جنوبی ایشیامیں حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے ایک بارپھرخطے کوایٹمی جنگ کے دہانے پرلاکھڑاکیاہے۔بھارت کی جارحیت اور پاکستان کے نپے تلے جواب نے دنیاکومجبورکیاکہ وہ اس تنازعے کی سنگینی کوسمجھے۔اگرچہ امریکانے ابتدا میں لاتعلقی کامظاہرہ کیامگر حالات کی سنگینی نے اسے مداخلت پرمجبورکردیا۔
14فروری2019ءکوپلوامہ حملے میں40بھارتی اہلکارہلاک ہوئے۔بھارت نے فوراًپاکستان پرالزام لگایااورپلوامہ حملے کے بعدبغیرثبوت بالاکوٹ پرحملہ کرکے جنگ کوہوادی۔26فروری کو بھارت نے بالاکوٹ میں فضائی حملے کادعویٰ کیاجو درحقیقت ایک خالی پہاڑی پرتھااوریہ حملہ محض درختوں پربم گرانے تک محدودرہا۔اس کے ردعمل میں27فروری کو پاکستان نے مؤثر جوابی کارروائی کرتے ہوئے دوبھارتی طیارے مارگرائے اورایک پائلٹ کوگرفتارکرلیا۔ گرفتارپائلٹ ابھینندن کوانسانی ہمدردی اورامن کے جذبے کے تحت رہا کیاگیا،جسے دنیابھرمیں سراہاگیا ۔ پاکستان نےگرفتارپائلٹ ابھینندن کی رہائی کے ساتھ ایک سنجیدہ،بالغ اورذمہ دارریاست ہونے کاثبوت دیا۔بھارتی جنگی بیانیہ اورفضائی ناکامی نے اس کے عالمی امیج کومتاثرکیا۔اس واقعے نے نہ صرف بھارت کی عسکری صلاحیت پر سوال اٹھائے بلکہ عالمی سطح پرپاکستان کی مدبرانہ حکمت عملی کوسراہاگیا۔
ابتدائی طورپرامریکی صدراوروزیرخارجہ نے جنگ سے لاتعلقی ظاہرکی۔لیکن جب بھارت کوجوابی ضرب پڑی،توامریکانے فوری جنگ بندی کاعمل شروع کردیا۔اس کامطلب امریکاکااصل ہدف جنوبی ایشیامیں طاقت کاتوازن برقراررکھناہے—نہ کہ اصولی ثالثی۔ بھارت کی فوجی کمزوری اورسی پیک پرامریکی مفادات نے امریکاکومداخلت پرمجبورکیا۔
یادرہے کہ ٹرمپ نے کشیدگی کے آغازپرانتہائی مضحکہ خیزاندازمیں کہاتھاکہ یہ دونوں ممالک صدیوں سے لڑرہے ہیں،ہمیں ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ امریکی وزیرخارجہ پومپیونے بھی شروع میں لاتعلقی ظاہرکی۔پاکستانی جوابی کارروائی کے فوری بعدامریکی پالیسی میں اچانک تبدیلی آگئی اورامریکافوری طور پرسرگرم ہوگیا۔ جیسے ہی بھارت کوفوجی وسفارتی ہزیمت کاسامناکرناپڑا، امریکا کی پالیسی یکایک تبدیل ہوگئی۔امریکی سفارت کارفوری طورپر متحرک ہوگئے،سیزفائرکی کوششیں ہوئیں،اورخودٹرمپ نے مذاکرات اورکشمیرپرثالثی کی پیشکش کردی۔ٹوئٹرپر”سیزفائر”کااعلان امریکی خارجہ پالیسی کی سفارتی شرمندگی کی علامت تھا۔
یہ عمل کئی سوالات کوجنم دیتاہے۔کیاامریکاثالث ہے یابھارت کاسہارا؟اگربھارت غالب ہوتاتوکیاامریکااتناسرگرم ہوتا؟بھارت کوجب شکست ہوئی توامریکاثالثی کیلئےمیدان میں اترا۔اگر بھارت غالب ہوتاتوامریکاخاموش تماشائی بنارہتا۔بھارت نہ صرف پاکستان کے ہاتھوں فضائی شکست سے دوچار ہوا،بلکہ لداخ میں بھی چین کے ساتھ تصادم میں اپنی کمزوری دکھاچکا ہے ۔ 2020ءمیں بھارت اورچین کے درمیان”ایل اے سی”پرتصادم ہوا،جس میں بھارت کوعلاقائی نقصان اٹھاناپڑا۔بھارتی وزیردفاع راج ناتھ نے خودپارلیمان میں اعتراف کیاکہ چین نے لداخ کےکئی ہزارمربع کلومیٹرعلاقے پرقبضہ کر رکھاہے۔اس کے ساتھ ہی بھارت کا سی پیک کوسبوتاژکرنے کامنصوبہ بھی چین اورپاکستان کی شراکت داری کے سامنے ناکام ہوچکا ہے ۔بھارت کی زمینی حقیقت کمزور ہوچکی ہے۔
