بہت ہی محتاط اندازمیں پانامالیکس کے حوالے سے دنیابھرمیں آف شورکمپنیوں کے بارے میں جاری وساری شورکے بارے میں قارئین کوآگاہ کیاتھالیکن قارئین کے ان گنت پیغامات نے مجبورکردیاکہ ان کی تسلی وتشفی اوران کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کامختصرسااحاطہ کیاجائے ۔ جوں جوں حضرتِ انسان اپنی فطرت کے اہم داعیہ اخلاق وشائستگی سے دورہوتاجائے گا،اس کے عیوب بے نقاب ہوتے رہیں گے۔ مشکوک پس منظرکے حامل دوافرادکی بنائی ہوئی فرم”موساک فونسیکا”جوبدعنوانی سے اکٹھی کی گئی دولت کوقانونی لبادہ اوڑھانے کا کام کرتی تھی،بہت جلدپوری دنیااس کے پنجوں میں جکڑی گئی۔جرمنی کے ایک بڑے اخبارنے یہ بھانڈاپھوڑدیا۔اب اس کے گندے کپڑے دنیاکے چوراہے پردھوئے جارہے ہیں۔پانامالیکس بڑے پیمانے پراٹھنے والی وہ دھول ہے جس نے بہت سے چہروں کی روسیاہی کے بعداب سابق استعمار برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کوبھی اپنی زدمیں لے لیاکہ ان کو والدکی آف شورکمپنی میں حصہ دارپایاگیاجس کے بعد وزیراعظم کی رہائش گاہ ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ پرنو اپریل کوہزاروں احتجاجی مظاہرین بینرز اور پلے کارڈ اٹھائے استعفیٰ کامطالبہ کررہے تھے۔ ڈیوڈکیمرون نے اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ ”یہ ایک سبق ہے اورمیں اس سے ممکن حدتک سیکھوں گا”۔ کنزر ویٹوپارٹی کے ارکان سے گفتگو میں برطانوی وزیراعظم نے کہا: مجھے اپنے خاندان کے ٹیکس معاملات کی جانچ صحیح طریقے سے کرنی چاہئے تھی،یہ ہفتہ میرے لئے اچھانہیں گزرا”۔
لندن میں لیبرپارٹی نے برطانوی وزیراعظم سے مطالبہ کیاکہ وہ اپنامنصب چھوڑکرگھرچلے جائیں۔لندن کے سابق مئیرکین لیونگ اسٹون نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا:ڈیوڈ کیمرون کااستعفیٰ کافی نہیں،انہیں جیل میںڈال دیاجائے۔ڈیوڈکیمرون نے آف شورفنڈمیںشیئرزکااعتراف کیاہے،اب اعتراف کرنے یااستعفیٰ دینے سے کام نہیں چلے گا،انہیں جیل جاناہی ہوگا۔یہی نہیں اثاثے ظااہرنہ کرنے پربرطانوی وزیراعظم کوجواب بھی دیناہوگا”۔ لیبرپارٹی کے رہنماء واٹس کاکہناتھا:کیمرون کوان کے والد کے عمل کاذمہ دارنہیں ٹھہرایاجاسکتالیکن وزیراعظم اپنے سابقہ مالیاتی انتظامات پرعوام سے سچ نہیں بول رہے ہیں۔
دنیابھرمیں چیخ وپکارہے ،دھول اڑرہی ہے،اڑائی جارہی ہے۔لاطینی امریکاکے ملک السلواڈورمیں حکام نے پاناماکی ثانوی کمپنی موساک فونسیکاکے دفترپرچھاپہ مارکر دستاویزات اورکمپیوٹرکاسازوسامان ضبط کرلیا۔اٹارنی جنرل کے دفترسے اطلاع دی گئی کہ ایک روزقبل موساک فونسیکاکاسائن ہٹادیاگیاتھااورکمپنی کے ایک ملازم کے حوالے سے بتایاکہ وہ کسی دوسری جگہ منتقل ہو رہے ہیں۔پاناماکی قانونی کمپنی موساک فونسیکاکی افشاء ہونے والی ہزاروں دستاویزات سے پتہ چلاہے کہ دولت چھپانے کیلئے کس طرح سے ”ٹیکس ہیون”کااستعمال کیاجاتاہے۔مقامی نیوزویب سائٹ الفارو کے مطابق السلوڈورکے باشندوں نے موساک فونسیکاکے ذریعے حکومتی انتظامیہ کوبتائے بغیر ملک میں جائیدادیں خریدی تھیں۔
پاناماکی کمپنی نے کسی بھی قسم کے غیرقانونی کام کرنے کی تردیدکی ہے۔اس کاکہناہے کہ معلومات کوسیاق وسباق سے ہٹ کرپیش کیاجارہاہے۔ پاناما کے صدرجون کارلوس واریلا نے فرانس کی جانب سے پاناماکو”ٹیکس ہیون”کی فہرست میں شامل کرنے پرتنقیدکی ہے۔اژانس فرانس پریس کے مطابق میڈیاسے گفتگومیں ان کاکہناتھا:میں صاف صاف بتادیناچاہتاہوں کہ فرانس کے صدرنے جوفیصلہ کیاہے ،وہ غلط اورغیرضروری ہے۔
پانامالیکس سے پاکستان کے سیاسی افق پرجس قسم کے ردّعمل کااظہارکیاجارہاہے وہ مروّجہ سیاسی رویوں کے حوالے سے غیر متوقع نہیں تاہم متوازن ومعتدل جنہیں سنجیدہ فکرکے حامل قراردیاجاتارہاہے اس صورتحال کوقابل رشک قرارنہیں دے رہے۔تسلیم کیاکہ پاناماکی لاء فرم سے چوری ہونے والی دستاویزات نے ساری دنیامیں کھلبلی مچادی ہے اور مختلف ممالک میں اعتراضات اوراستعفوں کاایک سلسلہ بھی دیکھنے میں آرہاہے لیکن ان انکشافات پرحکومت،اپوزیشن اوردیگرسیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پرالزام تراشی کا جوبے ڈھنگاطریقہ اختیارکیاہے،اسے کسی بھی صورت درست قرارنہیں دیاجاسکتا۔آف شور کمپنیوں کے بارے میں تفصیلات کے منظرعام پرآتے ہی اپوزیشن محاورے کی زبان میں لٹھ لیکرحکومت کے پیچھے پڑگئی اور وزیراعظم کے استعفے سے محاسبے تک ہرقسم کے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔
حکومتی ترجمان یانمائندے بھی اظہارِخیال کیلئے مطلوب پرمغز،مدلل اوردل کولگنے والااندازاپنانے سے یکسرعاری نظرآتے ہیں اورشاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداری کے ایسے نمونے پیش کررہے ہیں کہ الامان الحفیظ!اس اندازِ بحث وتمحیص کی ایک عوامی حکومت سے ہرگزتوقع نہیں رکھی جاسکتی۔ پانامالیکس میں ذکروزیراعظم کی اولادکاتھامگردفاع کیلئے وزیر اطلاعات اسی اندازمیں کمربستہ نظرآتے ہیںجوان کے منصب کے شایانِ شان ہرگز قرارنہیں پاتا۔ان کامنصب حکومت کی پالیسیوں کے ترجمان کی حیثیت سے میدان میں اترنے کامتقاضی ہوتاہے مگروہ وزیراعظم کے ذاتی معاملات کے تحفظ کیلئے میدان کارزارمیں اترکراپنی اورحکومت دونوں کی سبکی کاباعث بن رہے ہیں۔یہی حال دیگروفاقی وزرا، مشیران اورحکومت پنجاب کے نمائندوں کاہے۔ اصولی طورپروزیراعظم کوذاتی سطح پریاان کے غیرسرکاری نمائندے کواس معاملے کی وضاحت کرنی چاہئے تھی۔
عمران خان تبدیلی یاانقلاب برپاکرنے کانعرہ لگانے والے اب فرماتے ہیں کہ میں رائے ونڈمیں وزیراعظم کی ذاتی رہائش گاہ پردھرنادوں گا مگروہ بھول رہے ہیں کہ رائے ونڈمیں کوئی ایوان صدرہے نہ وزیراعظم ہاؤس ،اوراگران کادھرناکامیاب ہوگیا یعنی ان کاکبھی نہ پوراہونے والاخواب شرمندۂ تعبیرہوگیاتووہ پھررائے ونڈکی کون سی عمارت پرقبضہ کرکے سیاسی زندگی کا آخری باؤنسرلگائیں گے؟کہیںشریف خاندان کے محلات پرقبضہ کرکے بنی گالہ کے محل سے تبادلے کی تمناتونہیں؟
کپتان نے اس قومی اسمبلی کوجس کوسینکڑوں مرتبہ جعلی ،فراڈیوں اورکرپٹ افراد کامجموعہ کہنے کاریکارڈقائم کرچکے ہیں،اب اسی اسمبلی میں پاناما لیکس کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے وہ لب ولہجہ اختیارکرنے سے گریزکیاجوان کے تعارف و ثقافت کی حیثیت اختیارکرچکاہے بلکہ حدودو قیوداورادب وآداب کے اندررہا۔اس پرواقفانِ کپتان کو حیرت ہوئی ، اس حیرت کویقیناً خوشگوارہی قراردیاجاناچاہئے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ اورحکومتی بنچوں سے جن وزراء نے خطاب کیا،ان کاموضوع صرف ایک ہی تھایعنی وزیر اعظم کے بیٹی اوربیٹوں کی آف شورکمپنیاں۔اسمبلی اجلاس سے قبل وزیراعظم نے انتہائی عجلت میں قوم سے اپنے خطاب میں پانامالیکس کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈجج کی سربراہی میں عدالتی وتحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کاجواعلان کیاتھا،اپوزیشن کی جماعتوں نے تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ کپتان نے میاں نواز شریف سے مستعفی ہونے کااس جوازکے تحت مطالبہ کیاکہ اب ان کامسنداقتدار پر براجمان رہنے کاکوئی بھی جوازباقی نہیں بچا۔ اورعمران خان نے دھرنے کی دہمکی دیتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی حمائت حاصل کرنے کیلئے اعلان کیاکہ اس مرتبہ وہ سولوفلائٹ نہیں کریں گے۔قومی اسمبلی میں گرماگرم بحث کے دوران اپوزیشن ارکان نے بنچوں پرکھڑے ہوکرہنگامہ آرائی اورشورشرابہ کرکے ایوان کوروایتی مچھلی منڈی میں تبدیل کردیا ۔اپوزیشن ارکان نے پانامالیکس کواہم معاملہ قراردیتے ہوئے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنانے اور کرپشن فری پاکستان کیلئے کل جماعتی کانفرنس بلانے کامطالبہ کیا۔
کپتان کی اکثردورازکاراورعقل وخردسے بعیدباتوں میں ایک اچھی بات بھی سننے میں آئی ۔چوہدری نثارکی طرف سے پاناما لیکس پرآزادکمیشن بنانے کے اعلان کاخیرمقدم کیااور کہاکہ شعیب سڈل ایک بہترین پیشہ وارانہ ساکھ کے مالک ہیں اوران کووائٹ کالرکرائم کی تحقیقات میں مہارت حاصل ہے اس لئے ان کی سربراہی میں پانامالیکس کی تحقیقات کرائی جائیں لیکن اپوزیشن لیڈرنے نہ صرف اس تجویزکوردکردیابلکہ حکومت کی طرف سے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ سرمدعثمانی کانام بھی محض اس لئے مستردکردیاکہ ان کی اہلیہ کاتعلق مسلم لیگ ن سے ہے جبکہ یہ درست نہیں۔ انہوں نے سینٹ کے چیئرمین رضاربانی کانام تجویزکیالیکن رضاربانی نے اس سے معذرت کرلی ۔ادھراے این پی کے ترجمان زاہدخان نے بھی کپتان کی تجویزکی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ یہ معاملہ عمران اورنوازشریف کے مابین نہیں بلکہ پوری قوم کاانتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے،حکومت اور اپوزیشن کی اتفاق رائے سے کمیشن تشکیل دیاجائے۔گویادونوں اطراف سے قوم کومزیداضطراب میں مبتلاکردیاہے۔
یاد رہے کہ پانامالیکس جس کمپنی نے جاری کی وہ سی آئی اے کے ایجنٹوں کامجموعہ ہے۔خودایک بھارتی اخبارنے لکھاہے کہ یہ سی آئی اے کامنصوبہ ہے جبکہ بیشترعرب ممالک کے اخبارات بتارہے ہیں کہ سی آئی اے اورپینٹاگون کی مشترکہ کاوش نے اپنے مفادات کے حصول کیلئے دنیابھرمیں ہلچل مچادی ہے۔صحافی سدھارتھ شری واستوویسٹرن نیوزایجنسی بلومبرگ کے حوالے سے لکھتاہے:سب سے زیادہ ٹیکس چورامریکامیں ہیں، پھرایساکیوں ہے کہ پانامالیکس جاری کرنے والی تنظیم آئی سی آئی جے نے ایک بھی امریکی کانام نہیں لیا بلکہ ایک سوال یہ بعض ذہنوں میں شدت سے کلبلارہاہے کہ پاکستان کی ”اشرافیہ رزیلہ”میں سے دنیابھرمیں سب سے زیادہ آف شوراکاؤنٹس جنرل مشرف کے ہیں،ان کاکہیں بھی کسی بھی حوالے سے نام کسی بھی نوکِ قلم یانوکِ نطق پرنہیں آیا؟جنرل مشرف کے فی الوقت معلوم آف شوراکاؤنٹس میں۲۱۵۶ملین ڈالرز ہیں۔ دبئی، برطانیہ اوربھارت میں ان کے اثاثے ہیں۔ترکی،مشرقِ وسطیٰ،کیریبین وغیرہ میں بے شمارجائیدادیں ہیں۔پاکستان کے زرعی اثاثے توبارہامیڈیاکے توسط سے تشہیرپاچکے ہیں۔کون پتاچلائے گاکہ مشرف نے اربوں کھربوں کی دولت کس کاروبار سے کمائی ہے۔ایک ذریعے کے مطابق بذریعہ ”دھینگامشتی”جلاوطنی کے مزے لوٹنے والایہ شخص پانچ لاکھ روپے ماہانہ اپنے گھریلوں ملازمین کوتنخواہوں کی مدمیں دیتاہے ،آخر کہاں سے اور کیونکر؟کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
Load/Hide Comments