Mourning Fate

قسمت کاماتم

:Share

تاریخ کوخون آلودراہداریوں میں ایک محل اورقصرشاہی کے دربارمیں پڑاایک پتھربدلتے دنوں میں انسانوں کی بربریت،ظلم و جوراورحیوانیت کی کہانی مدتوں بیان کرتارہا۔اس پتھرپرسب سے پہلے اعلائے کلمة الحق کے سالارِقافلہ شہیدکربلاسیدناامام حسینؑ‏‏‏ کامقدس سرابن زیاد کے سامنے رکھاگیا۔پھر اسی پتھرپرابن زیادکاسرمختاربن ثقفی کے سامنے پیش کیاگیا۔یہی پتھرمختاربن ثقفی کے خون کی گواہی بناجب اس کاسرعبداللہ بن زبیرکے سامنے پیش کیاگیااورپھراسی پتھرپرعبداللہ ابن زبیرکاسرحجاج بن یوسف کے روبروتاریخ کی بربریت کی شہادت دیتارہا۔سربریدہ لاشوں کی بے حرمتی،کٹے ہوئے سروں کی نمائش ان لوگوں کافعل رہاجن میں بربریت،انسانی احترام پرغالب تھی یاپھر جن کے انتقام کی آگ نے انہیں ان لوگوں کی پیروی کرنے پر مجبورکردیا جن کے خلاف وہ حق کی آوازبلندکرتےتھے۔

میں آج بھی جب تاریخ کی یہ کہانیاں پڑھتاہوں توانسانی شقاوت کی اس درندگی پرلرزجاتاہوں اورحیرت میں ڈوب کرسوچتاہوں کہ اگرمیرے پوتے پوتیوں نے تاریخ اسلام پڑھتے ہوئے اپنے سوالوں کے تیروں کارخ میری طرف موڑدیاتوانہیں ایساکیاجواب دوں کہ ان کامعصوم ذہن ظلم وستم کی ان کثافتوں سے پاک رہے۔احد کی وادیوں میں سیدناحمزہ کی مقدس لاش کامثلہ کرنے پرسید الانبیاﷺکاکرب اوردکھ میری آنکھوں میں گھوم جاتا ہے جب میرے آقااپنے دودھ شریک چچاکی لاش کودیکھ کربے اختیارپھوٹ پھوٹ کرروتےرہے اورمدینے کے انصار اورمہاجرین اپنے شہداء کو چھوڑ کرفوراًنبیﷺکوپرسہ دینے کیلئے پہنچ گئے۔وہ کیامنظر ہوگاجب رحمت العالمینﷺاپنے چچاکے چھوٹے بیٹے کوگودمیں لیکران کی اہلیہ کوان کے شوہر اور بچوں کوان کے والدکی شہادت کی خبردیتے ہوئے باربارآبدیدہ ہوتے رہے،یہ تحریرکرتے ہوئے یہ دکھ میری آنکھوں میں گھوم جاتاہے اور قلم بھی بال کھولے نوحہ کرناشروع کردیتاہے۔

مجھے وہ ہدایت یادآجاتیں ہیں جوآپﷺلشکرکوجہادپرروانہ کرتے ہوئے فرمایاکرتے تھے۔کسی فصل کوتباہ نہ کرنا،کسی لاش کا مثلہ نہ کرنا،کسی عورت اوربچے پرہاتھ نہ اٹھانالیکن ان سب ہدایات کاتمسخرتاریخ میں جس طرح اس امت مسلمہ نے اڑایاوہ میری روح پربوجھ توتھاہی لیکن اپنی ہی زندگی میں اس تمسخرکی آنکھوں دیکھی گواہی کے مسلسل عذاب میں مجھے گرفتارہونا پڑے گااس کرب کا تجربہ میں گزشتہ چاردہائیوں سے کررہاہوں اورمیراالمیہ یہ ہے کہ یہ سب وہ لوگ کررہے ہیں جواسی رحمة اللعالمین ﷺکی سنت کے دعویداراوراس کے دین مبین کے علمبردارہیں اورجن کی زبان ان کے ساتھیوں اوران کے گھرانے سے محبت میں رطب اللسان رہتی ہے۔

میں وہ دن کیسے بھول سکتاہوں جب پانچ جولائی1985ءمیں کوئٹہ میں شریعت کے نفاذ کیلئےایک جلوس نکلناتھا۔ضیاءالحق کا دوراسلام کے نفاذکاعلمبردار لیکن صرف اسی تعبیرپرقائم جو اس کے حواری اسے بتاتے تھے۔دوسری جانب مخالفین۔آمریت کا خاصہ ہے کہ آوازکوبزورطاقت سے دبایاجائے۔ پولیس کی بھاری نفری جلوس کے راستے کی رکاوٹ بنی کھڑی ہے۔مذاکرات جاری تھے،اوپرسے احکامات تھے کہ جلوس کسی صورت میں نہیں نکلنا چاہئے ۔اوپربات ہوئی،ان سے دست بدستہ عرض کیاگیاکہ خون خرابے سے بچنے کیلئے یہ بہترین حل ہے لیکن آمریت کوانسانوں کی جان اورعزت وآبروکے مقابلے میں حکومت کی رٹ کی پرواہوتی ہے۔ایک مجسٹریٹ نے میگافون پرجلوس کے غیرقانونی ہونے کااعلان کیااورپھر وہ علاقہ میدان جنگ بن گیا۔آنسو گیس،لاٹھی،گولی سب چلنے لگی۔شام تک پوراعلاقہ دھواں دھواں تھااوراس کے درمیان کھمبوں پرپولیس والوں کے سرکاٹ کر لٹکائے ہوئے تھے۔کیا آمریت کاظلم،جبراورتشدد کسی کوانتقام کی اس سطح پرلے جاسکتاہے کہ وہ اس فعل کی پیروی کرنے لگے جس کے خلاف صدیوں سے احتجاج کرتارہاہو۔

اب اورآگے بڑھتے ہیں،اگست1989ءمیں پشین کے شہرمیں اللہ کی راہ میں جہادکرنے والے دوکمانڈروں میں اختلاف ہوا،بندوقیں تن گئیں،روز لاشیں گرنے لگیں،ہرکوئی ایک دوسرے کومنافق،زندیق اورروس کاایجنٹ کہنے لگا۔سرخاب کاکمیپ میدان جنگ بن گیا۔آخرایک گروپ وہاں سے بھاگ کرافغانستان چلاگیا۔فاتح افغان مجاہدین کے کمانڈرکی آتشِ انتقام سردنہ ہوئی،اس نے ”جہاد” سے سرشارایک دستے کوقندھارروانہ کیاکہ ان کا قلع قمع کیاجائے۔انتقام کی آگ کوجذبہ جہادکہنے والے یہ سرفروش قندھارگئے ،خوفناک اورخونریز لڑائیاں ہوئیں اورپھراس گروپ کے دوکمانڈروں کوقتل کردیاگیا۔علامت کے طورپران کے سرکاٹ کرپیازکی بوریوں میں چھپائے اورپاکستان کے شہرپشین کے سرخاب مہاجرکیمپ میں لاکردرختوں پرلٹکا دئیے۔یہ نشان عبرت ایک ایسی انسانی تذلیل تھی کہ جس کی نہ ان اللہ کی راہ میں جہادکرنے والوں سے کوئی توقع رکھتاتھااورنہ ہی کوئی برداشت۔

لوگ گنگ تھے،نہ کسی مسجدکے لاؤڈسپیکرسے اس کی مذمت ہوئی اورنہ کسی منبرسے صدائے احتجاج بلندہوئی۔سروں کی نمائش اورسربریدہ لاشوں کی بے حرمتی کوئی منتقم مزاج بے دین اوربے راہ روکرے تواس کے نسلی تعصب پرماتم کیاجاسکتا ہے۔قاتل اورخاندانی انتقام میں اندھے ایسااکثرکرتے ہیں۔میں نے8سال کی عمرمیں گجرات میں میاں اکبرکے قتل کی لرزہ خیز واردات دیکھی ہے۔میں اپنے والدکے ساتھ جمعہ کی نمازپرجارہاتھاتوراستے میں قتل کی جگہ سے قبرستان تک لاشیں گھسیٹنے سے خون کی لکیریں بن گئیں تھیں کیونکہ قتل کرنے والے مقتولین کی لاشیں اپنے باپ کی قبرتک اس گواہی کیلئےلے گئے تھے کہ ہم نے قتل کرکے انتقام لے لیالیکن وہ جن کی زندگیاں اسلام کے اصول جنگ،امن،صلح وآشتی کے پیغام سناکے گزریں، جن کی اول روز سے تربیت رحمة اللعالمینﷺکی حدیثیں سنتے ہوئے ہوئی،ان کے جذبہ انتقام کے بپھرتی نفرت سے جب سوات کے بازاروں میں سربریدہ لاشوں کی نمائش اوربے حرمتی کی خبریں سنیں توپتانہیں کیوں مجھے اپنی بدقسمتی پرروناآیا۔میں سوچ میں پڑگیاکہ ہم پرجوامریکاکی غلامی، بدترین آمریت اوربے راہ روقانون کاعذاب نازل ہواہے،یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہی تو ہے۔

