Key members of Trump's cabinet: An analysis of the nominations

ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ

:Share

ڈونلڈ ٹرمپ20جنوری کوامریکاکے47 ویں صدرکی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے تاہم حلف اٹھانے سے قبل ہی ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور صدارت کیلئےاہم عہدوں پرنامزدگیاں کردی ہیں۔دنیابھرکے ممالک میں بھی ان تعیناتیوں کوغورسےدیکھاجارہاہے اور اس بات کااندازہ لگایاجا رہا ہے کہ کون سی شخصیت اہم امورپرماضی میں کیامؤقف اپناتی رہی ہے۔ان تعیناتیوں سے ماہرین یہ اندازہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسی کیاہوگی؟مشرق وسطیٰ پرامریکاکیامؤقف اپنائےگااورکیاوہ اسرائیل کی حمایت ہی جاری رکھے گا؟اب تک نئی ذمہ داریاں سنبھالنے والےافراد سے معلوم ہوتاہے کہ ٹرمپ اپنے حامیوں کونوازرہے ہیں لیکن کیا ٹرمپ واقعی قومی سلامتی کوترجیح دیتے ہوئے آئندہ دنیامیں جاری ان تمام جنگوں کوبند کروانے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کا انہوں نے وعدہ کیاہے۔

اس تحریرمیں ہم اہم ترین عہدوں پرہونے والی ان نامزدگیوں پرنظردوڑائیں گے کہ ٹرمپ کی ٹیم کاحصہ بننے والی یہ شخصیات کون ہیں اورماضی میں ان کی سیاسی سوچ کیارہی ہے؟اس بات کااندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ رپبلکن صدرکی جنوبی ایشیا،مشرقِ وسطیٰ اورخصوصاًپاکستان کیلئےکیاپالیسی ہوگی۔ٹرمپ کی ٹیم میں ایسی کئی شخصیات شامل ہیں جوماضی میں جنوبی ایشیاخصوصاًپاکستان اورانڈیااورمشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اپنے نقطہ نظرکے باعث خبروں میں رہے ہیں تاہم حلف برداری سے قبل واضح طورپریہ کہنامشکل ہوگاکہ وہ کس معاملے پرکیا پالیسی اختیارکرتے ہیں۔

ٹرمپ نے ایک سابق فوجی کرنل مائیک والٹزکوقومی سلامتی امورکے مشیرنامزدکیاہے جوماضی میں چین کوامریکی اثرورسوخ کیلئےمعاشی اورعسکری اعتبارسے سب سے بڑاخطرہ سمجھتے ہوئے اسے ایک نئی سردجنگ سے تعبیرکرتے ہیں۔اسی طرح اقوام متحدہ کے سفیرکیلئےنامزدہونے والی الیزسٹیفنک نے بھی ماضی میں چین پرالزام لگایاتھاکہ وہ الیکشن میں مداخلت کررہاہے جب یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ چینی حمایت یافتہ ہیکرزنے سابق صدرکے فون سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ ٹرمپ نے چین پرتنقیدکوتجارت تک محدودرکھاہے تاہم ان کی خارجہ امورکی ٹیم چین کے نقادوں سے بھررہی ہے۔

ٹرمپ نے سیکریٹری خارجہ کے اہم عہدے کیلئےسینیٹرمارکوروبیوکونامزدکیاجوکہ ماضی میں ٹرمپ کے مخالف رہے ہیں لیکن انھیں خارجہ پالیسی امورکا ایک ماہرسمجھاجاتاہے۔وہ بنیادی طورپرامریکاکے اعلیٰ سفارت کارکے طورپرکام کریں گے۔ان کی نامزدگی کااعلان کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہاکہ “روبیوآزادی کی ایک مضبوط آواز”اورامریکا کیلئے”طاقتوروکیل”ثابت ہوں گے۔وہ کیوباکے تارکین وطن خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔اگران کی اس عہدے کیلئےمنظوری دی گئی تووہ امریکی تاریخ میں پہلے لاطینی سیکرٹری خارجہ ہوں گے۔یہ ماضی میں چین کے ناقدرہے ہیں۔

روبیوپاکستان کے قریب ترین اتحادی چین کے حوالے سے بھی انتہائی سخت موقف رکھتے ہیں۔رواں برس ستمبرمیں انہوں نے امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں لکھاتھاکہ چین”امریکاکاسب سے بڑااورترقی یافتہ مخالف ہے۔کمیونسٹ چین جمہوری ممالک کانہ ابھی دوست ہے اورنہ کبھی ہوسکتاہے۔2020میں چینی حکومت نے ان پرپابندی عائدکردی تھی جب انہوں نے ہانگ کانگ میں مظاہروں پرکریک ڈاؤن کے بعدچین کے خلاف پابندیاں لگوانے کی مہم چلائی تھی۔وہ ایران اورچین سے متعلق سخت مؤقف اپنانے کیلئےجانے جاتے ہیں۔

رواں برس جولائی میں سینیٹرمارکوروبیواس وقت بھی خبروں میں آئے تھے جب انہوں نے امریکی سینیٹ میں انڈیاکی حمایت اور پاکستان کی مخالفت میں ایک بِل متعارف کروایاتھا۔اس بِل کانام امریکا،انڈیادفاعی تعاون ایکٹ تھاجس کامقصددونوں ممالک میں دفاعی شراکت داری کوبڑھاناتھاتاکہ انڈو پیسیفک خطے میں”چین میں بڑھتی ہوئی جارحیت”کوروکاجاسکے۔انڈیاکو درپیش خطرات کے پیش نظراسے سکیورٹی تعاون مہیاکی جائے اوراس کے ساتھ دفاعی،سِول سپیس،ٹیکنالوجی اورمعاشی سرمایہ کاری کے شعبے میں بھی تعاون کیاجائے۔اس بِل میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ”ٹیکنالوجی کی منتقلی”کے حوالے سے انڈیاکے ساتھ وہی رویہ اختیارکیاجائے جوکہ امریکاجاپان،اسرائیل،کوریااورنیٹواتحادیوں کے ساتھ رواں رکھتاہے۔

اس بِل میں پاکستان کاذکرکرتے ہوئے کہاگیاتھاکہ کانگریس کوپاکستان کے”دہشتگردی اورپروکسی گروپس کے ذریعے انڈیاکے خلاف طاقت کے استعمال پرکانگریس میں رپورٹ جمع کروائی جائے۔اگرپاکستان انڈیاکے خلاف دہشتگردی سپانسرکرنے میں ملوث پایاجاتاہے تواسے سکیورٹی کے اعتبارسے مددنہ فراہم کی جائے۔مارکوروبیوایران کے حوالے سے بھی سخت مؤقف رکھتے ہیں اوراس کو”دہشتگرد”ملک بھی قراردے چکے ہیں۔

رواں برس اسرائیل پرایرانی حملوں کے بعدمارکوروبیونے حماس کے خلاف اسرائیلی کاروائیوں کی حمائت کرتے ہوئے سوشل میڈیاپرلکھاتھاکہ: اسرائیل کوایران کوویساہی ردِعمل دیناچاہیے جیساامریکادیتااگرکسی ملک نے ہم پر180میزائل داغے ہوتے۔میں چاہتاہوں کہ وہ(اسرائیل)حماس کے ہرعناصرکوتباہ کرے۔یہ(حماس)جانورہیں جنہوں نے خوفناک جرائم کیے ہیں۔روبیوخارجہ تعلقات اورانٹیلی جنس کمیٹیوں کے سینئررکن اور ٹرمپ کے سابق سیاسی حریف اورسخت ناقدرہ چکے ہیں اب وہ ان کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔یہ سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے نائب سربراہ کے طورپرکام کررہے ہیں اوروہ خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے بھی رکن ہیں۔روبیوکوخارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک شاطرماہرسمجھاجاتاہے جنہوں نے ماضی میں کہاتھاکہ روس اوریوکرین کے درمیان جاری تنازع کو”نتیجے تک پہنچانے”کی ضرورت ہے۔تاہم روبیو نے اس عہدے کیلئےاپنی نامزدگی کو ایک”بھاری ذمہ داری”قراردیتے ہوئے کہاہے کہ وہ بطورسیکرٹری خارجہ روزانہ ان(ٹرمپ)کے ایجنڈے کیلئےکام کروں گا۔صدر ٹرمپ کی قیادت میں ہم طاقت کے ذریعے امن قائم کریں گے اورہمیشہ امریکیوں اورامریکاکے مفادات کوہرچیزپرمقدم رکھیں گے۔

فلوریڈاکے رُکنِ کانگریس مائیک والٹزجوامریکی فوجی ہونے کی حیثیت سے کئی بارافغانستان،مشرقِ وسطیٰ اورافریقامیں بھی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔گذشتہ برس انڈین چینل ویون کودیے گئے ایک انٹرویومیں انہوں نے پاکستان کے حوالے سے کہا تھاکہ:دہشتگردی خارجہ پالیسی کاحصہ نہیں ہو سکتی۔چاہے وہ لشکرِطیبہ ہویادیگردہشتگردگروہ،یہ ناقابلِ قبول ہے۔پاکستانی حکومت ،فوج اورانٹیلیجنس کواس سے آگے بڑھناہوگااورہم ان پرصحیح سمت اختیارکرنے کیلئےدباؤڈالتے رہیں گے۔رواں برس جولائی میں فلوریڈا پولیٹکس کودیے گئے ایک انٹرویومیں ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھا کہ:ہمارے ایک صدرتھے جنہوں نے نام نہاد دولت اسلامیہ کوشکست دی تھی،ایران کوتوڑدیاتھا،ہمیشہ اسرائیل اوردیگراتحادیوں کے ساتھ کھڑے رہے اورچین کواس کے کیے پرپسپائی پرمجبورکیا۔آپ نے صدرٹرمپ کی موجودگی میں کبھی امریکامیں جاسوس غبارے نہیں دیکھے ہوں گے۔

تُلسی گبارڈامریکی فوج میں بطورلیفٹینٹ کرنل بھی خدمات سرانجام دے چکی ہیں اوروہ اس دوران مشرقِ وسطیٰ اورافریقامیں بھی تعینات رہی ہیں۔ ٹرمپ نے سابق رُکن کانگریس تِلسی گبارڈکونیشنل انٹیلیجنس کاڈائریکٹرنامزدکیاہے۔ماضی میں تُلسی گبارڈبھی پاکستان پرتنقیدکرتی ہوئی نظرآئی ہیں۔ 2017میں انہوں نے پاکستان پراُسامہ بن لادن کوپناہ دینے کاالزام بھی عائدکیا تھا۔اس وقت کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعیدکی ایک مقدمے پررہائی پربھی تُلسی نے پاکستان پرتنقیدکرتے ہوئے کہاتھاکہ حافظ سعیدممبئی حملوں کے”ماسٹرمائنڈ”تھے جن میں چھ امریکیوں سمیت سینکڑوں افرادہلاک ہوئے تھے۔مارچ2019میں انہوں نے پاکستان اورامریکاکے درمیان تعلقات پرتبصرہ کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھاتھاکہ “جب تک پاکستان دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتارہے گادونوں ممالک کے درمیان تناؤرہے گا وقت آگیاہے کہ پاکستانی رہنماانتہاپسندوں اوردہشتگردوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔”

جون ریٹکلف ٹرمپ کے پہلے دورِصدارت میں بھی نیشنل انٹیلیجنس کے سربراہ رہ چکے ہیں اوراب ایک مرتبہ پھران کوبطور (سی آئی اے)کاسربراہ نامزدکیاگیاہے۔انہیں پہلی بار 2019میں سابق سپیشل کونسلررابرٹ مولرسے کانگریس میں ہائی پروفائل سوالات کرنے کے چنددن بعدنیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹرکیلئےنامزدکیاگیاتھا۔ملرایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر تھے جنہوں نے روس اورٹرمپ کی2016کی انتخابی مہم کے درمیان ملی بھگت کے الزامات کی تحقیقات کی قیادت کی تھی۔ٹرمپ نے جان ریٹکلیف کی اہلیت کے بارے میں خدشات پردونوں جماعتوں کے اعتراضات کے چنددن بعدان کی نامزدگی واپس لے لی تھی۔2020میں ٹرمپ نے جان ریٹکلیف کودوبارہ نامزدکرتے ہوئے کہاتھا کہ”پریس نے ان کے ساتھ بہت براسلوک کیا”۔

ان کے بارے میں مشہورہے کہ وہ چین اورایران کے حوالے سے سخت مؤقف رکھتے ہیں۔دسمبر2020میں”داوال سٹریٹ جرنل” میں ایک مضمون میں انہوں نے لکھاتھاکہ “انٹیلی جنس بہت واضح ہے:بیجنگ اقتصادی،عسکری اورٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا اورپوری دیناپربرتری چاہتاہے۔چین کی بڑی کمپنیاں اپنی سرگرمیوں کی آڑمیں چین کی کمیونسٹ حکومت کیلئے کام کرتی ہیں۔

امریکی سیاست اورپالیسی سازوں پرگہری نظررکھنے کے بعدیوں لگتاہے کہ ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل واضح طورپریہ کہنا مشکل ہوگاکہ وہ کس معاملے پرکیاپالیسی اختیارکرتے ہیں۔تاہم یہ واضح ہے کہ پاکستان ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اور اگرہم ٹرمپ کی جانب سے عہدوں پرنامزدکی گئی شخصیات کے بیانات دیکھیں تولگتاہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے نظریات کے مطابق ہی کام کرے گی۔تاہم پالیسی سازی میں نظریات کاعمل دخل کم ہی ہوتاہے۔پالیسی سازی میں نظریات سے کام نہیں لیاجاسکتا بلکہ یہ پیچیدہ مشکلات سے نمٹنے کاایک طریقہ ہوتاہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شخصیات متعددموضوعات پرسخت مؤقف رکھتے ہیں لیکن ضرورت پڑنے پروہ کمزورآنے کے ڈر کے بغیراپنے عملیت پسندہونے کی گنجائش بھی پیداکرلیتے ہیں۔بالآخران سب کوصدرکی ایماءپرہی کام کرناپڑے گااورٹرمپ کوئی نظریاتی شخصیت نہیں بلکہ ڈیل میکرہیں اورجنگوں کے خلاف ہیں۔جہاں تک پاکستان کی بات ہے تمام پالیسیاں پہلے جیسے ہی رہیں گی،اگرمعاملات خراب نہیں ہوتے یاپاکستان کسی بڑے بحران کاشکارنہیں ہوجاتا۔پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کیلئےتیسرے درجے کی ترجیحات میں ہی رہے گایاپھرپاکستان کونئی آنے والی انتظامیہ کے سامنے خودکومدد گارثابت کرناہوگالیکن چین کی دوستی ایک چیلنج کی طرح ہرحال میں مقدم ہوگی۔

نئی امریکی انتظامیہ کوچیلنجزکے ایک انبارکاسامناہے۔پاکستان خصوصاًاس کی اندرونی سیاست اوراس کاانڈیاسے تعلق ان کی ترجیحات کی فہرست میں بہت نیچے ہوں گے۔نئی ٹرمپ انتظامیہ کی تمام ترتوجہ پہلے مشرقِ وسطیٰ اورخصوصاًایران پرہوگی۔ قوی امکان یہی ہے کہ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کی بنیاد”ایران پرزیادہ سے زیادہ دباؤ”ڈالنے پرہوگی اوران کی کوشش ہوگی کہ معاہدہ ابراہیمی کوایک مرتبہ پھرزندہ کیاجائے اورتوجہ اس بات پررکھی جائے کہ سعودی عرب اسرائیل کوبطورریاست تسلیم کرلے۔تاہم ایساہونااس لیے مشکل ہے کیونکہ فلسطین کی صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اورریاض میں ہونے والی اسلامی کانفرنس میں سعودی ولی عہد نے اپنی تقریرمیں واضح طورپراسرائیل کوفوری طورپرجنگ بند کرنے اورایران پرحملہ ہونے کی صورت میں اپنے تعاون کابھرپوریقین دلایاہے۔

حقیقت یہ ہے کہ افغانستان سے فوج کے انخلاکے بعدامریکاکی نگاہ میں پاکستان کی اہمیت کم ہوئی ہے اس لئے پاکستان ابھی واشنگٹن کے ریڈارپرنہیں ے۔پاکستان اورچین کے درمیان سٹریٹجک تعلقات اورانڈیااورامریکاکے درمیان شراکت داری کے بیچ میں ہی پاکستان کوکوئی گنجائش نکالناہوگی اورامریکاسے تعلقات کوبہتربناناہوگا۔تاہم ٹرمپ کی ٹیم میں چین مخالف شخصیات اگر پاکستان کوچین یاانڈیا کے لینس سے دیکھتی ہیں توامریکااور پاکستان کے درمیان معنی خیزدوطرفہ تعلقات کی گنجائش مزیدسُکڑ جائے گی۔اس لئے اندازہ یہی ہے کہ نئی انتظامیہ کی پالیسی میں شاید پاکستان کیلئےکوئی خوشگوارتبدیلی دیکھنے میں نہ آئے۔امریکی پالیسی سازیہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کونظراندازکرنے کی پالیسی اورواشنگٹن میں طاقت کے ایوانوں تک اسلام آبادکو رسائی نہ دیناپاکستان کوایک مشکل پوزیشن میں رکھنے کیلئےمناسب ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ایران اورچین کے مقابلے میں پاکستان کے پاس زیادہ موقع ہے کہ وہ کچھ کوششیں کرکے ٹرمپ انتظامیہ سے تعلقات بہترکرسکیں۔

مائیک ہکابی اسرائیل کیلئےامریکاکے نئے سفیرہوں گے۔اگرچہ وہ13سال میں اس عہدے پرآنے والی وہ پہلی شخصیت ہیں جو یہودی نہیں لیکن69 سالہ ہکابی ایک طویل عرصے سے اسرائیل کے حق میں آوازاٹھاتے رہے ہیں۔2008میں مائیک ہکابی نے ایک بیان میں کہاتھاکہ”فلسطین نام کی کوئی چیزہی نہیں۔مائیک ہکابی کی نامزدگی پراسرائیل کے وزیربرائے قومی سلامتی ایتامیربین گویرنے سوشل میڈیاپران کانام جھنڈے اوردل کی ایموجیزکے ساتھ شیئرکیا۔امریکی ریاست آرکنساس کے سابق گورنرنے اپناپہلا دورہ اسرائیل1973میں کیااوراس کے بعدسے وہ وہاں جانے والے درجنوں عیسائی مشنوں کی قیادت کرتے رہے۔2018میں اسرائیل کے دورے کے دوران مغربی کنارے پرایک نئے ہاؤسنگ کمپلیکس کیلئےاینٹیں بچھاتے ہوئے انہوں نے کہاتھاکہ وہ”کسی دن یہاں گھرخریدناپسند کریں گے۔

چنددن قبل ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے ڈونراوررئیل سٹیٹ ٹائیکون”سٹیووٹکوف”کوامن کیلئےایک ان تھک آوازاوراسے اپنا فخرقراردیتے ہوئے مشرق وسطیٰ کیلئےخصوصی ایلچی نامزد کیاہے۔یادرہے کہ سٹیوٹرمپ کے قریبی دوست ہیں اورطویل عرصے سے ان کے گولف پارٹنرہیں۔ درحقیقت ،وٹکوف ستمبرمیں ٹرمپ پردوسرے قاتلانہ حملے کے دوران ان کے ساتھ گولف کھیل رہے تھے۔سٹیو نے مین ہٹن فراڈکیس میں عدالت میں ٹرمپ کے دفاع میں گواہی دی تھی۔دونوں کی ملاقات1986میں کاروباری لین دین کے بعدہوئی تھی۔سٹیو کے مطابق اس وقت ٹرمپ کوسینڈوچ خریدکر دیاتھاکیونکہ اس وقت ٹرمپ کے پاس کوئی کیش رقم نہیں تھی۔

پیٹ ہیگستھ ماضی میں امریکی فوج کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔اس کے علاوہ وہ فاکس نیوزکے میزبان بھی رہ چکے ہیں۔وہ فوجیوں کی وکالت کرنے والے دوگروپس کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں۔انہوں نے مینیسوٹامیں سینیٹ کی نشست کیلئےالیکشن میں بھی حصہ لیاتھالیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے تھے ۔ٹرمپ نے پیٹ ہیگستھ کوسیکرٹری دفاع کے عہدے کیلئے نامزدکرتے ہوئے لکھا ہے کہ”وہ سخت،ذہین اورسب سے پہلے امریکاکوحقیقی معنوں میں مانتے ہیں۔پیٹ کی وجہ سے ہماری فوج دوبارہ بہترین بنے گی اورامریکاکبھی گرے گانہیں۔فوجیوں کیلئےکوئی بھی نہیں لڑتااورپیٹ”طاقت کے ذریعے امن”کی ہماری پالیسی کے دلیراورمحب وطن چیمپیئن ہوں گے”۔

