Pakistan: Beacon of Hope and Ideals

پاکستان: امید اور نظریے کا چراغ

:Share

تاریخ کادریاکبھی رکتانہیں،اس کابہاؤصدیوں کی داستانوں اورقوموں کے عروج وزوال کواپنے ساتھ بہالے جاتاہے۔اس کے بہاؤمیں صدیوں کی کہانیاں اورقوموں کی تقدیریں ایک دوسرے کے ساتھ بہتی چلی آتی ہیں۔کبھی ایک قوم عروج کی منزل پرفائزدکھائی دیتی ہے توکبھی دوسری قوم زوال کی پاتال میں جاگرتی ہے۔کبھی ایک قوم فلک بوس عمارتوں اورعلم وفن کی روشنی سے دنیاکومنور کرتی ہے اورکبھی وہی قوم اندھیروں کی قیدمیں جاگرتی ہے لیکن ایک حقیقت ہمیشہ اپنی جگہ برقراررہتی ہے کہ طاقتورہمیشہ اپنی طاقت کے نشے میں ہے۔ کمزورپر غالب آتاہے اوراپنے ظلم کے جوازمیں نت نئی تاویلات تراشتا کبھی تہذیب کی ترویج کے بہانے،کبھی جمہوریت کے پھیلاؤکے نام پراورکبھی دہشتگردی کے خاتمے کی اوٹ میں۔

دنیاکی تاریخ ایک عظیم کتاب ہے جس کے اوراق خون اورآنسوں سے لکھے گئے ہیں۔ہرصفحہ ہمیں یہی بتاتاہے کہ جب ظلم اپنی انتہا کوپہنچتاہے تومظلوم کے دل سے نکلی دعاکائنات کے توازن کوبدل دیتی ہے۔ماضی کی تہذیبیں،سلطنتیں اورطاقتورحکمران آج مٹی کا رزق بن چکے ہیں،مگران کے مظالم کی داستانیں آج بھی اہلِ بصیرت کیلئے عبرت کاسامان ہیں ۔اس جہانِ رنگ وبومیں طاقتورہمیشہ کمزورپرغالب آنے کی کوشش کرتارہاہے اوراپنی جارحیت کوکسی نہ کسی نام سے مزین کرتاآیاہے۔کبھی تہذیب کاپرچم،کبھی جمہوریت کانعرہ اورکبھی دہشتگردی کے خلاف جنگ کابہانہ۔آج بھی وہی کھیل جاری ہے۔نیتن یاہو کاحالیہ بیان اسی پرانی داستان کانیا باب ہیایک ایساباب جوخون کی سیاہی سے لکھاگیاہے اور جس کے پس منظرمیں پوری مسلم دنیاکودھمکی کاپیغام دیاگیاہے۔
جیساکہ اقبال نے کہاتھا:
سبق پھرپڑھ صداقت کا،عدالت کا،شجاعت کا
لیاجائے گاتجھ سے کام دنیاکی امامت کا
اورحال کی صدائے دل بھی یادآتی ہے:
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کااورہی اندازہے
مشرق ومغرب میں تیرے دورکاآغازہے

مگرایک بات ہردورمیں مسلم رہی ہے کہ طاقتوراپنی طاقت کے نشے میں کمزورکوروندتارہاہے،اوراپنے ظلم کی تاویل میں نعرے تراشتارہاہے۔کبھی تہذیب کاعلم،کبھی جمہوریت کی مشعل، اورکبھی دہشتگردی کے خاتمے کابہانہ۔آج کے حالات بھی اس تاریخی تکرار سے الگ نہیں۔

گزشتہ چنددنوں سے نیتن یاہوکاایک ویڈیوپیغام دنیابھرمیں موضوعِ بحث ہے۔اس پیغام میں نائن الیون کے سانحے کاحوالہ دیکرقطرپر اسرائیلی حملے کاجواز پیش کرنے کی کوشش کی ۔یہ بیان محض ایک سیاسی جملہ نہیں بلکہ عالمی سیاست کی نئی بساط پررکھے گئے مہرے کی جھلک ہے۔نیتن یاہونے اپنے دومنٹ کے بیان میں کہاکہ اسرائیل نے وہی کیاجوامریکا نے نائن الیون کے بعدکیاتھا۔امریکانے افغانستان پرحملہ کر کے القاعدہ کے مراکزتباہ کیے اورپھرپاکستان میں گھس کراسامہ بن لادن کومارڈالا۔یہ الفاظ بظاہرایک موازنہ ہیں مگر دراصل آئندہ کے خطرات کی نشاندہی اورپیش گوئی ہیں۔قطرکونشانہ بناکرپاکستان کا حوالہ دیناگویاکل کی سازشوں کادروازہ کھول دیناہے۔گویاقطرآج کا ہدف ہے اورپاکستان کل کا۔

یہ کوئی نئی روش نہیں،یہی توطاقتورقوموں کی پرانی حکمتِ عملی ہے۔تاریخ کے آئینے میں دیکھیں توہرطاقتورنے ظلم کیلئے کسی نہ کسی بہانے کوڈھال بنایاہے۔ وہ اپنے ظلم کیلئے کسی واقعے کوجوازبناتی ہیں،پھراس جوازکواتنادہراتی ہیں کہ کمزورقومیں خودکومجرم سمجھنے لگتی ہیں۔صلیبی جنگوں میں مذہب کوبہانہ بنا یا گیا،نوآبادیاتی دورمیں تہذیب کے فروغ کادعویٰ اور پرچار کیاگیا،اوراب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پرعالمِ اسلام کونشانہ ہی نہیں بنایاجارہا بلکہ کچلاجارہاہے۔

قطرنے بروقت فوری ردعمل دیاکہ حماس کے دفترکی میزبانی اس کی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ امریکی واسرائیلی درخواست پر ثالثی کے تناظرمیں تھی۔ گویا وہی طاقتیں جوکل قطرکے دروازے پرثالثی کی بھیک مانگ رہی تھیں،آج اسی کوغداری اوردہشتگردی کا مرکزکہہ رہی ہیں۔یہ وہی وعدہ شکنی اورسفارتی وعدہ شکنی ہے جوسفارتکاری کی بنیادوں کوکھوکھلااور تعلقات کی بنیادیں متزلزل کردیتی ہے ۔یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ جب قطرمیں امریکاکاسب سے بڑا فضائی اڈہ”العدید”موجودہے،توکیایہ حملہ ٹرمپ یاامریکی انتظامیہ کی لاعلمی میں ہوسکتاتھا؟تاریخ گواہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے اشارے کے بغیرچھوٹی طاقتوں کی جرات نہیں کہ وہ ایسا قدم اٹھاسکیں۔بڑی طاقتوں کی خاموشی اکثران کی رضامندی کا دوسرانام ہوتی ہے۔یہ خاموشی دراصل ایک پوشیدہ اقرارِ جرم ہے۔

نیتن یاہوکاجملہ کہ دہشتگردوں کوہمارے حوالے کرویاہم کارروائی کریں گے محض قطرکیلئے نہیں بلکہ پورے خطے کیلئے ایک دھمکی ہے۔کیایہ ممکن نہیں کہ کل یہی زبان پاکستان کے خلاف استعمال ہو؟کیایہ بعیدہے کہ امریکا،بھارت اوراسرائیل کااتحادپاکستان کواسی طرح نشانے پرلے جیسے عراق،شام اورلیبیا کوبنایاگیا؟