تھوڑااورآگے چلتے ہیں کہ میراقلم نجانے کیوں ایک اورقیامت کاتذکرہ کرنے کیلئے اکسارہاہے۔آپ کوبھی دل دہلادینے والاواقعہ توضروریادہوگاجب پشاورکی سڑکوں پر اچانک چیختی چنگھاڑتی سائرن بجاتی ایمبولنسوں کا اژدہام جہاں قیامت صغری کاسماں پیش کررہاتھاوہاں پوری قوم بلکہ پوری دنیاغم واندوہ اورشدیدصدمے اور سکتے کی حالت میں گم صم اپنے رب کے حضورگڑگڑا کر رحم وکرم کی فریادکررہی تھی۔یہ دلدوزخبرسنتے ہی ننگے سراورپاؤں ماں باپ اپنے پیاروں معصوموں کودیوانوں کی طرح ڈھونڈنے کیلئے سڑکوں پردوڑرہے تھے کہ وہ آنے والی قیامت صغری ٰکواپنے سینے پر روک کراپنے بچوں کوبچالیں۔
کیاخوب پسندہے تیری اے فرشتہ اجل
پھول بھی وہ چنے جوگلشن کوویران کر گئے

16دسمبرکی دلخراش یادوں میں ایک اوراضافہ ہوگیاجب پھولوں کے شہر پشاورمیں پھولوں کومسل کررکھ دیا گیا،وہ جواپنے ہاتھوں میں قلم اورکتاب تھامے اپنے نبیﷺکے احکام کی تعمیل میں علم حاصل کررہے تھے،ان کواتنی بھی مہلت نہ ملی کہ اپنی ماں سے یہ کہہ سکیں کہ دیکھ ماں!میرے لباس پراس لہورنگ روشنائی ہم سب کی عقبیٰ وآخرت کی نجات کاوسیلہ بن گئی ہے۔آج دل ایک مرتبہ پھردردسے پھٹتاجارہاہے بلکہ درد جیسالفظ بھی ماتم کر رہاہے،ایک ایسازخم ہے جس کامداواہوتانظرنہیں آتا،جسم تھرتھرا رہاہے،ہاتھوں کی لرزش اورکپکپاہٹ نے دماغ کوماؤف کردیا ہے ۔وہ تمام مناظر میراتعاقب کررہے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی میں ملوث وہ افراد تھے جن کی برسوں میزبانی کاشرف ہمیں حاصل رہااورآج بھی یہی مٹھی بھر افراد اسی سرزمین سے ہمیں لہولہان کررہے ہیں جن کی حفاظت کیلئے ہم نے نہ صرف برابرکاخون بہایابلکہ اگرپاکستان ہمسایہ نہ ہوتاتوآج ازادی کاتاج ان سے کوسوں دورہوتا۔

میرے رب نے فرمایاجس طرح کے تم ہوگے ویسے ہی تمہارے حاکم۔جہاں راست بازوں پرجذبہ انتقام غالب آجائے اور وہ اسلاف کی ہدایت ترک کردیں وہاں قسمت کا ماتم کرنے کے سواکیاکیاجاسکتاہے۔شریعت کے نفاذکی دھن میں مست لوگوں کوسیدناعلی کاوہ واقعہ شایدیادہوکہ آپ ایک کافرکو پچھاڑکرسینے پرسوارہوگئے،اس نے آپ کے چہرے پرتھوک دیا،آپ اس کاسرکاٹنے کی بجائے نیچے اترآئے،کہااب اگرمیں نے تمہیں قتل کیاتواس میں اللہ کے راستے میں جہادکے ساتھ میراانتقام بھی مل جائے گا۔کاش ایسے میں مسجد کے لاؤڈسپیکر سے،کسی منبرسے،کسی عالم دین کی خطابت کے جوش سے ایک بات بلندہو…ہم ظلم وجور،جبرو زیادتی،اورلادینیت کامقابلہ صرف اللہ کیلئے کرتے ہیں،اس میں اگرانتقام کی ذراسی کھوٹ یاملاوٹ بھی آگئی تواعمال توضائع ہوں گے ہی،دنیابھی ہماری تعلیمات سے نفرت کرنے لگے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں