گزشتہ ہفتے اپنے ملک کےصدر گوتابایاراجاپکشے اوران کے خاندان کواس صورتِ حال کاذمہ دارٹھہراتے ہوئے ان کی رہائش گاہ پردھاوابول کرآگ لگادی جبکہ راجہ پکشے نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیکراپنےخاندان سمیت فرارہوکرسنگاپور چلےگئے ہیں۔مظاہرین راجاپکشے اوراس کے خاندان کوملکی کرپشن کا ذمہ دارٹھہراتے ہوئے ان پرمقدمے کامطالبہ بھی کررہے ہیں۔سری لنکا اس وقت ایک گہرے اورشدیدمعاشی بحران اورقرض کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اوروہ اب اتنا بڑھ گیاہے کہ روزمرہ کی ضروری اشیاجیسے خوراک، تیل اورادویات لینے کیلئےبھی اسے مشکلات کاسامنا ہے ۔ مظاہرین اس مرتبہ احتجاج میں جہاں راجاپکشے اوران کے خاندان کے خلاف نعرے لگارہے تھے وہاں انہوں نے سخت غصے میں”انڈیااورامریکاکوملک نہ بیچیں”یا”انڈیا،سری لنکاایک ریاست نہیں ہے”اور”انڈیاسری لنکاکی صورتِ حال کاناجائز فائدہ نہ اٹھاؤوغیرہ وغیرہ”کے نعرے بھی لگارہے تھے۔
اگرچہ اس طرح کے انڈیامخالف جذبات ابھی بھی موجودہیں،شایدیہ ضروربدل رہاہے کہ اب سری لنکن باشندے سیاسی اورمعاشی بحران میں انڈیاکوکس طرح دیکھنے لگے ہیں جبکہ سابقہ صدرکے فرارکے بعدپارلیمان نے نئے صدرانیل وکرمسنگھے کومنتخب کرلیاہے۔ سری لنکاکے کچھ سیاسی گروہ اپنے بڑے اورطاقتورپڑوسی ملک انڈیاکی موجودگی کوہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں۔سری لنکامیں اکثریتی سنہالی قوم پرستوں اوربائیں بازوکی جماعتوں کی طرف سے گزشتہ برسوں میں کئی انڈیامخالف مظاہرے بھی ہوئے ہیں لیکن جب سری لنکانے چندماہ قبل اچانک خودکوایک گہرے معاشی بحران میں پایاتواس نے انڈیاکارخ کیا اوردہلی میں(بی جے پی)کی حکومت نے فوراًاس کی مالی مددبھی کی۔ایساپہلی مرتبہ نہیں ہوا،حقیقت میں کسی اورملک یاادارے نے سری لنکاکی اتنی مددنہیں کی جتنی پچھلے سال انڈیانے کی تھی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ سری لنکاکی شدیدمالی ضرورت نےدہلی کو22ملین آبادی والے جزیرے پراپنااثرورسوخ دوبارہ حاصل کرنے میں مددکی ہے۔اس سے پہلے پچھلے15سالوں میں چین بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کیلئےقرضوں اوردیگرقسم کی مالی امداد سے اپنی خاصی اہم جگہ بناچکاہے۔اپوزیشن لیڈر ساجیت پریماداساکے مطابق انڈیانے اس نازک موڑپر ایک بہت اہم کرداراد کیاہے، ہم ایک ملک کے طورپرایک بہت بڑے بحران سے گزرے ہیں ،اورانڈیانے آگے بڑھ کر ہمارا ساتھ دیاہے۔دہلی کولمبوکاایک بڑا تجارتی پارٹنررہاہے،جوانڈیاسے بہت سی مصنوعات،خاص طورپرکھانے کی اشیاء درآمدکرتاہے۔جزیرے پررہنے والی اقلیتی تامل جنوبی انڈیاکی ریاست تامل ناڈوکی آبادی کے ساتھ قریبی ثقافتی اورنسلی روابط رکھتی ہے۔
راجاپکشے کے صدرمنتخب ہونے کے بعد2005سے کولمبوانڈیاکے اثرورسوخ سے دورہوگیاتھا۔ان کےدوسرے دورکے دوران چین کے ساتھ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پرکئی معاہدے ہوئے جس میں جنوبہ قصبے میں ہمبنٹوٹابندرگاہ کوچین کے حوالے کرنے کے بعدانڈیاسے مزیددوری ہوگئی۔ اعدادوشمارکے مطابق سری لنکاکے کل بیرونی قرضوں کاتقریباً10فیصدسے زائدچین نے5ارب ڈالرسے زیادہ کاقرض دے رکھاہے لیکن موجودہ مسائل سے نمٹنے کیلئےاضافی قرضوں کے باوجودسری لنکامیں ایندھن کی شدید قلت ہے اورخوراک کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں۔تاہم بیجنگ نے ابھی تک کسی نئے قرضے کاوعدہ نہیں کیاہے۔
دوسری طرف انڈیانے تقریباً3.5ارب ڈالرکریڈٹ اورکرنسی کے تبادلے کے طورپرفراہم کیے ہیں۔کریڈٹ لائن کی مدمیں اس نے حالیہ مہینوں میں سری لنکاکوانتہائی ضروری ایندھن،خوراک اورکھادبھیجی ہیں۔دہلی کے قرضوں کے علاوہ،ڈی ایم کے پارٹی کے وزیر اعلی ایم کے سٹالن کی قیادت میں تامل ناڈوکی حکومت نے سری لنکاکو خوراک اورادویات بھی بھیجی ہیں۔تامل ناڈومیں سیاسی جماعتوں نے دہلی سے کہاتھاکہ وہ پڑوسی ملک میں بدلتی ہوئی صورتحال پرتبادلہ خیال کرنے کیلئےایک میٹنگ طلب کرے۔ماہرین کاکہناہے کہ انڈیاکی اربوں ڈالرکی مالی امدادسری لنکاکے عوام کے تاثرات میں تبدیلی کاباعث بنی ہے۔
نجی شعبے کے ٹائرون سیباسٹین کے مطابق انڈیا نے بروقت ایندھن اورخوراک بھیج کرسری لنکاکومشکل سے نکالاہے جبکہ سماجی کارکن میلانیاگوناتھیلیکے کہتی ہیں کہ یکجہتی اورحمایت کے شاندارمظاہرے کیلئےوہ انڈیاکی مشکورہیں جبکہ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق انڈیاکے اس فیصلے کی سٹرٹیجک اہمیت سے اسے چین پر سبقت حاصل ہوگئی ہے۔انڈیاکی طرف سے ابتدائی کریڈٹ لائن کے اعلان کے بعد،دونوں ممالک نے جنوری میں شمال مشرقی ٹرنکومالی بندرگاہ میں دوسری جنگ عظیم کے دوران تعمیر کیے گئے61بڑے تیل کے ٹینکوں کومشترکہ طورپرچلانے پراتفاق کیاتھا۔30سال سے زیادہ عرصے سے،انڈیا برطانوی دورکی سہولت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کررہاہے جواسے تیل کے سٹریٹجک ذخائرکوذخیرہ کرنے کے قابل بنائے گا۔اسی طرح ستمبرمیں انڈیاکے اڈانی گروپ کوکولمبو بندرگاہ پرویسٹرن کنٹینرٹرمینل کی تعمیراوراسے چلانے کے معاہدے میں اکثریتی حصہ ملا تھا۔
بائیں بازو کی نیشنل پیپلزپاورالائنس کی رکن پارلیمنٹ ہرینی امرسوریاکے مطابق کوئی بھی ملک بدلے میں کچھ چاہے بغیرہماری مددنہیں کرے گا۔انڈیا یقیناًاپنے مفادات کومدِنظررکھے گا۔انڈیاکی طرح سری لنکاکوبھی ایسے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جو اس کے بہترین مفادمیں ہوں،اوریہ دیکھناباقی ہے کہ کیاملک کواپنے اقتصادی اورسٹریٹجک مقامات پرکنٹرول چھوڑناپڑے گا۔
ماہرین کے مطابق سری لنکا کی تامل اقلیتوں کے حقوق کامطالبہ بھی انڈیاکے ساتھ سفارتی مذاکرات پراثراندازہوتارہے گا۔80ءکی دہائی میں سری لنکاکے بہت سے تامل باغی گروپوں کے انڈیامیں پناہ لینے کے بعددوطرفہ تعلقات میں تناؤپیداہواتھا۔کولمبونے دہلی پرعسکریت پسندوں کواسلحہ اورتربیت فراہم کرنے کاالزام لگایاتھا،جوسری لنکامیں تاملوں کیلئےعلیحدہ وطن کیلئےلڑرہے تھے۔ مئی2009میں باغیوں کی شکست کے ساتھ خانہ جنگی کاخاتمہ ہواتھا۔تاہم،سری لنکا نے ابھی تک1987کے بھارت۔سری لنکا امن معاہدے کومکمل طورپرلاگوکرناہے جس میں نئے قوانین کاوعدہ کیاگیا تھاکہ بشمول تامل اکثریت والے علاقوں تمام صوبوں کواختیارات منتقل ہوں گے۔امراسوریہ کہتی ہیں کہ ماضی میں ہمیشہ یہ تشویش پائی جاتی تھی کہ سیاسی لحاظ سے انڈیاکی طرف سے براہ راست مداخلت ہوتی تھی۔تاہم توقع ہے کہ موجودہ اقتصادی بحران دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی خدشات کوفی الوقت ختم کرے گا۔پہلے ہی متعددسری لنکن معاشی بحران کی وجہ سے تامل ناڈو میں پناہ حاصل کرچکے ہیں اوراگرجزیرے میں معاشی صورت حال مزید خراب ہوئی توان کی تعدادمیں اضافہ ہوسکتاہے۔
ماضی کے مسائل کے باوجود،اکثریتی سنہالابرادری کے زیادہ ترافرادبھی حالیہ مہینوں میں انڈیاکی مددکی تعریف کرتے نظرآئے ہیں۔ سری لنکن کاروباری حلقوں کے مطابق لنکا-انڈین آئل کارپوریشن اب بھی کچھ سپلائی فراہم کررہی ہے جس سے کچھ کام چل رہا ہے۔اگرانڈیانہ ہوتاتوپورے ملک میں ہمارے پٹرول سٹیشن مکمل طورپربندہوچکے ہوتے۔