فلوریڈاکے50برس کے رکن کانگرس مائیک والٹزماضی میں امریکی فوج کاحصہ رہے اورکئی بارافغانستان،مشرق وسطیٰ اور افریقاکادورہ کرچکے ہیں۔ان کوٹرمپ کے دوسرے دورصدارت میں قومی سلامتی کے نئے مشیرکے طورپرنامزدکیاگیاہے۔وہ طویل عرصے سے ٹرمپ کے حامی ہیں۔ایکس پر اپنے پیغام میں انہوں نے لکھاکہ وہ ٹرمپ کی کابینہ میں خدمات سرانجام دینے پر”بہت اعزاز”محسوس کرتے ہیں۔ہماری قوم کی اقدار،آزادی اور ہر امریکی کی حفاظت کادفاع کرنے سے بڑھ کرکوئی چیزنہیں”۔

مسلح افواج کی سب کمیٹی کے سربراہ مائیک والٹزچین کے بارے میں سخت مؤقف رکھتے ہیں اوراس بات پرزوردیتے ہیں کہ بحرالکاہل میں تنازعات کیلئےامریکاکومزیداقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکاکو یوکرین کیلئےاپنی حمایت برقراررکھنی چاہیے لیکن حالیہ عرصے میں اس جنگ کیلئےامدادپروہ امریکی اخراجات کے دوبارہ جائزے کی وکالت بھی کرتے ہیں۔

ٹرمپ کے بڑے حامی اورفنانسرایلون مسک اورسابق رپبلکن صدارتی امیدواروویک رامسوامی کوبھی ٹرمپ نے حکومتی کارکردگی کے نئے محکمے کی قیادت کرنے کاکام سونپاہے۔واضح رہے کہ ٹرمپ کے سب سے اہم حامی سمجھے جانے والے اور دنیاکے امیرترین افرادمیں شامل ایلون مسک نے ان کی انتخابی مہم کو11کروڑ90لاکھ کافنڈدیا ٹرمپ نے ایک بیان میں کہاکہ”یہ دو شاندارامریکی مل کرمیری انتظامیہ کیلئےسرکاری بیوروکریسی کوختم کرنے،اضافی ضابطوں میں کمی،فضول اخراجات میں کمی اوروفاقی ایجنسیوں کی تنظیم نوکرنے کیلئے راہ ہموارکریں گے،جو”امریکا بچاؤ”تحریک کیلئے ضروری ہے”۔

ٹرمپ انتظامیہ میں ملنے والی اس ذمہ داری پرردعمل دیتے ہوئے امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ٹیسلاکے سربراہ ایلون مسک نے لکھا کہ”یہ نظام میں شامل افراد کوہلاکررکھ دے گا”۔دوسری جانب وویک رامسوامی نے بھی لکھاکہ وہ”کوئی رعایت نہیں برتیں گے”۔ اسی طرح ٹرمپ نے تصدیق کی ہے کہ وہ جنوبی ڈکوٹاکی گورنرکرسٹی نوم کومحکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی سربراہی کیلئےمقرر کریں گے۔نوم کانام موسم گرمامیں ایک ممکنہ نائب صدرکے امیدوار کے طورپرسامنے آیاتھا۔وہ طویل عرصے سے ٹرمپ کی اتحادی رہی ہیں اورانہوں نے منتخب صدر کیلئے بھرپورمہم بھی چلائی۔رواں برس وہ میڈیاکی شہ سرخیوں میں بھی رہی تھیں،جب انہوں نے انکشاف کیاتھاکہ انہوں نے اپنے کتے کوگولی سے ماراکیونکہ یہ”غیرتربیت یافتہ اور” خطرناک ” تھا۔

ان نامزدگیوں سے یہ معلوم ہوتاہے کہ ٹرمپ اپنے حامیوں کونوازرہے ہیں اوردوسرایہ کہ چین اورایران کے ساتھ انتہائی سخت مؤقف رکھتے ہوئے اسرائیل کی کھل کرحمائت کریں گے جس سے ان کے جنگ بندکرانے کاانتخابی وعدہ مشکوک ہوگیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں