The Arch of Doomsday: Israel and the Possibility of World War

قیامت کی چاپ:اسرائیل عالمی جنگ

:Share

اپنے دورِاقتدارمیں ٹرمپ کی طرف سے قبلہ اول کواسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے کی غلطی کی طرف بعدمیں آئیں گے،آئیے پہلے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں۔

دنیاکایہ فیزچھ ہزارسال پرمحیط ہے۔یہودیوں کے مطابق ان کایہ تاریخی کیلنڈرنظام پیدائش کی تخلیق کی داستان اوراس کے بعدکی بائبل کی کہانیوں کے مطابق دنیاکی تخلیق سے لے کر اب تک کے سالوں کی تعداد کاحساب لگانے کی کوشش کرتاہے۔موجودہ عبرانی سال2/اکتوبر2024ءکوشروع ہوا ہے اوراس کااختتام22ستمبر2025ءکوغروبِ آفتاب پرہوگا۔یہودیوں کے کیلنڈرکے مطابق (کتاب ہدایات) یہودیوں کی مقدس کتاب تلمود نے 5785 سال پورے کرلئے ہیں۔یہودی عقیدے کے مطابق دنیاکے خاتمے میں اب صرف 215سال باقی ہیں۔یہ دنیا215سال بعد مکمل طورپرفنا ہوجائے گی۔یہودیوں نے قیامت سے قبل دواہم کام کرنے ہیں،تابوت سکینہ کی تلاش اورہیکل سلیمانی کی تعمیر۔

یہ کہانی حضرت ابراہیمؑ سے شروع ہوتی ہے۔حضرت ابراہیمؑ چالیس سال حضرت اسماعیلؑ کے پاس مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر رہے۔آپؑ نے خانہ کعبہ تعمیرکیااورآپؑ واپس فلسطین تشریف لے گئے،آپؑ نے وہاں اللہ تعالیٰ کادوسراگھربیت المقدس تعمیرفرمایا۔ خانہ کعبہ اوربیت المقدس کی تعمیرکے درمیان چالیس سال کافرق تھا۔حضرت ابراہیمؑ نے فلسطین میں انتقال فرمایا۔آپ کا روضہ مبارک یروشلم کے مضافات میں ہے۔یہ علاقہ حضرت ابرہیمؑ کی مناسبت سے ہیبرون یاالخلیل کہلاتاہے۔حضرت اسحاقؑ اورحضرت یعقوبؑ کے مزارات بھی حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ موجودہیں۔بنی اسرائیل حضرت یعقوبؑ کی اولاد ہیں۔یہ لوگ قحط کاشکار ہوئے، مصرکی طرف نقل مکانی کی،فرعون کی غلامی میں گئے۔سینکڑوں سال ذلت برداشت کی اور33سوسال پہلے حضرت موسٰیؑ کی معیت میں فلسطین واپس آئے۔حضرت داؤدؑنے ہزارسال قبل مسیح میں یروشلم فتح کیااوراسے اپنی سلطنت” کنگڈم آف ڈیوڈ”کا دارالحکومت بنایا۔

حضرت داؤدؑنے بیت المقدس کی بنیادوں پریہودیوں کاعظیم معبدتعمیرکراناشروع کیا،آپ کے بعد حضرت سلیمانؑ نے یہ تعمیر جاری رکھی،حضرت سلیمانؑ کے پاس حضرت موسٰیؑ کا ایک تابوت تھا۔اس تابوت میں پتھرکی وہ دوتختیاں بھی تھیں جواللہ نے حضرت موسٰیؑ پرکوہ طورپراتاری تھیں۔ان تختیوں پراللہ کے دس احکامات درج تھے۔تابوت میں حضرت ہارونؑ کاعصا اوروہ برتن بھی تھا جس سے من وسلویٰ نکلتاتھا۔حضرت سلیمانؑ نے یہ تابوت اس معبدکی بنیادوں میں چھپادیا۔آپ کے دورمیں بڑے بڑے جادوگربھی تھے۔آپ نے اللہ کے حکم پر ان تمام جادوگروں کوقتل کردیااوران کے جادوکے نسخوں کوبھی صندوقوں میں بندکرکے معبدکے نیچے غاروں میں چھپادیا۔

یہودی حضرت سلیمانؑ کے معبدکوہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔یہ ہیکل586قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصرنے تباہ کردیاتھا تاہم اس نے ہیکل سلیمانی کی بیرونی دیوارچھوڑدی۔یہودی اس دیوارکو”کوتل”جبکہ مسلمان دیوارگریہ کہتے ہیں۔یہودیوں کاخیال ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے تابوت سکینہ اور جادوکے نسخے بیت المقدس کے نیچے غاروں میں چھپائے تھے چنانچہ یہ لوگ 3ہزارسال سے بیت المقدس کے نیچے غارکھودرہے ہیں۔یہ بیت المقدس کو گراکرمستقبل میں ہیکل سلیمانی کویہاں تک پھیلانابھی چاہتے ہیں، کیوں؟میں اس کی طرف بھی بعدمیں آؤں گا،پہلے بیت المقدس میں مسلمانوں کی دلچسپی کاذکرناضروری ہے۔

بیت المقدس11فروری624تک مسلمانوں کاقبلہ اوّل تھا۔نبوت کے دسویں سال رجب کی ستائیسویں شب کومعراج کاواقعہ پیش آیا،اللہ نبی اکرم ﷺکومکہ مکرمہ سے یروشلم لے کرآیا، آپﷺنے قبلہ اوّل میں انبیاکرام کی امامت فرمائی۔آپﷺبراق پرتشریف فرماہوئے اوربراق آپﷺکواللہ تعالٰی کے حضورلے گیا۔آپﷺبیت المقدس کے صحن سے آسمان پرتشریف لے گئے تھے،آج بھی وہاں سات فٹ لمبی چالیس فٹ چوڑی اورچھ فٹ اونچی چٹان موجودہے۔یہ چٹان آپﷺکے ساتھ اوپراٹھ گئی تھی لیکن حضرت جبرائیل نے اس پر ہاتھ رکھ کراسے دوبارہ زمین سے جوڑدیاتھا۔چٹان پرحضرت جبرائیل کے ہاتھ کا نشان آج تک موجودہے۔اموی خلیفہ عبدالملک نے 691میں چٹان کے گردسنہرے رنگ کی عمارت بنادی اوریہ عمارت عربی میں قبہ الصخرہ اورانگریزی میں”ڈوم آف دی راک” کہلاتی ہے۔یہ مسلمانوں کے ہاتھوں عرب سے باہرپہلی عمارت تھی اوریہ عمارت آج پوری دنیامیں یروشلم کی پہچان ہے۔

یہ سنہری عمارت قبلہ اوٓل نہیں،بیت المقدس سنہری عمارت سے ذراسے فاصلے پرتہہ خانے میں ہے،آپ کو وہاں جانے کیلئے سیڑھیاں اترناپڑتی ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے آج سے آٹھ سوسال قبل مسجد اقصی کی توسیع کی،یہ توسیع اقصٰی جدیدکہلاتی ہے۔یہودی اس سنہری عمارت اوراقصٰی جدید کوبھی گراناچاہتے ہیں۔یہودیوں کاخیال ہے کہ ہیکل سلیمانی بیت المقدس اوراقصٰی جدیدتک وسیع ہوگا۔یہودیت عیسائیت اوراسلامی عقائدکے مطابق قیامت سے قبل دجال کاظہورہوگا۔یہودی دجال کومسیحاکہتے ہیں جبکہ عیسائی اسے اینٹی کرائسٹ کانام دیتے ہیں،یہ ہیکل سلیمانی کی تعمیرکے بعدظاہرہو گا۔پوری دنیاکے یہودی اسرائیل میں جمع ہوں گے،دجال اسرائیل کو” کنگڈم آف ڈیوڈ”ڈکلیئرکرے گااوردنیاکوفتح کرناشروع کردے گا۔یہ پوری عیسائی اورمسلمان دنیاکوتباہ وبربادکردے گا،یہ جنگ چالیس پچاس سال جاری رہے گی اوردنیاملبے کاڈھیربن جائے گی یہاں تک کہ دنیاکے قدیم ترین شہر دمشق میں حضرت امام مہدیؑ کاظہورہوگا۔فجرکی نمازسے قبل حضرت عیٰسؑی جامعہ امیہ کے سفیدمینارسے اتریں گے اورحضرت امام مہدی کے پیچھے نمازاداکریں گے اوریہ دونوں دجال کے خلاف صف آراہو جائیں گے،بڑی جنگ ہوگی،یہودی اس جنگ کو”آرماگیڈن”کہتے ہیں۔اسلامی عقائدکے مطابق مسلمان یہ جنگ جیت جائیں گے اورفتوحات کے بعداسلامی ریاست بنے گی۔

حضرت عیسی45سال کی زندگی گزارکرانتقال فرمائیں گے۔یہ نبی اکرمﷺکے پہلومیں دفن ہوں گے۔ان کے بعدحضرت مقعدکی حکومت آئے گی،حضرت مقعدکے انتقال کے30 سال بعداچانک سینوں سے قرآن مجیداٹھالیاجائے گا،جس کے بعدقیامت کے آثار شروع ہوجائیں گے جبکہ یہودی عقائدکے مطابق یہ جنگ دجال جیت جائے گاجس کے بعدیروشلم کے مضافات میں”جبل الزیتون” پھٹ کردوحصوں میں تقسیم ہوجائے گی اوریہ قیامت کی پہلی نشانی ہو گی۔جبل الزیتون(ماونٹ آف اولیوز) یروشلم کے مضافات میں ہے اوریہودی اس پہاڑی پردفن ہونااعزازسمجھتے ہیں۔

یہودی دن میں تین باراپنے سیناگوگامیں دجال کی آمدکی دعاکرتے ہیں،یہ دعا”شمونے عسرے”کہلاتی ہے۔یروشلم یہودیوں، عیسائیوں اورمسلمانوں تینوں مذاہب کیلئے مقدس ترین شہرہے کیونکہ یہ انبیاکرام کاشہرہے۔مسلمان 13سال بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازاداکرتے رہے۔یہ شہر حضرت عمرفاروق کے دورمیں فتح ہوااوریہ سینکڑوں سال مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔ سنہری گنبد قبہ الصخرہ آج بھی مسلمانوں کی نشانی بن کریہاں موجود ہے۔یہ شہرقیامت کی اہم ترین نشانیوں میں بھی شامل ہے۔وہ چٹان جومعراج کے وقت براق کے ساتھ اوپراٹھ گئی تھی،وہ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کیلئے مقدس ہے۔یہودی اسے”ماونٹ ماریحا”کہتے ہیں۔یہودیوں کاخیال ہے یہ چٹان دنیاکامقام ِآغازتھا۔

حضرت ابراہیمؑ نے قربانی کیلئے حضرت اسحاق(یہودی عقیدے کے مطابق حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسحاقؑ کوقربان کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ ہم مسلمان حضرت اسماعیلؑ کی قربانی پرایمان رکھتے ہیں)کوبھی اسی چٹان پرلٹایاتھا۔یہودی اگلے تیس برسوں میں بیت المقدس اقصٰی جدیداورسنہری عمارت یہ تینوں عمارتیں گرائیں گے،مسلمانوں کے ساتھ ان کاتصادم ہوگا، دجال کاظہورہوگا،عالمی جنگ شروع ہوگی۔دجال احدکی پہاڑیوں تک پہنچ جائے گا،جبل الزیتون پھٹ کردوحصوں میں تقسیم ہوگی اورپھرقیامت آجائے گی۔ہم مسلمان دجال تک یہودیوں سے متفق ہیں لیکن ہم آخر میں اسلام کے اورمسلمانوں کے غلبے پرایمان رکھتے ہیں۔

ہم اب ڈونلڈ ٹرمپ کی حماقت کی طرف آتے ہیں۔دنیااس وقت دوخوفناک خطرات کے درمیان سانس لے رہی ہے،دنیامیں تباہ کن ہتھیاروں کے انبارلگے ہیں۔کرہ ارض کے چاروں کونوں میں شدت پسندوں کی حکومتیں ہیں،پیوٹن جیساشدت پسندروس میں موجود ہے جوہرحال میں امریکااوریورپ سے اپنی شکست کابدلہ لینے کیلئے موقع کی تلاش میں ہے جس کی ابتداء افغانستان سے روس کاانخلاء اور بعدازاں سوویت یونین کاچھ ٹکڑوں میں تقسیم ہوناوہ بھول نہیں پایا۔امریکااورمغرب شمالی کوریامیں کم جونگ کوایک پاگل ،جنونی حکمران سمجھتاہےجس نے پہلی مرتبہ امریکااوریورپ کوخوفزدہ کرکے اسے اس کی حیثیت یاددلادی ہے،نریندر مودی جیسا شدت پسندبھارت کاوزیر اعظم ہے جوکہ دنیاکے امن کیلئے شدیدخطرہ بناہواہے لیکن اپنی بزدلی کی بناپرسازشوں میں مصروف ہے۔

امریکامیں ایک مرتبہ پھرکملا ہیرس کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ حکومت سنبھالنے کیلئے پرامیدہے اوروہ برملااپنی انتخابی مہم میں جس طرح اسرائیل کامربی بن کراسرائیل کوایران کے ایٹمی پلانٹ کوتباہ کرنے کامشورہ دے رہاہے،اوران دنوں ایران کے بیلسٹک میزائل حملے کے بعدمحسوس بھی یہ ہورہاہے کہ امریکی مددسے اسرائیل کسی بھی وقت ایران پرحملہ کر سکتاہے اوراسرائیل کے وزیردفاع نے عالمی میڈیاپرایران کوخبردارکرتے ہوئے”سرپرائز” دینے کااعلان بھی کیاہے۔

ادھردوسری طرف ایران کے میزائل حملوں کے جواب میں اسرائیل کے وزیر دفاع یووگیلنٹ نے فوجیوں سے خطاب کے دوران ایران کودہمکی دیتے ہوئے خبردارکیاکہ حالیہ ایرانی میزائل حملے کاان کے ملک کاجوابی اقدام “مہلک” اور”حیران کن”ہوگا،وہ سمجھ نہیں پائیں گے کہ کیاہوااورکیسے ہوا۔ایران کوہرحال میں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔دنیا اس حملے کے نتائج دیکھے گی۔حماس اور حزب اللہ کے خلاف بھی حملوں میں مزیدشدت لانے کی دہمکی دی ہے۔3/اکتوبر2024ء جمعرات کوایک ایران نے قطرکے ذریعے امریکاکوایک پیغام بھیجا ہے کہ”یکطرفہ خودکوضبط کرنے کامرحلہ ختم ہوگیاہے اورمزیدبرداشت ہماری قومی سلامتی کے تقاضوں کوغیرمحفوظ بناسکتی ہے،اس لئے آئندہ ایران پرحملے کاغیر روایتی جواب ملے گاجس میں براہِ راست اسرائیلی انفراسٹرکچرکونشانہ بنانابھی شامل ہے”۔

صیہونی چینل12کی مطابق شیطان صفت نیتن یاہونے کابینہ کے متعدد وزراء،یہودی ربائی،اعلیٰ فوجی قیادت،انٹلیجنس ایجنسیوں کے حکام اور عالمی میڈیا کوارڈینیٹرزکو فوری مشاورت کیلئے اپنے دفترمیں بلاکرایک لمبی نشست کے بعدموجودجنگ کانام”آہنی تلوار” سے بدل کرآرماگیڈون یعنی”قیامت کی جنگ”رکھنے کااعلان کیاہے۔دراصل عہدوقدیم وجدیداوراسلامی روایات کے مطابق امام مہدی کے ظہورسے قبل لڑی جانے والی جنگ کانام”آرما گیڈون ” بتایاگیاہے جس میں کروڑوں افرادمارے جائیں گے اوراس کاواضح تذکرہ انجیل میں باب”مکاشفہ یوحنا، آخری جنگ”میں بھی موجودہے۔

شنیدہے کہ عراق اورشام کے ساتھ ساتھ افغانستان میں داعش ایک دفعہ پھرمنظم ہورہی ہے جبکہ پاکستان میں اب تک کئی خودکش حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرچکی ہے۔پاکستان کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں،اسلامی دنیاکی پہلی نیوکلیرریاست ہے جو میزائل ٹیکنالوجی میں دنیامیں ایک ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔دوسراخطرہ اسرائیل اوریہودی ہیں،یہ قیامت کی چاپ سن رہے ہیں۔ یہ روز دن میں تین مرتبہ”شمونے عسرے” کرتے ہیں،یہ اونچی آوازمیں دجال کوآوازدے رہے ہیں چنانچہ بس یہ آوازسننے کی دیر ہے اوریہ دنیاچکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس کربرابرہوجائے گی۔

اگرآپ کویادہوتوٹرمپ کے دورِاقتدارمیں اس کے یہودی نژاددامادجیرالڈکشنرکوایک نئے”لارنس آف عریبیا”کاکردار سونپاگیاکیونکہ وہ سعودی ولی عہدمحمدبن سلمان کابہترین دوست بھی ہے۔وہ کام جویہودی پچھلی سات دہائیوں سے نہ کرسکے،جیرالڈکشنرکی معاونت سے ٹرمپ نےاسرائیل کےمتحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اورمراکش کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کیلئے ثالث کاکرداراداکیاجبکہ سعودی عرب کے ساتھ کئی شعبوں میں تعاون شروع ہوگیاجس میں فضائی سروس سرفہرست ہے۔

ڈونلڈٹرمپ نےاپنے دورِ اقتدارمیں6دسمبر2017 کواچانک اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم شفٹ کرنے کا اعلان کر کے پوری دنیا کو ہلا کررکھ دیاتھااوردنیاکوٹرمپ کے پروانے میں اپنی تباہی صاف نظرآرہی تھی۔میں نے ان دنوں بھی اپنے کالمزمیں متنبہ کیاتھاکہ اسارئیل کوتسلیم کرنے والے ممالک یہ نہ سمجھیں کہ وہ گریٹراسرائیل کے معاملے پربچ سکیں گے۔اسرائیل کی ان اقدامات پریہ دنیاکی تباہی کاعمل شروع ہوجائے گااورہم تیسری عالمی جنگ کا رزق بن جائیں گے۔

12 مہینوں تک جاری رہنے والے انسانی بحران اورتباہی کے بعدبھی اسرائیل کے عوام صدمے کا شکار ہیں اوروہاں آئے دن بڑے پیمانے پراحتجاج ہو رہا ہے،سیاستدان کھل کرنیتن یاہوکی جنگجویانہ پالیسیوں کوآڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔اسرائیل کی معیشت مشکلات کاشکارہے،سیاحت کی صنعت مکمل ٹھپ ہے اوردنیاکے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات اتارچڑھاؤ کاشکارہیں۔مالیاتی ادارے موڈی نے 2024میں اسرائیل کی شرحِ نموکو1.5فیصدتک سکڑنے کی پیش گوئی کی جبکہ ٹائمزآف اسرائیل کے مطابق اسرائیل کی 18 فیصد ورک فورس جنگ کے دوران دفتروں سے غیرحاضررہی ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیل کواس جنگ کے دوران ہردن26.9کروڑڈالرکانقصان ہورہاہے۔ان وجوہات کی بناپراس وقت اسرائیل ایک ایسے لمحے پرکھڑاہے جواس کے مستقبل کاتعین کرسکتاہے۔

نیتن یاہوکی پالیسیوں نےاسرائیل کودیوالیہ کردیاہے لیکن عالمی مالیاتی ادارے فی الحال اس کااعلان کرنے سے گریزکررہے ہیں اوریہی حال اس کے مربی امریکاکابھی ہوچکاہے۔عالمی دفاعی تجزیہ نگاراس اندیشے کاذکرکررہے ہیں کہ ان مشکلات کوچھپانے کیلئے اسرائیل یقینی طورچھپانے کیلئے اس خطے میں امریکاکوباقاعدہ اسی طرح ملوث کرنے کی کوشش کرے گا جس طرح کی غلطی امریکاعراق اورافغانستان میں کرچکاہے۔لیکن اس مرتبہ یہ غلطی کہیں عالمی جنگ کادروازہ نہ کھول دے جس کابہت زیادہ امکان ہے۔

اللہ کے ارشادکوبھی ذہن میں رکھیں:
پھر جب دِیدے پتھرا جائیں گے اورچاندبے نورہوجائے گااورچاندسورج ملاکرایک کردیئے جائیں گے پوچھتا ہے” آخر کب آنا ہے وہ قیامت کا دن؟ اُس وقت یہی انسان کہے گا” کہاں بھاگ کر جاوٴں؟“ ہر گز نہیں، وہاں کوئی جائے پناہ نہ ہوگی، اُس روز تیرے ربّ ہی کے سامنے جا کر ٹھہرنا ہوگا۔ اُس روز انسان کو اس کا سب اگلا پچھلا کیا کرایا بتا دیا جائے گا بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے۔القیامہ(6۔15)

اپنا تبصرہ بھیجیں