جب مشرق کی پیشانی پراذان کی صدااولین بارابھری تھی،تواُس نغمے میں وحدت کی بازگشت تھی۔وہ صدا،جوبیت المقدس سے لے کرخانہ کعبہ تک فضاؤں میں گونجتی رہی،اہلِ زمین کو ایک ایسے معبودِبرحق کی طرف بلاتی رہی جس کے حضورنہ کوئی فرعون سراٹھاسکتاتھا،نہ کوئی نمرود،مگرآج،اسی صداکے وارثوں کے درمیان ایسی دستاویزگردش میں ہے جسے”ابراہیمی معاہدہ” کہاجاتا ہے—اورجس کی روح سے زیادہ اس کاسایہ سنگین ہے۔
یہ معاہدہ فقط سیاہی سے لکھی ہوئی چندسطریں نہیں،یہ تاریخ کے دامن پرایک ایساتازہ دھبہ ہے جوماضی کے زخموں کو پھرسے ہراکردیتاہے۔صلح کے پردے میں تحقیر،امن کے خول میں نفاق،اوربھائی چارے کی زبان میں تابعداری کاوہ زہر چھپاہے جوقوموں کی غیرت کوسرنگوں کرنے کیلئے کافی ہوتاہے ۔فلسطین کی مٹی اب بھی اپنے شہیدبیٹوں کی خوشبو سنبھالے کھڑی ہے،اورقدس اب بھی قیدہے،مگراسیرہونے سے انکارپرقائم۔
وہ لوگ جوایک وقت میں قبلۂ اوّل کی بازیابی کی دعامانگاکرتے تھے،آج بیت المقدس کے درودیوارکے سامنے اسرائیل کے جھنڈے لہرارہے ہیں۔وہ ہاتھ ، جوکبھی شہیدکی میت پربلند ہوتے تھے،آج اسرائیل سے تجارتی معاہدے کرتے وقت جھکے نظرآتے ہیں۔تاریخ حیران ہے،امت خاموش، اورعالمِ اسلام خوابِ غفلت میں ڈوباہوا۔
یہ تحریراس خاموشی میں ایک صدا ہے—صدائے احتجاج،صدائے بیداری،صدائے تحقیق۔اس میں ہم فقط ابراہیمی معاہدے کی سفارتی پیچیدگیوں کو نہیں چھیڑتے،بلکہ اس کے تہہ در تہہ مفاہیم کی پرتیں کھولتے ہیں،اس کے محرکات کی گرہیں سلجھاتے ہیں،اوراس کے پس منظرمیں جاری تہذیبی یلغارکا تجزیہ کرتے ہیں۔یہ معاہدہ کس کیلئے”صلح”ہے اورکس کیلئے “صلہ”؟کس کیلئےترقی کادروازہ اورکس کیلئےغلامی کی زنجیر؟
تاریخ کاقلم ابھی تھمانہیں،وقت کے صفحات ابھی مکمل نہیں ہوئے لیکن وہ قومیں جواپنی تاریخ خودنہیں لکھتیں،ان کیلئے فاتح ہی تاریخ لکھتے ہیں—اورپھروہ تاریخ”معاہدات”کے روپ میں ان کے سروں پرتھوپ دی جاتی ہے۔ پس یہ تحقیق فقط ایک تجزیہ نہیں،یہ صدائے ضمیرہے؛یہ نوحۂ قدس بھی ہے، اور اذانِ بیداری بھی۔آئیں،ابراہیمی معاہدے کو اس کی اصلی روشنی میں دیکھیں—وہ روشنی جوآنکھوں کوخیرہ نہیں کرتی،دلوں کوجھنجھوڑتی ہے۔
جب تاریخ اپنے دامن سے گردجھاڑتی ہے،تووہ فقط واقعات کی ترتیب نہیں،بلکہ تہذیبوں کی باہمی کشاکش اورحکمتوں کے جال کی پرتیں بھی واکرتی ہے۔ ابراہیمی معاہدہ اسی تاریخ کاایک ایساباب ہے،جہاں الفاظ سفارتی معلوم ہوتے ہیں،لیکن ان کے پیچھے تہذیبی بالادستی،جغرافیائی سیاست اورمذہبی تانے بانے کی گہری گتھیاں پنہاں ہیں۔
2020ءمیں امریکی صدارت کے سنگھاسن پربراجمان ڈونلڈٹرمپ کے دورمیں خطۂ عرب کی سیاسی افق پرایک ایسی دستاویزنے جنم لیاجسے”ابراہیمی معاہدہ ” کے نام سے تعبیرکیاگیا۔یہ وہ معاہدہ ہے جویہودی نژادہنری کیسینجرکے ون ورلڈ آرڈرکے عین مطابق2020ءمیں واشنگٹن ڈی سی میں امریکی صدارتِ ٹرمپ کے دورمیں”ابراہیمی معاہدے”کے نام سے طے پایا، جس میں متحدہ عرب امارات اوربحرین نے اسرائیل کورسمی طورپرتسلیم کیا،اوربعدازاں مراکش بھی اس فہرست میں شامل ہوا۔یہ معاہدہ محض ایک رسمی اعلان نہیں،بلکہ صدیوں پرمحیط عرب-اسرائیل دشمنی کے بیچ ایک ایساخاکہ ہے جس میں اسرائیل کوتسلیم کرنے والے عرب ممالک نے اپنے سیاسی قبلہ کویکایک مغرب کی سمت موڑدیا۔اس معاہدے کو “ابراہیمی” اس نسبت سے کہاگیاکہ تینوں توحیدی ادیان— یہودیت،عیسائیت اوراسلام—کوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی روحانی نسبت سے جوڑاگیا،حالانکہ زمینی حقیقتیں اس”روحانیت ” سے زیادہ زمام اقتدارکی گرفت میں نظرآتی ہیں۔یہ محض قانوناًدونوں اطراف کی سفارتی قبولیت نہیں بلکہ ایک نیاعصرِجغرافیائی وسیاسی نقشہ ہے جوتین ابراہیمی ادیان کی”سماجی ہم آہنگی”کے فلسفے کے نام پرامریکاکی ڈپلومیسی کی چھتری تلے پیش کیاگیا۔
اگرکہیں”صلح”اورکہیں”شطرنج کی بساط”ہوتویہ سازشیں واضح ہوتی ہیں کہ فلسطینی مسئلے کوپس پشت ڈال کراسرائیل کو عرب دنیاکاایک مستندعنصر بنانا مقصودہے تاکہ اسرائیلی ریاست کو سفارتی طورپرقبولیت کادرجہ دیاجائے۔اس کے ساتھ ہی ایران مخالف محاذکی تکیمل کیلئے خلیجی ملکوں کے ساتھ اتحادجو امن کے نام پرایران مخالف ایک بندگھیراتشکیل دیاجائے۔ سب سے خطرناک امریہ کہ واشنگٹن کے سامنے عرب دنیاکامنہ جھکاناجس سے امریکی خارجہ پالیسی کااستحکام یقینی ہو جائے اوراپنے ان مذموم ارادوں کی تکمیل کیلئے عوامی ردِعمل کونظراندازکرتے ہوئے سیاسی نرم دباؤکے ذریعے عرب عوام کی دبی آوازکوسماجی قبولیت کیلئے یقینی بنایاجائے۔
گویایہ ثابت ہوگیاہے کہ امریکایہودی اثرونفوذکے تحت ابراہیمی معاہدہ کی سطح پر”امن”کاپرچم لہراتاہے،لیکن اس کے نیچے طاقت کی وہی پرانی بساط بچھی ہے جس پرقومیں اپنے مفادات کی شطرنج کھیلتی ہیں۔اس معاہدے کامقصدمشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے وجودکوتسلیم کرواکراسے”ریاستی جواز”فراہم کرناہے تاکہ فلسطینی مزاحمت کوبین الاقوامی حمایت سے محروم کردیا جائے۔اس کے ساتھ ہی ایران کے خلاف ایک متحدمحاذبنانابھی امریکی-اسرائیلی ایجنڈے کامرکزی ستون ہے جس کاعملی مظاہرہ حالیہ ایران اسرائیل کی جنگ میں امریکی جارحیت کی شکل میں اقوام عالم دیکھ چکی ہے ۔ دراصل ابرہیمی معاہدے کے پسِ پردہ مقاصدتہذیبی سرنگ کے ذریعے چالاک سفارت کاری سے مقاصد کاحصول ہے۔
2008ءمیں اسپین کے شہرمیڈرڈمیں سعودی فرمانرواشاہ عبداللہ نے تاریخ میں پہلی باربین المذاہب کانفرنس میں شرکت کی اورایک ہمہ گیرخطاب کیا۔ شاہ عبداللہ کے اس یادگارخطاب کو مہذب پیرائۓ میں مذہبی تفاوت کوتعمیری مکالمہ کی شروعات قراردیاگیاجس میں ان کے خطاب کالب لباب”امن، بقائے باہمی،اوربین المذاہب ہم آہنگی”تھا۔تاہم،اس کانفرنس کو بعض تجزیہ نگاروں نے اسرائیل کوتسلیم کرنے کی نظریاتی تمہیدقراردیاتھا۔ انہوں نے عالمی مذاہب کے علماءکومخاطب کیاکہ” خدانے انسانوں کومختلف بنایاتاکہ وہ ایک دوسرے کوجانیں،نہ کہ جھگڑیں۔اختلاف کی بجائے امتِ انسانی پرتوجہ اسرائیل کی موجودہ سیاسی سچائی کیلئےپیشخیمہ تسلیم کیا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعارف اور مخلص کوشش بالآخر “تسلیم” کی دہلیز پر لے آیا؟موجودہ حالات اس کی کھلی نفی کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کے داماد، جیرڈ کشنر، جنہیں سیاسی سفارت کاری کا کم عمر مگر نہایت چالاک مہرہ کہا جا سکتا ہے، اس پورے معاہدے کے معمار کہلائے جا سکتے ہیں۔ پس پردہ خفیہ بیک ڈور چینلز کے ذریعے اسرائیل اور خلیجی عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی راہ ہموار کی گئی۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کیا بلکہ تجارتی، سیکیورٹی اور ٹیکنالوجی میں بھی معاہدات طے کیے۔ یہ پیش رفت “امن” کے پردے میں وہی “مفادات” کی سیاست ہے جس کی جڑیں واشنگٹن سے لے کر تل ابیب تک پھیلی ہوئی ہیں۔
شطرنج کے پس پردہ ہاتھ میں نئے دور کے یہودی نژاد لارنس آف عریبیا جیرالڈ کشنز کی خفیہ سفارت کاری اور ولی عہد محمد بن سلمان کی باہمی قربت اور رفاقت کی داستان کو سمجھنا ازحد ضروری ہے جس نے شاہی درباروں اور سفارتی کتب خانوں کی تہہ میں ایک نئی روشنی پھونکی۔ رپورٹس کے مطابق محمد بن سلمان نے اپنے قریبی حلقوں میں فخر سے کہا کہ کشنر میرے پاؤں کا طواف کرتا ہے – وہ میرے “پاکٹ” میں ہے۔اصلاً یہ متنازعہ استعارہ اس رفاقت کی سطح بتاتا ہے جو دو طاقتوں کے مابین محض پیشہ ورانہ نہیں بلکہ ذاتی بنیادوں پر قائم تھی کہ اس رفاقت یا سیاسی حلیف کے سارے کھیل میں کس کی پاکٹ میں کون تھا،حالات نے سب آشکار کر دیا ہے۔
اس دوستی کو مضبوط کرنے کیلئے جیرالڈ کشنز نے اطلاعات کی رازداری اور طاقت کے تبادلے ساتھ محمد بن سلمان کے ساتھ اس وقت گہرا رشتہ قائم کر لیا جب اس نے انٹرسپٹ کی رپورٹس کے مطابق، کشنر نے اپنے پاس موجود “ڈیلی بریف”سے رازداری میں شاہی قریبی شخصیات کے نام ولی عہدمحمدبن سلمان کو بتائے، جس کے ہفتوں کے اندر ہی ایک طاقتور ضدِ کرپشن مہم کے نام پر چند سو سعودی شہزادوں اور تاجروں کو گرفتار کرکے ریٹز کارلٹن میں محصور کیا گیا .یہ اقدامات مغربی اطلاعات کے اشتراک اور اندرونی سیاسی صف بندی کی سنگین پیچیدگی کی عکاس تھے۔2017-2019ء کی سعودی “ضدِ کرپشن”مہم میں تقریباً 381/ افراد گرفتار ہوئے اور حکومت نے 100 ارب سے 400 ارب ڈالرز کے اثاثے ضبط کیے ۔ معمول کے زیرِِ جرم گرفتاریاں تو سنائی دیتی رہتی ہیں، مگر تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ محمد بن سلمان نے یہ مہم اپنے اقتدار کو کنٹرول کرنے، منافقانہ شاہی دھڑوں کو الگ کرنے اور اثاثے اکٹھے کرنے کیلئے
استعمال کی —اس میں کشنر کے ذریعے پہنچنے والی چونکا دینے والی معلومات نے کلیدی کردار ادا کیا۔ گویا اقتدار کے سودے میں رعونتِ شیطانی کے پیچھے جیرالڈ کشنز کا یہودی دماغ کارفرما تھا ۔
کشنر کے دورِ صدارت کے بعد، سعودیہ کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ نے ان کی نجی انویسٹمنٹ فرم “ایفنٹی پارٹنرز” میں دو ارب ڈالرز سرمایہ کاری کی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے ماہرین نے اس معاہدے کو “تمام پہلوؤں میں غیر اطمینان بخش” قرار دیا — مگر ولی عہد نے اپنی بادشاہی اتھارٹی استعمال کر کے سرے محل کی اس ادائیگی کو منظورکر لیا۔ گویا سرمایہ کاری کی یہ خوفناک واقعہ دوستی سے معاہدے تک کی صورتِ حال ایک سفارتی سودے کا عکاس ہے — جو سلطانِ سعودی اور امریکی “توجہ دلانے” والوں کے مابین انجام پاتا ہے۔
جب امریکی کانگرس نے تفتیش کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا کشنر نے غیر رجسٹرڈ فارن ایجنٹ کے طور پر سعودی مفادات پیش کیے؟تو کشنر نے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا اور کہا کہ میں نے ہر قانون اور اخلاقیات کی پیروی کی ہے۔ یہ دفاع کم از کم سفارتی پیچیدگیوں کے فریبوں سے ضرور پردہ اٹھاتا ہے؛ مگر ان شبہات کی گونج اب بھی باقی ہے۔ یہ سب سلسلہ محض دوستی کا ثمر نہیں، بلکہ ایک شہنشاہانہ منصوبہ ہے جہاں سعودی ولی عہد نے اپنے عہد کی مضبوطی کیلئےقدم بڑھایااورکشنزنے اسے عالمی سطح پرفروغ دینے اورمالیاتی حمائت حاصل کرنے میں مدددی۔یہ نہ صرف سعودیہ میں طاقت کے توازن کو قائم کرتا ہے، بلکہ خطے میں سیاسی و فوجی معاہدات اور امن معاہدوں کے منظرنامے کو بھی تبدیل کرتا ہے۔ اس سے سعودی شاہی اقتدار یا جغرافیائی توازن کا بھی پتہ چلتا ہے۔
ٹرمپ کے داماد، جیرڈ کشنر، نے تہہ خانے میں خفیہ چینلز کے ذریعے اسرائیل اور خلیجی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے جلد ہی اسرائیل کو تسلیم کرلیا ۔کشنز نے خود تسلیم کیا کہ سعودی عرب کی شمولیت سے ابھرتے ہوئے دس دیگر ممالک، جن میں پاکستان و انڈونیشیا شامل تھے، کا سفر شروع ہوگا ۔ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے پاکستان کو “نارملائزیشن امکان” کے ماحول میں نامزد کیا، جسے دفاعی وزیر خواجہ آصف نے تسلیم کیا ۔ اگرچہ پاکستان نے فی الحال اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، مگر بالآخر “داؤ کھیل کے اس میدانی کھیل” میں دباؤ کے باعث “رائے کی سیاست” ملک کے سفارتی افق پر نمودار ہو سکتی ہے۔
کشنر نے گزشتہ دنوں ایک روایتی فورم میں واضح کیا کہ سعودی عرب اور پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سمت بڑھ رہے ہیں ۔ یہ بیان پاکستانی عوام کیلئےایک شدید جذباتی جھٹکا ہے، جس میں داخلی انتشار کی خبریں چھپی ہوئی ہیں۔جیرالڈ کشنر کا ایک بین الاقوامی فورم پر یہ بیان نہ صرف سیاسی طور پر حساس ہے بلکہ پاکستان کے داخلی ماحول میں ایک تہلکہ خیز ہیجان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیان محض ایک سفارتی تجزیہ تھا یا ایک چالاک انداز میں داخلی انتشار کو بھڑکانے کی کوشش؟
اب سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا پاکستان بھی اسرائیل کو تسلیم کرے گا؟ وطنِ عزیز، جسے نظریۂ اسلام کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر جگہ ملی، اس کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا صرف ایک خارجی پالیسی کا سوال نہیں، بلکہ قومی خودی، عوامی حساسیت، اور دینی بنیادوں پر کھڑا ایک نظریاتی بحران ہے۔ تاحال ریاستِ پاکستان نے باضابطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، لیکن بین الاقوامی دباؤ میں یہ سوال اب ایک “ممکنہ حقیقت” کے طور پر زیرِ بحث ہے۔ اگر پاکستان اسرائیل کوتسلیم کرتاہے،توعوام میں شدیداحتجاج اورایک”ملکی بحران”جنم لے سکتاہے۔ کیا کشنز نے جان بوجھ کر پاکستان کونام دیکرداخلی عدم استحکام کابیج نہیں بویا؟یہ تشویش کشیدگی کے درجن شمارمسائل کوجنم دے سکتی ہے۔
پاکستانی عوام کے دل میں فلسطین کیلئےایک جذباتی وابستگی ہمیشہ سے رہی ہے۔اسرائیل کوتسلیم کرناعوامی جذبات کی شدیدتوہین تصورکی جائے گی،اورممکن ہے کہ اس کے خلاف ملک گیرمظاہرے،سول نافرمانی اورسیاسی بحران کاطوفان اُمڈآئے۔کیاکشنرنے پاکستان کانام لیکردانستہ طورپرداخلی خلفشارکی چنگاری سلگائی ہے؟
پاکستان واحداسلامی ایٹمی طاقت ہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے ٹی وی پروگرامزمیں پاکستان کوایران کے بعدایک بڑا خطرہ قراردیا۔نیتن یاہوکاپاکستان کی ایٹمی دسترس کو”غیرمستحکم”قراردینا—بے شک ایک جنگی اشارہ ہے۔اسرائیلی قیادت بارہااس کابرملااظہارکرچکی ہے کہ ایک”دوسراایران”قابلِ قبول نہیں۔نیتن یاہونے ٹی وی پرپاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھی ممکنہ خطرہ قراردیا۔یہ بیان اس بات کاغمازہے کہ خطے میں طاقت کاتوازن اسرائیل کو گوارانہیں،اوروہ ہراس طاقت کوختم کرناچاہتاہے جواس کی بالادستی کوچیلنج کرے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودوہنود کا حالیہ اتحادمل کرپاکستان کی ایٹمی قوت کونشانہ بنانے کی کھلی دہمکیاں دیتارہتاہے۔
ہمارے جدیددورکے مصائب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے دوران، اسرائیل نے بھارت کونہ صرف جدیدڈرونز (ہاروپ) فراہم کیے بلکہ ان کے ساتھ اپنے آپریٹرزبھی بھیجے۔پاکستانی افواج کی جوابی کارروائی میں انیس اسرائیلی اہلکارمارے گئے،جن کے تابوت رات کی تاریکی میں تل ابیب منتقل کیے گئے۔اس واقعے کے فوری بعد پاکستان نے اسرائیل کوبطورممکنہ ہدف لینے کاجونہی عندیہ دیا،جس پرامریکی سفارتی محاذحرکت میں آیا اور ٹرمپ کوخود سیزفائرکرواناپڑا۔انڈین وزیرخارجہ نے بعدازاں تسلیم کیاکہ اگریہ سیزفائرنہ ہوتا،توبھارت تباہ کن انجام سے دوچارہوتا۔
انڈین فوج کے ڈپٹی چیف نے بھی اس جنگ میں پاکستانی افواج کی عسکری برتری کوتسلیم کیاہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکااوراسرائیل اس شکست کابدلہ لینے کیلئے بھارت کودوبارہ اکساسکتے ہیں؟اگرایساہوا،تومقصدصرف پاکستان کی عسکری طاقت کونیست ونابودکرنانہیں ہوگا،بلکہ اس کی ایٹمی صلاحیت کوختم کرنا اصل ہدف ہوگااوراس کے پسِ منظرمیں ایک عالمی صف بندی ہوگی جس میں ابراہیمی معاہدہ کی روح پوری طرح جھلکے گی—کہ جواسرائیل کوتحفظ دے ، وہی معاہدہ”امن”کہلاتاہے،اورجواس کی بالادستی کوچیلنج کرے،وہ”دہشتگرد”کہلاتاہے۔اس لئے وہ جوابرہیمی معاہدے کوامن کی ضمانت سمجھنے کی خوش گمانی میں مبتلاہیں،وہ ایک لمحہ اس شیطانی مثلث کے بھیانک کردارکواپنے ذہن میں تازہ رکھیں۔
جونہی پاک بھارت جنگ شروع ہوئی توشیطانی مثلث کے بڑے کردارنے شدیدتمسخرسے اپنی لاتعلقی کااظہارکیالیکن پاکستانی جواب پرفوری طورپر سیز فائر کی بھاگ دوڑشروع ہوگئی۔یہودو ہنودتوپہلے اس پسپائی کوماننے پرتیارنہ تھے لیکن حقیقت کب مستوررہتی ہے اورسناٹے میں لپٹی صدائیں ایک خاموش اعتراف کی شکل میں سامنے آگیا ۔
تاریخ کے اوراق کبھی کبھی ایسے دھبے اپنے دامن پرسجالیتے ہیں جومحض داغ نہیں بلکہ عہدکی علامت بن جاتے ہیں۔کچھ زخم بولتے نہیں،مگران کی خامشی صدابن جاتی ہے۔جنوبی ایشیا کا خطہ،جسے برصغیر کی تہذیب وتمدن کی نگری کہاجاتاہے،آج بھی سیاسی طوفانوں اورعسکری سرگوشیوں کی زدمیں ہے۔حالیہ انٹرویوز،بیانات اورعسکری پریزنٹیشنزنے جو عقدہ کھولا ہے، وہ محض الفاظ کاکھیل نہیں بلکہ ایک قوم کے ذہنی اوراخلاقی بحران کاپردہ چاک ہوگیا۔
نیوزویک کے ساتھ ایک انٹرویومیں جب انڈیاکے وزیرِخارجہ نے یہ انکشاف کیاکہ’’اگرہم نے کچھ باتیں تسلیم نہ کیں توپاکستان انڈیاپر بہت بڑاحملہ کرے گا‘‘،تویہ جملہ محض ایک سفارتی بیان نہ تھابلکہ وہ ناقوس تھاجوجنگ کے ممکنہ الارم کوبجاگیا۔اس اعتراف میں نہ صرف خارجہ پالیسی کی کمزوری جھلکتی ہے بلکہ یہ سفارتی بھرم کی وہ دراڑہے جس سے سچائی چھلک کرباہرآگئی۔
دوسری طرف،جب انڈین دفاعی اتاشی نے نہایت سپاٹ لہجے میں’’سیاسی رکاوٹوں‘‘کی وجہ سے’’چندطیارے کھونے‘‘کااعتراف کیا، توایسامحسوس ہواجیسے کوئی کمانڈراپنے ہی قلعے کی دیواروں میں شگاف دکھارہاہو۔وہ شگاف جواب اپوزیشن کے نعرے نہیں،خود حکومت کے منصب داروں کے لبوں سے ظاہرہو رہے ہیں۔کانگریس کے رہنماجے رام رمیش کاالزام کہ ’’بی جے پی حکومت نے قوم کوگمراہ کیا‘‘،محض ایک سیاسی نعرہ نہیں،بلکہ وہ آئینہ ہے جس میں سچائی اپناچہرہ دکھارہی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ کااعتراف کہ چارروزہ معرکہ آرائی میں انڈین فوج کوخاصانقصان اٹھاناپڑا،اس سچائی کی گویامہرہے جو طویل عرصے سے پسِ پردہ رکھی گئی تھی۔گویاوہی چراغ جل اٹھا جسے بجھانے کی ہزارکوششیں کی گئیں۔اس کے ساتھ ہی جب انہوں نے یہ تسلیم کیاکہ’’ہمیں الیکٹرانک وارفیئر کوبہتر بنانے کی ضرورت ہے‘‘،تودراصل یہ ایک ایساعسکری تجزیہ تھاجس میں ایک قومی کمزوری کاکھلااعتراف چھپاہواتھا۔
جب سوال پوچھا گیا کہ پاکستانی فضائیہ کی جانب سے جوبریفنگزدی گئیں،ان میں بارہاذکرآیاکہ انڈین طیاروں کی”جیمنگ”ہوئی۔یعنی وہ جدیدٹیکنالوجی جس کا دعویٰ بھارت نے اپنی عسکری برتری کے ثبوت کے طورپرکیاتھا،وہی ٹیکنالوجی اُس کے اپنے ہتھیاروں کوگم کردیتی رہی۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ، سیاست اورعسکریت ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرسوال کررہے ہیں۔کیایہ وہی بھارت ہے جواپنے عوام کوشائننگ انڈیاکے خواب دکھاتا رہا ؟ کیایہ وہی حکومت ہے جوانتخابات سے قبل قومی غرورکوچمکانے کیلئے جنگی تماثیل پیش کرتی رہی؟آج جب اندرسے آوازآرہی ہے کہ”ہمیں بہت کچھ کھوناپڑا”،توکیایہ اعتراف نہیں کہ قومی فخرکومحض انتخابی سیاست کی بھٹی میں جھونک دیاگیا؟
یہ وقت ہے جب حقائق کی روشنی کوچھپانے والے پردے چاک ہوچکے ہیں۔اب نہ توسفارتی الفاظ کی ملمع کاری کچھ چھپاسکتی ہے، نہ عسکری بیانات کی گرداس سچائی کودھندلاسکتی ہے۔برصغیرکے اس خطے میں،جہاں ایک زخم بھی صدیوں کانوحہ بن جاتاہے، یہاں یہ اعترافات کل کی تاریخ کاعنوان اورآنے والے کل کے سبق بن چکے ہیں۔
زمانے کے آئینے میں ہم عکسِ ابراہیم ڈھونڈتے ہیں،مگرہرطرف نمرودکی مسکراہٹیں ہیں،کبھی ہم نے آسمان کی طرف دیکھاتھااورستاروں میں توحید کی چمک تلاش کی تھی،مگرآج زمین پر معاہدے طے ہورہے ہیں جن کی روشنائی میں فلسطین کے یتیموں کے آنسواوریروشلم کے زخمی پتھراپنانوحہ لکھ رہے ہیں۔یہ ابراہیمی معاہدہ نہیں،یہ ابراہیمؑ کی نسبت کا استحصال ہے۔یہ کعبے کے وارثوں کاوہ دست خط ہے جوقبلۂ اوّل کی تنہائی پرثبت کیاگیاہے۔ کہاں گئے وہ مردانِ صفا؟جن کی آنکھیں قدس کے میناروں میں اذان کی صورت جگمگاتی تھیں؟کہاں گئے وہ لب جو’لبّیک یااقصیٰ’کاوردکرتے تھے؟
قرآن پکاررہاہے:۔اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھامے رہو،اورتفرقہ نہ ڈالو(العمران:103)
مگرآج ہم نے اُس رسی کوچھوڑکرتل ابیب کے ریشمی جال تھام لیے ہیں۔حضرت ابراہیمؑ،جن کے قدموں کے نشان صفاپرآج بھی موجودہیں،ان کی سیرت کامرکز”لاالہ الااللہ”تھااورآج انہی کے نام پرمعاہدہ ابراہیم کے سائے میں بیت المقدس کی نیلامی ہورہی ہے۔
اے اہلِ قلم!اے اربابِ ضمیرکیاوقت نہیں آیاکہ تم اپنی تحریروں سے قافلوں کوروک دوجو طاغوت کے سنگ چپ چاپ گزر رہے ہیں؟
اے اہلِ مشرق!کیاتم نے تاریخ کے اس منظرکوبھلادیاجب صلاح الدین ایوبی کی تلوارنے مسجداقصیٰ کی مٹی سے صلیب کی زنجیرتوڑی تھی؟آج وہی مسجد، وہی محراب،وہی قبلہ،اکیلاکھڑا ہے ،اوراس کے وارث… معاہدوں کی میزپرگردن جھکائے بیٹھے ہیں۔کیاتمہیں نہیں معلوم کہ:
(یہودونصاریٰ تم سے ہرگزراضی نہ ہوں گے جب تک کہ تم ان کے دین کی پیروی نہ کرو)(البقرہ:120)
پھرتم نے رضامندی کے سندکیلئےکن دروازوں پردستک دی؟کیاصلح کی تمنامیں تم نے اپنی غیرت کاخراج ادانہیں کیا؟کیا یہ معاہدہ تمہیں امن دے گا؟ یا پھراسی امن کی آڑمیں تمہارے وجودکومسخ کردے گا؟
کیاآپ کویاددلانے کی ضرورت ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں حضرت محمدﷺنے معراج کی شب انبیاءکی امامت فرمائی تھی،یہ وہی خطہ ہے جہاں حضرت عمربن خطابؓ اپنے نعلین ہاتھ میں لیے،قدس کی مٹی پرننگے پاؤں داخل ہوئے تھے، یہ وہی زمین ہے جہاں سجدہ کیاگیاتوزمین مقدس ہوگئی اورآج اسی سرزمین کوسفارتی دسترخوان پرسجادیاگیاہے۔ کیاعمربن خطابؓ کایہ قول بھول گئے کہ عمرجب فرات کے کنارے ایک کتابھی پیاسامرجائے توامیرالمومنین سے سوال ہوگا۔توکیاآج مسجد اقصیٰ کی آہوں پرامت مسلمہ کی قیادت کاسوال نہ ہوگا؟—
یہ تحریرفقط ایک مقالہ نہیں،یہ ضمیرکی دستک ہے۔یہ وہ اذانِ سحرہے جوشبِ غفلت میں لپٹی ہوئی قوموں کو جگانے آتی ہے۔یہ وہ”” لبیک”” ہے جوابھی زبان پرنہیں،مگرقلبِ مومن کے اندرکہیں گونج رہی ہے۔ آئیے!اس گونج کوصدائے احتجاج بنائیں،اس احتجاج کوتحقیق ویقین کالباس پہنائیں اورابراہیمی معاہدے کی تہہ میں چھپے سیاسی،مذہبی،اورتہذیبی جبرکاپردہ چاک کریں کہ ابراہیمی معاہدہ ایک نیاجغرافیائی عمرانی معاہدہ ہے،جس میں مسلمانوں کی سیاسی کمزوری،مذہبی انتشار،اورمعاشی بے وزنی کوخوب خوب استعمال کیاجارہاہے لیکن اگر تاریخ ہمیں کچھ سکھاتی ہے،تووہ یہ ہے کہ جبرسے بندے بدلتے ہیں قومیں نہیں۔اورفلسطین کی سرزمین،تاریخ کے ماتھے پروہ زخم ہے جوہرنئی صلح کے ساتھ زیادہ تازہ ہوجاتاہے۔
آج اگرسچائی کاسامنانہ کیاگیاتویہ اعترافات آئندہ نسلوں کے قومیں اپنے ماضی سے آنکھ چرانے لگیں توان کاحال ان پرانتقام بن کرٹوٹتاہے۔ یادرکھیں!
ماتھے پر سوال بن کر چمکتے رہیں گے۔