کہ بیجنگ دہلی پراثراندازہوکرپاکستان کیلئےبھی”ورکنگ ریلیشن”کی راہ نکالے۔پاکستان کیلئےاس میں سبق یہ ہے کہ اندیشوں کے بجائے امکانات پرنظررکھی جائے ۔اگر چین دہلی کواپنے قریب کرتاہے تویہ دہلی کواسلام آبادسے دورکرنے کیلئےنہیں بلکہ خطے کوامن اوراستحکام کے قریب لانے کیلئےبھی ہوسکتاہے۔

سوشل میڈیاپرتوسوال یہ ہے کہ تیانجن میں کس سربراہ کااستقبال زیادہ شایانِ شان ہوا—مودی یاشہبازشریف؟تیانجن میں کس سربراہ کوزیادہ عزت دی گئی؟مگراصل امتحان استقبال کے نعروں کانہیں،پالیسیوں کے فیصلوں کاہے۔یہ بحث عوامی سطح پرنمایاں رہی۔ مگراصل حقیقت یہ ہے کہ عزت پروٹوکول سے نہیں،تعلقات کی گہرائی سے ماپی جاتی ہے۔آخرکاراصل حقیقت یہی ہے کہ قوموں کی تقدیرنہ بیجنگ کے دربارمیں لکھی جاتی ہے،نہ واشنگٹن کے ایوان میں۔قرآن نے فیصلہ کن اصول دے دیاہے:
اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتاجوخودکوبدلنے کی خواہش نہیں رکھتے۔
یعنی تقدیروہی بدلتی ہے جواپنے عزم،اپنی غیرت اوراپنے ایمان سے اپنی حالت بدلنے کاحوصلہ رکھیں۔

پاکستان کے وزیراعظم نے اپنی تقریرمیں ایک بارپھریہ ثابت کردیاکہ پاک–چین دوستی الفاظ کاہیرپھیرنہیں بلکہ اعتماد،محبت اور قربانی کی ایک زندہ داستان ہے،جوہرآزمائش میں کامیاب اتری ہے۔شہبازشریف نے اپنی تقریرمیں پاک–چین دوستی کو”ہرآزمائش میں کامیاب”قراردیا۔یہ محض سفارتی جملہ نہیں بلکہ پچھلے کئی عشروں کی تاریخ کانچوڑہے۔ماہرین متفق ہیں کہ انڈیاکے چین کے قریب آنے سے پاکستان کے تعلقات متاثرنہیں ہوں گے،کیونکہ چین–پاکستان کارشتہ محض”تجارتی”نہیں بلکہ”تقدیری”ہے۔زیادہ تر ماہرین کاخیال ہے کہ دہلی–بیجنگ قربت اسلام آباد–بیجنگ تعلقات پراثراندازنہیں ہوگی۔یہ رشتہ”اسٹریٹجک اورگہرا”ہے،کسی وقتی تبدیلی سے متاثرنہیں ہوتا۔

مبصرین کاکہناہے کہ انڈیااورچین اسٹریٹجک شراکت دارنہیں بن سکیں گے۔ان کاساتھ زیادہ دیرپانہیں،ماضی کے تنازعات،سرحدی مسائل،اور بنیادی مسابقت اس تعلق کوہمیشہ ناپائیدار رکھے گی کیونکہ گہرے زخم صرف مہندی کے رنگ سے نہیں چھپتے۔

مودی نے کئی برس ایس سی اواجلاسوں میں خودشرکت سے گریزکیا،مگراب جب واشنگٹن کے ساتھ کشیدگی بڑھی ہے تودہلی کو بیجنگ کاراستہ یادآیا اور چین کے ساتھ ماسکوکی دہلیزپرسجدہ ریزہو گئے ہیں۔یہ دہلی کی”متبادل تلاش”کی حکمت نہیں مکاری کا عمل ہے۔مودی واشنگٹن کوپیغام دیناچاہتاہے کہ یہ دہلی کے پاس متبادل آپشنزبھی ہیں لیکن ٹرمپ نے اس کابروقت جواب دیکراقوام عالم کی سیاست میں مودی کابھیانک چہرہ دکھانے میں لمحہ بھرتاخیر نہیں کی۔

مگریہ بھی حقیقت ہے کہ امریکاکے ساتھ تعلقات میں تناؤکی بنیادمعاشی ہے۔امریکی ملازمتوں کی منتقلی،روسی تیل،اورپاک–بھارت جنگ بندی میں واشنگٹن کونظراندازکرنا،یہ سب عوامل ٹرمپ حکومت کوناراض کرگئے۔یوں یہ سب زیادہ تردکھاوے کے اقدامات ہیں؛دہلی اوربیجنگ کے تعلقات کی جڑیں گہری نہیں۔اب بھی اصل تجارتی تعلقات دہلی اورواشنگٹن کے بیچ زیادہ مضبوط ہیں۔چین اوربھارت میں اسٹریٹجک نوعیت کے جوبنیادی اختلافات ہیں وہ”دیرپا”ہیں۔یہ تعلق کبھی مکمل اعتمادپرمبنی نہیں ہوسکتااوریہ تعلقات ہروقت بارودکے ڈھیرپر کھڑے ہیں۔

بھارت خودکوعالمی طاقت دیکھناچاہتاہے۔لیکن اس خواب کی سب سے بڑی رکاوٹ وہ چین ہی کوسمجھتاہے۔اس لیے وہ کبھی مغرب کی گودمیں جابیٹھتا ہے اورکبھی مشرق کی دہلیزپر دستک دیتاہے۔اس لیے دہلی کبھی بھی مکمل طورپرماسکواوربیجنگ کے ساتھ صف آرانہیں ہوگا۔بھارت نے اپنے بیشتر پڑوسیوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات قائم رکھے ہیں اوریہی کشیدہ تعلقات دہلی کی اس حکمت عملی کومزیدکمزور کرتے ہیں۔اس کے برعکس چین نے پورے خطے کواپنی تجارتی زنجیرمیں باندھ دیاہے اوربالخصوص پاکستان کے سی پیک نے دنیاکی تجارتی منڈیوں کوایک لائن میں کھڑاکردیاہے اورچین کامستقبل کی معاشی قوت کاخواب بھی سی پیک سے جڑاہواہے اس لئے خطے میں جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کانعم البدل ممکن نہیں اوریہ اللہ کی طرف سے عطاکردہ وہ نعمت ہے جس پرپاکستانی مقتدرہ طاقتوں کوسوچ سمجھ کراپنی پالیسیوں کومرتب کرناہوگااورہرقدم پھونک پھونک کررکھناہوگا۔

سات برس بعدمودی کاچین کادورہ زیادہ تر”سیاسی مجبوری”کے تحت ہے۔اس سے پہلے مودی صرف امریکی خوف سے چین جانے سے گریزکرتے رہے اورکواڈکاممبربن کرچین کوبھی آنکھیں دکھاکرخودکوچین سے کہیں برترعالمی قوت بننے کی خوش فہمی مبتلارہے لیکن اب جب ٹرمپ نے بیچ چوراہے میں لٹیاڈبودی توماسکواوربیجنگ کاطواف خودپرلازم کرکے معافی کے خواستگاربن کرنئی چالوں سے محبت کے گیت ترنم سے گانے شروع کر دیئے لیکن ماسکواوربیجنگ کے تمام سیاسی اوردفاعی تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ حالیہ ملاقات کے اثرات محض وقتی ہیں،اس کے گہرے اثرات کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔

یہ قربت اسلام آبادکیلئےامکانات بھی رکھتی ہے۔چین خطے میں استحکام چاہتاہے ممکن ہے کہ دہلی–بیجنگ مکالمہ پاکستان اور بھارت میں ورکنگ ریلیشن کی بحالی کی راہ ہموارکرے۔الٹا، انڈیاکی یہ نزدیکی پاکستان کیلئے مثبت پہلوبھی رکھتی ہے کیونکہ چین استحکام اورامن چاہتاہے،اورممکن ہے کہ وہ دہلی اور اسلام آبادکے بیچ “ورکنگ تعلقات”کی بحالی میں کرداراداکرے۔

یوں کہیے کہ عالمی سیاست کی یہ بساط ایک پیچیدہ کھیل ہے جس میں ہرکھلاڑی اپنی چال بدلتارہتاہے۔بھارت کبھی واشنگٹن کا سنگی بنتاہے اورکبھی بیجنگ کی چوکھٹ پرسلامی دیتاہے مگر پاکستان کیلئےاصل سبق یہ ہے کہ اپنی شطرنج اپنی قوت سے کھیلی جائے۔یعنی تقدیرکے صفحے پروہی لکھاجاتاہے جسے قوم اپنے عمل اورعزم سے لکھواناچاہے۔یوں کہیے کہ سیاست کی یہ شطرنج ہرروزنئی چالیں چلتی ہے،لیکن آخری چال ہمیشہ تاریخ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اورتاریخ کاقانون یہی ہے کہ وہ قومیں کامیاب ہوتی ہیں جواپنی بقاکا سامان اپنے اندرسے پیداکرتی ہیں،نہ کہ دوسروں کے سائے میں۔پاکستان کیلئے اصل پیغام یہی ہے: اندیشوں کی زنجیرتوڑو،امکانات کے چراغ جلاؤ،اوراپنی تقدیرکاصفحہ خودلکھو۔

یہ تمام تفصیلات بتاتی ہیں کہ دہلی–بیجنگ قربت وقتی اورمجبوری کے تحت ہے۔پاکستان کواندیشہ کے بجائے امکانات پرنظر رکھنی چاہیے کیونکہ اسلام آباداوربیجنگ کارشتہ محض سفارت کانہیں بلکہ تقدیرکاہے،جسے کوئی وقتی چال بدل نہیں سکتی۔

تاریخ ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ طاقت کااصل سرچشمہ نہ واشنگٹن کی گلیوں میں ہے،نہ بیجنگ کے محلات میں۔اصل قوت اس قوم میں ہے جواپنی صفوں میں اتحادپیداکرے،اپنے وسائل پربھروسہ کرے اوراپنے رب کے وعدوں پریقین رکھے۔چین اوربھارت کایہ قریب آناایک تماشہ بھی ہوسکتاہے اورایک امتحان بھی لیکن پاکستان کیلئے اصل راستہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کے فیصلوں کا تماشائی نہ بنے بلکہ اپنی تقدیرکامعمارخودہو۔قرآن نے فیصلہ کن اصول دے دیاہے:
اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا۔(آل عمران: 160)

لہٰذاہمیں اندیشوں سے زیادہ امکانات پرنظررکھنی چاہیے۔دہلی اوربیجنگ کی قربت وقتی ہے،مگرپاکستان اورچین کی دوستی ایک عہدِوفاہے۔سیاست کے اس بدلتے منظرنامے میں یہی دوستی ہماری ڈھال بھی ہے اورہماری قوت بھی۔ یوں سیاست کی یہ شطرنج آخرکارپاکستان کیلئےایک پیغام چھوڑتی ہے۔

اندیشے زنجیرہیں،امکانات چراغ ہیں؛جوقوم چراغ جلائے گی وہی اندھیروں سے نکل کرروشنی کی منزل پائے گی۔
بروزاتوار13ربیع الآخر5/اکتوبر2025ء

اپنا تبصرہ بھیجیں