26نومبرکوبرلن میں جرمن وزیرخارجہ ہیکوماس برلن کی کاربرفاؤنڈیشن کے تحت ایک کانفرنس سے خطاب کررہی تھیں کہ مالی میں عسکری کاروائی کے دوران دوہیلی کاپٹرٹکرانے سے فرانس کے13فوجی ہلاک ہوگئے۔جوکچھ ہیکوماس کی زبان سے نکل رہا تھا،وہ ٹی وی کی اسکرین پرنمودار ہونے والی تفصیلات کے خلاف تھا۔ جرمن وزیرخارجہ نے ٹھوس لہجے میں کہا کہ “نیٹوآج بھی مستحکم ہے اورکسی بھی جگہ کاروائی کرنے کی پوزیشن میں ہےاور یہ کہ جرمن خارجہ پالیسی صورتِ حال کی تبدیلی سے متاثرنہیں ہوئی ہے ۔نیٹوکی خرابیوں کے حوالے سے تشخیص میں اگرچہ فرق پایاجاتاہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ نیٹواب بھی ہے اوراپناکرداراداکرنے کی پوزیشن میں ہے”۔
جرمن وزیرخارجہ کااشارہ بہت حدتک فرانس کے صدرایمانویل میکراں کی طرف تھاجنہوں نےستمبرمیں کہاتھا کہ نیٹوکی ’’برین ڈیتھ‘‘واقع ہوچکی ہے یعنی وہ دماغی طورپرمرچکاہے۔معروف برطانوی جریدے دی اکنامسٹ کودیے گئےانٹرویو کے مندرجات نے یورپ بھرمیں خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کوہلاکررکھ دیا۔اس انٹرویوسے جرمن بہت برافروختہ ہوئے۔ بنڈ سٹیگ میں خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کے سربراہ اورپارلیمان کے رجعت پسندرکن ناربرٹ روٹجن نے کہاکہ نیٹوکے حوالے سے انتہائی مایوس کن بات کہنامحض حماقت ہےاورکچھ نہیں۔
فرانس کے فوجی افریقامیں ایک ایسی جنگ لڑرہے ہیں جس کی کامیابی کایقین نہیں۔دوسری طرف برطانیہ خودکویورپی یونین کو خیربادکہنے کے بعدبیرون ملک فوجی مشن شروع کرنے میں ذرابھی دلچسپی نہیں رکھتا۔اس حوالے سے اس کے دیگر یورپی ممالک کے ساتھ اختلافات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔لندن میں حال ہی میں نیٹوسربراہ کانفرنس ختم ہوئی ہےجس میں رکن ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہنے کارسمی نوعیت کاعزم ظاہرکیا۔حقیقت یہ ہے کہ نیٹوکے حوالے سے غیر یقینیت اس قدربڑھ چکی ہے کہ کوئی بھی پورے یقین کے ساتھ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔
نیٹوکیلئےسب سے بڑامسئلہ کیاہے؟امریکا!جی ہاں،امریکاکی پالیسیوں میں رونماہونے والی تبدیلیوں نے نیٹوکیلئےغیرمعمولی مسائل پیداکیےہیں۔عالمی امور میں اپنی پوزیشن میں کمزوری محسوس کرتے ہوئے امریکانے مغربی دنیاکی قیادت سے خود کومرحلہ وار الگ کیاہے۔نیٹوکابھی کچھ ایساہی معاملہ ہے۔امریکاپیچھے ہٹتاجارہاہے اوریورپی طاقتوں میں کوئی بھی امریکا کے پیداکردہ خلاء کوپُرکرنے کیلئےتیارنہیں۔
امریکاکاایک بڑامسئلہ یہ ہے کہ اُس کی افواج پرغیرمعمولی دباؤبھی ہے۔امریکانے دنیابھرمیں پاؤں پھیلارکھے ہیں۔وہ ہرابھرتی ہوئی طاقت پرنظررکھنا چاہتاہے اوراس کیلئےلازم ہے کہ فوجی اڈے قائم کیے جائیں۔چندایک ممالک میں اس نے اپنے فوجیوں کو براہِ راست میدان جنگ میں بھی بھیجاہے ۔ شام کابھی یہی معاملہ تھا۔امریکی قیادت کوبہت جلد اندازہ ہوگیاکہ شام میں فوجی پھنسانے سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔گزشتہ اکتوبرمیں جب ٹرمپ نے شام سے فوجی واپس بلانے کااعلان کیاتوجرمنی نے اِسے سراسر غیرسفارتی طریقہ قراردیا۔ فرانس کیلئےمعاملہ اِس سے کہیں آگے کاتھا۔ شام میں فرانس کےفوجی بھی لڑرہے ہیں۔امریکاکااپنے فوجی نکال لینافرانس کیلئےانتہائی پریشان کن امرتھااورہے۔امریکی فوجیوں کی موجودگی میں نیٹو اتحادیوں کی کسی نہ کسی حد تک ڈھارس بندھی رہتی تھی۔اب فرانس کے فوجی شدیدالجھن کاشکارہیں۔
دفاع کے حوالے سے جرمنی اورفرانس کے نقطۂ نظراورفلسفے میں بہت فرق ہے۔جرمنی نے اپنے دفاع کی ذمہ داری بالعموم نیٹو اوربالخصوص امریکاپرڈال رکھی ہے۔جرمن سرزمین پراس وقت بھی35ہزارسے زائدامریکی فوجی تعینات ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعدجرمنی دفاعی صلاحیت کے اعتبارسے قدرے غیرموثرہوکررہ گیااوروہ اپنی اس حیثیت کے ساتھ زیادہ خوش ہے ۔دوسری طرف فرانس کامعاملہ یہ ہے کہ وہ جوہری قوت ہونے کے ناطے آج بھی خودکوایک طاقت سمجھتاہے اوراوسط درجے کی قوت ہونے پربھی اپنے دفاع کیلئےکسی اورپرانحصارسے گریزکرتاہے۔
فرانسیسی صدرنے دی اکنامسٹ کوجوانٹرویودیاہے،اس کے مندرجات بیشتریورپی ممالک میں خوش دلی سے قبول نہیں کیے گئے۔ جرمنی میں اس حوالے سے شدید ردعمل پیداہوا۔روس سے جڑی ہوئی ریاستوں بالخصوص پولینڈ،بالٹک خطے اورشمالی یورپ کے ممالک میں فرانسیسی صدرکاانٹرویوشدیدپریشانی پیداکرنے کاباعث بنااوراِس سے بھی بڑھ کریہ کہ ایمانویل میکراں نے روس سے غیرمشروط وسیع البنیادمذاکرات کی بات کی ہے۔بیشتریورپی طاقتوں کوکچھ اندازہ نہیں کہ فرانس آخر روس سے مذاکرات کے ذریعے کیاحاصل کرناچاہتاہے۔
نیٹوکومردہ قراردیناجرمنی کیلئےایساہی ہے جیسے اس کے پیروں تلے سے غالیچہ کھینچ لیاجائے۔ اس حوالے سے برلن میں بدحواسی کاپیداہونالازم ہے۔ پیرس کامعاملہ مختلف ہے کیونکہ فرانسیسی قیادت نے غالیچےکےکنارے کنارے چلناسیکھ لیا ہے۔ جرمنی میں قائم ٹرانس اٹلانٹک تھنک ٹینک’’جرمن مارشل فنڈ‘‘کے ڈائریکٹرٹامس کلائن بروکوف کہتے ہیں’’یہ تو کیپوچینو(جھاگ والی کافی)کاکیس ہے۔فرانس کے پاس کڑک کافی اورجھاگ کافی دونوں ہیں مگرجرمنی صرف جھاگ کے سہارے نہیں جی سکتا‘‘۔
گھوم پھرکریہ معاملہ امریکاتک پہنچتاہے۔سوال یہ نہیں کہ نیٹومیں کوئی گڑبڑہے۔مسئلہ یہ ہے کہ امریکاپیچھے ہٹ رہاہے ۔ٹرمپ نے بھی نیٹوکو متروک obsolete کہاتھامگراس پرکوئی ہنگامہ کھڑانہ ہوا۔فرانس کے صدر نے نیٹوکومردہ کہاہے تو ایک ہنگامہ کھڑاہوگیا کیوں؟اس لیے کہ ایمانویل میکراں کے انٹرویونے یورپ میں کھلبلی مچادی ہے۔نیٹوکے آئین کے آرٹیکل5کے تحت کسی بھی رکن ملک پرحملہ تمام ارکان پرحملہ تصورکیاجائے گا۔فرانسیسی صدراس آرٹیکل کے خلاف بول گئے ہیں۔یورپ کی بیشترقوتیں اس حوالے سے پریشان ہیں ۔اب تک تومعاملہ یہ تھاکہ دفاع کی ذمہ داری نیٹوکو سونپ کر سکون کے سانس لیے جاتے رہے ہیں۔بیشتر یورپی ممالک میں آج بھی یہ امید پائی جاتی ہے کہ نومبر2020ءمیں امریکی صدارتی انتخاب میں ٹرمپ دوبارہ منتخب نہ ہوئے تو سب کچھ پلٹ جائے گا،امریکادوبارہ نیٹوکی طرف پلٹ آئے گااور نیٹو کے ارکان کی سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے اپنے وعدے ضرور پورے کرے گا۔فرانسیسی صدر کے پریشان کن انٹرویونے نیٹوکے دوبارہ طاقتورہونے سے متعلق بیشتریورپی ممالک کی توقعات کوبُری طرح جھنجھوڑ دیاہے۔
فرانسیسی قیادت نے یہ بات بہت پہلے اچھی طرح محسوس ہی نہیں کی بلکہ سمجھ بھی لی تھی کہ ٹرمپ ہرمعاملے میں یک طرفہ طورپرکچھ نہ کچھ کرگزرنے کے امریکی مزاج کی انتہائی شکل یاعلامت ہیں۔فرانسیسی صدرکہتے ہیں کہ انہوں نے نیٹوکے حوالے سے جوکچھ بھی کہاہے اس پریورپی طاقتوں کوپریشان ہونے یابُراماننے کی بجائے اِس انتباہ کوایک ویک اپ کال کے طور پرلیناچاہیے کہ اب امریکااُن کے دفاع کی ذمہ داری سے دستبردارہوتاجارہاہے۔ایسے میں لازم ہے کہ اپنے دفاع کیلئے سبھی اپنے طورپرکچھ نہ کچھ کرنے کی ٹھانیں اورحکمتِ عملی تبدیل کرلیں۔ہوسکتاہے کہ یورپ کے بہت سے قائدین کو فرانسیسی صدرکی بات معقول لگی ہواوروہ نجی گفتگومیں اس حوالے سے اپنی رائے کااظہاربھی کرتے ہوں مگرمنظرعام پرآ کرتوانہوں نے یہی کہا ہے کہ فرانسیسی صدرنے جوکچھ کہاہے،وہ بہت’’تیکھا‘‘ہے۔بیشتریورپی قائدین کاموقف ہے کہ فرانسیسی صدرنے جواندازاختیار کیاہے وہ اُن کایعنی مجموعی طورپرپورے یورپ کااندازنہیں۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ اب نیٹوکیلئےسیاسی میدان میں کیابچاہے؟فرانسیسی صدربہت خوش ہیں کہ اُن کی باتوں سے یورپی قائدین کوسوچنے کی توفیق نصیب ہوئی اوروہ اب مستقبل کے حوالے سے کچھ سوچ رہے ہیں۔اب ایساتونہیں ہے کہ وہ شترمرغ کی طرح اپنے سرریت میں دباکرمشکلات کے ٹل جانے کی امیدوابستہ کیے ہوئے ہیں۔ایک اورانٹرویومیں ایمانویل میکراں نے کہاہے کہ ’’جب برف بہت سخت ہوجاتی ہے توآئس بریکراستعمال کرنالازم ہوجاتاہے۔اِس سے شورتو مچتاہے اوردھماکابھی ہوتاہے مگرخیر، راہ اِسی سے ہموارہوتی ہے‘‘۔اب معاملہ یہ ہے کہ یورپی طاقتوں کی میزپرتمام اہم مسائل دھرے ہوئے ہیں۔ چین،روس اورترکی کے درمیان بڑھتی ہوئی ہم آہنگی،انسدادِدہشتگردی اورمزیدہتھیاروں کے ساتھ تخفیفِ اسلحہ سے متعلق نئے معاہدے…ہرمعاملہ فوری توجہ چاہتاہے اوریورپی طاقتیں اس حوالے سے بیدارمغزدکھائی دے رہی ہیں۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ان تمام چیلنجوں کابھرپوراندازسے سامناکرنے کیلئےیورپ کی قیادت کون سنبھالے گا۔نیٹوکی صورت میں یہ قیادت امریکا نےسنبھال رکھی تھی۔یہ بات تواب بہت حدتک طے دکھائی دیتی ہے کہ اگرآئندہ برس ٹرمپ دوبارہ منتخب ہو گئے تووہ یورپ کادفاع یقینی بنانےاوراُس کے حتمی مفادات کوتحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے قائدانہ کردارادانہیں کریں گے۔ اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کرسکتاکہ تین برس کے دوران یورپی قائدین نے سیکھ لیاہے کہ ٹرمپ سے معاملات کس طور نمٹائے جائیں…اوراُن کے بغیربھی!بکنگھم پیلیس میں کینیڈا،برطانیہ اورہالینڈکے قائدین نےٹرمپ کی جونقّالی کی تھی،اُس کی ویڈیوچونکانے والی تھی مگراِس سے زیادہ چونکانے والی بات اِس ویڈیوکے ریلیزہونے سے قبل امریکااورفرانس کے صدورکے درمیان ہونے والی گفتگوتھی۔فرانسیسی ہم منصب سے پوچھا’’آپ چنداچھے آئی ایس آئی ایس(داعش)فائٹرزلیناپسندکریں گے؟‘‘یہ سوال ایک ایسے ملک کے صدرسے کیاگیاتھاجہاں چار سال قبل داعش کے جنگ جوؤں نے ایک شام صرف ایک حملے میں130 افرادکوموت کے گھاٹ اتاردیا تھااورفرانس ہی نے کچھ دن قبل داعش کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے جانے والے13فوجیوں کو دفنایاہے۔ایسے ماحول میں یہ سوال بہت دل دُکھانے والاتھا۔فرانس کے صدرنے نہایت سنجیدگی سے حقائق کی روشنی میں مشورہ دیاکہ امریکی صدرذرایہ بھی دیکھ لیں کہ داعش میں حالات کا دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت کس حد تک ہے۔اس بارکسی نے اُن کاتمسخرنہیں اُڑایا۔
لندن میں نیٹوسربراہ کانفرنس کے دوران ہی فرانس کے صدرایمانویل میکراں اورجرمن چانسلراینگلامرکل نے ڈنرپرملاقات کی۔ ہوسکتاہے انہوں نےدیگرمعاملات کے ساتھ ساتھ کاربرفاؤنڈیشن کیلئےکیے جانے والےپیوریسرچ سینٹرکے حالیہ سروے پربھی بات کی ہوجس کے مطابق52فیصد جرمن چاہتے ہیں کہ اُن کاملک دفاع کے معاملے میں امریکاپرغیرمعمولی انحصار ترک کردے، خواہ دفاعی اخراجات دگنے ہوجائیں۔سروے کے مطابق 40 فیصد جرمنوں کاخیال ہے کہ ان کے ملک کوفرانس اوربرطانیہ سے جوہری تحفظ یقینی بنانے پرمتوجہ ہوناچاہیے۔عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق 9/ دسمبر 2019 کو فرانس اورجرمنی کے قائدین کی پیرس میں امریکاکے بغیرروس اوریوکرین کے صدور سے ملاقات بڑی معنی خیزقراردی جارہی ہے۔
مغربی سیاسی اسٹیبلشمنٹ اس حقیقت سے بخوبی بے خبر ہے کہ روسی مغربی تعلقات میں نیٹو کا مسئلہ صرف امریکاہے اور اس رکاوٹ کودورکئے بغیرروس کے ساتھ تعلقات معمول پرنہیں آسکتے۔ روس میں ، عام طور پر نیٹو کو امریکی جنگی مشین کا حصہ اور امریکی عالمی تسلط کے ایک آلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس نظریہ کو روس کے تقریبا ًتمام سیاسی تجزیہ نگار اپنے وجودکیلئے ایک خطرہ محسوس کرتے ہیں ۔ در حقیقت ، مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والے نیٹو ممبران میں بھی یہی نظریہ غالب ہے ، جہاں اتحاد کو امریکی اثر و رسوخ اور امریکی دفاع کی یقین دہانیوں کے آلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روس پر امریکی الزامات کی بھرماراس کی بوکھلاہٹ کاپتہ دیتی ہے ۔ادھر کریملن اور صدر ولادیمیر پوتن خاص طور پر – “نیٹو کے شراکت داروں کے مابین تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔” ماسکو میں کسی نے بھی نیٹو کو ایک آزاد ہستی نہیں مانا ہے جو ریاستہائے متحدہ سے الگ ہے۔ روس میں اس بات کا گہرا یقین ہے کہ نیٹو امریکی فوجی پالیسی کے آلے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، اور یہ کہ واشنگٹن ہمیشہ نیٹو کے گورننگ باڈیز کے ذریعہ کسی بھی فیصلے کی حمایت کر سکے گا ، قطع نظر اس کے کہ اس کے مغربی یورپی شراکت دار اس فیصلے کے بارے میں کیا سوچ سکتے ہیں۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روس میں نیٹو کی کسی بھی توسیع کو خود بخود روسی سرحدوں کے قریب قریب امریکی فوجوں کی تعیناتی کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اس بدعنوانی میں نیٹو کا اپنا کردار ایک احاطہ کی کہانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے – مزید کچھ نہیں۔ مشرقی یورپ میں نیٹو افواج کی جاری تعیناتی “ماسکو پر قابو پانے اور روکنے” کے واضح مقصد کے ساتھ روس میں اس نظریہ کی تصدیق کے ایک اور ثبوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ نئی تعیناتی براہ راست امریکی قیادت میں کی جاتی ہے ، اور تعینات نئی فورسز میں زیادہ تر امریکی ہیں۔ بالٹک ریاستوں جیسی جگہوں پر نیٹو کے دوسرے ممبروں کی فوجی موجودگی نہایت اہم اور خالص علامتی ہے۔ واشنگٹن اور نیٹو ان تعیناتیوں کو “ماسکو کے لئے واضح اشارہ” کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ خود ماسکو میں ، اس اشارے کو واضح ثبوت کے طور پر پڑھا جاتا ہے کہ نیٹو کے بارے میں روسی تنقیدوں اورخدشات کا ہمیشہ ہی جواز پیش کیا جاتا ہے اور یہ کہ 1990 کی دہائی اور 2000 کی دہائی
کے اوائل میں نیٹو کے وسعت کے بارے میں اعتدال پسند روسی رد عمل ایک زبردست اسٹریٹجک غلطی تھی۔بالخصوص افغانستان کی جنگ میں نیٹوکاکردارروز روشن کی طرح اظہرمن الشمس رہااورروس اپنی اس شکست کوبھولنے کوقطعی تیار نہیں ۔حالیہ امریکااور افغانستان کے مابین معاہدے پرروس کی مکمل نگاہ ہے اورافغانستان سے مکمل امریکی انخلاء کے بعد یقیناً روس اپنی شرائط پرنیٹوسے اپنے مراسم بڑھانے کی کوشش کرے گا تاکہ روس کی پڑوسی ریاستوں میں امریکااورنیٹو کااثرونفوذکم کرنے میں مددمل سکے۔
ادھرکروناوائرس کے مہلک ترین اثرات اورخوف نے تمام مغرب اورامریکاکوبری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیاہے جس کی بناء پرتمام دنیاکی توجہ فی الحال اس موذی وائرس سے نجات کی طرف مبذول ہے ۔ یوں لگ رہاہے کہ کروناکی شکل میں یہ خدائی فوج دنیاکانقشہ تبدیل کرکے رکھ دے گی۔