Preaching Time

وقتِ منادی

:Share

عجیب بندہْ رب تھاوہ۔بہت گہرا،بہت پرت تھے اس کے،ہرپل نیارنگ لئے……..کبھی موسیقی کی محفل میں،کبھی مسجدمیں،کبھی کسی درگاہ پر اور کبھی کسی خانقاہ میں،کبھی تلقین شاہ اورکبھی گڈریا……رنگ ہی رنگ،پرتیں ہی پرتیں…..نیاپل نیاروپ اورنیا آہنگ،اورآخری عمرمیں وہ پی ٹی وی کامشہور پروگرام “زاویہ”کرنے لگا۔یہ زاویہ کیاہوتاہے؟پھرکبھی بات کریں گے۔اپنی ایک کتاب “بابا صاحبا”جوبڑی محبت سے مجھے ایک نصیحت کے ساتھ عنائت کی تھی،اس میں اپنے ایک بابے جناب سائیں فضل شاہ کاتذکرہ بہت عقیدت اورانتہائی محبت سے کیاہے۔جی!بالکل صحیح پہچاناآپ نے، میں بابااشفاق احمد ہی کی بات کررہاہوں،داستان سرائے والے اشفاق احمد،جن کے ارد گردہروقت ایک مجمع لگارہتاتھا،جوہروقت دنیاکی مثالیں دیکرعاجزی کا درس دیتے رہتے تھے۔

ثمودکے لوگ اپنے تئیں تکبرکے مارے ہوئے لوگ تھے جوپہاڑوں کوتراش کران میں نہائت خوبصورت محلات تعمیرکرتے تھے۔وہ ایک بگڑی ہوئی قوم تھی، دولت کی فراوانی اورسرسبزوشاداب علاقے کے مالک ہونے نے ان میں بڑی خرابی پیداکردی تھی۔ان تک االلہ کاپیغام پہنچانااوران کوراہِ راست پرلانا حضرت صالح علیہ السلام کوسونپاگیا۔اْن کی قوم کواعتراض تھاکہ ان جیساانسان جوبازاروں میں چلتاپھرتاہے اوراوپرسے یہ کہ غریب آدمی ہے،کس طرح اللہ کانبی ہوسکتاہے!وہ یہی بات باربار دہراتے تھے:اگرتم سربلندہوتے اورتمہارے ہماری طرح اونچے محلات ہوتے،تم نے بھی ہماری طرح کوئی شاندار عمارت بنائی ہوتی توشایدہم تمہیں اپناپیغمبرمان لیتے،لیکن تمہاری اقتصادی حالت چونکہ بہترنہیں اس لئے تمہاری دعوت ناقابلِ قبول ہے۔بالکل ایسے ہی جیسے ہم بار بار ہر چیز کی وجہ اقتصادیات کو بتاتے ہیں۔ہر بار پلٹ کر اکنامکس……!ہماری اکانومی کمزورہے اس لئے کام نہیں کرسکتے،نیک نہیں بن سکتے، اچھاانسان نہیں بن سکتے،وغیرہ وغیرہ۔

حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا:”میں اس ہدائت کے کام کااجرصرف اللہ سے چاہتاہوں،تم سے نہیں”۔مگران کی بدبختی،انہوں نے پیغمبرسے کوئی معجزہ چاہاکہ کوئی معجزہ دکھائیں۔حضرت صالح علیہ السلام نے شرط قبول کرلی مگرساتھ ہی تنبیہ کی کہ معجزہ آجانے کے بعدبھی اگروہ ایمان نہ لائے اوراپنی روش نہ بدلی توعذاب آجائے گا،اس لئے اگرمعجزہ مانگ لیاجائے اوروہ نموداربھی ہوجائے اورپھربات بھی نہ مانی جائے توعذاب طے شدہ بات ہے۔ان ظالموں نے چاہاکہ کروڑوں برسوں سے کھڑے چٹیل اورچکنے مضبوط پہاڑوں سے حضرت صالح علیہ السلام کارب اونٹنی پیداکردے اوروہ اونٹنی اْن کے ساتھ بستی میں رہے،تب وہ آپ کواللہ کا پیغمبرمان لیں گے۔

حضرت صالح علیہ السلام نے اللہ سے دعافرمائی کہ شاید یہ معجزہ ان لوگوں کی ہدائت اورفائدے کاسبب بن جائے،اورپھریہی ہوا، پہاڑوں کے قد کاٹھ والی چاندی جیسی اونٹنی رب کریم کے حکم سے نمودارہوئی اورلوگوں کے درمیان چلنے پھرنے لگی،لوگ حیرانی سے اسے دیکھنے لگے۔حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا”تمہاری خواہش کے مطابق پہاڑوں سے یہ اونٹنی اللہ تعالیٰ نے پیدافرمادی ہے مگریہ چونکہ اللہ کی مہمان ہے لہندااللہ نے یہ شرط عائدکی ہے کہ بستی کے کنوئیں سے ایک دن یہ پانی پئے گی اور کوئی دوسراانسان،چرندپرندکنوئیں سے پانی نہیں لے سکے گا،دوسرے دن تمام بستی کے لوگ لے سکیں گے۔ “انہوں نے مزیدیہ فرمایا کہ”یہ ہماری معززترین مہمان ہے اوراس لئے اس کی دیکھ بھال ہماری ذمہ داری اورفرض ہے۔”بستی والوں نے یہ شرط قبول کرلی مگر تھوڑے ہی دنوں میں اس شرط سے بیزارہوکرگویااللہ سے کئے گئے وعدے سے مکرگئے کہ اس اونٹنی کی کیاحیثیت ہے کہ ہم اس سے بندھ کررہ گئے اور انہوں نے طے کیاکہ کس طرح اس اونٹنی کاقلع قمع کردیں۔پھرایک رات انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ کراپاہج کردیااوراگلے دن پانی پینے نہ جاسکی۔

حضرت صالح علیہ السلام کوجب اس بات کاعلم ہواتوانہوں نے اپنی قوم سے کہاکہ یہ بہت براہوا،تم نے نہ صرف معجزے کوجھٹلایا بلکہ اس اللہ کے مہمان کے ساتھ بھی اچھاسلوک نہیں کیا،اب تین دن کے اندراندرتمہاراقلع قمع اورتم نیست ونابودہوجاؤگے،پھرآنے والی تاریخ میں لوگ انگلیاں اٹھااٹھاکربتایاکریں گے کہ”یہ ثمودکے رہنے کی جگہ تھی اوریہ ان کے محلات تھے جوویران پڑے ہیں اورقیامت تک ویران پڑے رہیں گے۔”چنانچہ جیسافرمایاگیا، ویسے ہی ہوا ۔پہلے دن ان کے منہ پیلے ہوئے،اگلے دن سرخ اوراس کے بعدکالے سیاہ پڑگئے۔پھرایک زبردست چنگھاڑسنائی دی اوروہ سارے اوندھے منہ گرگئے اور نیست ونابودہوگئے۔

ایک دن سخت تیزدھوپ تھی،پہاڑی علاقہ تھا،میں گلے میں صافہ ڈالے سائیں فضل شاہ کے روبروکھڑاتھا۔وہ کہہ رہے تھے:میں نے تمہیں تنبیہ کرنے کیلئے بلایاہے،تم لوگوں نے بڑی خوفناک منزل کی طرف رجوع کرلیاہے،لوگوں کوبڑی بڑی ٹھارٹھارکرباتیں سناتے ہو،ہم نے یہ کیا،ہم نے وہ کیا،ایسی سیاست کی،ایسے قائدکے پیچھے چلے،ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔میں تم کوبتاتاہوں یہ پاکستان ایک معجزہ ہے،یہ جغرافیائی حقیقت نہیں ہے۔میں تمہیں تنبیہ کرتا ہوں اس طرح مت کرو،پاکستان کاوجودمیں آنااتنابڑامعجزہ تھاجیسے قومِ عادوثمودکیلئے اونٹنی کاپیداہونا۔اگرتم اس پاکستان کوحضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سمجھنا چھوڑ دوگے تونہ تم رہوگے اورنہ تمہاری یادیں۔”انہوں نے میرے صافے کوجوگلے میں موجودتھا،کس کرپکڑرکھاتھابلکہ کھینچ رہے تھے،پھرانہوں نے فرمایا:

تم نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے ساتھ اچھاسلوک نہیں کیا،باون برس گزرگئے(اب 2021ءمیں تو74سال ہوگئے ہیں)اس کے ساتھ ویساہی سلوک روارکھاہے جوقومِ ثمودنے کیاتھا۔اندرکے رہنے والو ں اورباہرکے رہنے والوں دونوں کوتنبیہ کرتاہوں کہ سنبھل جاؤ،ورنہ وقت بہت کم ہے۔اس اونٹنی سے جوکچھ لوٹااورچھیناہے،اسے واپس لوٹادو،اورمیں باہرکے رہنے والوں اورساؤتھ ایشیامیں سارے ملکوں کوتنبیہ کرتاہوں کہ وہ پاکستان کوکوئی عام چھوٹا ساجغرافیائی ملک سمجھناچھوڑدیں،پاکستان حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی ہے،ہم سب پراس کاادب واحترام واجب ہے،اس کومعمولی ملک نہ سمجھو، اس کی طرف رخ کرکے کھڑے رہنااوراب تک جوکوتاہیاں ہوئی ہیں اس کی معافی مانگواوراس کوتاہی کاازالہ کرنے میں کوئی تاخیرنہ کرو۔”

میں ان کی کسی بات کاجواب نہ دے سکا،خوفزدہ ہوکرکھڑارہااورسلام کرکے،سرجھکاکرواپس چلاآیا۔ مملکتِ خدادادپاکستان کومٹانے والے انشاءاللہ خودمٹ جائیں گے،جس سے جوکوتاہی ہوئی ہے وہ موت سے پہلے اس کاازالہ کرے ورنہ اللہ کے حضورجواب دہی کیلئے تیاررہے۔سدا خوش رہیں،آبادوشاداب رہیں ۔ منادی کاکام کررہاہوں،شایدکسی کے دل پرکوئی اثر پڑجائے اورمیرابھی بھلاہوجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں