Israel is taking its last breath

اسرائیل آخری سانسیں لے رہاہے

:Share

میری انتہائی سادہ دیہاتی،سفید ان پڑھ ماں، عجیب سی باتیں کرتی تھی”دل کی آنکھ سے دیکھ، دل کے کان سے سن” میں نے انہی سے سنا تھا ۔بہت جری اور بہادر، اب تو نئی نسل کی بچیاں چھپکلی اور معمولی سے کیڑوں کو سامنے دیکھ کر اپنے اوسان خطا کر دیتی ہیں اور اپنی چیخوں سے سے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں، لیکن کیا مجال کہ رات کا گھپ اندھیرا یا کبھی بادلوں کی کڑکتی گرج چمک سے انہیں کبھی خوف آیا ہو۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ خوف جیسی کوئی شئے بھی ان سے خوفزدہ ہے۔ سفید موتئے کی کلیوں یا گلاب کے پھولوں کو ایک بڑی تھالی میں رکھ کر ان سے باتیں کرنا ان کا ایک معمول تھا۔ میں ان سے کبھی پوچھتا کہ ”ماں جی!کیا یہ آپ کی باتیں سنتے ہیں”تو فوراً مسکرا کر فرماتیں کہ ”یہ نہ صرف سنتے ہیں بلکہ سمجھتےبھی ہیں،
تجھے جس دن ان سے کلام کرنا آ گیا پھر دیکھنا تجھے کسی کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ خفا بھی ہو جاتے ہیں یہ تو…….یہ پودے، درخت اور پھل پھول بہت لاڈلے ہوتے ہیں، بہت پیارچاہتے ہیں،اسی لئے اکثر ماں باپ اپنی اولاد کو پھول کہہ کر مخاطب ہوتی ہیں۔”میں خاموش رہتا، کچھ سمجھ میں نہ آتا لیکن اب کچھ کچھ سمجھنے لگا ہوں اورشائد یہ انہی کی دعاؤں کا ثمر ہے۔

شوہرکا انتقال ہو گیا تو سب بچوں کی باپ بھی بن گئیں۔ بڑی سی چادر میں لپٹا ہوا رعب دارچہرہ، جس نے گھرکے تمام امورکو خود اعتمادی کے ساتھ سنبھالا دیا حالانکہ شوہر کی موجودگی میں کبھی بھی گھر سے باہر قدم تک نہیں نکالا کہ رسول اکرمﷺ کے اس مبارک قول کو دہرایا کرتی تھیں کہ “بازار شیطان کی آماجگاہ ہے”، اس کے شر سے بچنے کیلئے گھر میں ہی رہنا عافیت ہے۔ کبھی نہیں جھکیں، سماج کو کئی مرتبہ جھکتے دیکھا۔ اپنے شوہر کی طرح مجبوروں کیلئے انکار تو انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ جہاں سے گزرتیں، لوگ سر جھکا کر سلام کرتے، لمحہ بھر رک کر ان کی خیریت دریافت کرتیں، ”بالکل شرم نہ کرنا، کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا” ان کی گفتگو کا یہ آخری جملہ ہوتا اور وہاں سے آگے بڑھ جاتیں۔

سب بچوں کی پڑھائی اور دوسرے معمولات پر مکمل اور گہری نظر، مجال ہے کوئی عمل ان سے پوشیدہ رہ سکے۔ وہ اکژ میرے کپڑے اس انداز اور نزاکت سے دھوتیں کہ ان کو بھی کہیں چوٹ نہ آ جائے جبکہ اس زمانے میں مشینی واشنگ مشین کا تصور تک نہیں تھا۔ میں اکثر ان کے پاس بیٹھ جاتا اور کسی کتاب یا اخبار سے کوئی کہانی قصہ پڑھ کر ان کو سناتا رہتا لیکن اس کہانی یا قصہ پر ان کا تبصرہ سن کر یقین نہیں آتا تھا کہ میری ماں بالکل ان پڑھ ہے اور جس طرح وہ ہماری تعلیم میں دلچسپی کا اظہار فرماتی تھیں تو محسوس یہی ہوتا تھا کہ میری ماں بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ایک دفعہ میں سامنے بیٹھا کچھ سنا رہا تھا کہ اچانک ایک پتھر میری پشت کی طرف دیوار پر دے مارا۔ میں اس اچانک عمل پر خوفزدہ ہو گیا، پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک زہریلا کیڑا تھا جو اس پتھر کی ضرب سے کچلا گیا۔ وہ غضب ناک شیرنی لگ رہی تھیں۔”ماں جی!اس نے آپ کا کیا نقصان کیا تھاکہ آپ نے اس کا یہ حشر کر دیا”۔ ”کچھ نہیں، خاموش رہو” میرے اس سوال پر مجھے سینے سے چمٹا کر بولیں “یہ اگر میرے پھول کو کاٹ لیتا تب کیا کرتی؟ ”کچھ لوگ بھی بہت معصوم لگتے ہیں لیکن ان میں زہر بھرا ہوتا ہے، ڈس لیتے ہیں پھر بھی ناآسودہ رہتے ہیں” ہاں! یہ میں نے انہی سے پہلی دفعہ سنا اور سیکھا تھا اور عملی زندگی میں ان کا یہ ناصحانہ مشاہدہ بالکل درست پایا۔ زندگی بھریہی ان کاعمل رہا، بہت مضبوط اعصاب کی مالک تھیں، ہر دم نبرد آزما…… .سماج سے،وقت سے،حالات کے جبر سے۔

ہم سب کو رات جلد سونے کا حکم تھا لیکن خود کب سونے کیلئے جاتی تھیں، کسی کو علم نہیں تھا۔ یہ پتہ ہے کہ صبح چار بجے اٹھ کر عبادات سے فارغ ہو کر گھر کے کام کاج میں مصروف ہو جاتیں تھیں اور سب کو فجر کی نماز پڑھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام سختی سے کرواتی تھیں۔ صبح سویرے اٹھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ کوئی سارے گھر کی باقاعدگی کے ساتھ نگرانی کر رہا ہے۔ اپنے پالتو کتے کو ہر روز شاباش دیتی کہ ساری رات تم نے کس قدر ذمہ داری سے اپنی ڈیوٹی نبھائی۔ ہم سے پہلے اس کو باقاعدہ نا شتہ اور کھانا دیتی تھیں۔ اس کی صفائی ستھرائی کا بھی ایسا خیال رکھتی تھیں کہ جیسے یہ بھی گھر کا بہت ہی اہم فرد ہے۔ اس سے یوں باتیں کرتیں جیسے وہ اسی ستائش کا منتظر ہے۔ایک فاصلے پر سر جھکائے کھڑا، کیا مجال کہ اپنی حدود سے تجاوزکرے۔ ایک مرتبہ اس کو سمجھا دیا کہ دہلیز کے اس پار رہنا ہے۔ بس ساری عمرگرمی ہو یا سردی، کوئی بہانہ بنائے بغیر،خاموشی کے ساتھ اپنے فرائض بجا لاتا رہا اوراپنی مالکہ کے احکام کی تعمیل کی! اس کتے نے تو وفاداری کی ایک ایسی مثال قائم کر دی کہ ماں جی کے انتقال کے اگلے دن ہی وہ بھی اس دنیا سے منہ موڑ کر چلا گیا بلکہ ماں جی اپنی علالت کے آخری دنوں میں ہسپتال میں بھی اس کے کھانے پینے کا خیال رکھنے کا حکم دیا کرتی تھیں، اس لئے وہ بھی ماں جی کے اس دنیا سے رخصت ہونے پر ان کا فراق برداشت نہ کر پایا۔ آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ سب کچھ میری ماں نے کہاں سے سیکھا جس نے آج تک کسی کتاب کو چھوا تک نہیں، کسی مکتب کو دیکھا تک نہیں کہ ایک پالتو جانور نے بھی وفا کا حق ادا کردیا جبکہ ہمارے دن کا آغاز ہی عہد شکنی سے شروع ہوتا ہے اور رات بستر تک جانے تک ہمارایہ فعل جاری رہتا ہے… یہ کیااسرارتھا؟

اب اس کی جتنی گہرائی میں جاتا ہوں، عقل و دانش کے نئے نئے پرت کھلتے جاتے ہیں۔ان کے جملوں کی سادگی میں چھپی حکمت اور حلاوت آج پھر شدت سے محسوس کر رہا ہوں۔ وہی محبت میں گندھی ہوئی ماں، جب بھی لکھنے کیلئے الفاظ کم پڑتے ہیں، فوراً اپنی کسی یاد کے آنچل سے نمودار ہو کر اسی طرح میرا ہاتھ پکڑ کر لکھنا شروع کردیتی ہے جس طرح بچپن میں تختی پر لکھوانے کی مشق کرواتی تھیں۔

ان کی اپنی ایک کابینہ تھی۔اڑوس پڑوس کی کئی عورتیں اپنے دکھوں کا غم ہلکا کرنے کیلئے موجود رہتی تھیں۔ ایک دن میں نے ان کو یہ کہتے سنا “چھوڑو بہن، دفع کرو اسے، بےغیرت پچاس بھی ہوں تو کیا کرنا، غیرت مند تو ایک بھی بہت ہے، جو اپنے گلے کی حفاظت نہ کر سکے وہ چرواہا کیسا”۔ ہم سب پچھلی سات دہائیوں سے غزہ پر خوفناک بمباری کے دلدوز مناظر دیکھ ہی رہے تھے لیکن گزشتہ برس 7/اکتوبر سے دل دہلا دینے والے قیامت خیز مناظر ایک لمحے کیلئے بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو رہے لیکن عالم اسلام کے کسی حکمران کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ صابرہ اور شتیلہ بھی مجھے یاد ہیں، مجھے بوسنیا بھی نہیں بھولا، بھارتی گجرات کا احمد آباد اور کشمیر بھی دل کی دھڑکنوں کو بند کرنے کیلئے کافی ہے،عراق اور افغانستان کا حشر تو ساری دنیا کے سامنے ہے۔ کیسی کیسی لہو رنگ تصویریں ہیں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت …… ..!

پھول اور کلیاں خوں میں نہائی ہوئی، معصومیت بیدردی سےقتل ہو رہی ہے، کڑیل نوجوانوں کو درگور کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے،نسل کشی کرنے والے ہنس رہے ہیں، کھیل رہے ہیں انسانیت کے ساتھ۔ مہلک ترین ہتھیار استعما ل ہو رہے ہیں، ٹنوں وزنی بارود برساتے ہوئے انہوں نےکچھ نہیں دیکھا، آگ و خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف رہے۔ نیتن یاہو کتنے جوش اور تکبر سے کہہ رہا تھا کہ ابھی تو شروعات ہیں، آگے آگے دیکھتا جا، ہم انہیں زمین سے اس طرح مٹا دیں گے کہ تاریخ میں بھی ان کا ذکر باقی نہیں رہے گا” لیکن 8 ماہ گزرجانے کے باوجود اپنے یرغمالیوں تک نہیں پہنچ سکا اور اب امریکا اپنی ناجائز اولاد کے تحفظ کیلئے اک نئے سفارتی جال کے ساتھ میدان میں اترا ہے۔

جوبائیڈن نے اسرائیل، حماس جنگ بندی کا نیا منصوبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنازع کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ اور موقع ہے اورحماس کو اسے فوری قبول کر لینا چاہئے۔ یہ مجوزہ منصوبہ تین مراحل پرمشتمل ہے جس میں پہلے چھ ہفتے مکمل جنگ بندی ہو گی اور اسی دوران اسرائیلی فوجوں کا انخلاءہو گا اور یرغمالیوں اور سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہو گا۔ اس منصوبے کے تحت فلسطینی شہری غزہ واپس جائیں گے اورغزہ میں روزانہ 600/ امدادی ٹرک روزمرہ استعمال کی اشیاء لیکر آئیں گے۔ دوسرے مرحلے میں حماس اور اسرائیل جنگ کے مستقل خاتمے کی شرائط طے کریں گے اور جب تک مذاکرات جاری رہیں گے، مکمل جنگ بندی رہے گی۔ اور تیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیرِنو ہو گی۔ حماس نے فی الحال ان تجاویز کو مثبت قرار دیا ہے۔

ادھر اردن نے ہنگامی بنیادوں پر اعلان کیا ہے کہ 11 جون کو وہ غزہ جنگ کی صورت حال کے بارے میں انسانی ہمدردی کی ایک ہنگامی سربراہی بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کرے گا۔ عرب میڈیا کے مطابق مسئلہ فلسطین حالیہ غزہ جنگ میں ایک اہم فریق کے ناطے اردن کافی متحرک ہے، شاہ اردن نے دوبار امریکا کا دورہ بھی کیا ہے، جبکہ امریکی وزیرخارجہ بلنکن و دیگر حکام کئی بار اردن آ چکے ہیں تاہم اب اردن نے مصر اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر ہنگامی سربراہی کانفرنس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مجوزہ کانفرنس میں ڈونر ملکوں اور اداروں کو بطور خاص شرکت کیلئے مدعو کیا جائے گا۔

اس سے قبل بھی غزہ میں امداد لانے کے بہانے فلسطینی مزاحمت پر فوری جنگ بندی قبول کرنے کیلئےدباؤ ڈالنے کیلئے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بعض عرب ممالک بالخصوص مصر اور قطر کے ساتھ گہرے اور فوری رابطے کیے گئے تھے!! سچ تو یہ ہے کہ اس جنگ بندی کی فوری طور پر اسرائیل کی طرف سے امریکا سے درخواست کی گئی تھی تاکہ وہ اپنے فوجیوں اور گاڑیوں کو اس دلدل سے نکال سکے جو آج غزہ کی گلیوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ سینکڑوں گاڑیوں اور جانوں کے بھاری نقصان کی بناء پر سیکڑوں صیہونی فوجی غزہ کی گلیوں میں محصور ہو گئے ہیں اور واپسی کے سارے راستے بھی مسدود ہو گئے ہیں۔ عبرانی چینلز نےکئی اسرائیلی افسران اور فوجیوں کی بڑی تعداد کے مارے جانے کی خبریں نشر کرنا شروع کر دی ہیں جبکہ آج بھی غزہ کی گلیوں سے آخری سانس تک “فتح یا شہادت” کے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔

مشہورصہیونی مصنف “اری شاوٹ” کا قومی سطح پر سب سے بڑا اور اہم عبرانی اخبار “ہاریٹیز” میں “اسرائیل اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے” کے عنوان سے مضمون شائع ہوا ہے جس نے ایک تہلکہ مچا دیا ہے لیکن نجانے مسلم ممالک کے اخبارات میں موت جیسی خاموشی چھائی ہوئی ہے کہ کسی نے ابھی تک اس کا ذکر تک نہیں کیا۔

“اری شاوٹ” اپنے مضمون میں لکھتا ہے: ایسا لگتا ہے کہ ہم ان مشکل ترین لوگوں کا سامنا کر رہے ہیں جن کے بارے میں یہودی تاریخ کو معلوم نہیں ہے۔ ان کے پاس اپنے حقوق کو تسلیم کرنے اور قبضہ ختم کرنے کے سوا کوئی حل نہیں ہے اور اس کیلئے وہ اپنی جانوں، اولاد اور ہر قسم کی قربانی کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم واپسی کے نقطہ سے گزر چکے ہیں، اور “اسرائیل” کیلئے قبضہ ختم کرنا، آبادکاری کو روکنا اور امن کا حصول ممکن نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ صیہونیت کی اصلاح، جمہوریت اور اس ملک میں لوگوں کی تقسیم کو بچانا اب ممکن نہیں رہا۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو اس ملک میں رہنے کا کوئی ذائقہ اور “ہارٹیز” میں لکھنے اور پڑھنے کا قطعاً کوئی ذوق نہیں بچا ہے، اور ہمیں وہی کرنا چاہیے جو روجیل الفر نے دو سال قبل تجویز کیا تھا کہ جس خواب کی تعبیر کیلئے اسرائیل میں قیام کیلئے آئے تھے،اسی عجلت میں واپسی کا سفر کرنا ہو گا۔

اگر “اسرائیلیت” اور یہودیت شناخت کا ایک اہم عنصر نہیں ہیں، اور اگر ہر “اسرائیلی” شہری کے پاس غیر ملکی پاسپورٹ ہے ، نہ صرف تکنیکی لحاظ سے، بلکہ نفسیاتی لحاظ سے بھی، تو معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ آپ کو دوستوں کو الوداع کہنا ہو گا اور سان فرانسسکو، برلن یا پیرس جانا ہو گا۔ وہاں سے،نئی جرمن انتہا پسند قوم پرستی کی سرزمین، یا نئی امریکی انتہا پسند قوم پرستی کی سرزمین سے، کسی کو سکون سے دیکھنا چاہیے اور “ریاست اسرائیل” کو اپنی آخری سانسیں لیتے دیکھنا چاہیے۔ ہمیں تین قدم پیچھے ہٹ کر یہودی جمہوری ریاست کو ڈوبتے دیکھنا چاہیے۔ہو سکتا ہے کہ یہ مسئلہ ابھی تک حل نہ ہوا ہو۔ عین ممکن ہے کہ ہم ابھی تک پوائنٹ آف نو ریٹرن سے نہیں گزرے ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ قبضے کا خاتمہ، آبادکاری روکنا، صیہونیت کی اصلاح، جمہوریت کو بچانا اور ملک کو تقسیم کرنا اب بھی ممکن ہے۔

“اری شاوٹ” مزید تحریر کرتے ہیں: میں نے نیتن یاہو،لائبرمین اور نو نازیوں کی آنکھ میں انگلی ڈالی تاکہ انہیں صہیونی فریب سے بیدار کیا جا سکے۔ ٹرمپ، کشنر، بائیڈن، براک اوباما اور ہلیری کلنٹن وہ نہیں جو قبضے کو ختم کریں گے۔ یہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نہیں ہے جو بستیوں کو روکے گی۔ دنیا کی وہ واحد طاقت جو اسرائیل کو خود سے بچانے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ خود اسرائیلی ہیں، جو ایک نئی سیاسی حقیقت کو تسلیم کرے اور یہ کہ فلسطینیوں کی جڑیں ہزاروں سال سے اس سرزمین میں ہیں۔میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ زندہ رہنے کیلئےتیسرا راستہ تلاش کریں اورنہ مریں۔

“اری شاوٹ” نے تصدیق کی ہے:جب سے وہ فلسطین آئے ہیں، “اسرائیلیوں” نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ صہیونی تحریک کی طرف سے پیدا کردہ جھوٹ کا نتیجہ ہیں، جس کے دوران اس نے پوری تاریخ میں یہودیوں کے کردار میں تمام دھوکے کا استعمال کیا۔ ہٹلر نے جس چیز کو ہولوکاسٹ کہا تھا اس کا استحصال اور مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، تحریک دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ فلسطین “وعدہ شدہ سرزمین” ہے اور یہ کہ مبینہ ہیکل سلیمانی مسجد اقصیٰ کے نیچے واقع ہے۔ اس طرح، بھیڑیا ایک بھیڑ کے بچے میں تبدیل ہو گیا جسے امریکی اور یورپی ٹیکس دہندگان کے پیسے سے دودھ پلایا گیا، یہاں تک کہ وہ ایٹمی عفریت بن گیا۔

مصنف نے مغربی اوریہودی ماہرینِ آثار قدیمہ سے مدد طلب کی، جن میں سے سب سے مشہور تل ابیب یونیورسٹی کے “اسرائیل فلنٹسٹائن” ہیں، جنہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ “ہیکل بھی ایک جھوٹ اور پریوں کی کہانی ہے جس کا کوئی وجود نہیں، اور تمام کھدائیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے۔ یہ ہزاروں سال پہلے مکمل طور پرغائب ہو گیا تھا، اور یہ واضح طور پر یہودی حوالوں کی ایک بڑی تعداد میں بیان کیا گیا تھا، اور بہت سے مغربی ماہرین آثار قدیمہ نے اس کی تصدیق کی ہے۔ ان میں سے آخری 1968 میں برطانوی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر کیٹلن کابینوس تھیں، جب وہ یروشلم کے برٹش سکول آف آرکیالوجی میں کھدائی کی ڈائریکٹر تھیں۔ اس نے یروشلم میں کھدائی کی،اور اس نے مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے آثار” کی موجودگی کو “اسرائیلی” خرافات” کا نام دیا جس کی وجہ سے اسے فلسطین سے نکال دیا گیا۔

جہاں میں نے فیصلہ کیا کہ ہیکل سلیمانی کا کوئی نشان نہیں ہے، اور میں نے دریافت کیا کہ جسے اسرائیلی “سلیمان کے اصطبل کی عمارت” کہتے ہیں، اس کا سلیمان یا اصطبل سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ ایک محل کا آرکیٹیکچرل ماڈل ہے جو عام طور پر فلسطین کے کئی خطوں میں تعمیر کیا گیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ “کیتھلین کینیون” فلسطین ایکسپلوریشن فنڈ ایسوسی ایشن کی طرف سے آئی تھی، کیونکہ اس نے “قریب مشرق” کی تاریخ کے بائبل کے بیانات کے حوالے سےبرطانیہ میں 19ویں صدی کے وسط میں زبردست سرگرمی دکھائی تھی۔
یہودی مصنف نے یہ کہتے ہوئے زور دیا: جھوٹ کی لعنت وہ ہے جو “اسرائیلیوں” کو پریشان کرتی ہے اور یہ دن بہ دن ایک یروشلم، خلیلی اور نابلسی کے ہاتھ میں چھری کی شکل میں ان کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے۔ “اسرائیلیوں” کو احساس ہے کہ فلسطین میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے، یہ ایسی سرزمین نہیں ہے جہاں لوگوں کو جھوٹ بول کر بلایا گیا تھا۔ یہاں ایک اور بائیں بازوکے صہیونی مصنف”جیڈون لیوی” جو فلسطینی عوام کے وجود کو نہیں بلکہ “اسرائیلیوں ” پر ان کی برتری کو تسلیم کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ فلسطینیوں کی باقی دنیا سےفطرت مختلف ہے… ہم نے ان کی زمینوں پر قبضہ کیا اور ان کے نوجوانوں کو قاتل، دہشتگرد اوران کی عورتوں کو طوائف کہا۔ اورمنشیات کا مکرہ دھندہ بھی کیا گیا، اور ہم نے کہا کہ چند سال گزر جائیں گے، اور وہ اپنے وطن اوراپنی سرزمین کو بھول جائیں گے، اور پھران کی نوجوان نسل 1987 کی بغاوت کی شکل میں ہمارے مقابلے کیلئے آن موجود تھی۔

ہم نے انہیں جیلوں میں ڈالا اور ان پر بے پناہ تشدد کیا،ہم نے کہاکہ ہم انہیں جیلوں میں ہی مار دیں گے… برسوں بعد، جب ہم نے سوچا کہ انہوں نے سبق سیکھ لیا ہو گا لیکن وہ 2000ء میں مسلح بغاوت کے ساتھ واپس ہمارے مقابلے کیلئے آ گئے۔ اور ہم نے کہا: ہم ان کے گھروں کو گرا دیں گے اور کئی سالوں تک ان کا محاصرہ کریں گے، اور دیکھو، وہ محاصرے اور تباہی کے باوجود ہم پر حملہ کرنے کیلئے ناممکن سے میزائل نکال لائے ہیں۔ چنانچہ ہم نے ان کیلئےعلیحدگی کی دیوار اور خاردار تاروں سے منصوبہ بندی شروع کی……اور دیکھو، وہ زمین کے اندر سے اور سرنگوں کے ذریعے ہم پر حملہ آور ہو کر بڑی قتل وٖغارت کرکے ہمیں بے بس بنا کر چلے گئے، یہاں تک کہ آخری جنگ کے طور پر ہم نے اپنے دماغ سے ان کا مقابلہ کیا، اور پھر انہوں نے “اسرائیلی “سیٹلائٹ (آموس) پر قبضہ کر لیا اور “اسرائیل” کے ہر گھرمیں دھمکیاں نشر کرکے دہشت پھیلا دی، جیسا کہ اس وقت ہوا جب ان کے نوجوان “اسرائیلی” چینل 2 پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مصنف کے مطابق بین السطوریہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم تاریخ کے مشکل ترین لوگوں کا سامنا کر رہے ہیں جن کیلئے کچھ بھی ناممکن نہیں،اوران کیلئےاپنے حقوق کو پہچاننے اور قبضے کو ختم کرنے کے سوا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔

ادھر دوسری طرف فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں نے نیو یارک کے بروکلین میوزیم پر قبضہ کرکے اس پر فلسطین کا پرچم لہرا دیا۔ مظاہرین کو میوزیم سے نکالنے کی کوشش کے دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں۔ متعدد افراد زخمی ہوئے جبکہ پولیس نے چند مظاہرین کو گرفتاربھی کر لیا۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بروکلین میوزیم کے باہر لگے ہوئے ایک مجسمے پر مظاہرین نے اسپرے بھی کر دیا۔ ہاں! وائٹ ہاؤس اور مغربی آقاؤں کی لونڈی اقوام متحدہ نے تو ہلکی سی مذمت بھی کرنا چھوڑ دی ہے۔ دنیا بھرمیں ہونے والے مظاہروں کی بھی کسی کو پرواہ نہیں۔ وہ کوئی اصول اور کوئی ضابطہ نہیں مانتے۔ دنیا بھر کے اصول و ضابطے صرف امت مسلمہ کیلئے ہیں لیکن قدرت کا انتقام دیکھیں کہ خود مشہور اور نامور اسرائیلی یہودی جو سہینیت کے بڑے علمبردار ہیں، انہوں نے اپنی تحریروں میں اسرائیل کے آخری سانسوں کا تذکرہ کرکے حقیقت واضح کردی ہے۔

ناروے، آئرلینڈ اور اسپین نے رسمی طور پر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیا ہے جس کے جواب میں اسرائیل نے بطور احتجاج تینوں ملکوں سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے۔ شنید یہ بھی ہے کہ یورپی یونین کی دیگرریاستیں بھی عنقریب اپنے تین یورپی ممالک کی تائید میں فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے والی ہیں جس کیلئے فی الحال مشاورت جاری ہے۔لیکن کیا وجہ ہے کہ ابھی تک او آئی سی کے ممالک نے فلسطین کو باقاعدہ بطور ریاست تسلیم نہیں کیا۔ دنیا بھر میں ایک دو نہیں پورے ستاون ممالک ہیں لیکن……. لیکن کتنے پرسکون ہیں ، سو رہے ہیں ان کے حکمران،ان کی افواج، ان کے گولہ بارود کے خزانوں کو زنگ لگ رہا ہے، سب دادِ عیش دیتے ہوئے اور دنیا بھرکی عیاشی کا ساماں لئے ہوئے ..….بے حسی کا شکار اور سفاکی کی تصویر ہمارے مسلم حکمران۔

مجھے آج پھراپنی ماں یاد آ رہی ہے، چٹی ان پڑھ، جو کہتی تھی کہ ”بے غیرت پچاس بھی ہوں تو کیا کرنا، ہاں غیرت مند ایک بھی بہت ہے” مجھے آج پچاس میں سات کا اضافہ کرنا ہے لیکن وہ غیرت مند ہے کہاں….کیا ایک بھی غیرت مند نہیں رہا…… .سب کے سب…… .! مجھے آپ سے کچھ نہیں کہنا۔

قارئین! مجھے تو آپ نے پہلے ہی اپنی محبت کی سولی پر لٹکا رکھا ہے۔ میں ان سے کیا کہوں! وہ بھی نہیں رہیں گے اور ہم بھی ، کوئی بھی تو نہیں رہے گا، بس یہی سوچ کر ندامت سے خاموش ہو جاتا ہوں کہ شائد یہی حق کے علم بردار ہوں جو اپنے ہاتھوں میں اپنے معصوم بچوں کے لاشے بطور علم اٹھائے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، کوئی بھی تو علم سرنگوں کرنے کو تیار نہیں۔ اب تولاکھوں علم راہ گزاروں میں عزا دار اٹھائے نکل آئے ہیں، یہ منیرنیازی کیوں تڑپ اٹھے!
سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
ان امتوں کا ذکر جو رستوں میں مر گئیں
کر یاد ان دنوں کو کہ آباد تھیں یہاں
گلیاں جو خاک و خون کی دہشت سے بھر گئیں
صرصرکی زد میں آئے ہوئے بام و در کو دیکھ
کیسی ہوائیں کیسا نگر سرد کر گئیں
کیا باب تھے یہاں جو صدا سے نہیں کُھلے
کیسی دعائیں تھیں جو یہاں بے اثر گئیں
تنہا اجاڑ برجوں میں پھرتا ہے تو منیر
وہ زرفشانیاں ترے رخ کی کدھر گئیں

اپنا تبصرہ بھیجیں