یہاں ایک تاریخی حقیقت بھی ہے کہ پاکستان قطرنہیں اوراسرائیل امریکانہیں۔پاکستان ایٹمی طاقت ہے،ایک نظریاتی ریاست ہے،اور ایک ایسی قوم ہے جواپنی جڑوں میں دینی حمیت اورتہذیبی غیرت رکھتی ہے۔اورایک ایسی سرزمین ہے جواپنے وجودمیں ہی ایک انقلاب کی صدارکھتی ہے۔لیکن کیادشمن ان حقائق کونظراندازنہیں کرسکتا؟کیاوہ سازشوں کے جال میں پاکستان کوگھیرنے کی کوشش نہیں کرے گا؟یہ حقیقت اس بات کی ضامن نہیں کہ دشمن خاموش بیٹھے گا۔خاص طورپرایسے وقت میں جب مودی اپنی شکست کے بعد بدلے کی آگ میں جل رہاہے۔مئی2025کی جنگ میں یہودوہنودکی ہزیمت گویاان کے دل پرداغ کی مانندثبت ہوگئی ہے۔پاکستان کے ہاتھوں عبرتناک شکست نے بھارت کے غرورکوتوڑڈالاہے۔مودی بار باردھمکی دے رہاہے کہ وہ بدلہ ضرورلے گااب اگروہ اسرائیل اورامریکاکے کندھے استعمال کرے توکیایہ خطے کوایک نئی آگ میں جھونکنے کے مترادف نہ ہوگا؟
یہی بات اقبال نے یوں کہی:
ربط وضبطِ مِلتِ بیضاہے مشرق کی نجات
ایشیاوالے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر

تاریخ صرف واقعات کی فہرست نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے،جس میں اقوام اپنی غلطیاں اورکامیابیاں دیکھ کراپنے مستقبل کا تعین کرتی ہیں۔امتِ مسلمہ کی تاریخ بھی اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ جب ہم نے اتحاداورایمان کواپنی بنیادبنایا،دنیاکی کوئی طاقت ہمارے سامنے کھڑی نہ ہوسکی۔لیکن جب ہم تفرقے میں مبتلاہوئے،دشمن نے ہمیں شکست دی اورغلامی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔

خلافتِ عثمانیہ چھ صدیوں تک مسلمانوں کی عظمت اورطاقت کی علامت رہی۔تین براعظموں پرپھیلی اس خلافت نے نہ صرف مسلمانوں کوایک پرچم تلے جمع کیابلکہ یورپ کی طاقتوں کوبھی کئی صدیوں تک اپنی پالیسیوں پرنظرِثانی کرنے پرمجبورکیالیکن جب اندرونی اختلافات،مغربی سازشیں اورقوم پرستی کے فتنے سراٹھانے لگے تویہ خلافت کمزورہوتی گئی۔بالآخرپہلی جنگِ عظیم کے بعدخلافت کازوال ہوااورمسلم دنیاٹکڑوں میں بٹ گئی۔اس زوال نے مسلمانوں کویہ سبق دیا کہ اگرامت اپنی وحدت کھودے تواس کی عظمت بھی خاک میں مل جاتی ہے ۔

صلیبی جنگوں کازمانہ بھی تاریخ کاایک روشن باب ہے۔جب صلیبی طاقتیں بیت المقدس پرقابض ہوئیں توامت پراندھیراچھا گیا۔مگرصلاح الدین ایوبی نے اپنے ایمان،اخلاص اورعسکری حکمتِ عملی کے ذریعے وہ کارنامہ انجام دیاجسے دنیاآج بھی یادکرتی ہے۔اس نے صرف بیت المقدس کوآزادنہیں کرایابلکہ امت کویہ پیغام دیاکہ ایمان کی حرارت اورعزمِ صمیم سے ناممکن کوممکن بنایاجاسکتاہے۔آج کے دورمیں امت کوپھراسی جذبے اوریکجہتی کی ضرورت ہے جوصلاح الدین کی قیادت میں ظاہرہوئی تھی۔

برصغیرکی تاریخ میں جنگِ آزادی1857ایک عظیم موڑتھا۔یہ وہ وقت تھاجب مسلمان اورہندودونوں نے مل کرانگریز سامراج کے خلاف علمِ بغاوت بلندکیا۔اگرچہ یہ جنگ کامیاب نہ ہو سکی اورلاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیا، مگراس نے آزادی کی بنیادرکھ دی۔یہ جنگ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ قربانی اورعزم کے بغیرآزادی کی نعمت حاصل نہیں ہوتی۔پاکستان کاقیام اسی جنگِ آزادی کی ایک طویل جدوجہدکاثمرہے۔

1258ءمیں جب منگولوں نے بغدادپرحملہ کیاتوخلافتِ عباسیہ کاخاتمہ ہوگیا۔لاکھوں مسلمان شہیدہوئے اوراسلامی دنیاکا علمی وتہذیبی مرکزخاک میں مل گیا۔مگراسی بربادی کے بعدمسلمان دوبارہ اٹھے اورنئی سلطنتیں قائم کیں۔یہ واقعہ اس بات کاغمازہے کہ زوال کے بعدبھی اگرامت ایمان اورعلم کواپنا ہتھیار بنائے تودوبارہ عروج حاصل کرسکتی ہے۔

1919ءمیں جب خلافتِ عثمانیہ کے زوال کاخطرہ پیداہواتوبرصغیرکے مسلمانوں نے تحریکِ خلافت کے ذریعے اپنی وابستگی اورغیرت کااظہارکیا۔اگرچہ یہ تحریک سیاسی طورپر کامیاب نہ ہو سکی مگراس نے مسلمانوں کوبیدارکیااوربالآخر تحریکِ پاکستان کی راہ ہموارکی۔یہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ امت کادرداور مشترکہ مقصدافرادکونئی جدوجہدپرآمادہ کردیتاہے۔

یہ تمام مثالیں ہمیں ایک ہی نکتہ سمجھاتی ہیں:اتحاد،قیادت اورقربانی کے بغیرامت کی بقاممکن نہیں۔چاہے وہ خلافتِ عثمانیہ کازوال ہو،صلاح الدین کی فتوحات ہوں،یاجنگِ آزادی 1857 ،ہرواقعہ ہمیں یہی بتاتاہے کہ جب مسلمان اپنے ایمان اور نظریے پر قائم رہتے ہیں تودنیاان کے قدموں میں ہوتی ہے۔مگرجب وہ تفرقے اورخودغرضی کاشکار ہو جاتے ہیں توذلت ان کامقدربن جاتی ہے۔آج پاکستان اورمسلم دنیاکوانہی مثالوں سے سبق لیناہوگا۔ اگرہم نے ماضی سے کچھ نہ سیکھاتومستقبل کی تاریخ بھی ہمیں محض عبرت کے طورپریادکرے گی۔

یادرہے کہ امریکا-بھارت-اسرائیل یہ سہ فریقی اتحاداورگٹھ جوڑمحض وقتی نہیں بلکہ ایک دیرینہ منصوبہ ہے۔امریکاکے نزدیک چین کابڑھتاہوا اثرسب سے بڑاخطرہ ہے۔بھارت اپنی شکست کے داغ کودھوناچاہتاہے اوراسرائیل اپنی جارحانہ پالیسی کوپورے مشرقِ وسطی میں نافذ کرناچاہتاہے۔یہ سہ فریقی اتحادمحض وقتی نہیں بلکہ ایک گہری حکمتِ عملی کاحصہ ہے۔امریکاکی آنکھوں میں چین کابڑھتاہوااثر، بھارت کی شکست اوراسرائیل کی علاقائی عزائم،یہ سب ایک ہی نقطے پرملتے ہیں،پاکستان اورچین کی دوستی کوتوڑنااورمسلم دنیاکو تقسیم درتقسیم کرتے رہنا۔

