امریکااورہندوستان کے درمِیان دَس سالہ دفاعی فریم ورک—ایک نوشامِ امن یاجدیدعسکری یُگ کاآغاز؟تاریخ کے افق پرکچھ قومیں ایسی ہیں جوخودکو آزادی کاعلمبردارکہتی ہیں،مگران کے ہاتھوں میں ہمیشہ کسی نہ کسی قوم کی زنجیررہتی ہے۔امریکاکی تاریخ بھی ایسی ہی ایک داستاں ہے—طاقت کے گرجتے مینار،آزادی کے نعروں کی گونج،مگرہرباب کے نیچے ایک وفادار دوست کی قربانی رقم ہے۔
ایران کی مثال لے لیجیے وہی ایران جوکبھی امریکاکاسب سے مضبوط اتحادی، خلیج کانگہبان،اورسردجنگ کاقلعہ سمجھاجاتاتھامگر جب بادشاہت کی شمع بجھی اورعوام کے ہجوم نے تاج وتخت کوگرادیا،توواشنگٹن کے دروازے جوکبھی فرشِ زربنے تھے،اُس شہنشاہ کیلئےبندہوگئے۔امریکانے اپنے سب سے پرانے رفیق کوپناہ تک دینے سے انکارکردیا—وہی دوست جس کی سرزمین پراُس کے فوجی اڈے قائم تھے،اورجس کے خزانے سے واشنگٹن نے دہائیوں تک توانائی لی لیکن اس سے اس طرح آنکھیں پھیر لیں جیسے کہ کبھی اس کوجانتاہی نہیں،اوروہ ایرانی شہنشاہ مصرکے ایک عام ہوٹل کے کمرے میں اس دنیاسے رخصت ہوکرتاریخ میں امریکی بے وفائی کااستعارہ بن گیا۔کاش کوئی اس سے ہی کوئی عبرت حاصل کرلے۔
پھروقت نے کروٹ لی—اورامریکی مفادکی مشعل اس بارپاکستان کے ہاتھ میں تھمادی گئی۔روسی جارحیت کے دنوں میں پاکستان اُس چراغ کی مانندتھاجواپنی روشنی سے دوسرے کاراستہ روشن کرتارہامگرخوداندھیرے میں جلتا گیا۔افغان جہادکے دنوں میں پاکستان نے اپنی سرزمین،اپنی معیشت،اپنے سکون اور اپنی نسلوں کوداؤپرلگاکرامریکاکی اس جنگ کولڑاجس کامیدان افغانستان تھا،مگرقیمت پاکستان نے چکائی اورجب سوویت یونین کاجنازہ نکلااورامریکادنیاکی واحدسپرپاوربن گیا،تواس نے شکریے کے بجائے دروازے بند کرلیے—امدادمنقطع،پابندیاں عائد، اور وہی سرزمین جوکبھی”فرنٹ لائن اسٹیٹ” تھی ،ایک دن اچانک”خطرناک خطہ”کہلانے لگی۔
پھرنائن الیون کاسانحہ آیا—اورایک بارپھرتاریخ نے خودکودہرادیا۔امریکانے پاکستان کودھمکی دی کہ”اگرہماراساتھ نہ دیاتوتمہیں پتھر کے دورمیں پہنچا دیاجائے گا۔پاکستان نے پھروہی کیاجوہر بار کرتاآیا—اپنے بہترین ہمسائےافغانستان کے خلاف جنگ کیلئےاپنی فضا، اپنی زمین،اوراپنے فوجی اڈے کھول دیے لیکن جب امریکانے کابل میں قدم رکھاتواُس کے ساتھ بھارت بھی داخل ہوا—وہی بھارت جو کبھی واشنگٹن کے دائرۂ اثرسے باہرسمجھاجاتاتھااور امریکی موجودگی میں بھارت نے افغانستان کی زمین سے پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے بیج بوئے جوآج بھی معصوم لوگوں کی زندگیوں کاشکارکرکے خونی کانٹوں کی پیداوارمیں مصروف ہیں۔
اسی دوران واشنگٹن نے نئی دہلی کے ساتھ”سول نیوکلیئرمعاہدہ”کیااورپھرچین کے مقابلے میں ایک نئے اتحاد—”کواڈ”—میں بھارت کوشامل کرکے اسے اپنے منصوبوں کامرکزی کردار بنا دیا۔یوں امریکانے ایک بارپھریہ ثابت کردیاکہ اُس کی دوستی ہمیشہ مفادکی زمین پراُگتی ہے،اورجب فصل کٹ جاتی ہے تووہ اپنے کسان کوتنہاچھوڑدیتاہے۔
کوالالمپورکے پس منظرمیں منعقدہ دفاعی کانفرنس کے بعدامریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگسٹھ نے اعلان کیاکہ واشنگٹن اورنئی دہلی نے ایک دہائی پرمحیط دفاعی فریم ورک پردستخط کیے ہیں—ایک ایسا طویل المدتی معاہدہ جودونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعاون کو ایک رسمی اورپالیسی سطح کاڈھانچہ عطاکرتاہے جسے واشنگٹن اور نئی دہلی،خطّے کے استحکام،دفاعی بازدارندگی اورباہمی ہم آہنگی کیلئےسنگِ بنیادقراردے رہے ہیں۔یہ محض نوشتۂ دستخط نہیں،بلکہ خطّے میں طاقت کے نئے خطوط کھینچنے کی کوشش ہے،امریکا کی یوریشیا میں حکمتِ عملی اوربھارت کی بڑھتی ہوئی عسکری اورسٹریٹیجک اہمیت کاایک مشترکہ اظہار۔
ہیگسٹھ نے سوشل پلیٹ فارم پرکہا کہ یہ فریم ورک معلومات کے تبادلے،تکنیکی تعاون اورفوجی ہم آہنگی کوبڑھانے کیلئےبنایاگیاہے —ایک بیان جوروایتی طورپرسفارتی زبان میں بھی سخت معنی رکھتاہے۔شکستِ جنگ کی بجائے طاقت کےتوازنِ کوقائم کرناجو خطّے میں اضافی انتشارکوروک سکے۔ ہیگسٹھ نے سوشل پلیٹ فارم پراپنے پیغام میں واضح کیاکہ یہ فریم ورک علاقائی استحکام اور’ڈیٹرنس‘تکنیکی تعاون اورفوجی ہم آہنگی کوبڑھانے کیلئےبنایاگیاہے یعنی ایک ایسا بیان جوروایتی طورپرسفارتی زبان میں بھی سخت معنی رکھتاہے جوشوروغوغاکی بجائے فعالیتِ روابط پرزوردیتاہے معلومات کے تبادلے،تکنیکی تعاون، اورفوجی ہم آہنگی۔یہ اصطلاحات بظاہرخشک نظرآتی ہیں،مگران کے اندروہ پیمانے چھُپے ہیں جوبحرِالکاہل کے جغرافیے کونئے معنوں سے سنوارتے ہیں اورخطے میں اپنی بالادستی کیلئے اپنے ارادوں کی کہانی بھی بیان کرتے ہیں۔
جسمانی طور پردستخط ہونے والامعاہدہ محض کاغذنہیں؛اس کے تحت مسلح افواج کی آپریشنل مطابقت،اڈوں اورلاجسٹکس تک رسائی، اورتکنیکی اشتراک وہ ستون ہیں جوایک نئی عسکری معیشت کوجنم دے سکتے ہیں—بالخصوص اُس منظرنامے میں جہاں امریکااور بھارت دونوں ہی چین کی بحری اوراسٹریٹیجک حرکات کوروکنے کی خواہش رکھتے ہیں۔(نیزواضح رہے کہ یہ بیانیہ خطّے میں قُوتِ مؤثرہ کے توازن کوسنوارنے کی کوشش ہے۔)
اس معاہدے کووسیع ترتناظرمیں دیکھاجائے تواس کاایک بڑامقصدچینی اثرِرسوخ کے خلاف ایک مربوط مقابلہ تیارکرناہے۔بیلٹ اینڈ روڈانیشیٹوکی اقتصادی بُنیادوں کے ساتھ ساتھ چین کی فوجی توسیع کوروکنے کیلئےایک عسکری وسٹریٹیجک بیانیہ ترتیب دیاجارہا ہے۔یوں یہ فریم ورک محض دوفریقوں کا معاہدہ نہیں بلکہ ایک علاقائی توازنِ طاقت کاحصہ بننے کی جستجوہے۔
فریم ورک کی ساخت—کلیدی شقیں اوراُن کاسیاسی مفہوم کی جوبنیادی شقیں منظرعام پرآئیں،وہ درجِ ذیل ستون تشکیل دیتی ہیں۔بہتر ملٹری انٹر آپریبلٹی(اڈوں،لاجِسٹک نیٹ ورکس، دیکھ بھال کی سہولیات تک باہمی رسائی)،مشترکہ پیداواراورٹیکنالوجی کی منتقلی (بھارت کی دفاعی صنعت کومقامی سطح پرتقویت)اورعلاقائی سیکیورٹی کومربوط کرنا۔ان شقوں کامطلب یہ ہے کہ جغرافیائی قربت کے بجائے آپریشنل قربت بڑھے گی— فوجی سازوسامان، تربیت اورعسکری رسائی میں باہمی ہم آہنگی لاحق ہوگی۔
معاہدے کے اہم پہلوؤں میں بہترفوجی انٹرآپریبلٹی،یعنی اَڈّوں،لاجسٹک نیٹ ورکس اوردیکھ بھال کی سہولیات کاباہمی اشتراک شامل ہیں۔مشترکہ پیداوار وٹیکنالوجی کی منتقلی تاکہ ہندوستان کی دفاعی صنعت کومقامی طورپرتقویت ملے؛علاقائی سیکورٹی تعاون،خاص طورپرہند-بحرالکاہل میں چین کی بڑھتی فوجی واقتصادی پُورٹ فولیوکے خلاف توازن قائم کرنے کے ارادوں کوروکنا سب سے اہم ہے۔
جاپان اورآسٹریلیاکے ساتھ عسکری قُوت کومربوط کرکے کواڈاتحادکومضبوط بنانا؛اوربالعموم بی آرآئی جیسے اقتصادی منصوبوں کے اثرات کا تدارک۔یہ شقیں ایک سیاسی مملکت نگاری کانقشہ پیش کرتی ہیں جومحض فوجی نہیں بلکہ جغرافیائی سیاسی حکمتِ عملی کا اظہاربھی ہے۔اس کیلئے معاہدہ کواڈکے اندرتجارتی ودفاعی روابط کومزیدمربوط کرنے،جاپان اورآسٹریلیاکے ساتھ مشترکہ حکمتِ عملی ترتیب دینے اورسمندری حفاظت میں تعاون بڑھانے کی سمت میں مشترکہ کاروائیوں کاپلان بھی شامل ہے۔اس کامطلب کوئی نیافوجی بلاک نہیں بلکہ فوجی اورسیاسی مشقوں کے ذریعے ایک مشترکہ واضح حکمت بننے کاامکان زیادہ ہوتاجارہاہے۔
شروعِ دن سے میں نے اپنے پروگرامز اورمضامین میں اِشارہ کیاتھا کہ حالیہ مودی-امریکا کاروباری تنازعے محض ایک نوراکشتی ہیں اوراس کی آڑمیں زیادہ تراکثر پردۂ نِقاب کے پیچھے باقی رہ جاتاہے—یہ معاہدہ اس بات کاعملی ثبوت ہے کہ تضادِ منظرنامہ میں بھی گہری سٹریٹیجی غالب رہ سکتی ہے۔یہاں ہمیں یاد رکھناچاہیے کہ سفارتی منظرناموں میں دکھاوے کی ہم کشتی اکثر عملِ پالیسی کے ساتھ مطابقت اختیار کرجاتی ہے۔اس نوراکشتی کوسمجھنے کیلئے چابہاربندرگاہ کے مسئلے میں امریکی رعایت ایک نازک اورمعنی خیزشق ہے۔امریکانے بعض مواقع پرایران میں بھارت کے اس بندرگاہی پروجیکٹ کے سلسلے میں نرم رویہ اختیارکیا،جس سے نئی دہلی کو وسطی ایشیا اورافغانستان تک کمرشل واسٹریٹجک رسائی بر قراررکھنے میں مددملے گی۔اس رعایت کامطلب یہ ہے کہ دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ واشنگٹن بعض اوقات اقتصادی واسٹراٹیجک مفادات کے تقاضوں کے پیشِ نظرلچک دکھانااس لئے بھی ضرری ہے تاکہ بھارت کوایران اورافغانستان میں مکمل رسائی رہے۔
چابہارکے سلسلے میں اس مہینے واشنگٹن نے نئی دہلی کوکچھ مدت کیلئےرعایت عطاکی ہے،جس نے ایران میں بھارت کے مفادات کووقتی طورپرسانس لینے کی گنجائش مل گئی ہے—یہ رعایت اس بات کی علامت بھی ہے کہ اقتصادی اورفوجی مفادات ایک دوسرے کے متوازی چل رہے ہیں،اورواشنگٹن بعض اوقات علاقائی نیٹ ورکس میں ہندوستان کو شراکت دارسمجھ کرنرم لچک دکھانااس لئے بھی ضروری سمجھتاہے تاکہ خطے کے ممالک یعنی ایران اورپاکستان پردباؤرہے کہ امریکااپنے سارے انڈے ایک ہی برتن میں نہیں رکھتابلکہ اپنے مفادات کیلئے کبھی بھی آنکھیں پھیرلینااس کاتاریخی وطیرہ ہے۔
غزہ میں پاکستانی افواج کی تعیناتی کی افواہیں حالیہ دنوں میں گرم ہیں اورآرمی چیف کے اردن ومصردوروں نے قیاس آرائیوں کو مزیدہوادی ہے البتہ قومی سطح پرایسے کسی باضابطہ اعلان یا پیغام تک رسائی محدودرہی؛بعض ذرائع اس بارے میں بیانات یارپورٹس دے رہے ہیں مگرسرکاری طورپرحتمی فیصلہ یاپارلیمانی منظوری جیسے عمل کاذکرلازم ہے۔یعنی فیصلہ متعلقہ اداروں اورپارلیمنٹ کے ذریعے لیاجائے گا،جس سے ظاہرہوتاہے کہ معاملہ ابھی مکمل طے شدہ نہیں۔
تاہم بین الاقوامی سطح پرایسی افواہوں کے بارے میں احتیاط لازم ہے بعض اوقات باضابطہ اعلانات،بعض اوقات میڈیا تذکّرات، اور بعض اوقات محض ذِرائع کی افواہیں ہی منظرِ عام پرآ جاتی ہیں۔اِس اعتبارسے،دعوؤں اورباضابطہ دستاویزات میں فرق کونمایاں کرنا ضروری ہےاورجب تک مستند بیانات نہ ہوں،انہیں بیانیہ یاقیاسِ خالص قراردیناعلمی دیانت کے خلاف ہوگا۔(مزید برآں،صدر ٹرمپ کی جانب سے جنرل عاصم کی تعریف کی خبریں بھی منظرِعام پرآئی ہیں؛مگراس کامطلب یہ نہیں کہ فوراًفوجی تعیناتی کامنصوبہ اسی تعریف کامنطقی نتیجہ ہے۔
یواین یاامریکی-منظورکردہ کسی بھی’امن فورس’کی بابت اردن کے شاہ نے واضح کیاہے کہ اردن اپنی فوجی شمولیت کے خطرہ کو مول لینے کامتحمل نہیں ہو گا ؛ اس بیانیہ میں ایک تاریخی وجہ بھی پوشیدہ ہے۔اردن کے سماجی ونسلی ڈھانچے میں فلسطینی آبادی کا بڑاحصہ شامل ہے،لہٰذااشرافی یاسیاسی فیصلہ آسانی سے نہیں لیاجاسکتا۔
اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے واضح الفاظ میں کہاہے کہ اردن خودبراہِ راست غزہ میں’نفاذِامن‘کیلئےفوجی شمولیت نہیں کرے گا،اور اگرکوئی بین الاقوامی فورس تعینات ہوتی بھی ہے تو اسے’نفاذِ امن‘کی بجائے امدادی وتربیتی کردارمیں ہوناچاہیے۔ان کے بیانات کاپس منظریہ ہے کہ اردن کی سیاسی سماجی ساخت اورعلاقائی حساسیت اس طرح کی فورس کوقبول نہیں کرتی۔شنیدیہ ہے کہ امریکااور اسرائیل سمیت دیگرمغربی ممالک غزہ میں پاکستانی فوج کے ذریعے حماس کواسلحہ سے بالکل پاک اوربیدخل کرنے کاکام لیناچاہتے ہیں جوکہ ایک خونریزجنگ کاسبب بھی بن سکتاہے۔
امریکی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے پاکستانی فوجیوں یاجرنیلوں کی تعریفیں کبھی کبھارسفارتی یاپالیسی سازانہ آرزوؤں کی عکاسی کرتی ہیں،مگریہ تعریفیں خودکاراندازمیں کسی فوجی تعیناتی یامداخلت کاثبوت نہیں ہوتیں۔اگرٹرمپ یادیگررہنماؤں نے جنرل عاصم کی تعریف کی ہوتواسے ایک الگ سفارتی اشارے کے طورپرلیناچاہیے—اس کامطلب یہ نہیں کہ فوراًزمین پرفوجی مشن پارلیمانی منظوری اورعلاقائی رضامندی کے بغیرعمل میں آئے گا۔
پاکستانی فوج کی عالمی اسٹیج پرکسی کردارکے امکان کومحض ایک ریاستی معاہدے سے نہیں ناپاجاسکتا—اندرونی سیاسی میل جول، سول-ملٹری تعلقات، اور علاقائی مفادات سب مل کر فیصلہ سازفضاقائم کرتے ہیں۔بین الاقوامی سرکس میں کسی فوجی شمولیت کے اشارے جب سنائے جاتے ہیں تواُنہیں مقامی بُنیاد اوربیرونی دباؤدونوں کے تناظرمیں سمجھناپڑتاہے۔اسی لیے ٹرمپ یادیگرلیڈرزکی تعریفیں الگ،اوررسمی دستاویزات وتعینات الگ معاملہ ہوتے ہیں۔
یہ دورمسلح تعاون اورسفارتی پیچیدگیوں کادورہے،جہاں کاغذپردستخط ایک نئے باب کاآغازبھی ہوسکتے ہیں اورمحض بیانیہ بھی۔دَس سالہ دفاعی فریم ورک، چابہارپرامریکی رعایت،اردن کے شاہ کاانکار،اورپاکستان کے تعلقات—یہ سب ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے دھاگے ہیں جوہمیں بتاتے ہیں کہ جنوبی ایشیااورہند-بحرالکاہل میں طاقت کی نئی ترتیبات وجود میں آرہی ہیں۔ہمیں محتاطِ حقیقت نگاری کی ضرورت ہے افواہوں اورباضابطہ بیانات میں فرق واضح رکھیں،اوریادرکھیں کہ سیاسی بیانیہ اکثرظاہری کشاکش کے پیچھے طویل المدتی مفادات کوفروغ دیتا ہے۔
آج جب امریکااوربھارت کے درمیان دس سالہ دفاعی معاہدہ طے پایاہے،توتاریخ کے وہ سارے زخم پھرسے تازہ ہوگئے ہیں۔یہ منظر ہمیں بتاتاہے کہ سامراج کبھی نہیں بدلتاصرف اُس کے لبادے بدلتے ہیں۔ایران کبھی امریکاکامحورتھا،مگرتخت الٹتے ہی وہ بوجھ بن گیا۔پاکستان نے امریکی مفادات کی حفاظت کیلئےاپنے لاکھوں جوانوں،اپنے امن، اپنی معیشت،اوراپنے نظریے تک قربان کیے،مگر بدلے میں اُسے الزام،مشکوک نظروں اوردہشتگردی کا طوق ملااورآج جب امریکانئی دہلی کے ساتھ تزویراتی رشتہ استوارکررہاہے،تو یہ ہمیں اُس پرانی مثل یاددلاتا ہے کہ“بازجب جھپٹتاہے توشکرکی تلاش میں نہیں،شکارکی نیت سے جھپٹتاہے”۔
دنیاکے نقشے پرطاقت کامرکزبدل رہاہے،مگرامریکاکی سیاست کااصول اب بھی وہی ہے اپنے کام کیلئےدوستی کرو،اورکام نکلنے کے بعددوستی دفن کردو۔ ایران سے لے کرپاکستان تک، افغانستان سے عراق تک—ہرجگہ ایک جیسی کہانی لکھی گئی۔پہلے امیدوں کے چراغ روشن کیے گئے،پھرانہی چراغوں سے ماضی کوراکھ کردیاگیا۔آج پاکستان ایک نئے دوراہے پرکھڑا ہے۔تاریخ ایک بارپھر دروازہ کھٹکھٹارہی ہے۔کیاہم پھرکسی اورکے مفادکاایندھن بنیں گے؟ یااس بارہم اپنے مفاد، اپنی خودمختاری،اوراپنی تاریخ کے سائے میں فیصلہ کریں گے؟یہ فیصلہ پاکستان کے اہلِ فکر،اہلِ سیاست،اوراہلِ قلم کے ہاتھ میں ہے۔
اگرہم نے ماضی کی خاک سے سبق نہ لیاتوآنے والاوقت ہمیں بھی اُن دوستوں کی صف میں لکھ دے گاجنہیں امریکانے اپنے مقصدکے بعدتاریخ کے کچرے دان میں پھینک دیا۔