بگرام ائیربیس سے650نمبرقیدی خاتون کی چیخیں ہمارے عالی مرتبت حکمرانوں اورمنبرومحراب کے وارثوں تک تونہیں پہنچیں لیکن اس قیدی اور مومنہ بیٹی عافیہ کی ماں عصمت صدیقی جوقوم کی عصمت کااستعارہ تھیں،یقیناًاپنی ساری مناجات کے ساتھ خودپرگزری قیامت کی گھڑیاں اپنے دامن میں سمیٹ کررب اورمولا کے حضورحاضرہوگئیں۔میراضمیراکثرمجھے کچوکے لگاکر سوال کرتاہے کہ آخرمفتیان کرام کہاں ہیں؟الرشیدٹرسٹ کے محافظین کہاں ہیں؟جامعہ بنوریہ بنوری ٹاؤن کے علمائے کرام کو کیا ہوا؟ جناب مفتی تقی عثمانی صاحب، عصمت صدیقی کا نماز جنازہ پڑھاتے ہوئے عافیہ صدیقی کا سوچ کراشکبارتو ہوئے ہوں گے،مظلو موں کی آہ و بکا پر پہنچنے والے جما عتہ الدعوہ کے مخلصین کی تو سمجھ آتی ہے کہ وہ بھی آج وفا کی قیمت ادا کر رہے ہیں لیکن پنجاب حکومت کے پرانے وظیفہ خور کہاں ہیں؟آخر انبیاءکے وارث کہلانے والےکسی بھی علمائے کرام کے کانوں میں یہ چیخیں کیوں نہیں پہنچی؟ان کوچھوڑئیے ذرا مذہبی سیاسی جماعتوں کوآوازد یجئے،کہاں ہیں سارے مذہبی رہنما…؟؟
کیاآج تک اسلام آبادمیں بیٹھے کسی بھی حکمران کی آنکھوں میں کبھی نمی اتری ہے؟مریم نواز،بختاوراورآصفہ کے باپ کوکسی اوربیٹی کی یہ چیخیں کیوں سنائی نہیں دیِں؟کیا حکمران قوت سماعت سے محروم ہیں یا کسی دائمی اور غفلت کی نیند میں مبتلا ہیں؟ ایوان اقتدار تک پہنچنے کیلئےمرحومہ عصمت صدیقی سے ان سیاست دانوں نے کیا کیا وعدے کئے تھے لیکن اقتدار کی ان غلام گردشوں اور نمک کی کان میں پہنچتے ہی نمک بن کربے خبرہو جاتے ہیں لیکن قصرسفید کے فرعون کی حاضری کے دوران تمام پاکستانی صحافیوں کوعافیہ کے بارے میں سوال کرنے کی ممانعت کاحکم جاری کر دیا جاتاہے؟سوچتا ہوں کیا دانشوری بھی سورج مکھی کا پھول ہو گئی؟
کیااس قوم کے سارے بیٹے کھیت ہوئے کہ جب ان کالیڈراقتدارسے محرومی کے بعدایک کاغذ لہراکرللکارتا ہے کہ”کیاہم کسی کے غلام ہیں؟”لیکن اس پر جان فریفتہ کرنے والوں کواس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنے رہنماءسے یہ پوچھیں کہ ہماری بے گناہ بہن کوامریکاسے واپس لانے کاوعدہ ایفاکیونکرنہ ہوا؟جبکہ تم نے برطانوی نومسلم بہن ایوان رڈلے کے ساتھ پاکستان میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیاوعدے کئے تھے؟کیاہم واقعی ہی وہ قوم ہیں جس کے حکمرانوں نے ڈالروں کے عوض پاکستانی سپوت ایمل کانسی کوخودگرفتارکرکے قصرسفیدکے فرعون کے حوالے کردیا،جس کے جواب میں بھری عدالت میں امریکی اٹارنی جنرل نے کہاتھاکہ پا کستانی چندٹکوں کی خاطراپنی ماؤں کوفروخت کردیتے ہیں!
بگرام ائیربیس کی قیدی نمبر650صرف اپنے تین بیٹوں کی ماں نہیں بلکہ اس قوم کی ماں بہن اوربیٹی بھی ہے۔نام اس کاڈاکٹر عافیہ صدیقی ہےجس کی عافیت کی ذمہ داری ریاست پرتھی۔وہ کراچی سے اچانک اچک لی گئی۔کوئی نہیں جانتاتھا کہ اسے زمین نگل گئی یاآسمان کھاگیا۔پہلے یہ اطلاع آئی کہ وہ اپنے بچوں سے محروم کردی گئی ہے۔اس کی گودمیں پلنے والا چند ماہ کابچہ ماردیاگیاہےاوراسے نامعلوم عقوبت خانوں،قیدخانوں،تہہ خانوں اوربوچڑخانوں سے گزارکراس حال میں بگرام جیل پہنچادیا گیاکہ وہ اپنی پہچان تک بھول گئی،اس کے حواس خمسہ اس کاساتھ چھوڑگئے۔اسے زمانے کی نظروں میں ایک پاگل وجودقرار دے دیاگیا۔وہ روتی نہیں،صرف چیختی ہے۔اس کی چیخیں سننے والے قیامت کی آہٹ سنتے ہیں اورسونہیں پاتےلیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب وہ اپنے آپ کوفراموش کرگئی،اپنے آپ سے منہاہوگئی،اپنے حواس کھوبیٹھی،اپنے وجودمیں آپ تحلیل ہو گئی توپھروہ چیختی کیوں ہے؟اس کی آوازمیں بلاکا کرب کیوں ہے؟بگرام جیل سے امریکی عقوبت خانوں کے درودیوارپریہ لکھی ہوئی ندامت کیسی؟آخرعصمت صدیقی اورقوم کی بے گناہ بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی دردناک چیخیں تمام عافیت خانوں کودہلا کیوں دیتی ہیں؟ شاید اس لئے کہ پاگل عورت بھی اپنے بچوں کوبھلانہیں پاتی جس طرح آخری سانس تک عصمت صدیقی کی اپنی بیٹی کے انتظارمیں آنکھیں پتھراگئیں۔شاعرنے کس کرب سے کہاہے کہ:
خدانے یہ صفت دنیاکی ہرعورت کوبخشی ہے
کہ وہ پاگل بھی ہوجائے توبیٹے یادرہتے ہیں
کوئی عصمت صدیقی،ڈاکٹرفوزیہ اورڈاکٹرعافیہ صدیقی کے کرب کااندازہ نہیں کرسکتا۔اقوام متحدہ خاموش ہے اورخواتین پرتشدد کے خلاف قائم تمام بین الاقوامی تنظیمیں گویاموت کی آغوش میں چلی گئیں ہیں کہ ان کوبھیجی جا نے والی ایک بھی یادداشت پر ان تنظیموں نے کوئی بیداری کی انگڑائی لی اورنہ دکھ سے کوئی جھرجھری لی جبکہ درجنوں پلیٹ فارمزپرمیں خوددہائیاں دے چکاہوں۔رپورٹ کہتی ہے کہ بے پناہ تشددسے ڈاکٹرعافیہ صدیقی اپناذہنی توازن کھوچکی ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ برسوں تک انہیں نہانے اوردیگرضروریات کیلئے مردانہ غسل خانہ استعمال کرناپڑاجہاں پردے کاکوئی انتظام نہیں تھا۔ وہ بگرام جیل کی واحد خاتون قیدی تھی جس کودیکھنے والی ایک باضمیربرطانوی صحافی ایوان رڈلے نے کہاتھاکہ”وہ ایک بھوت کی مانندلگتی ہے جس کی شناخت دھندلاچکی ہے۔”
لیکن میں سمجھتاہوں کہ اب بھی اس کی چیخیں تمام ان بے ضمیرمقتدرلوگوں کاتعاقب کررہی ہیں بلکہ اب تومعاملہ اوربھی سنگین ہوگیاہے کہ عصمت صدیقی ان تمام افرادکے خلاف ایک مضبوط ایف آئی آرکے ساتھ رب کے حضورپہنچ گئی ہیں جہاں وہ اپنی معصوم اوربے گناہ حافظہ عافیہ صدیقی کامقدمہ پیش کریں گی اوروہ معصوم بچہ جس کاآج تک سراغ تک نہ مل سکا،وہ بھی اپنی نانی کے ہمراہ اس سارے ظلم کی گواہی دینے کیلئے پہلے سے موجودہوگا۔ رپورٹ کاسب سے دردناک پہلوجس نے ہر صاحب ضمیرباپ کوانگاروں پرلٹادیاہے،وہ یہ ہے کہ جیل عملے کی طرف سے اسے مسلسل جنسی زیادتی کانشانہ بنایاگیاجس کے باعث اس کاکرب انگاروں سے زیادہ تیزاورشدیدہوگیااوراب امریکی زنداں میں اس کی آبروتھکی ہوئی اذانوں سے بوجھل اور گردوپیش کی تماشائی تنہائیوں سے چورزخمی حالت میں آسمان کی طرف منہ کرکے رب کوتوضرورپکاررہی ہے۔
میں اس وقت بڑے کرب میں ہوں جب یہ سوچتاہوں کہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے شب وروز ایک ایسے ظلم کاروزنشانہ بنتے ہیں جیسے دیہاتی گنے کی پوروں سے رس چوستے ہیں یابے درد، بے حس اورشقی القلب حکمران اپنی رعیت کی بیٹیوں کالہوچاٹتے ہیں۔اب ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی آنکھوں کابہتاہوادردناک کاجل ہمارے مقتدرحلقوں کے قلب کی سیاہی اوراس کی دردناک چیخیں ان کی بے ضمیری کی پیداواربن چکی ہیں۔اس کی پیٹھ پرلگے گھاؤہمارے ان حکمرانوں کے گناہوں کی دستاویز بن چکے ہیں جنہوں نے محض چندڈالروں کے عوض اسے فرعونی طاقتوں کے حوالے کردیا حالانکہ عصمت صدیقی کی عظمت ملاحظہ فرمائیں کہ اپنی رحلت سے چنددن قبل خودمجھ سے فون پراوراپنی بیٹی ڈاکٹرفوزیہ کوحکم دے رہی تھیں کہ کوئی مشرف کویہ خبرکردے کہ میں نے اسے معاف کردیا،یہ اس کمانڈوپرایساگراں مایہ احسان ہے کہ ممکن ہے کہ اس کی زندگی کی آخری سانسیں کچھ ہموارہو جائیں اورجان کنی کاعمل آسان ہو جائے جبکہ اس سےقبل لال مسجد کے مولاناعبدالعزیزجن کے بھائی اورجواں سال اکلوتے بیٹے کوبرسٹ مارکراڑادیاگیا تھا،وہ بھی مشرف کومعاف کرچکے ہیں لیکن جامعہ حفصہ کی درجنوں یتیم بچیاں اوربچے جواس روح فرساحادثے میں گولیوں کاشکارہوکراپنے خون آغشتہ جسموں کے ساتھ اس طرح اللہ کے حضورپہنچ گئے کہ ان کے ساتھ درجنوں قرآن وحدیث بھی خاکسترکردیئے گئے،کیااس کاحساب نہیں ہوگا؟
ان کا خون جن افراد کے ہاتھوں پر ہے،ان کو تو بہرحال حساب دینا ہو گا اور اپنے شب و روز میں اگر ان کے ضمیر زندہ ہیں تو ضرورسوال کرتے ہوں گے کہ روزجزا کے دن جب اللہ کی عدالت میں شہداء پیش کئے جائیں گے تویہ معصوم یتیم شہداءکن کے ساتھ کھڑے ہوں گے اورقاتلین کوکس ندامت کی قطارمیں کھڑا کیاجائے گا….ڈاکٹرعافیہ کے ساتھ ایساسلوک کرنے میں معاونت کرنے والے یہ ضرورسوچیں کہ روزآخرت کیلئے اپنے اعمال نامہ میں عافیہ کی دلدوز چیخیں کیارنگ لائیں گی۔اس مکروہ عمل کاوجودتاقیامت انسانیت کیلئے ایک سوال بنارہے گا،اس کے گردگونجنے والی تکبیریں، بکھرنے والے سجدے اوربلندہونے والی اذانیں جواپنی حقیقت کھوبیٹھی ہیں،اس کی پوری ذمہ داری ان تمام معاونین پربھی عائدہو گی جنہوں نے اس فاسق کمانڈوکے احکام کی تعمیل کی اوران سیاستدانوں پربھی یہ فردجرم عائدہوگی جنہوں نے اس عمل کاساتھ دیا۔
کبھی سوچاہے آپ نے کہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی کاتحلیل ہوتاہواوجودہم سے سوال کرتاہے کہ وہ پاکستانی اخبارات اورجرائدکاموضوع کیوں نہیں،وہ ٹیلیویژن کی جگمگاتی ہوئی اسکرینوں پرمسکراتے چہروں کے ساتھ نمودارہونے والے میزبانوں کیلئے سوال اٹھانے کاسبب کیوں نہیں؟کیوں اخبارات وجرائد خاموش اورٹیلیویژن کی اسکرینیں گونگی اوربہری ہوگئیں ہیں؟کیاپاکستان میں ایک بھی ایسافرد نہیں جس کےکانوں میں ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی دردناک چیخیں اوردلدوزنالے پہنچیں؟وہ حواکی بیٹی ہے ،اگرآپ اس مقدمے پر اپنی روشن خیال اعتدال پسندی کوقربان نہیں کرناچاہتے تویشودھاکی ہم جنس اور رادھاکی بیٹی خیال کیجئے۔اس کیلئے آوازبلند کیجئے۔اہل قلم نہیں جا نتے کہ اگرفکرکی صالحیت سوجائے تواظہارکی جامعیت کجلاجاتی ہے۔پھرحرف مستحق ہوتے ہیں کہ بے حرمت ہوں،دھتکارے جائیں اورپامال ہوں۔فقرے آوارہ قہقہے بن جاتے ہیں اوریوں ہرروزپیلے صفحات پرکالی سیاہی سے چھپنے والے سفیدجھوٹ سے دل اوبھنےلگتاہے۔
مملکت خدادادپاکستان جوکلمہ کی بنیادپرہمیں27رمضان الکریم کی مبارک شب کواس اوفوبالعہدپرعطاکیاگیاکہ ہم یہاں مکمل قرآن نافذکریں گے لیکن نہ صرف اپنے پالن ہارسے وعدہ شکنی کے مرتکب ہورہے ہیں بلکہ سودکی حمائت میں عدالتوں سے رجوع کرکے اللہ اوررسول کے خلاف کھلی جنگ کااعلان کر چکے ہیں۔ایک نیوکلئیرریاست ہونے کے باوجوداقوام عالم میں ہماری کیا حیثیت ہے کہ ہرروزنکلنے والے سورج کی روشنی میں ہمارے تاریک اعمال اور نمایاں ہو جاتے ہیں۔ مگرمیرارب جودنیاکے تمام خزائن کامالک ہے،ہم نے اس سے منہ موڑکردنیاکے استعماری آقاؤں کی غلامی قبول کرلی ہے جو ہزاروں میل دوربیٹھ کرہماری قسمت کافیصلہ کرتے ہیں۔یادرکھیں کہ جسم میں سب سے چھوٹالوتھڑا”دل”جس سے ہماری زندگی کی ڈورجڑی ہوئی ہے،اس میں صرف ایک ہی خوف سماسکتاہے۔ اگررب ذوالجلال کاخوف اوڑھنابچھونابن جائے توساری دنیاآپ سے خوفزدہ رہتی ہے لیکن اگر دنیاکا خوف پال لیاجائے تودوسراخوف چپکے سے رخصت ہوجاتاہے اورپھردنیاکی تمام رسوائیاں ہمارامقدربن جاتی ہیں اوراس وقت یقیناًہم ایسی ہی کیفیت سے گزررہے ہیں۔
مگرمیں ڈاکٹرعافیہ صدیقی کیلئے اس قوم سے کیاشکوہ کروں جس نے اپنے محسنوں کے کفن کے تاربیچے ہیں۔جس نے ام کلثوم کے منہ پرطمانچے مارے ہیں، جس نے حیدرکرارکے خیموں کی طنابیں کاٹ ڈالیں،حضرت مجدد الف ثانی کوگوالیارکے قلعے میں قیدکیا،شاہ ولی اللہ کے ساتھ ہماراسلوک تاریخ کے صفحات پرآج تک شرمندگی کی فصل اگاتاہے۔شاہ عبدالعزیزکے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا،حضرت سیداحمدشہیداورشاہ اسمٰعیل شہیدبالاکوٹ میں مسلمانوں کی غداری سے شہیدہوئے۔تاریخ پاکستان کاتذکرہ مولانامحمدعلی جوہر کے بغیرمکمل نہیں ہوتامگرجب وہ بیمارہوئے توکوئی مسلمان نواب یارئیس نہیں پہنچا بلکہ ان کی مددکو ریاست الورکاہندومہاراجہ آیاتھا۔ہندوستان میں برطانوی غلامی کے خلاف قربانی وایثارکی روح پھونکنے والے مولاناظفرعلی خان بیماریوں میں اس طرح جئے کہ ادویات کیلئے پیسے نہیں تھے اورجب ان کاانتقال ہواتوچھٹاآدمی نہیں تھا۔دورمت جائیے،ابھی کل کی بات ہے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرجس کامحض قصوریہ تھاکہ اس نےپاکستان کوپہلی مسلم نیوکلئیرریاست بنانے میں اپنی جان کھپادی لیکن اس کے ساتھ ہم نے کیاسلوک کیاکہ جیتے جی اس کی زندگی میں کن صدمات سے دوچارکیاکہ اسے مجبور کیاگیاکہ وہ ٹی وی پرآکراپنے ناکردہ گناہوں کی معافی مانگے اورجب وہ اس دنیاسے رخصت ہواتوملک کاسربراہ جوشب وروز پاکستان کوریاست مدینہ بنانے کادعویٰ کرتاتھا،اوراپنے اقتدارسے محرومی پریہ نعرہ لگاکرقوم کے جذبات سے کھیلتاہے کہ”کیاہم امریکاکے غلام ہیں”،محسنِ پاکستان کے جنازے میں نہ آیاکہ کہیں مباداآقاکی نظروں میں مردودنہ ٹھہرایاجاؤں لیکن مکافات عمل کاپھربھی شکارہوناپڑااوراب اسی اقتدارسے محرومی کازخم ناقابل برداشت ہوگیاہے۔
بگرام جیل میں چیخنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اگر امریکی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہماری تاریخ کی فریاد سن سکے تو اسے کچھ قرار آ جائے۔ہم مسلمان تاریخی طور پر کچھ ایسے ہی واقع ہوئے ہیں۔خدا فراموش،خود فراموش اور اب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو فروخت کرنے والے تازہ بے ضمیر۔مسلمان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ جو مرضی سلوک کریں مگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا وجود شہنشاہ عالم قصر سفید میں مقیم فرعون کے آستانہ جبروت پر ایک مقدمہ بن کرہمیشہ موجود رہے گا۔کیایہ مقدمہ شہنشاہ عالم قصر سفید میں مقیم فرعون کی فرمانروائی کو جھکا دے گا؟کیا یہ مغربی طاقتوں اور امریکا کی لونڈی اقوام متحدہ کے ماتھے پرکلنک کا سوالیہ نشان ثبت کرے گا ؟ کیایہ عالم انسانیت میں کوئی بیداری پیداکرے گا؟؟؟اس کاجواب یقیناًتاریخ کے ذمہ ہے۔کئی کرداراس دنیامیں باعثِ عبرت بنائے جائیں گے اوراللہ کے کوڑے سے بچ نہ پائیں گے اورآخرت میں جہنم کی دہکتی آگ تویقیناًان کی منتظرہے۔۔۔۔
اے اللہ مجھے آگ سے بچا کیونکہ تو بخشنے والا اور بردبار ہے۔ اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے اس لیے مجھے معاف کر دے
منصفوں کی نظردیکھتی رہ گئی
زندگی!تیرے قاتل بری ہوگئے