Smoke, threat, and explosion

دھواں،دہمکی،اوردھماکہ

:Share

جب افقِ تہران پرشب کی سیاہی گہری ہونے لگی،اورفضامیں معلق اذانِ مغرب کی بازگشت ابھی تھمی نہ تھی،اسی لمحے آسمان نے آتش فشاں کی صورت ایک نئی قیامت برپاہوتے دیکھی۔اسرائیلی جارحیت نے ایران کی فضاؤں میں وہ آتش برسادی جس کی چنگاریاں صرف بارودنہیں،بلکہ ایک نئے عالمی بحران کااستعارہ ہیں۔ان حملوں کانشانہ فقط اینٹ وپتھرکی عمارات نہ تھیں،بلکہ وہ نظریے،وہ خواب اوروہ امیدیں تھیں جنہیں ایران برسوں سے اپنی جوہری پیش رفت کی صورت پروان چڑھارہاتھا۔اسرائیل نے تہران اوراس کے گردونواح میں کئی مقامات پرتباہ کن فضائی حملوں میں ایران کاجوہری پروگرام،وزارتِ دفاع کے دفاتر،تحقیقاتی تنصیبات، دیگر حساس عسکری تنصیبات اورتہران کافیول ذخیرہ،سبھی ایک جھلسادینے والے خواب کی مانندراکھ میں بدلنے کا دعویٰ کیاہے۔

ان حملوں کامقصدبظاہرایران کی جوہری استعدادکومحدودکرناتھالیکن درحقیقت یہ حملہ ایک بڑے سیاسی داؤکااظہارتھا،جس کی تہہ میں اسرائیل کی خفیہ حکمتِ عملی اورریجیم چینج کی مہم نظرآتی ہے۔ان حملوں میں ایران کی مسلح افواج کے سربراہ سمیت کئی اعلیٰ عسکری افسران جاں بحق ہوئے،جن کی شہادت نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے کی عسکری وسیاسی فضاپرگہرے اثرات مرتب کرے گی۔نیزان حملوں کے نتیجے میں ایران کی عسکری قیادت میں ایسی شخصیات لقمۂ اجل بنیں،جن کے نام فقط رینک اور وردی نہیں،بلکہ قوم کی عسکری خودداری کااستعارہ تھے۔آذربائیجان صوبہ،جوکل تک باغوں اورپہاڑوں کی کہانی سناتاتھا،آج وہاں کی فضائیں ماتم کناں ہیں۔اکتیس لاشیں،جن میں تیس فوجی اورایک ریڈکراس کارضاکاربھی شامل۔یہ صرف اعدادنہیں،بلکہ انسانی المیے کے نوحے ہیں جنہیں تاریخ رقم کررہی ہے۔

ایران نے بھی خاموشی اختیارنہ کی۔جس طرح دجلہ وفرات کی گہرائیوں سے ابوالانواراٹھاکرتے تھے،ویسے ہی تہران کے عسکری اذہان نے صبرو حکمت کی بجائے قوتِ بازوکوزبان دی۔ایک سوسے زائدمیزائل تل ابیب،حیفااوروسطی اسرائیل کی زمین پرگویاقیامت کی گھنٹیوں کی مانندبرسے۔ حیفاکی آئل ریفائنری میں شعلوں کی وہ زبانیں بلندہوئیں،جنہیں فقط کیمرے ہی نہیں،وقت کی آنکھ نے بھی محفوظ کرلیا۔

ایران نے نہایت شدید اوربروقت ردِعمل دیا۔سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق،ایران نے100سے زائد بیلسٹک اورکروزمیزائل تل ابیب، حیفا اور وسطی اسرائیل پرداغے۔حیفاکی آئل ریفائنری میں لگنے والی آگ کی ویڈیو عالمی میڈیانے تصدیق شدہ قراردی،جس سے حملے کی شدت اورایران کی عسکری مہارت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ایران کے دعوے کے مطابق اسرائیلی حملے میں شہران کے آئل ڈپو اورتہران کے فیول ٹینکس بھی نشانہ بنے ،مگروزارتِ تیل کااصرارہے کہ صورتحال قابومیں ہے۔

اس جوابی حملے میں اسرائیل میں کم ازکم دس افرادکی ہلاکت اورسوسے زائدافرادکے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔اسرائیل میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ تنصیبات کوبھی شدیدنقصان پہنچا۔یہاں محض گنتی نہیں بلکہ وہ زخم ہیں جوایک قوم کی نفسیات پراپنے انمٹ نقوش چھوڑجاتے ہیں۔اسرائیلی معاشرہ صدمے کی اس کیفیت میں مبتلاہے،جہاں نیندایک مجرم بن جاتی ہے اورسکون فقط خوابوں کی بات ہوجاتاہے۔نیتن یاہو،جوماضی میں آہن کی طرح مضبوط دکھائی دیتاتھا،اب پردیس سے حالات کاکنٹرول سنبھالنے اوروہاں سے جنگی صورتحال کوکنٹرول کرنے کی کوشش کررہاہے۔ یقیناً امریکا کی طرف سےمہیاکیاجانے والاآئرن ڈوم بھی اشک بار اورتھرتھرکانپ رہاہے کہ اس کے ناقابل تسخیرہونے کےسب دعوے پرزے ہوگئے۔

اقوام متحدہ میں ایرانی سفیرنے اسرائیلی حملوں میں78افراد ہلاک ہونے کی تصدیق کی،جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔خاص طورپرآذربائیجان صوبے میں31ہلاکتیں ہوئیں،جن میں30 فوجی اورایک ریڈ کراس اہلکارشامل ہیں۔اس سارے تناظرمیں اسرائیلی افواج نے ایرانی عوام کوخبردار کیا کہ وہ فوجی تنصیبات اوران کے اطراف سے دوررہیں۔گویااب جنگ صرف افواج کے مابین نہیں بلکہ شہری علاقوں میں پھیلنے کوہے۔اسرائیلی حملوں کا حتمی مقصد ابھی تک غیرواضح ہے،لیکن مبصرین کے مطابق یہ ایران میں ریجیم چینج کی ایک کوشش ہوسکتی ہے—ایک ایساجُواجوپورے خطے کولپیٹ میں لے سکتاہے۔

ادھرحوثی تحریک نے دعویٰ کیاہے کہ اسرائیل پرحملہ ایران سے مکمل مشاورت کے بعدکیاگیا۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ خطے کی متعددقوتیں اس کشیدگی میں فریق بن چکی ہیں،اوریہ محض ایران واسرائیل کی جنگ نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کامسئلہ بن چکاہے۔

اسرائیلی حملے ایک نئے باب کاآغازہیں یااختتام؟یہ سوال ہنوزجواب طلب ہے۔اسرائیل کاکہناہے کہ حملہ ایران کے اندرسے کیاگیا، جہاں موسادکا نیٹ ورک نہ صرف موجودہے بلکہ فعال بھی ہے۔اس نے ایران پراندرونِ ملک موجودموسادنیٹ ورک کی مدد سے حملے کیے۔اسی نیٹ ورک کی مدد سے اسرائیل پہلے بھی اسماعیل ہنیہ اوردیگرفلسطینی قائدین کوقتل کرچکا ہے۔ایران نے متعدد بھارتی شہریوں سمیت 73افرادکوگرفتارکیاہے جن کا تعلق مبینہ طورپراسی نیٹ ورک سے ہے۔یوں ایران وبھارت،اوربالواسطہ پاکستان کے درمیان ایک نئے زاویے سے کشیدگی کی لہرچل پڑی ہے۔

یہاں پاکستان کاذکربے محل اوردلچسپی سے خالی نہیں ہوگاکہ پاکستان ماضی میں بارہاایران سے یہ شکایت کی ہے کہ انڈین راکے ایجنٹس بلوچستان میں دہشتگردی کی کاروائیاں کررہے ہیں۔بھارتی خفیہ ایجنسی را،ایرانی سرزمین کواستعمال کرتے ہوئے خیبر پختونخواہ میں بھی ٹی ٹی پی کودہشتگردی کیلئے استعمال کرتی ہےاورکلبھوشن کی گرفتاری اس حقیقت کاناقابلِ انکارثبوت ہے۔ ساتھ ہی ایران پریہ الزامات بھی گردش کرتے رہے ہیں کہ اس نے طالبان کوہندوستانی سفارت کاری سے جوڑنے کی سہولت دی، جس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں تیزکردیں۔تاہم حالیہ سہ فریقی اجلاس—پاکستان،چین، افغانستان—کے بعدملااخوندنے جوفتویٰ جاری کیاہے،وہ بظاہردہشتگردوں کیلئےایک انتباہ ہے،اورپاکستان کی امیدوں کاچراغ۔تاہم چین،افغانستان اورپاکستان کے درمیان حالیہ سہ فریقی اجلاس میں ایک مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے۔افغانستان کے امیرملا اخوندنے پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث افرادکوسخت سزائیں دی جائیں گی۔یہ اعلان پاکستان کی سلامتی کیلئےنیک شگون ہے۔

ایران کے میزائل پروگرام پرعالمی پابندیوں کے باوجوداس کی ترقی حیران کن ہے۔”4سوسیکنڈمیں تل ابیب”کے دعوے کے ساتھ ہائپرسونک میزائلوں کی تیاری کاانکشاف دنیاکیلئےایک دھچکاہے۔ریورس انجینئرنگ کے ذریعے ایران نے جوکامیابیاں حاصل کی ہیں،وہ جدیدٹیکنالوجی کی دنیامیں ایک انوکھاتجربہ ہیں۔ایران کایہ دعویٰ کہ اس نے امریکی ایف35طیارہ گرایا ہے اور اسرائیلی خاتون پائلٹ بھی ان کی حراست میں ہے،کئی حلقوں میں حیرت وخوف کاباعث بنا،اورساتھ ہی افواہوں کابازاربھی گرم ہواکہ ایران کویہ ٹیکنالوجی کسی پڑوسی ملک سے ملی ہے۔

خیبر شکن میزائل کی ہلاکت خیزی پربھی توجہ دی گئی ہے۔کہاجاتاہے کہ یہ میزائل تین مراحل میں پھٹتاہے اوراپنے ہدف کومکمل طورپرتباہ کردیتاہے ۔اسرائیلی علاقوں میں اس کے اثرات شدت سے محسوس کیے گئے ہیں۔ایران اگرچہ اپنے میزائل پروگرام کو دنیاکے سامنے فخرسے پیش کرتاہے، لیکن ان کی اصل نوعیت،قوت اوراہداف خفیہ رکھے جاتے ہیں۔

پاسدارانِ انقلاب کادعویٰ ہے کہ ان کے پاس ایسے میزائل اڈے ہیں جوسنگلاخ پہاڑوں کے اندرسرنگوں کی صورت میں تعمیرکیے گئے ہیں،اوروہاں خصوصی انجینئرنگ اورڈرلنگ کے ذریعے ہتھیارذخیرہ کیے گئے ہیں۔ان خفیہ اڈوں کی تفصیلات اگرچہ منظرِ عام پرنہیں آئیں،تاہم ان کی موجودگی ایران کی دفاعی حکمت عملی میں ایک کلیدی کرداراداکرتی ہے۔پاسدارانِ انقلاب نے حالیہ مہینوں میں متعددزیرِزمین میزائل سٹورزیا”میزائل سٹی”کااعتراف کرتے ہوئے متنبہ کیاہے کہ انہوں نے یہ میزائل تمام صوبوں میں منقطع اندازمیں قائم کررکھے ہیں اور ضرورت کے مطابق ان کا استعمال جاری رے گا۔ان میں سے کچھ خاص مراکزمثلاًخرم‌آباد، کرمان شاہ،ہاجی‌آباد،قُم وغیرہ،500میٹرسے کہیں زیادہ انڈرگراؤنڈ ہیں،جہاں ریل پرنصب خودکار “میزائل شاورسسٹم”کے ذریعے5 ایمادمیزائل یکجااورتیزی سے فائرکیے جاسکتے ہیں۔ ایران نے ڈرلنگ اورسرنگوں کاایک ایساخفیہ اورمحفوظ جال بنارکھاہے جہاں ان مستندمراکزمیں ہزاروں میٹرگہرائی میں پیچیدہ سرنگیں اورریل ٹریکس،ٹرانسپورٹرایریٹرلانچرٹرکوں کیلئے کیلئے مخصوص ہیں۔

اسرائیل نے حالیہ حملوں میں یہ دعویٰ کیاہے کہ اس نے کرمان شاہ اورتبرِیزجیسے مغربی بیسزکومخصوص اہداف کیلئےنشانہ بنایا گیا،حالیہ طیارہ وارحملوں کے نتیجے میں کئی جگہوں پرنقصان پہنچانے کادعویٰ بھی کیالیکن ابھی تک کسی آزادذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی تاہم ایران ابھی جوابی حملے انہی بیسزسے ہی کررہاہے جس کی بناءپرعالمی دفاعی تجزیہ نگاراس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ میزائل کے یہ خفیہ اڈے کبھی بھی اس خطے میں حیران کن نتائج لاسکتے ہیں۔

ان مراکزمیں مختلف اقسام کے میزائل اپنے نشانہ پرپروازکرنے کے منتظرہیں،ان میزائل میں خیبرشکن، قدَر،سَجّیل،ایماد،حاج قاسم، پَوہ جیسے بیلسٹک اورکروزمیزائل رکھے گئے ہیں۔جنوبی ساحلی علاقوں میں زیرِزمین بحری میزائل اڈے بھی تعمیرکیے گئے،جن میں گھدر380جیساکم رینج اینٹی وارشپ سسٹم میزائل بھی شامل ہیں۔ پاسدرانِ انقلاب کی اعلیٰ کمان کی حکمتِ عملی کے مطابق ان اڈوں پرموجودمیزائل کبھی بھی توازنِ قوت کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان میزائلوں کو چلانے کیلئے کسی حکم کے منتظرافرادکاکہناہے کہ ان اڈوں پرموجودمیزائل دشمن کی سرزمین پروولکین کی طرح ایک لمحے میں پھٹ سکتے ہیں جویقیناً اضافی فائرپاورمیں توازن کیلئے ضروری ہیں۔یادرہے کہ پاسدارانِ انقلاب نے جنگ سے قبل ہی یہ اعلان کہ یہ نیٹ ورک امریکا واسرائیل سمیت دشمنوں کے احتساب کیلئے تیارہے ۔

ایران کامیزائل نیٹ ورک نہ صرف عسکری قوت کامظہرہے بلکہ خطے میں ایک سیاسی توازن کی دعوت بھی ہے،جہاں زیرِ زمین صلاحیت کسی بھی وقت “آتش فشاں”کی طرح پھٹ سکتی ہے۔اسرائیل کی طرف سے موسادنیٹ ورک کی موجودگی کادعویٰ، اورایرانی گرفتاریوں کاسلسلہ نہ صرف خفیہ جنگ کی پیچیدگیوں کوظاہرکرتاہے بلکہ یہ بتاتاہے کہ ہرفریق نے اس تصادم کو شطرنج کے کھیل کے طورپردیکھاہے۔اسٹیج پرموجودعام شہری بھی، جوان خفیہ نیٹ ورکس اورزیرِزمین سوراخ کی گتھیاں نہیں سمجھ سکتے،وہ وقتِ کارروائی پرریاست کے طاقتورہتھیاربن جاتے ہیں—ایک ایسی سیاسی حقیقت جسے چھپایانہیں جاسکتا۔

ایران کے لب ولہجے میں ایک مظلوم کی جارحیت اورانقلابی شان کی آمیزش پائی جاتی ہے۔جب تہران سے کہاجاتاہے کہ ہم نے صبرکادامن پکڑرکھا تھا،مگراب ہمارے ہاتھ میں شمشیرِ حق ہے،گویالہوکی زبان میں جوہری ایقان ہی ایران کا مؤقف ہے تویہ محض عسکری اعلان نہیں بلکہ ولایتِ فقیہ کی عقیدت آمیزجہت ہے۔پاسدارانِ انقلاب کی طرف سے آنے والے بیانات کی گونج یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہم نے اُن پہاڑوں کوچیرکرراہ نکالی ہے، جن میں کبھی صرف خاموشی بسی تھی۔یہ صرف میزائل بیسزکی انجینئرنگ نہیں بلکہ مزاحمت کی تہذیب کااظہارہے۔ایران کی ہردھمکی،ہردعویٰ — گویاحسینی کربلاکاجدیداظہارہے جہاں ظلم کے خلاف جنگ،ایک دینی فریضہ ہے،اسی لئے جوہری ٹیکنالوجی،ایک عرفانی معراج کادرجہ اختیارکر چکی ہے۔

اب سوال اٹھتاہے کہ ایران یہ صلاحیت کہاں سے لایا؟خیبرشکن میزائل،جس کی تباہ کن صلاحیت کاچرچاہے،وہ تین مرحلوں میں پھٹنے والامہلک ہتھیارہے۔اس کے اثرات تل ابیب کے قلب میں محسوس کیے گئے،اوریہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔کہاجارہاہے کہ ایرانی میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی کارازنہ فقط ریورس انجینئرنگ میں ہے بلکہ ان خفیہ تجربات میں بھی ہے جوسنگلاخ پہاڑوں کے نیچے سرنگوں میں انجام دیے گئے۔پاسدارانِ انقلاب نے کئی باردعویٰ کیاہے کہ ان کے پاس ایسے خفیہ میزائل اڈے موجودہیں جودنیاکی نظروں سے اوجھل ہیں ،لیکن اپنے وارمیں بجلی کی سی تیزی رکھتے ہیں۔

تل ابیب کی زبان میں ایک خوفزدہ خوداعتمادی بولتی ہے۔جب اسرائیلی حکمران اورفوجی سربراہ بڑے تفاخرکے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم نے ایران کی پشت میں خنجرماراہے اوروہ بھی ان کی سرزمین سے،تویہ بات جاسوسی کی صہیونی مکاری اوردھوکہ دہی روایات کافخرہے۔موساد کادعویٰ کہ ایران کے اندر نیٹ ورک موجودہیں،نہ صرف خطے کے ممالک کیلئےخطرے کی گھنٹی ہے بلکہ یہ سائبر،نفسیاتی اوراسٹرٹیجک جنگ کاایساپہلوہے جومیدانِ جنگ سے زیادہ دماغی میزپرکھیلاجاتاہے۔اسرائیلی مؤقف،اپنے وجودکوبچانے کی آڑمیں خطے میں اجارہ داری کے جال کوبھی فروغ دیتاہے۔یہ وجودی خوف اوروسعتِ قبضہ کے درمیان ایک باریک مگرگہراتضادہے اورخودکو بچانے کی جنگ کی آڑمیں ساری دنیاپر اپنے تسلط کاسفرہے جوگریٹراسرائیل کی شکل میں ان کاخواب ہے۔

اسرائیل نے13جون2025میں پہلی مرتبہ اعتراف کیاکہ اس نے ایران کے اندرموسادکا”کلینڈسٹائن ڈرون بیس”قائم کیا،ڈرونزکے ذریعے میزائل لانچرز،ایئرڈیفنس اثاثے نقصان پہنچائے، اورفضائی حملوں کی راہ ہموارکی۔جون کوکیے گئے فضائی حملوں میں یہ اڈابنیادی کھلاڑی سمجھاجاتاہے ۔یادرہے کہ 31جولائی2024کو موساد نے اپنے اسی نیٹ ورک کے توسط سے اسمعیل ہنیہ کوتہران میں شہیدکیاتھا،جہاں وہ ایران کے نومنتخب صدر مسعود پیزشکیان کی حلف برداری میں شریک تھےاوربعدازاں حماس کے دیگر قائدین کوبھی ختم کرنے کی ذمہ داری بھی موساد سے منسوب کرتے ہوئے حماس اورایرانی اعلیٰ عہدیداروں کوشہیدکرنے کادعویٰ کیاہے جبکہ ایران نے اس کے بعد24افراد(جن میں اعلیٰ افسران شامل تھے)کو گرفتار کرتے ہوئے بیس کوناکام کرنے کا دعویٰ کیاتھا۔بعض ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس نیٹ ورک میں کئی انڈین افرادبھی گرفتارکئے گئے تھے جبکہ حالیہ اطلاعات کے مطابق ایران نے ایک مرتبہ پھر موسادکے مبینہ نیٹ ورک کے70+بھارتی شہریت رکھنے والے افرادکوگرفتارکیاہے۔

یہ الزام ایرانی میڈیااورپاسدارانِ انقلاب کی طرف سے سامنے ایاہے جس پرابھی تک اسرائیل اوربھارت کی طرف سے مکمل خاموشی اس بات کامظہرہے کہ ہنودویہودکایہ مشترکہ پلان پاکستان کے ان تمام خدشات کی کھلی تصدیق ہے جس کے بارے مین پاکستان نے مضبوط شواہد کے ساتھ ایران کو مطلع کیاتھالیکن ایران نے اس وقت کوئی خاطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے جس کاخمیازہ اب انہوں نے بھگتاہے۔

دوسری جانب امریکاایک تماشائی کے روپ میں،فقط خبردارکررہاہے۔صدرٹرمپ نے واضح کیاہے کہ وہ اس جنگ کاحصہ نہیں، مگراگرایران نے امریکا پرحملہ کیاتووہ ایسی ضرب لگائیں گے کہ دنیانے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔یوں توٹرمپ کایہ مؤقف کہ ایران پرحالیہ اسرائیلی حملے میں امریکی تائید شامل نہیں لیکن اب تک ایران کودہمکی آمیزاندازمیں ایٹمی صلاحیت کے حصول سے روکنے کیلئے معاہدہ کرنے پرمجبورکرنے کے بیانات اسرائیل کابرملاساتھ نہیں تواورکیاہیں؟

ٹرمپ نے واضح اورمؤثراندازمیں ایران کودہمکی دی ہے کہ”اگرہم پرایران کی طرف سے کسی بھی طرح،یاکسی بھی شکل میں حملہ کیاگیاتوامریکی مسلح افواج کی پوری طاقت سے ایساجواب دیں گے کہ جوتاریخ نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی”۔یہ بیان نہ صرف امریکی مداخلت کااعلان ہے بلکہ اس سے خطے کے تمام فریقین کویہ پیغام جاتاہے کہ امریکافی الحال سیاہ رخ سے سامنے نہیں آیا۔

اگرچہ ٹرمپ نے ظاہراًاعلان کیاکہ ہم اس تنازع میں شامل نہیں مگرتاریخ کاورق بتاتاہے کہ امریکاکبھی بھی محض تماشائی نہیں رہا۔ان کے دہمکی آمیز بیانات کے بعددھندمیں چھپے ہوئے ہاتھ نمایاں ہوگئے ہیں۔”گویاقلم ہاتھ میں نہیں، مگرانگلی بندوق کی لبلبی پرہے”۔امریکی مؤقف بیک وقت ثالثی کالبادہ اورگلوبل جارحیت کاسایہ ہے۔تاہم حیرانی کی بات نہیں۔یہی دو رُخا رویہ،امریکی اسٹرٹیجی کی روح ہے۔ہمیشہ سے یہ دیکھنے میں آیاہے کہ جہاں امن کانعرہ امریکا بہادربلند کرے،وہاں جنگ کی تیاری کاپردہ پوش ہوتاہے۔

ٹرمپ کے یہ بیانات اب تک کے ایک طاقتور ترین فردکی کھلی دہمکی کے سوااورکچھ نہیں کیونکہ یہ الفاظ صرف عسکری و سیاسی بیان بازی نہیں بلکہ ایک عالمی دھماکے کی پیشین گوئی ہیں—جس کاساراامکان امریکی فوج کی وسائل کی مکمل بربادی پرمشتمل ہے۔اس کے ساتھ ہی ٹرمپ کی دہمکی کے ساتھ ہی ڈیل کی پیشکش سفارتی توازن برقراررکھنے کی بھی ایک اوچھی کوشش ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ لفاظی نہ صرف طاقت کے استعمال کارخ کھولتی ہے بلکہ سفارتی راستے کی جانب کھلے دروازہ کی بھی نشاندہی کرتی ہے لیکن یہ کھلادروازہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ کل کلاں اگراسرائیل کمزورپڑجائےاوراسے اپنی سلامتی کیلئے امریکاکی طرف فریادکناں ہوکرجاناپڑے توامریکااپنے اتحادیوں کے توسط سے ان دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کرواسکے جس کاآج انہوں نے ایک مرتبہ پھرپاک وہندکی جنگ بندی کاحوالہ دیتے ہوئے اعلان کیاہے۔

لیکن یادرہے کہ ٹرمپ کادولکیروں کے درمیان محیط بیان جہاں عدم مداخلت کااظہارہے لیکن وہی پرلامتناہی طاقت کے ساتھ حملے کی دہمکی ایران کو واضح اندازمیں ایک انتہائی سنجیدہ چیلنج سے کم نہیں بلکہ خطرے کی وہ گھنٹی ہے جوکبھی جاپان کی تباہی کاموجب بنی تھی۔ٹرمپ کایہ اندازِخطاب امریکی صدورکاعمومی اعلیٰ دھمکی کایہ ویساہی طرزِبیان کی شکن پہ فٹ بیٹھتاہے—جیسے ریگن کاریڈلرزکوناکام بنانے کی دہمکی کے بعدسامنے آیاتھا۔کیونکہ جب صدرطاقت کاایک وعدہ ناکہ کش اور اسی وقت مصالحہ جاتی راستے کاذکر کریں،تویہ ایک شطرنجی پوزیشن کی مانندہے جہاں ہرچال کے پیچھے عالمی مفادات اور عسکری حساب کتاب ہوتاہے۔

صدرٹرمپ کی یہ بیان بازی اس بحران میں چارکلیدی محرکات کی نمائندہ ہے۔عدم مداخلت کاسیاسی شیلڈ،طاقت کی دھمکی کاتاثر، سفارتی راستوں کی دعوت اورعسکری حکمتِ عملی کی آمادگی پر مشتمل ہے۔یہ حکمتِ عملی ایک معتدلانہ عدم شرکت اور جارحانہ دفاع کے مابین باریک لکیرپرمبنی ہے—جہاں لزومی امن اورمکمل طاقت ایک ہی ریسکیو آپریشن کے مانندکھڑے ہیں۔

اگرعدم مداخلت کے سیاسی شیلڈکاتذکرہ کیاجائے توٹرمپ کاابتدائی بیان کہ امریکاکااس حملے سے کوئی تعلق نہیں،ایک سیاسی زرہ بکترہے۔اس اعلان میں سفارتی برأت کاپہلونمایاں ہے—گویاامریکااس خونی شطرنج میں خود کو پیادے کی سطح پردیکھنے کوتیار نہیں۔ یہ پیغام نہ صرف عالمی برادری بلکہ اقوامِ متحدہ، نیٹو،اور اندرونِ ملک امریکی عوام کوبھی دیاگیاکہ ہم جنگ کے آغاز میں شریک نہیں تھے،مگریہی”مگر”آئندہ منظرنامے کی کلیدہے۔ٹرمپ کے یہ الفاظ: “اگرہم پرکسی بھی طرح سے حملہ کیاگیاتوامریکی مسلح افواج پوری طاقت سے ایسا جواب دے جوپہلے کبھی نہیں دیکھی گئی”

صرف دھمکی نہیں بلکہ ایک نفسیاتی اسلحہ ہے۔اس میں”پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی”جیسے جملے مستقبل میں ہیروشیماجیسے مظاہرکی بازگشت سناتے ہیں۔یہ پیغام ایران سے زیادہ روس، چین ،اورشمالی کوریاکوبھی پہنچایاگیاہے کہ امریکی عسکری طاقت اب بھی ایک عالمی ڈنڈہے۔یہ وہ الفاظ کی فضاہے جس میں محض حروف نہیں،بلکہ بارودکی بوبسی ہوئی ہے۔

سفارتی راستوں کی دعوت دیتے ہوئے ٹرمپ کے یہ الفاظ:ہم ایران اوراسرائیل کے درمیان باآسانی ڈیل کرواسکتے ہیں اوراس خونی تنازع کوختم کرسکتے ہیں”یہ دعوت ایک دلچسپ تضاد رکھتی ہے۔ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ ہم شامل نہیں،دوسری طرف وہ ثالثی کادعویٰ کرتے ہیں۔ یہی وہ باریک لکیر ہے جہاں ٹرمپ کی سیاستِ شعلہ آفرینی اورثالثی کاتضادایک خاص امریکی طرزِقیادت کا پتہ دیتاہے۔یہ الفاظ کارپوریٹ سودے بازی کی زبان میں لپٹے ہوئے ہیں،جہاں”ڈیل”کامطلب فقط امن نہیں،بلکہ مفادات کاتوازن ہے۔ٹرمپ کے بیان کاہرلفظ ایک اسٹرٹیجک بلیوپرنٹ کی طرح ہے۔عسکری حکمتِ عملی کی آمادگی پریہ باتیں صرف ممکنہ جنگ کی نہیں بلکہ جنگ روکنے کیلئے جنگ کااعلان بھی ہیں جہاں دشمن کواپنی کمزوری بتانے کی بجائے اپنی ممکنہ ہلاکت خیزی کا آئینہ دکھایاجاتاہے اوریہی ہے جنگ کی وہ سفارت کاری جس کوامریکا استعمال کرنے کی کوشش کررہاہے۔

یہ تمام نکات ملاکرہمیں ٹرمپ کے رویے کی چارجہتی حکمتِ عملی دکھائی دیتی ہے۔امریکاعدم مداخلت کابیانیہ جاری کرتے ہوئے اپنے عالمی اخلاق کی برتری کادعویٰ کرے،دوسراعدم مداخلت کاپہلوسامنے لاتے ہوئے دفاعی بازوکی پیشگی نمائش کرتے ہوئے طاقت کی دہمکی دیکرخوفزدہ کرے۔اپنے بیانات سے تیسرے پہلوکے طورپرعالمی قائدانہ کردارکا بظاہردعویٰ کرتے ہوئے سفارتی ثالثی کاعندیہ دے اوراپنے بیان کواقوام عالم میں اس طورپر تسلیم کروایاجائے کہ وہ ممکنہ تصادم کی روک تھام اوردنیاکوکسی بڑے حادثے سے بچانے کیلئے دونوں ملکوں کومزیدعسکری تباہی سے روکنے کیلئے امن کے ساتھ اپنے تنازعات حل کرنے پرآمادہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہے لیکن یقیناًامریکااوراس کے اتحادیوں کوایران کے اس بیان سے نہ صرف دھچکہ لگا ہے بلکہ پریشان بھی کردیاہے کہ ایران نے امریکاکی طرف سے ثالثی کا پیغام لانے والوں دوملکوں کوجنگ کے دوران کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکارکردیا ہے۔
یہ طرزِحکمت ہمیں ریگن-سوویت دورکی یاددلاتاہے جب”طاقت کے ذریعے امن”کانعرہ بلندکیاگیاتھا۔اگرتاریخی وادبی بصیرت کا سہارالیکریہ کہا جائے کہ یہ وہ طرزِخطاب ہے جس میں امن کی چادرپرجنگ کی سلائیاں چلائی گئی ہوں،اوردلوں کوراضی کرنے کی آڑمیں سینوں کولرزادینے والے نغمے گنگنائے گئے ہوں۔ تاہم دنیایہ جان چکی ہے کہ طاقت اورامن کے متوازی چلتے کاروان میں ٹرمپ کی یہ حکمتِ عملی ایک ایسی مخمصے بھری قیادت کی مظہرہے جوخودکوامن پسندبھی کہتی ہے،جنگ کیلئےتیاربھی رہتی ہے،اورعالمی برتری کاخواب بھی دل میں سجاتی ہے۔یہ حکمتِ عملی لسانی شائستگی کے پردے میں عسکری گھن گرج کوسمیٹتی ہے—ایساامتزاج جوصرف الفاظ کی نہیں،سیاسی طاقت کی زبان ہے۔

برطانوی وزیراعظم سرکیئراسٹارمرکے مہذب الفاظ بھی سامراجی سایہ کوچھپانہ سکے۔”ہم اسرائیل کوجنگی طیاروں کی مدددینے پرپرفی الحال کوئی فیصلہ نہیں کررہے،یہ وہ سفارتی ہنرہے جواستعمار کی پرانی چالوں سے آرااستہ ہے۔نہ ہاں،نہ ناں—صرف ایک گھمبیرخاموشی،جوکسی بڑے طوفان سے پہلے کی فضاجیسی ہے۔یہ مؤقف ہمیں یاددلاتاہے کہ برطانیہ اب بھی خطے کے معاملات میں اپنی پرانی سلطنت کی بازگشت سننا چاہتا ہے،اگرچہ خوداس کاوجوداب نقوشِ ماضی میں شامل ہوتاجارہاہے۔

خطہ اب ایک نئی کشیدگی کی دہلیزپرکھڑاہےجہاں برطانوی وزیراعظم سرکئیرسٹارمرکے بیانات بھی کسی خاص وضاحت سے عاری ہیں—وہ فقط یہ کہہ کرنکل گئے کہ’کشیدگی کم کی جائے‘گویا وہ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ میدانِ جنگ میں کوئی فریق فرشتہ نہیں اورکوئی مظلوم مطلق بھی نہیں۔یہ ساری صورتِ حال ایک ایسے تانے بانے کی مانندہے جس کے ہردھاگے میں خون کی بوندیں چھپی ہیں،اورہرگرہ میں سیاست،عقیدے اورطاقت کازہرگھلا ہوا ہے۔مشرقِ وسطیٰ کاآتش فشاں پھٹ چکاہے۔اب دیکھنایہ ہے کہ راکھ سے کونسی قیادت جنم لیتی ہے،امن کی مشعل یامزیدجنگ کاپرچم؟

روس اگرچہ منظرنامے سے فی الحال پس پردہ ہے،مگراس کی وقتی خاموشی میں مہلک شطرنجی استادچھپاہواہے۔اس کی جیوپولیٹیکل بصیرت یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ ایران کی دفاعی پیشرفت،اوراسرائیلی امریکی قربت کوخاموشی سے برداشت کرے۔ روس کی خاموشی خودایک ناراض شیرکی نیندہے۔ وہ صرف تب بیدارہوتاہے جب شطرنج کی بساط پرکسی کابادشاہ خطرے میں ہو اوریہ خطرہ اب تیزی سے اس لئے بھی بڑھتامحسوس ہو رہا ہے کہ اسے اپنے گھرکے آنگن(یوکرین کے جنگل)میں ہانکالگاکرسیخ پاکردیاگیاہے اوریہ تومشہورمقولہ ہے کہ جنگل کی راجدھانی میں شیرکسی دوسرے کی مداخلت نہ توقبول کرتاہے اورنہ ہی برداشت۔اب اس سے بھلابہترموقع اوراسے کہاں ملے گاجہاں وہ اپنی دھاڑکے ساتھ اپنے خونخوارپنجوں اوردانتوں کی طاقت کا مظاہرہ کرسکے۔

تمام عالمی بیانات کواگرآپس میں جوڑکردیکھاجائے توایک نیازاویہ سامنے آتاہے،یہ محض الفاظ کی جنگ نہیں،بلکہ تصورات کا ٹکراؤہے۔ایرانی بیانئے کی روح یہ ہے کہ خطے میں بالادستی اورنظریاتی قیادت کیلئے شہادت،مزاحمت کاراستہ ہی بقاءکی ضمانت ہے جبکہ اسرائیل اپنے وجودی تحفظ کی آڑمیں جاسوسی برتری کواپناہتھیاربناکراپنے انتقام کی آخری حدوں کوچھورہا ہے جبکہ امریکاطاقت کی دہمکیوں سے خوفزدہ کرکے ثالثی کاتاثردیکراپنی عالمی قیادت اورفوجی فروغ کے ایجنڈے پرعمل درآمدکررہاہے۔اس کے ساتھ ہی برطانیہ محتاظ ثالثی اورسردمفاہمت سے اپنے اثرورسوخ کی بحالی کیلئے سرگرم ہے مگرروس ایک پراسرارخاموشی کی گہرائی میں ڈوب کرمشرقِ وسطیٰ میں اپنی قوت کے توازن کے حصول کیلئے تیاریوں میں مصروف ہے۔

یہ سب کچھ اس بات کاغمازہے کہ مشرقِ وسطیٰ اب کسی بڑے تصادم کی دہلیزپرکھڑاہے۔اب سوال یہ ہے کہ آیایہ تصادم محدود رہے گایاعالمی جنگ کی شکل اختیارکرلے گا؟آیایہ آتش فشاں امن کی راکھ بنے گایاجنگ کے شعلے پوری دنیاکواپنی لپیٹ میں لے لیں گے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں