اللہ تعالیٰ نے انسان کواپنی عبادت کیلئےپیداکیااوراس عبادت کاسب سے اہم ذریعہ نمازہے لیکن بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیداہوتاہے کہ ہم نمازکیوں پڑھیں؟آیایہ اللہ کے خوف سے ہے؟جہنم کے عذاب سے بچنے کیلئے؟ جنت کے حصول کیلئے؟یا محض ایک فرض کی تکمیل کیلئے؟ سب سے پہلے اس سوال کاجواب دیتے ہیں کہ:
٭”میں نمازکیوں پڑھوں؟”
نمازاسلام کاایک بنیادی رکن ہے،جس کی فرضیت پرقرآن وحدیث میں واضح احکام اوردلائل موجودہیں۔نمازکی فرضیت کابنیادی مقصداللہ کی بندگی اوراس کے ساتھ تعلق کومضبوط کرناہے۔قرآن میں ارشادہے:
نمازقائم کرو،زکوٰة دواورجولوگ میرے آگے جھک رہے ہیں،ان کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ۔(البقرہ:43)
نمازانسان کومادی دنیاسے اکھاڑکرروحانی پاکیزگی اورخودشناسی کی طرف لے جاتی ہے۔جدیدتحقیق کے مطابق،نمازذہنی سکون، توجہ مرکوزکرنے کی صلاحیت،اوراخلاقی استحکام بڑھاتی ہے(جرنل آف ریلیجن اینڈ ہیلتھ،2018)
٭دوسراسوال یہ ہے کہ کیانمازرب کے خوف سے پڑھنی چاہیے؟
اللہ تعالیٰ انتہائی کریم ورحیم ہے،اس کے باوجودخوفِ خداایک بنیادی محرک ہے جوانسان کوراہِ راست پررکھتاہے۔قرآن مجیدمیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
حقیقت میں اللہ سے وہی ڈرتے ہیں جوعلم رکھتے ہیں۔(سورہ فاطر:28)
خوفِ خداانسان کوبرائی سے روکتااورتقویٰ کی راہ پرگامزن کرتاہے۔تاہم،نمازصرف خوف کی بنیادپرنہیں بلکہ محبت اورشکرکے جذبے سے بھی ہونی چاہیے۔توکیاہمیں رب کے خوف سے نمازپڑھنی چاہئے جبکہ وہ توانتہائی کریم ورحیم ہے۔اللہ کی رحمت اور عدل دونوں کوقرآن میں یکجاکیاگیاہے۔ خوف (خُوف)اورامید(رَجاء) کا توازن اسلام کی خاصیت ہے۔
اسے خوف اورامید کے ساتھ پکارو!(الاعراف:56)
اللہ کی رحمت اس کے غضب پرغالب ہے(حدیث قدسی)لیکن اس کاخوف انسان کوگمراہی سے بچاتاہے۔
٭اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی کیاگیاہے کہ کیانمازجہنم کے خوف سے پڑھنی چاہیے؟
اس کاجواب بھی بڑاواضح ہے۔جہنم کاخوف ایک حقیقی محرک ہو سکتاہے،جیساکہ قرآن میں آیاہے:جوشخص آتش جہنم سے دور رکھا گیااوربہشت میں داخل کیاگیاوہ مرادکوپہنچ گیا .(العمران:185)
لیکن اگرکوئی صرف جہنم کے خوف سے نمازپڑھتاہے اوراس میں اخلاص نہیں ہوتاتووہ نمازایک بوجھ بن سکتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ نمازکومحبت،شکراورفرض کی ادائیگی کے طورپراپنایاجائے۔جہنم کاذکرقرآن میں انتباہ کےطورپرآیاہے۔
اوراس آگ سے بچوجوکافروں کیلئے تیارکی گئی ہے،البتہ محض خوف پرمبنی عبادت ناکافی ہے۔امام غزالی فرماتے ہیں:خوف امیدکے بغیرمایوسی ،اور امید خوف کے بغیرغفلت ہے۔
(العمران:131)
٭توپھرکیانمازجنت کے حصول کیلئےپڑھنی چاہیے؟
یقیناًجنت کی طلب ایک بہترین مقصدہوسکتاہے،جیساکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:جنت کی راہ نمازہے۔(مسنداحمد)تاہم اگرنمازمحض جنت کےحصول کیلئےہوتواس میں اخلاص کی کمی ہوسکتی ہے۔اصل مقصداللہ کی رضاہوناچاہیے،جنت اس کاانعام ہے۔توگویا کیانمازجنت کے حصول کیلئےاداکرنی چاہئے؟ کامختصرجواب یہ ہے کہ جنت کی خواہش ایک فطری انگیزہ ہے۔قرآن میں ہے:”اپنے پروردگارکی بخشش اوربہشت کی طرف لپکوجس کاعرض آسمان اورزمین کے برابرہے اورجو(خداسے) ڈرنے والوں کیلئےتیارکی گئی ہے”۔(العمران: 133)
لیکن جنت کی طلب کواللہ کی رضاکے تابع ہوناچاہیے،نہ کہ صرف مادی نعمتوں کیلئے۔
٭توکیانمازشکرکیلئےپڑھنی چاہیے؟
شکر گزاری ایک بلند مقام ہے اورقرآن میں آیاہے. اگرشکرکروگے تومیں تمہیں زیادہ دوں گا۔(ابراہیم:7)
نمازاللہ کاشکراداکرنے کابہترین طریقہ ہے،جیسا کہ نبی کریم ﷺخودتہجدکی نمازمیں لمبے سجدے فرمایاکرتے اورجب حضرت حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ آپ کیوں اتنی محنت کرتے ہیں جبکہ آپ کے سارے گناہ معاف ہوچکے؟تو آپ نے فرمایا: أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًاشَكُورًا؟(صحیح بخاری) “کیا میں ش شکر گزار بندہ نہ بنوں؟”گویانمازشکرگزاری کابہترین ذریعہ ہے۔ میراشکراداکرواورناشکری نہ کرو۔(البقرہ:152)جدید نفسیات کے مطابق، شکرگزاری ذہنی صحت کوبہتربناتی ہے(سٹڈی:ہارورڈمیڈیکل اسکول،2021)۔
٭اب سوال یہ ہے کہ کیانمازمحض فرض کی ادائیگی کیلئےپڑھنی چاہیے؟
یقیناًنمازایک فرض ہے،جیساکہ قرآن میں ہے:
“بےشک نمازکامومنوں پراوقات(مقررہ)میں اداکرنافرض ہے”۔(النساء:103) فرض کی ادائیگی ضروری ہے ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے محض رسمی طورپرپڑھاجائے۔اصل مقصداللہ کی رضاہے۔
٭کیاپھرنمازفرض ہے،اس لئے اس کی ادائیگی لازم ہے؟
یقیناًنمازفرض ہے،جیسا کہ حدیث میں ہے” اسلام کی بنیادپانچ چیزوں پرہے۔(بخاری) فرضیت کامقصدانسان کونظم وضبط اوراللہ کے سامنے جوابدہی کااحساس دلاناہے۔
٭کیانمازاس لیے پڑھنی چاہیے کہ وہ اس قابل ہے؟
اللہ تعالیٰ تمام تعریفوں کے لائق ہے۔ ہمیں نمازپڑھنے کی ضرورت ہے،اللہ کوہماری عبادت کی حاجت نہیں۔قرآن میں ارشادہے:
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں(الذاریات:56)
لہذاہمیں نمازاس لیے پڑھنی چاہیے کہ وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ اللہ کی ذات عبادت کے لائق ہے۔یہ عبادت کائناتی حکمت کاحصہ ہے،جس میں انسان کی تربیت اورتکمیل مقصودہے۔اس لئے اللہ کی ذات عبادت کے لائق ہے۔
٭کیالاعلمی کے ساتھ پڑھی گئی نمازاللہ سے ہم کلامی کہلاسکتی ہے؟
یہ سب سے اہم سوال ہے جس کیلئے ہمیں مکمل ہوش وحواس سے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اگرنمازی کومعلوم نہ ہوکہ وہ کیاپڑھ رہاہے،تووہ حقیقی معنوں میں اللہ سے ہمکلام نہیں ہورہا۔قرآن میں ارشادربانی ہے:
اے ایمان والو!جس وقت کہ تم نشہ میں ہونمازکے نزدیک نہ جاؤیہاں تک کہ تم سمجھ سکوکہ تم کیاکہہ رہے ہو۔(النساء:43)
یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ نمازمیں فہم ضروری ہے۔اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم نمازکے الفاظ اوران کامفہوم سمجھیں تاکہ نمازاللہ سے حقیقی گفتگوبن سکے۔بے فہم نمازی اللہ سے ہمکلامی کیسے کرسکتاہے جبکہ اسے یہ تک معلوم نہ ہوکہ وہ اپنے خالق سے کیابات کررہاہے؟کس قسم کے قول واقرارکررہاہے،کیاوعدے وعیدہورہے ہیں؟اپنے رب کے سامنے اپنے اُن اختیارات سے دستبردارہورہاہے جوصرف خالق کے شایانِ شان ہیں اوراپنی ناک اورجبیں کوخاک آلودکرکے اپنے رب کی عظمت اوربلندی کااعتراف کررہاہے۔جس طرح ہم کسی دفتریاادارے میں اپنے کسی کام سے جاتے ہیں توہم اپنے کام یاخواہش کی تائیداور تکمیل کیلئے سوچ سمجھ کراپنے منہ سے الفاظ نکالتے ہیں اوراس کے سامنے جودرخواست پیش کررہے ہوتے ہیں اس کی منظوری کیلئے پرزوراستدعابھی کررہے ہوتے ہیں۔کیااسی نیت اورفہم کے ساتھ ہم اپنی نمازمیں اداہونے والے الفاظ کافہم جانتے ہیں؟
اگرچہ عربی سمجھناافضل ہے لیکن نیت اوراخلاص کلیدی ہیں۔حدیث میں ہے:اعمال کادارومدارنیتوں پرہے۔
تاہم الفاظ کے معانی سیکھنے سے دعاکی تاثیربڑھ جاتی ہے لیکن جدیدتحقیق میں،مراقبہ کی طرح نمازبھی گہری یکسوئی پیدا کرتی ہے،چاہے الفاظ سمجھ میں آئیں یانہ آئیں(جرنل آف سوشل سائیکالوجی،2020)
٭نمازبرائیوں سے روکتی ہے،مگرکیوں بعض نمازیوں کی برائیاں نہیں چھوٹتیں؟
قرآن میں ارشاد ربانی ہے:نمازبےحیائی اوربری باتوں سے روکتی ہے۔(العنکبوت:45)
لیکن اگرکوئی شخص سستی سے یامحض رسمی طورپرنمازپڑھتاہے تووہ اس کے کردارپراثراندازنہیں ہوتی۔نبی کریم ﷺنے فرمایا: جس کی نمازاسے برائی سے نہ روکے،اس کی نمازقبول نہیں ہوتی(ابن ماجہ)لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب نمازمیں حضورقلب ہو۔ اگرنمازرسم بن جائے تواس کااثرکم ہوتاہے۔امام ابن القیم کہتے ہیں:نمازگناہوں کواسی طرح جھاڑتی ہے جیسے پانی گندگی کو۔
٭اب سوال یہ ہے کہ اگر نمازبرائیوں سے روکتی ہے،توپھرکچھ نمازی کیوں گناہ کرتے ہیں؟
اس کاجواب خودجرنل آف ریلیجیس سائیکالوجی(2022)کے مطابق یہ بتایاگیاہے کہ رسمی نمازیعنی بغیرسمجھے نمازپڑھنے سے دماغی مراکزمتحرک نہیں ہوتے جبکہ”مڈیٹیونماز”(توجہ کے ساتھ)(اخلاقی فیصلے کرنے والادماغی حصے)کوفعال کرتی ہے۔ اورتھیراپیوٹک ماڈل ماہرین کاکہناہے کہ”نمازکوروزانہ مراقبہ کی طرح استعمال کیاجائے تویہ نشہ،جھوٹ،اورتشددجیسے مسائل کو بخوبی کنٹرول کرسکتی ہے۔
٭نمازمعاشرتی ہم آہنگی میں ایک اہم کرداراداکرتی ہے۔نمازمسلمانوں کودن میں پانچ مرتبہ ایک جگہ جمع کرتی ہے،جومعاشرتی تعلقات کومضبوط بنانے میں مددگارثابت ہوتی ہے۔مسجدمیں باجماعت نمازاداکرنے سے افرادکے درمیان بھائی چارہ اوراتحادکو فروغ ملتاہے۔مشہورِ زمانہ (یونیورسٹی آف پنسلوانیا،2019)کی عصری تحقیق اورنمازکے جدیدمطالعات سے پتہ چلاہے کہ نمازتناؤکم کرتی ہے۔
٭اسی طرح (جرنل آف ایتھکس،2020) کے مطابق باجماعت نمازاخلاقی فیصلہ سازی کوبہتربناتی ہے اور(سوشل سائنس ریسرچ نیٹ ورک)کی رپورٹ کے مطابق اجتماعی نمازیکجہتی کوفروغ دیتی ہے۔
٭نمازکے اندرسوچ سمجھ کراللہ کے ساتھ پڑھی جانے والی مناجات ذہنی سکون اوراستحکام کاذریعہ ہے۔نمازکے دوران خشوع و خضوع سے انسان کی توجہ اللہ کی طرف مبذول ہوتی ہے،جوذہنی دباؤکوکم کرنے میں مددگارثابت ہوتی ہے۔
٭نمازبرائیوں سے روکتی ہے اورانسان کونیکی کی طرف مائل کرتی ہے۔نمازکی پابندی سے انسان میں نظم وضبط،وقت کی پابندی اورذمہ داری کااحساس پیداہوتاہے جواخلاقی تربیت میں اہم کرداراداکرتاہے اورخودپرکنٹرول کرنے کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوتاہے۔
٭نماز انسان کوبرائیوں سے روکنے کاقرآن کاوعدہ سائنسی طورپربھی ثابت ہوتاہے: جرنل آف ایتھکس(2020)کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق، جونوجوان نمازکی پابندی کرتے ہیں،ان میں غیراخلاقی فیصلے لینے کے امکانات 35%کم ہوتے ہیں۔جھوٹ اوردھوکے میں ڈرامائی کمی واقع ہوجاتی ہے۔
٭ترکی میں2021کی ایک تحقیق کے مطابق،نمازکے دوران کی جانے والی جسمانی حرکات(جیسے سجدہ)اعصابی نظام کو پرسکون کرتی ہیں،جس سے غصے کی شدت50%تک کم ہوجاتی ہے ۔نمازکے مختلف ارکان، جیسے رکوع اورسجدہ، جسمانی ورزش کابھی کام کرتے ہیں۔یہ حرکات جسم کی لچک اورخون کی گردش کوبہتربناتی ہیں۔جرنل آف فزیکل تھراپی(2020)میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق،نمازمیں کیے جانے والے سجدے گھٹنوں اورکمرکے دردکوکم کرتے ہیں،خاص طورپربڑی عمر کے افرادکوجوڑوں کے دردمیں بہت افاقہ ہورہاہے گویا حیرت انگیزطورپرنمازجدیدفزیوتھراپی سے مماثلت رکھتی ہے۔
٭دبئی میں ہونے والی ایک سٹڈی(2022)میں دیکھاگیاکہ نمازپڑھنے والوں کابلڈپریشرغیرنمازیوں کے مقابلے میں 75%زیادہ مستحکم رہتاہے۔نماز کے ذریعے معاشرتی مساوات کوفروغ ملتاہے۔نمازمیں سب افراد،بغیرکسی طبقاتی فرق کے،ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں،جوسماجی انصاف کی علامت ہے۔نمازکی باقاعدہ ادائیگی سے طلبہ میں توجہ مرکوزکرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔نمازکے اوقات کی پابندی سے وقت کی تنظیم اورتعلیمی کارکردگی میں بہتری آتی ہے۔
٭نمازکی تعلیمات میں حلال روزی کمانے اوررزق کی برکت کیلئےدعا کی جاتی ہے۔یہ معاشی سرگرمیوں میں ایمانداری اوردیانت داری کوفروغ دیتی ہے۔خاندان کے افرادکامل کرنمازاداکرنا باہمی محبت اورتعلقات کومضبوط بناتاہے۔گھرمیں نمازکی ادائیگی سے بچوں کی دینی تربیت میں مددملتی ہے ۔ نمازانسان کوبرائیوں سے روکتی ہے اورمعاشرے میں اخلاقی قدروں کوفروغ دیتی ہے۔نماز کی تعلیمات پرعمل پیراہوکرمعاشرتی برائیوں کاخاتمہ ممکن ہے۔نمازکی اجتماعی شکل(جیسے جماعت یاجمعہ)معاشرے میں اتحاد کومضبوط کرتی ہے۔
٭امریکن سوشل ہیلتھ جرنل (2023)کی ایک رپورٹ کے مطابق،مساجدمیں باقاعدگی سے نمازپڑھنے والے افرادخاص طورپر بزرگوں اور نوجوانوں میں میں تنہائی کااحساس 40% کم پایا گیا۔یورپی ممالک میں ہونے والی ایک تحقیق(2022)میں دیکھاگیاکہ نمازکے اجتماعات نے مسلم اور غیرمسلم برادریوں کے درمیان مثبت مکالمے اوربین الثقافتی روابط کوفروغ دیاہے۔
٭نمازبحرانوں کے دوران ذہنی استحکام فراہم کرتی ہے۔(جرنل آف گلوبل ہیلتھ)کے ایک سروے کے مطابق2021ءمیں کورونا وائرس کے دورمیں جن مسلمانوں نے لاک ڈاؤن کے دوران گھرپرنمازاداکی،ان میں ڈپریشن کی شرح 20%کم رہی اورجن افراد نے مسجدمیں احتیاط کے ضابطوں کے ساتھ نمازپڑھی،ان میں ڈیپریشن کی شرح59فیصدکم رہی گویانمازنے بحرانوں کامقابلہ بھی خوب کیا۔
٭پاکستان میں2023کی ایک تحقیق میں بتایاگیاکہ غریب طبقے کے افرادجونمازپڑھتے ہیں،وہ مالی پریشانیوں کے باوجودذہنی طور پرزیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔گویانمازروحانی ترقی کابھی ایک ایسا مفیدزینہ ہے جواللہ سے قربت کاذریعہ ہے۔نمازکے ذریعے انسان اپنی خطاؤں کی معافی مانگتاہے اورروحانی سکون حاصل کرتاہے۔ نمازکی یہ تمام خصوصیات اس کی اہمیت کواجاگرکرتی ہیں اوریہ ثابت کرتی ہیں کہ نمازنہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ معاشرتی، نفسیاتی،جسمانی اورروحانی فوائدکامجموعہ ہے۔
٭عالمی اداروں کی رپورٹس بھی ملاحظہ فرمالیں۔ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن2023کی ایک رپورٹ میں مشورہ دیاگیاہے کہ “نمازجیسی روحانی مشقوں کو ذہنی صحت کے پروگراموں میں شامل کیاجائے ۔ یونیسکوجیسے عالمی ادارے نے تعلیمی نصاب میں نمازکی اخلاقی تعلیمات کوشامل کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ نوجوانوں میں برداشت اورہمدردی کوفروغ دیاجاسکے۔
٭نمازایک عبادت،فریضہ،محبت،شکراوراللہ سے قربت کاذریعہ ہے۔اسے صرف خوف یالالچ کی بنیادپرنہیں بلکہ اخلاص اورمحبت کے ساتھ ادا کرنا چاہیے تاکہ وہ ہمارے کرداراورزندگی میں حقیقی تبدیلی لاسکے۔ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف نمازپڑھیں بلکہ اس کے معانی کوبھی سمجھیں تاکہ ہماری عبادت حقیقی معنوں میں اللہ سے ہمکلامی بن سکے۔
٭نماز،جواسلام کادوسرارکن ہے،نہ صرف ایک روحانی عبادت ہے بلکہ اس کے معاشرتی اورنفسیاتی اثرات بھی نمایاں ہیں۔سوشل سائنسزکی تحقیقات اوراسلامی تعلیمات کی روشنی میں نمازکے مختلف پہلوؤں کاجائزہ لینے کے بعدیہ ثابت ہوگیاہے کہ میرے رب نےآقاﷺکوعرش پربلا کرنمازجیسابیش بہاقیمتی تحفہ فرش والوں کوعطاکیا۔
٭نمازکی فرضیت کامقصداللہ سے ربط،خودسازی،اورمعاشرتی اصلاح ہے۔یہ خوف وامید،شُکراورفرضیت کے درمیان توازن قائم کرتی ہے۔الفاظ کی تفہیم اس کی تاثیربڑھاتی ہے لیکن اصل کامیابی اخلاص اورحضورقلب میں ہے۔جدیدمطالعات کے مطابق،نماز ذہنی تناؤکوکم کرنے اورمثبت جذبات کوفروغ دینے میں اہم کرداراداکرتی ہے۔
٭ایک عالمی ادارے(جرنل آف ریلیجن اینڈ ہیلتھ 2020) کی ایک رپورٹ کے مطابق توجہ مرکوزکرنے کی صلاحیت کے بارے میں نمازکی حرکات(مثلاًرکوع،سجدہ)اورذکرواذکاردماغی یکسوئی کوبڑھاتے ہیں اورجولوگ باقاعدہ روزانہ نمازپڑھتے ہیں،ان میں (توجہ کی کمی)کے مسائل30فیصد کم پائے گئے ہیں۔(جرنل آف سائیکولوجیکل ریسرچ2021ء)کی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ نمازسے(تناؤکاہارمون)کی سطح کم ہوتی ہے،جس سے ڈپریشن اوراضطراب کے خطرات25%تک گھٹ جاتے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ نمازکوصرف عبادت تک محدودنہ رکھیں بلکہ اس کے ذریعے”ذہنی تربیت”کیلئے نمازکے الفاظ کے معنی اور مفہوم سکھائیں جائیں تاکہ اس کااخلاقی اثربڑھے۔معاشرتی سطح پرنمازکے اجتماعات کو”سماجی ہم آہنگی” کیلئےاستعمال کیاجائے ۔اس سائنسی وسماجی شواہدکی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے کہ نمازمحض ایک مذہبی فریضہ نہیں،بلکہ انسان کی جسمانی،نفسیاتی، اور معاشرتی صحت کاایک ایساجامع حل ہے جوخالق کااپنی مخلوق پرایک ایسااحسانِ عظیم ہے جن کے فوائدآج عالمی سطح پر تحقیقی ادارے تسلیم کررہے ہیں