پاکستان کی خودمختاری،شہری سلامتی،عبادت گاہوں اوربنیادی انفرااسٹرکچرکو6مئی2025کی رات کوبھارت کی جانب سے غیر اعلانیہ اوربزدلانہ حملے کاسامناکرناپڑا۔یہ حملے عالمی قوانین،جنیوا کنونشن ، اورجنگی اخلاقیات کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
بین الاقوامی انسانی قوانین اوراقوام متحدہ کے چارٹرکی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعصب ہندونے رات کو پاکستان اورآزاد کشمیرمیں مساجد،عبادت گاہوں اورشہری آبادی پرمیزائل حملے کیے۔یہ حملے اس وقت کیے گئے جب لوگ سورہے تھے،جوکہ ایک بزدلانہ حکمتِ عملی کی عکاسی کرتاہے۔بین الاقوامی انسانی حقوق،خاص طورپرجنیواکنونشن کے تحت،عبادت گاہوں اورنہتے شہریوں پرحملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔یہ حملے نہ صرف بین الاقوامی اقدارکی تضحیک ہیں بلکہ ایک ایٹمی طاقت کے غیرذمہ داررویے کی عکاسی کرتے ہیں ۔یہ کارروائی بین الاقوامی قوانین،خاص طورپراقوام متحدہ کے کنونشنزاورجنگی قوانین کی صریح خلاف ورزی قراردی جارہی ہے۔
بھارت کی جانب سے چھ مختلف مقامات پرمیزائل برسائے گئے،یہ حملے مظفرآباد،راولاکوٹ،بہاولپوراورکوٹلی سمیت مختلف شہری علاقوں میں کیے گئے جن کے نتیجے میں ان حملوں میں کم از کم26عام شہری شہیداور46شدیدزخمی ہوئے جن میں عورتیں اوربچے بھی شامل تھے۔ یادرہے جنیواکنونشن 1949 کے مطابق شہریوں اورمذہبی مقامات پرحملے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔آرٹیکل51کے تحت، فوجی کارروائیوں میں شہریوں کونشانہ بناناممنوع ہے۔کسی خودمختارملک کی سرزمین پریکطرفہ فوجی کارروائی اقوام متحدہ کے چارٹر کےاصولوں کے منافی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا غلط استعمال کرتے ہوئے بھارت کے “دہشت گرد ٹھکانوں” کے مبہم دعوے بغیر ثبوت کے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی ناکام کوشش ہیں۔
یہ حملے رات کی تاریکی میں کیے گئے تاکہ عالمی سطح پربھارت کی جارحیت پرپردہ ڈالاجاسکے۔جبکہ انڈین سیکریٹری خارجہ، وکرم مصری کے اس بیان سے بھارتی مؤقف کاتضادحملے کے بعد ایک غیرذمہ دارانہ بیان سے دیکھاجاسکتاہے جس میں کہاگیاکہ یہ کارروائی”نپی تلی”تھی اوراس کامقصد کشیدگی کوبڑھانا نہیں بلکہ دفاع تھا۔تاہم،پاکستان میں شہری اہداف کونشانہ بنانااس جھوٹے دعوے کی کھلی نفی کرتاہے۔تاہم اگرمقصدکشیدگی کم کرناتھاتوعبادت گاہوں اورشہری علاقوں کونشانہ بنانے کاجوازکیاہے؟ان کے بیان سے ظاہرہوتاہے کہ وہ اپنی قوم اورعالمی برادری سے اپنی ناکامی اورشکست چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔بھارت نے ان حملوں کو’آپریشن سندور‘کانام دیااوردعویٰ کیاکہ اس کے تحت”دہشتگردوں کے ٹھکانوں”کونشانہ بنایاگیا۔تاہم بھارت کے اس”آپریشن سندور”کے تحت کیے گئے حملوں کاکوئی معتبرثبوت بھی اب تک پیش نہیں کیاجاسکا۔
پاکستانی فوج اوروزیردفاع کے مطابق پاکستان نے مؤثردفاعی جواب دیتے ہوئے پانچ بھارتی جنگی طیارے(جن میں رافیل طیارے بھی شامل ہیں)مار گرائے گئے اورمتعددبھارتی جاسوس ڈرونزتباہ کیے ہیں جوپاکستانی فضائی حدودمیں داخل ہوچکے تھے۔علاوہ ازیں جوابی کارروائی میں بھارت کی زمینی چوکیوں کوبھی نشانہ بنایاگیاجنہیں حملے میں مددفراہم کرنے کے شواہدملے تھے ۔ پاکستان نے یہ جوابی کارروائی اپنے دفاع کے حق میں،مکمل پیشہ ورانہ مہارت اورتحمل کامظاہرہ کرتے ہوئے کی۔
بھارت کی یہ کارروائی نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ انسانی اقدارکے بھی منافی ہے۔پاکستان نے ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے دفاعی حدتک جواب دیااورشہریوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دی۔پاکستان عالمی برادری،خاص طورپراقوام متحدہ،اوآئی سی، یورپی یونین اوردیگر اداروں سے مطالبہ کرتاہے کہ بھارت کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
تاہم پہلگام فالس فلیگ واقعہ کے بعدبھارت اب تک پاکستان پرلگائے گئے الزام کاکوئی آزادذرائع سے تصدیق شدہ ثبوت آج تک فراہم نہیں کیاجاسکا۔ بین الاقوامی میڈیااورغیرجانبدار مبصرین نے بھی بھارت کے اس دعوے پرسوال اٹھائے ہیں کہ آخرکیاوجہ ہے کہ ہمیشہ جب بھی کوئی امریکی اعلیٰ حکام بھارت کے دورہ پرآتے ہیں،اسی وقت بھارت کے ہاں ایسا جعلی ڈرامہ دہرایاجاتاہے۔کیاوجہ ہے کہ ہمیشہ بھارت میں انتخابات کے موقع پرمودی کی طرف سے یہ ڈرامہ رچایاجاتاہے تاکہ اپنے اقتدارکیلئے یااپنے متعصب ایجنڈے کوآگے بڑھانے کیلئے ایسے فالس فلیگ آپریشن میں اپنے ہی شہریوں کو گولیوں سے بھون دیاجاتاہے۔بھارت کایہ غیر اخلاقی اوربزدلانہ حملہ جنوبی ایشیاکے امن کیلئے سنگین خطرہ ہے۔عالمی برادری، بالخصوص اقوام متحدہ کو چاہئے کہ وہ فوری طورپربھارت کے خلاف کارروائی کرے اوربین الاقوامی قوانین کی پاسداری کویقینی بنائے۔
پاک وہندکے اس تصادم کے بعدعالمی برادری کاردعمل بھی آناشروع ہوگیاہے۔چین اورامریکانے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے فوری طورپر مذاکرات کی میزپراپنے معاملات طے کرنے کامشورہ دیاہے۔چینی وزارت خارجہ نے حملوں کوافسوسناک قراردیتے ہوئے دونوں ممالک سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی ہے۔چینی وزارت خارجہ نے بھارت کی کارروائی کو “افسوسناک”قراردیتے ہوئے کہاکہ جنوبی ایشیامیں طاقت کے استعمال کے بجائے بات چیت کوترجیح دی جانی چاہیے۔
امریکی صدرڈونلڈٹرمپ نے اس حملے کو”شرمناک”کہاکہ ایک ایٹمی ریاست کواس قسم کی بلاجوازکارروائی سے بازرہناچاہیے، یہ خطے میں امن کیلئے خطرہ ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہنگامی اجلاس طلب کرنے پرغورکیاجارہاہے،جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے آزاد تحقیقات کامطالبہ کیاہے۔یہ بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی سطح پربھارت کی کارروائی کوقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔
بھارت کی جانب سے پاکستانی شہریوں اورمذہبی مقامات پرحملے نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں،بلکہ یہ خطے میں عدم استحکام کوبڑھانے کاباعث بھی بن رہے ہیں۔بین الاقوامی برادری کوفوری طورپرثالثی کاکردارادا کرتے ہوئے تنازعے کے سیاسی حل پرزوردیناچاہیے۔
بھارتی افواج نے گزشتہ رات کیے گئے میزائل حملوں میں ایک نہایت خطرناک اوراشتعال انگیزقدم اٹھایا،جس میں پاکستان کے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اورنوسیری ڈیم کونشانہ بنایاگیا۔یہ منصوبہ آزادکشمیرمیں واقع ہے اورپاکستان کوسالانہ ہزاروں میگاواٹ سستی بجلی فراہم کرتاہے۔بھارتی میزائل حملے کے نتیجے میں پراجیکٹ کے تکنیکی ڈھانچے کونقصان پہنچا،جس سے بجلی کی فراہمی متاثرہوئی ہے۔اسی طرح نوسیری ڈیم،جونیلم جہلم منصوبے کاحصہ ہے،کوبھی نشانہ بنایاگیا۔اس حملے سے ڈیم کی ساخت اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کونقصان پہنچنے کااندیشہ ہے۔اگراس ڈیم کومکمل تباہ کیاجاتا تو نچلےعلاقوں میں شدیدسیلاب آسکتا تھا،جس سے ہزاروں جانوں اوراربوں کی املاک کانقصان ہوتاجبکہ جنگی قوانین کے تحت ڈیمزاورآبی تنصیبات پرحملے کی سختی سےممانعت ہے۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاجنگی قوانین اوربین الاقوامی قوانین اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ کسی ملک کے آبی ذخائراورڈیمزکو نشانہ بنایاجائے؟جبکہ بین الاقوامی قانونی مؤقف کے مطابق1997ءکے اضافی پروٹوکول جنیواکنونشنزکے تحت آرٹیکل56میں واضح طورپرکہاگیاہے کہ:
“Works and installations containing dangerous forces, namely dams, dykes and nuclear electrical generating stations, shall not be made the object of attack.”
خطرناک قوتوں پرمشتمل کام اورتنصیبات،یعنی ڈیم،ڈائکس اورجوہری بجلی پیداکرنے والے اسٹیشنوں کوحملے کانشانہ نہیں بنایا جائے گا۔
اس کامطلب ہے کہ ڈیمز،آبی ذخائراوربجلی پیداکرنے والے ہائیڈروپلانٹس کونشانہ بناناجنگی جرم تصورکیاجاتاہے۔ایسے ہولناک حملے کے ممکنہ نتائج میں لاکھوں افراد کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ ماحولیاتی تباہی، پانی کی قلت، اور معیشت کو طویل مدتی نقصان پہنچ سکتاہے۔یہ اقدام ماحولیاتی دہشت گردی کے زمرے میں بھی آتاہے۔بھارت کی یہ کارروائی نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ انسانی اقدارکے منافی ہے۔پاکستان نے ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے دفاعی حدتک جواب دیااورشہریوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دی۔
پاک فوج کے ترجمان جنرل احمدشریف چوہدری نے بروقت عالمی برادری کومتنبہ کیاکہ “کیا انڈیاجانتاہے کہ آبی تنصیبات پرحملے کے کیاخطرناک نتائج ہوں گے؟”انہوں نے خبردارکیاکہ بھارت کے اس اقدام کے سنگین جیوپولیٹیکل نتائج ہوں گے۔انہوں نے خبردارکیاکہ پاکستان اپنے آبی ذخائرکے دفاع کیلئے ہرممکن اقدام کرے گا۔مزیدیہ کہ ،پاکستان نے اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اوردیگراداروں سے فوری نوٹس لینے کی اپیل کی ہے تاکہ ایسے خطرناک رجحانات کوروکاجاسکے جوخطے میں انسانی بحران کوجنم دے سکتے ہیں۔
پاکستان ایک ذمہ دار،پرامن اوربین الاقوامی قوانین کاپابندریاست ہے لیکن جب ریاست کودرپیش خطرات اس کی شہری آبادی، عبادت گاہوں، اور بنیادی انفرااسٹرکچرکونشانہ بناتے ہیں، توعوام کے تحفظ کی حدتک ہرریاست کی بین الاقوامی ذمہ داریوں میں اس کا یہ آئینی،قانونی اوراخلاقی فرض بن جاتاہے کہ وہ اپنی عوام کاہرقیمت پرتحفظ کرے۔
بین الاقوامی قانون کے تحت،خاص طورپراقوام متحدہ کے چارٹرکے آرٹیکل51کے تحت،ہرملک کواپنی خودمختاری اورسلامتی کے خلاف حملے کی صورت میں دفاع کامکمل حق حاصل ہے ،جس میں مسلح کارروائی شامل ہے۔
تحفظ کی ذمہ داری کااصول(آرٹی پی)–جویہ وضاحت کرتاہے کہ اگرکوئی ریاست اپنے شہریوں کوقتلِ عام،نسلی صفایا،جنگی جرائم یاانسانیت کے خلاف جرائم سے بچانے میں ناکام ہو،تو عالمی برادری کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مداخلت کرے۔
لیکن یہ ذمہ داری سب سے پہلے متاثرہ ریاست پرعائد ہوتی ہے کہ وہ
٭حملے کے منبع کوبے اثرکرے،
٭شہری علاقوں کوڈھال بننے سے روکے،
٭حملہ آورقوت کوبازرکھے،اور
٭اقوامِ متحدہ کوصورتحال سے آگاہ کرکے قانونی مددحاصل کرے۔
بھارت کی موجودہ کارروائیاں–جنگی جرم اوراشتعال انگیزی پرمبنی ہیں۔بھارت نے جس اندازسے مساجدکونشانہ بنایا،نیلم جہلم ہائیڈروپاورپراجیکٹ اورنوسیری ڈیم پرمیزائل برسائے،عورتوں اوربچوں سمیت درجنوں بے گناہ پاکستانی شہریوں کوشہیدکیا،یہ تمام اقدامات بین الاقوامی سطح پرجنگی جرائم،انسانیت کے خلاف جرائم اورماحولیاتی دہشتگردی کے زمرے میں آتے ہیں۔
پاکستان بین الاقوامی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی افواج کودفاع کامکمل اختیاردیتاہے،دشمن کی فوجی تنصیبات کونشانہ بنانے کاحق محفوظ رکھتا ہے،ایسی کارروائیاں جن کا مقصدشہری جانوں کی حفاظت،مستقبل کے حملوں کی روک تھام،اوربھارت کی جارحیت کوغیرمؤثربنانانہ صرف جائز بلکہ ناگزیر ہیں۔
ہم عالمی برادری کومتنبہ کرتے ہیں کہ اگربھارتی حملے جاری رہے،توپاکستان شہری آبادی کوبچانے کیلئے ٹارگٹڈملٹری اسٹرائکس کاحق محفوظ رکھتاہے،کسی بھی سطح کی جارحیت کابھرپور،فوری اورفیصلہ کن جواب دے گااوراقوام متحدہ کے چارٹرکے آرٹیکل 51کے تحت اپنادفاعی حق استعمال کرے گا۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ:
✅پاکستان فوری طورپربین الاقوامی سفارتی مہم کاآغازکرے۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان(امریکا،چین،روس،برطانیہ،فرانس)، اسلامی تعاون تنظیم”اوآئی سی”اور یورپی یونین کے فورمزپربھارت کی ننگی جنگی جارحیت کوروکنے کے خلاف اقوام متحدہ میں ہنگامی اجلاس بلانے کامطالبہ کیاجائے جہاں پاکستان کے شہریوں کی شہادت کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے مودی کو جنگی مجرم قراردلانے کا مطالبہ کیا جائے۔
✅عالمی میڈیا کوحقائق پرمبنی شواہدپیش کرنے کیلئے حملوں کی تصاویر،شہرویڈیوز،سیٹلائٹ فوٹیج،میزائل کے باقیات اورشہری ہلاکتوں کی ڈاکٹری رپورٹس عالمی میڈیاکوفراہم کی جائیں۔
✅غیرملکی صحافیوں کومتاثرہ علاقوں کادورہ کروایاجائے۔
✅نیلم جہلم ہائیڈروپاورپراجیکٹ اورمساجدپرحملوں کو”وارکرائم”کے طورپرپیش کرنے کے عملی اقدامات کئے جائیں۔
✅بھارت کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائرکیاجائے۔
✅بین الاقوامی قانون کے تحت بھارت کے جنگی جرائم پرانٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس یاانٹرنیشنل کرمنل کورٹ سے رجوع کیاجائے۔
✅ماحولیاتی دہشتگردی”،”شہریوں کے قتل”اور”مذہبی مقامات پرحملوں”کی قانونی بنیادوں پرپیروی کابندوبست کیاجائے۔
✅ہتھاروں کے عدم پھیلاؤاورامن پسندی کااعلان کرتے ہوئے اقوام عالم کوباورکروایاجائے کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتالیکن دفاع کا مکمل حق رکھتاہے۔
✅جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے اجتناب کااعلان(یہ عالمی برادری میں پاکستان کی پوزیشن کواخلاقی طورمضبوط کرے گا)۔
✅پاکستان کواقوامِ متحدہ اوراوآئی سی جیسے فورمزپربھارت کے خلاف اقتصادی وسفارتی پابندیوں کامطالبہ کرتے ہوئے مندرجہ ذیل پابندیوں کی سفارش کی جائے۔
✅بھارت کواسلحے کی سپلائی پرعالمی پابندی لگائی جائے۔
✅بھارتی مصنوعات پرٹیکس یابائیکاٹ کی مہم چلائی جائے۔
✅بھارتی فوجی اہلکاروں اورسیاستدانوں پرویزہ پرپابندیاں لگاکرسفرکی پابندیاں لگائی جائیں۔
✅انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر(جی ایس پی پلس اسٹیٹس)تجارتی مراعات ختم کی جائیں۔
✅چین،ترکی،سعودی عرب اوردیگردوست ممالک سے مشترکہ مؤقف کااعلان کیاجائے۔
✅چین کے ذریعے اقوامِ متحدہ میں ویٹوپاورکواستعمال کیا جائے۔
✅سعودی عرب ودیگرخلیجی ریاستوں کے ساتھ مشترکہ مذمتی اعلامیہ جاری کروایاجائے۔
✅بھارت کوسفارتی طورپرتنہاکرنے کی کوشش تیزکی جائیں۔
نتیجہ:📌
اگر پاکستان ان تمام اقدامات کومربوط اندازمیں،شواہداوربین الاقوامی قانون کی روشنی میں پیش کرے،تودنیابھارت کوجارح ریاست تصورکرنے پر مجبورہوجائے گی۔تب عالمی برادری کی ہمدردی پاکستان کے ساتھ ہوگی،اوربھارت پرسفارتی،تجارتی اورقانونی دباؤ ڈالناآسان ہوجائے گا۔
٭پاکستان عالمی برادری سے مطالبہ کرتاہے کہ اقوام عالم بالخصوص امریکااورمغرب کی طرف سے فوری طورپربھارت کی مذمت کی جائے اوراس کے خلاف قرارداد پیش کی جائے۔
٭بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیاجائے تاکہ شہری،مذہبی،اورآبی تنصیبات پرحملوں کی تحقیقات ہوسکیں۔
٭آبی تنصیبات پرحملے کوجنگی جرم تسلیم کرتے ہوئے بھارت پرپابندیاں عائدکی جائیں۔
٭خطے میں قیامِ امن کیلئے سفارتی دباؤڈالاجائے۔
آخرمیں یاددہانی کیلئے یہ ذہن نشین رہے کہ پاکستان امن کاخواہاں ملک ہے،مگراپنی خودمختاری،شہریوں،اوروسائل کادفاع ہرقیمت پرکرے گا۔ہم پرامن حل کے حامی ہیں،لیکن جارحیت کے جواب میں مکمل دفاع ہماراآئینی،اخلاقی اورانسانی حق ہے۔
پاکستان عالمی برادری،خاص طورپراقوام متحدہ،اوآئی سی،یورپی یونین اوردیگر اداروں سے مطالبہ کرتاہے کہ بھارت کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔بین الاقوامی تحقیقات کروائی جائیں۔جنوبی ایشیاکے امن کوتباہ ہونے سے روکاجائے۔