یہی وہ پرانی تکنیک ہے جسے ٹرمپ اوراس جیسے رہنمااستعمال کرتے ہیں۔یہ اتحادایک ایساجال ہے جودہشتگردی کے نام پرپھیلادیا گیاہے لیکن اس کامقصد مسلم دنیاکومنتشرکرنا اور ہر ابھرتی ہوئی قوت کودباناہے۔ٹرمپ کی پرانی تکنیک بھی یہی ہے،پہلے کسی ملک کومذاکرات کی میزپربٹھا،پھرتوجہ ہٹا،اورآخرکار کسی اتحادی کے ذریعے اس پروارکرو۔افغانستان ،عراق، شام اورلیبیااس کے زندہ نمونے ہیں۔آج قطرکونشانہ بنایاجارہاہے،کل پاکستان یاکوئی اورملک بھی اس فریب کاشکارہوسکتاہے۔پاکستان کے سامنے آج دوراستے ہیں،یاتووہ مصلحتوں کے پردے میں چھپ کروقت گزارے،یااپنے دوستوں کے ساتھ مل کرایک فعال حکمتِ عملی اپنائے ۔تاریخ یہ سکھاتی ہے کہ قومیں خواب دیکھنے سے نہیں بلکہ حقیقت پرعمل کرنے سے زندہ رہتی ہیں۔یہاں سوال یہ ہے کہ پاکستان کیاکرے؟کیاوہ محض بیانات پراکتفاکرے یاعملی اقدامات اٹھائے؟ تاریخ یہ سکھاتی ہے کہ کمزوروہی قومیں ہوتی ہیں جوخوابوں میں مگن رہتی ہیں اورحقیقت کی زمین پرقدم نہیں رکھتیں۔
٭پاکستان کیلئے سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی اندرونی صفوں کودرست کرے۔
٭دوسرااہم کام چین کے ساتھ سیاسی،اقتصادی اورعسکری تعلقات کونئی جہت دیناوقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔سی پیک کو دوبارہ فعال کرنا،اس میں نئی سرمایہ کاری لانا وقت کی اہم ترین ضرورت اوراسے وسعت دیناناگزیرہے۔سی پیک کودوبارہ فعال بنانا اوراس میں نئی سرمایہ کاری لاناوقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ خطے میں نئے اتحادبنانے ہوں گے۔اس کے ساتھ ساتھ ایسے نئے اتحادتشکیل دینے ہوں گے جن میں برادراسلامی ممالک اورابھرتی ہوئی عالمی طاقتیں شامل ہوں۔
٭سارک کودوبارہ زندہ کیاجاسکتاہے،چاہے بھارت شریک ہویانہ ہو۔اگرچین کوبھی اس میں شامل کرلیاجائے تویہ اتحادمزیدمضبوط ہو سکتاہے۔اسی طرح پاکستان کوبرکس میں شمولیت کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ عالمی معیشت اورعالمی سیاست میں ایک نئی جگہ بناسکے۔
اگرہم اپنی تاریخ پرنظرڈالیں توہمیں ہرجگہ یہی سبق ملتاہے کہ جب مسلمان ایک تھے تودنیاپران کاسکہ چلتاتھا۔اندلس میں علم وتہذیب کی روشنی پھیلتی تھی،بغدادعلم وفن کامرکزتھا، قسطنطنیہ سیاست کامحورتھالیکن جب مسلمان ٹکڑوں میں بٹ گئے توہرطاغوت ان پر غالب آگیا۔آج بھی وقت ہے کہ ہم اپنی صفوں کودرست کریں۔اگرہم نے یہ موقع کھودیاتو ہماری داستان بھی محض کتابوں میں باقی رہ جائے گی لیکن اگرہم نے اپنے ماضی کی عظمت سے سبق سیکھا،توپاکستان اس امت کیلئیامیدکی کرن اورحوصلہ کاچراغ بن سکتا ہے۔اقبال نے اسی حقیقت کوان الفاظ میں ڈھالاہے:
افرادکے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفردہے ملت کے مقدرکاستارہ

یہ بھی حقیقت ہے کہ امتِ مسلمہ کے مسائل کاحل محض احتجاج اورقراردادوں میں نہیں۔اگرہمیں امریکا-بھارت-اسرائیل کے جال سے بچناہے توہمیں اپنے اختلافات ختم کرکے ایک مضبوط بلاک بناناہوگا۔ اسلامی تعلیمات ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ امت کااتحادہی اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔قرآن کہتاہے: یعنی سب مل کر اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھام لواورتفرقے میں نہ پڑو۔اگرہم نے اس حکم کواپنی سیاست اورمعیشت میں لاگوکیاتودنیاکی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔ آج ہمیں ان کے الفاظ کویادرکھناہوگاکہ قومیں اپنے ماضی کے تجربات کوبھول جائیں توحال بھی ان کابے وقعت ہوجاتاہے اورمستقبل بھی بے نور۔ پاکستان محض ایک ریاست نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے،اوریہ نظریہ ہمیں متحد کرنے کی سب سے بڑی بنیادبن سکتاہے۔

نیتن یاہوکابیان محض ایک سیاسی جملہ نہیں بلکہ خطے کیلئے ایک نئے خطرناک طوفان اورشدیدخطرہ کاعندیہ ہے۔قطرپرحملہ دراصل ایک پیغام ہے کہ کل کسی اورکوبھی اسی طرح نشانہ بنایا جاسکتاہے۔پاکستان کوچاہیے کہ وہ اس خطرے کومحض قطرتک محدودنہ سمجھے بلکہ اپنی حکمتِ عملی اسی نظرسے مرتب کرے۔ یہ وقت ہے کہ ہم محض ردعمل نہ دکھائیں بلکہ ایک فعال اور مثبت حکمتِ عملی اپنائیں۔ہمیں یادرکھناچاہیے کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے،ایک نظریاتی ریاست ہے،اورایک ایسی امیدہے جومسلم دنیاکیلئے روشنی کاچراغ بن سکتی ہے۔اگرہم نے اپنی صفوں کودرست کیا، ااوراپنے دوستوں کے ساتھ تعلقات کومضبوط کیا،اپنی معیشت کومستحکم کیااوراپنی سیاست کوبصیرت بخشی،توکوئی طاغوتی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکے گی۔

پاکستان کویہ ثابت کرناہوگاکہ وہ صرف اپنی سرزمین کامحافظ نہیں بلکہ اپنے نظریے اوراپنی تہذیب کابھی پاسبان ہے۔یہی وقت ہے کہ ہم دنیاکودکھادیں کہ پاکستان قطرنہیں اور اسرائیل امریکانہیں بلکہ پاکستان وہ چراغ ہے جواندھیروں میں بھی روشنی بانٹ سکتاہے،اور وہ قلعہ ہے جوامت کی امیدوں کامحافظ ہے

آج کاوقت ہمیں ایک فیصلے کے دہانے پرلاکھڑاکرتاہے۔یاتوہم خاموشی کی چادراوڑھ کرتاریخ کے اندھیروں میں کھوجائیں،یااپنے ماضی کی روشنی کواپنے حال پرڈھال کرمستقبل کوروشن کریں۔نیتن یاہوکابیان قطرپرحملے کاجوازنہیں بلکہ پورے خطے کے خلاف ایک اعلانِ جنگ ہے۔پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ محض تماشائی نہ بنے بلکہ تاریخ کے دھارے کوموڑنے والاکرداراداکرے۔یہ لمحہ پاکستان کیلئے امتحان ہے۔یہ وقت ہے کہ ہم دنیاکودکھادیں کہ پاکستان صرف ایک خطہ زمین نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے،ایک امید ہے اورایک چراغ ہے جوامتِ مسلمہ کیلئے روشنی کاپیغام لاتاہے۔ہمیں دنیاکویہ بتاناہو گاکہ پاکستان قطرنہیں اوراسرائیل امریکانہیں۔بلکہ پاکستان وہ قلعہ ہے جوامت کی امیدوں کا محافظ ہے اوروہ شمع ہے جوظلمت کے سمندرمیں بھی روشنی بانٹتی ہے۔

پاکستان کاوجودمحض ایک ریاست نہیں،بلکہ ایک خواب کی تعبیرہے۔یہ خواب وہی ہے جواقبال نے دیکھاتھااورجسے قائداعظم نے حقیقت کاروپ دیا ۔ اب یہ ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم اس خواب کی حفاظت کریں اوراسے امت کی امیدوں کامرکزبنائیں۔آج کاوقت ہمیں ایک فیصلے کے دہانے پرلاکھڑا کرتاہے۔یاتوہم خاموشی کی چادراوڑھ کرتاریخ کے اندھیروں میں کھوجائیں،یااپنے ماضی کی روشنی کواپنے حال پرڈھال کرمستقبل کوروشن کریں۔نیتن یاہوکابیان قطرپرحملے کاجوازنہیں بلکہ پورے خطے کے خلاف ایک اعلانِ جنگ ہے۔پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ محض تماشائی نہ بنے بلکہ تاریخ کے دھارے کوموڑنے والاکرداراداکرے۔
جیسا کہ اقبال نے کہا:
جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں
غلامی ہے اسیرِ امتیازِ ماوتو رہنا

اپنا تبصرہ بھیجیں