یادرہے کہ بھارت کاگلگت کولداخ سے توڑنے کامنصوبہ (جیسے سیاچن گلیشیئرپرکنٹرول)چین اورپاکستان کی مشترکہ حکمت عملی کی وجہ سے ناکام ہواتھا۔سی پیک کی کامیابی نے بھارت کوعلاقائی اثرات سے دوچارکیاہواہےبلکہ ان ناکامیوں نے بھارت کی فوجی ساکھ کوبھی متاثرکیاہے،جس سے امریکامیں یہ سوال اٹھاکہ کیابھارت واقعی چین کے خلاف”کواڈ”کامضبوط اتحادی بن سکتاہے۔مودی حکومت کی کمزوریوں کوامریکاکیلئےتشویش کاباعث قراردیاجارہا ہے۔
توکیایہ ثالثی دراصل بھارت کوفیس سیونگ مہیاکرنے کی کوشش تھی؟کیاامریکاواقعی کشمیرکے مسئلے کوسنجیدگی سے حل کرناچاہتا ہے یامحض جیوپالیٹیکل مقاصدحاصل کرنااس کاہدف ہے؟دراصل یہ ثابت ہوگیاکہ امریکا کی ثالثی دراصل مودی حکومت کوفیس سیونگ دینے کی کوشش تھی۔اسی لئے یہ حقیقت ہے کہ سیزفائرکاٹوئٹرپراعلان،مودی حکومت کیلئےفیس سیونگ کا راستہ بنایاگیا۔
سیزفائرکے بعدتیزی کے ساتھ اس بیانیے کوتقویت دی جارہی ہے کہ امریکا کی مداخلت کا بنیادی مقصدایٹمی جنگ اورخطے کے عدمِ استحکام کوروکناتھا،نہ کہ صرف بھارت یاپاکستان کی فوجی پوزیشن۔تاہم،بھارت کی کمزوریاں امریکاکیلئےتشویش کاباعث ہیں،کیونکہ وہ چین کے خلاف اپنی حکمت عملی کیلئے بھارت پرانحصارکرتاہے۔اگربھارت طاقتورہوتا،توشایدامریکاکی سفارتی کوششیں یکساں نہ ہوتیں،لیکن ان کالہجہ اورطریقہ کارمختلف ہوسکتاتھا۔
ٹرمپ نے کئی مواقع پرکشمیرپرثالثی کی خواہش کااظہارکیاہے،جس کی سب سے نمایاں مثال2019میں ان کادعویٰ تھاکہ”مودی نے مجھے کشمیر پرثالث بننے کوکہاتھا۔”تاہم،بھارت نے فوری طورپراس دعوے کومستردکردیاتھا۔اب ٹرمپ کی طرف سے دوبارہ غیر جانبدارجگہ پرمذاکرات کی بات اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اس کی صداقت کوسمجھنے کیلئےدرج ذیل نکات اہم ہیں:
بھارت ہمیشہ سے کشمیرکواپنا”اندرونی معاملہ”قراردیتاآیاہے اورکسی بھی تیسرے فریق کی مداخلت کومستردکرتاہے۔2019میں کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعدیہ مؤقف مزیدسخت ہوگیاہے۔سیزفائرکروانے میں امریکاکایہ مفادبھی ہوسکتاہے کہ ٹرمپ کی پیشکش کاتعلق امریکاکی خطے میں اپنی سفارتی موجودگی بڑھانے اورچین کے اثرات کوکم کرنے کی کوششوں سے ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ،ٹرمپ اپنی خارجہ پالیسی کو”امن کے ایجنڈے”کے طورپرپیش کرناچاہتے تھے تاکہ ان کی سیاسی میرٹ کوتقویت ملے۔
ادھرپاکستان نے ہمیشہ کشمیرپرثالثی کاخیرمقدم کیاہے،کیونکہ وہ جانتاہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیرکے عوام کو حق خودارادیت دیاجانا چاہیے۔تاہم ٹرمپ کی پیشکش زیادہ تر “علامتی”ہے۔بھارت کی مخالفت اورامریکاکی موجودہ انتظامیہ کی خاموشی کودیکھتے ہوئے اس پرعملدرآمدکاامکان نہ ہونے کے برابرہے۔
سوال یہ ہے کہ کیاامریکابھارت کوفوجی طورپردوبارہ مضبوط ہونے کاموقع دے رہاہے؟اس کاجواب خطے کی جیوپولیٹکس اور امریکا -چین کشمکش میں تلاش کیاجاسکتاہے۔لداخ میں چین کے ہاتھوں اورپاکستان کے ساتھ گذشتہ جھڑپوں میں بھارت کی فوجی کمزوریاں اوراس کی کارکردگی پرسوالات اٹھے ہیں۔ امریکا کیلئے یہ تشویش کاباعث ہے کہ کواڈمیں بھارت کاکردارکمزورنہ ہو جائے۔
امریکاچاہتاہے کہ بھارت چین کے خلاف اپنی محاذآرائی برقراررکھے،اس لیے ممکن ہے کہ وہ بھارت کوفوجی اورمعاشی مدددے کر اسے”بحال”کرنے کی کوشش کررہاہو۔تاہم،یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے ساتھ کھلی جنگ بھارت کیلئےتباہ کن ہوگی،کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں۔تاہم اس وقت یہ تاثردیاجارہاہے کہ امریکاکی جنگ بندی کی سفارش کامقصدصرف “وقت خریدنے”سے زیادہ خطے کوایٹمی تصادم سے بچاناتھا۔امریکی مداخلت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ امریکی پالیسی کابنیادی مقصدجنوبی ایشیامیں اپنے استحکام اورچین کے بڑھتے اثرات کومحدودکرناہے۔بھارت اورپاکستان کے درمیان کشیدگی ،خاص طورپرایٹمی جنگ کے خطرات،امریکاکیلئےبڑاخطرہ ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیارہیں،اورایٹمی تصادم کی صورت میں خطے کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت اورسلامتی کوشدید خطرات لاحق ہوں گے۔
پاکستان چین کااہم اتحادی ہے،اورامریکاچاہتاہے کہ بھارت کو”کواڈ”کے ذریعے چین کے خلاف ایک توازن کے طورپراستعمال کیا جائے۔اگربھارت فوجی یاسیاسی طورپرکمزورپڑا،تویہ امریکی مفادات کیلئےنقصان دہ ہوسکتاہے۔جنگ کی صورت میں خطے میں امریکی اتحادیوں جیسے سعودی عرب،یو اے ای کے مفادات متاثرہو سکتے تھے۔
عالمی تجزیہ نگاروں اورعالمی دفاعی تجزیہ نگاروں کے نقطہ نظرکے مطابق بھارت کی فوجی اور سفارتی(جیسے لداخ میں چین سے ہار،کشمیرپالیسی پرتنقید)نے اسے امریکاکے اعتمادمیں کمی کا باعث توضروربنی ہیں۔کواڈمیں بھارت کاکرداراہم ہے،لیکن اگروہ چین کے خلاف مؤثرثابت نہیں ہوتا،توامریکااپنی حکمت عملی تبدیل کرسکتاہے۔سی پیک کی کامیابی اورچین-پاکستان اتحادنے خطے کے طاقت کے توازن کوتبدیل کردیاہے،جس کے تحت بھارت کودفاعی طورپرزیادہ محتاط رہناپڑرہاہے۔
اب میڈیا میں امریکی مداخلت سے سیزفائرکیلئے کئی جوازپیش کئے جارہے ہیں کہ اگربھارت جنگ میں بالادست ہوتا،اورپاکستان کی شکست سے چین براہِ راست مداخلت کرسکتاتھا،جوامریکا کیلئےخطرناک ہوتا۔کسی بھی فریق کی فیصلہ کن فتح ایٹمی ہتھیاروں کے تصادم کی وجہ بن جاتی۔ایک اور امریکی وجہ یہ بھی بتائی جارہی ے کہ بھارت کی بالادستی سے خطے میں چین کااثرکم ہوجاتا لیکن پاکستان کے عدم استحکام سے دہشتگردی جیسے مسائل بڑھ سکتے تھے جس سےاس خطے میں امریکا کیلئےلامتناہی مشکلات کادروازہ کھل جاتاجبکہ امریکااوراس کے اتحادی یوکرین میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں اورٹرمپ کی کوشش ہے کہ کسی طرح یوکرین کی جنگ اپنے انجام کوپہنچے تاکہ روس سے دوستی کاہاتھ بڑھاکرخطے سے چین کے اثرکوروکنے کی کوشش کی جائے جو کہ ممکن نہیں۔ امریکا کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اپنے مفادات کی بنیادپرہی مداخلت کرتاہے۔
ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب،قطراوریواے ای کے دوران بارہاپاک بھارت کے درمیان سیزفائرکاکریڈٹ لیتے ہوئے اعلان کیاہے کہ جلد ہی دونوں ممالک کسی غیرجانبدارجگہ پراپنے جاری مسائل بشمول مسئلہ کشمیرپرمذاکرات کریں گے۔اب ضروری ہوگیا کہ پاکستان اپنی مکمل سفارتی تیاری کے ساتھ اپنے مضبوط اورتاریخی دلائل کے ساتھ اپنامقدمہ لڑے اور مذاکرات سے پہلے پوری قوم کواعتمادمیں بھی لیاجائے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ قوم کے ساتھ خطاب میں واضح کیاجائے کہ ان مذاکرات پرکس ایجنڈے پربات ہوگی تاکہ قوم کااعتمادآپ کی پشت پرہو۔
یادرکھیں کہ مذاکرات سے قبل پاکستان کوکئی چیلنجزکاسامناکرنے کابھی اندیشہ ہے جس میں سب سے پہلے بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کواپنا”اندرونی معاملہ”بتاتے ہوئے اس مسئلے پربات چیت سے انکارکرسکتاہے۔اس صورت میں پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ مذاکرات سے پہلے چین، ترکی،اوراسلامی ممالک(سعودی عرب،یواے ای،قطر)کی حمایت سے بھارت پربین الاقوامی دباؤبڑھائے۔
پاکستان کوامریکاکے دوغلے رویے سے بھی خبرداررہنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکابیک وقت بھارت کوفوجی اتحاد(کواڈ)اور پاکستان کودہشتگردی کے خلاف اتحادی سمجھتاہے۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ چین اورروس کے ساتھ تعلقات کومضبوط کرے تاکہ امریکا کے یکطرفہ اثرات کومتوازن کیاجاسکے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کوکشمیری عوام کی آوازکوعالمی سطح پراٹھانے کیلئے سوشل میڈیااوربین الاقوامی میڈیاکواستعمال کرناچاہیے۔
یقیناً وزارتِ خارجہ آئندہ ہونے والے مذاکرات کیلئے اپنے ایجنڈے کی نوک پلک سنواررہے ہوں گے تاہم آئندہ مذاکرات کیلئے پانچ ترجیحی نکات کو شامل کرناازحدضروری ہے۔
پاکستان کے مذاکراتی ایجنڈامیں کلیدی نکات اوردلائل میں تنازعہ کشمیربنیادی نقطہ ہوناچاہئے۔پاکستان کامضبوط قانونی مؤقف اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں جن پرعملدرآمدکوضروری بنایاجائے ۔ ڈائیلاگ ایجنڈا کی وضاحت کیلئے ضروری ہے کہ مذاکرات کاآغاز صرف اسی صورت میں ہوجب بھارت کشمیر کی متنازع حیثیت تسلیم کرے،معاشی یاتجارتی موضوعات کوبعدمیں شامل کیا جائے۔اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کالائحہ عمل طے کیاجائے اور ایل اوسی پرجنگ بندی کی مستقل نگرانی کامطالبہ کیاجائے اور خلاف ورزی کرنے والے کے احتساب کیلئے اصول وضع کئے جائیں۔
1948ءاور1949ءکی قراردادیں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کوتسلیم کرتی ہیں۔قرارداد47،51اوردیگرقراردادیں جن پربھارت اورپاکستان دونوں نے ان پر دستخط کیے ہیں اور پانچ عالمی طاقتیں اس معاہدے کی ضامن بھی ہیں۔بھارت نے5/اگست2019ءکوآرٹیکل370اے اورآرٹیکل35کومنسوخ کرکے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی جس سے اس نے کشمیریوں سے خودمختاری چھین لی جواقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی صریحاًخلاف ورزی ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے اصولوں اور چوتھے جنیواکنونشن کی خلاف ورزی ہے۔بین الاقوامی ردعمل کے طورپراوآئی سی،،ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جہاں انتہائی تشویش کااظہارکیاوہاں یورپی پارلیمنٹ میں بھی اس معاملے پرکئی باربحث ہوچکی ہے۔
پاکستان کوسفارتی حکمت عملی کے تحت ایک مکمل لائحہ عمل تیارکرناہوگاجس میں مسئلہ کشمیر کیلئے اقوام متحدہ میں مسلسل آواز اٹھانی چاہئے اورعالمی ضامن طاقتوں کی توجہ اس پرمبذول کرواتے ہوئے معاہدہ پرعملدرآمدکیلئے ان کی ذمہ داریوں کامطالبہ کرنا چاہئے۔دوسرا اوآئی سی اوردیگرمسلم تنظیموں کودوبارہ متحرک کیاجائے اوراس کے ساتھ ساتھ یورپی یونین اورامریکی پارلیمانزکو کشمیرکے بارے میں بریفنگ دیکر اس خطے کی ایٹمی فلیش پوائنٹ پرتوجہ دلائی جائے ۔پاکستان عالمی سطح پریواین جنرل اسمبلی،او آئی سی،ہیومن رائٹس کمیشن میں مسئلہ کشمیرکی مستقل پیروی کرے۔علاوہ ازیں پاکستان کویہ واضح کرنا ہوگاکہ کشمیرکی آزادی کی تحریک کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑنابھارت کی جانب سے ایک”ڈائیورژن”ہے۔
کشمیرمیڈیاسیل کوفعال کیاجائے،تاکہ عالمی میڈیامیں پاکستانی مؤقف اجاگرہو۔اسلامی ممالک کے ساتھ مل کربھارت پرسفارتی اور معاشی دباؤبڑھایاجائے۔ اوآئی سی اوردیگرمسلم تنظیموں کی طرف سے کشمیری مظالم پرمشترکہ بیان جاری کروایاجائے اوریہودوہنود کی تمام مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جائے بالخصوص اوورسیزپاکستانیوں اورمسلم کمیونٹی کواس طرف بھرپور راغب کیا جائے۔
اس کے ساتھ میڈیاکومکمل طورپراستعمال میں لاتے ہوئے دستاویزی فلمیں،بین الاقوامی میڈیامیں اشتہارات کابندوبست کیاجائے۔سوشل میڈیامہم، انفلوئنسرزکوانگیج کرکے پاکستان کے مؤقف کی تشہیرکی جائے تاکہ اقوام عالم میں مسئلہ کشمیرکے بارے میں آگہی وادراک کی فضاپیداہو۔یادرہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں تاحال موجودہیں اوربھارت بھی ان پردستخط کرچکاہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل،او آئی سی اورعالمی انسانی حقوق کمیشن نے کشمیر کی صورتحال پرتشویش کااظہارکیاہے۔دنیااب کشمیری مظالم کومیڈیا،انسانی حقوق تنظیموں،اورڈپلومیسی کے ذریعے جان چکی ہے۔
دوسرااہم نکتہ عالمی میڈیا کی رپورٹس اورمضبوط شواہدکے ساتھ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں کامعاملہ ضروراٹھایاجائے کیونکہ عالمی میڈیا میں بھارتی قابض فوج کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں کی درجنوں رپورٹس موجودہیں جس میں مضبوط شواہدکے ساتھ اب تک ایک لاکھ سے زائدکشمیریوں کو شہیدکیاجاچکاہے۔مظلوم کشمیری عوام کی اصل کہانی کوعالمی سطح پراجاگر کرنے کیلئے بھارتی قابض افواج کے مظالم کی سینکڑوں سچی کہانیوں کی تشہیرکیلئے بین الاقوامی میڈیاکااستعمال کیاجائے۔خود بھارتی صحافی کشمیر میں اجتماعی قبروں کاانکشاف کرچکے ہیں۔اب تک ہزاروں نوجوانوں کوگھروں سے اٹھاکرغائب کر دیاگیاہے اوراب ان کے والدین اوران کے لواحقین پربھی منہ بندرکھنےکیلئے تشددسے کام لیاجارہاہے۔ہزاروں کشمیری نوجوان ماورائے عدالت قتل، حراست اورتشددکاشکارہیں۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں ہیومن رائٹس واچ،ایمنسٹی انٹرنیشنل،اوراقوام متحدہ کے ذیلی ادارے مسلسل ان زیادتیوں پررپورٹس جاری کرچکے ہیں۔
وزارت خارجہ ایک”کشمیرایڈووکیسی ڈیسک”بنائے جوعالمی سفارت خانوں کومسلسل مواد فراہم کرے۔کشمیرپرایک بین الاقوامی دستاویزی فلم تیارکی جائے اورعالمی اداروں کوبھیجی جائے۔اسلامی ممالک میں بھارت کے مظالم کے خلاف عوامی بیداری مہم چلائی جائے۔
تیسرا اہم نکتہ یقیناًسندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی پراٹھانے کی ضرورت ہے۔1960ءمیں عالمی بینک کی ثالثی سے ہونے والے اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریابھارت کے اورتین مغربی دریاپاکستان کے حصے میں آئے۔اسے چھیڑنے سے پاکستان کے اصولی مؤقف میں کمزوری آسکتی ہے۔حالیہ برسوں میں بھارت کی آبی پالیسیزاورڈیمزکی تعمیرنے اس معاہدے کوغیرمستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔پاکستان کویہ معاہدہ چھیڑے بغیرعالمی عدالت انصاف اور ثالثی عدالتوں میں بھارتی خلاف ورزیوں کواٹھاناچاہیے۔ بھارت کی طرف سے آبی جارحیت جیسے منصوبے(کشن گنگا،بگلیہارڈیمزاوررتلے ڈیم)جیسی اسکیمیں اس معاہدے کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔پاکستان کوثبوتوں کے ساتھ یہ واضح کرناہوگاکہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں و کشمیرمیں ڈیمزاورپن بجلی منصوبے بنائے ہیں،جس سے پاکستان کے پانی کے حقوق متاثرہورہے ہیں۔پاکستان کواس معاہدے کے عمل درآمدکی ضمانتوں پراصرارکرناچاہیے۔عالمی بینک یااقوام متحدہ جیسے اداروں سے درخواست کرناکہ وہ بھارت کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کریں۔بھارت کے ڈیمزسے نہ صرف پانی کی کمی بلکہ سیلابوں اورماحولیاتی تباہی کاخطرہ بھی ہے،جسے عالمی میڈیامیں اٹھاناضروری ہے اورہندوستان سے آئندہ اس کی خلاف ورزیوں پرعالمی پابندیوں کامطالبہ کرناچاہئے۔
چوتھا نکتہ کنٹرول لائن پراقوام متحدہ کے مبصرگروپس کی واپسی کامطالبہ کرناچاہئے جس کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرارداد موجودہے۔پاکستان کواس کی فعال موجودگی کامطالبہ کرناچاہیے جس کوبھارت قبول نہیں کرتا۔حقیقی امن اسی وقت ممکن ہے جب انصاف کی بنیاد پرفیصلے کیے جائیں۔ پاکستان اگرسفارتی سطح پرمؤثر،منظم اورمسلسل کوشش کرے،تومسئلہ کشمیرعالمی ضمیرکو جھنجھوڑسکتاہے۔بھارت کی کمزوری اوراقوام متحدہ کی قرار دادوں کی موجودگی پاکستان کوایک قانونی اوراخلاقی برتری فراہم کرتی ہے۔تاہم عالمی برادری کادوہرامعیاراورمفادات پرمبنی فیصلے اصل رکاوٹ ہیں۔پاکستان کوامن کی خواہش اور عزت نفس اوراصولوں کی پاسداری کے درمیان توازن قائم رکھتے ہوئے قدم اٹھاناہوگا۔
پانچواں نکتہ جنگی قیدیوں اورلائن آف کنٹرول پرگولہ باری کے مضبوط شواہدکے ساتھ اس کی روک تھام کیلئے ایک نیامعاہدہ مرتب کرناہوگاجس میں جنیوا کنونشن کے اصولوں کومدںظررکھتے ہوئے اس پرعملدرآمدکیلئے اصول وضوابط طے کرکے اس کی خلاف ورزی کرنے والے کیلئے عالمی عدالت سے فوری سزاکے طورپرعالمی پابندیوں کااطلا ق ہوناچاہئے۔
پاکستان کوثابت کرناہوگاکہ سی پیک خطے کی معاشی ترقی کیلئےاہم ہے،اوربھارت اسے ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ جس طرح سندھ طاس معاہدہ پاکستان کی زرعی زندگی کاضامن ہے،ایسے ہی سی پیک کی اہمیت پاکستان کیلئے ہے اوراس پر بھی کسی قسم کاسمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔
ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش زیادہ تر”علامتی” ہے،لیکن پاکستان کیلئےیہ موقع ہے کہ وہ کشمیرکوبین الاقوامی ایجنڈے پرلانے کیلئے سفارتی محاذکھولے۔سندھ طاس معاہدے کودوبارہ کھولنے کی بجائے،پاکستان کوبھارت کی خلاف ورزیوں کواجاگرکرناچاہیے۔کشمیرپر اقوام متحدہ کی قراردادوں کوبنیادبناکر،پاکستان کوترکی،چین،اوردیگردوست ممالک کی حمائت سے ایک مربوط مہم چلائے۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ کشمیرکے عوامی حقوق کوکبھی پیچھے نہ رکھے،کیونکہ یہی اس کاسب سے مضبوط اخلاقی اورقانونی مؤقف ہے۔
امریکاکی مداخلت،ثالثی کی آڑمیں اپنے مفادات کاتحفظ ہے۔پاکستان کواس بارمحتاط مگرجرأتمندانہ اندازمیں مذاکرات کی میزپرآناہوگا، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ کمزورمؤقف کے ساتھ مذاکرات، کمزور فیصلے جنم دیتے ہیں۔پاکستان کواپنامؤقف مضبوط قانونی دلائل، عوامی حمایت،میڈیاکی طاقت اوراسلامی ممالک کے اتحادکے ذریعے پوری دنیامیں اجاگرکرناہوگا۔اگران سفارشات پرمکمل عملدرآمد کیاگیاتوجس طرح رب العزت نے آپریشن بنیان المرصوص میں کامیابی اورفتح نصیب فرمائی ہے،اسی طرح ان کامیابیوں کاسلسلہ اور درازہوتاچلاجائے گا،ان شاءاللہ۔