نوازشریف کی زیرِصدارت لندن میں اہم پارٹی اجلاس کے دوران مفتاح اسماعیل کے استعفیٰ دینے کے بعدپاکستان کے سابق وزیر خزانہ اورن لیگ کی معاشی ٹیم کے سرخیل سمجھے جانے والے اسحاق ڈارکوایک مرتبہ پھر پاکستان کی معیشت کوسنبھالنے اورعوام کوریلیف دینے کاکام سونپ دیاگیاہے۔ انہوں نے سینیٹرکا حلف اٹھانے کے ایک مرتبہ پھرملکی معیشت کودیوالیہ کے سمندر سے ڈوبنے سے بچانے کے کئی بلندبانگ دعووں کے ساتھ محفوظ کنارے پرپہنچانے کاعزم کیاہے۔نیب کے کڑے احتساب سے جان بچاتے ہوئے2017 میں لندن چلے گئے تھے اوران کی واپسی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب صرف مرکز میں ان کی جماعت مخلوط حکومت کاحصہ ہے۔
اپریل2022میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعدوزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت میں وزارت خزانہ کا قلمدان مفتاح اسماعیل کوملاتھا۔ان کے 6ماہ کے دورحکومت میں بھی یہی دعوے کئے گئے تھے لیکن وہ بھی اس معاشی ابتری کامکمل ذمہ دارعمران خان کی حکومت کوٹھہراتے ہوئے ملسل مہنگائی اورروپے کی قدرکوبے قدرکرتے رہے کہ قوم کوجلدمہنگائی کے عذاب سے نکالنے کی طفل تسلیاں دیتے رہے لیکن حالات ہم سب کے سامنے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ خود ان کی جماعت کے اکابرین مفتاح اسماعیل کی خبرلیتے رہے جبکہ شروع دن ہی سے اسحاق ڈارکی واپسی کاتذکرہ شروع ہوگیاتھالیکن اسحاق ڈارکی فوری واپسی پاکستانی عدالتوں اور نیب کی وجہ سے ناممکن دکھائی دے رہی تھی لیکن موجودہ حکومت نے جس طرح سب سے پہلاکام نیب کے پرکاٹ کرنئی قانون سازی سے اپنے خلاف تمام مقدمات کو بے جان کرکے ختم کرنا مقصودتھاتاکہ ان نئے قوانین کی موجودگی میں اداروں کواتنامجبوراوربے بس کردیاجائے کہ وہ تمام افراد جن کومفروریانااہل کردیاگیاہے،ان کودوبارہ باعزت ان تمام الزامات سے بری کرواکے ملک واپسی کیلئے راستہ آسان اورممکن کردیاجائے۔
اس سلسلے میں مریم نوازکی نااہلی کی سزاکے ساتھ دیگرمقدمات سے بریت قوم کے سامنے ہے۔مجھے یادہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل اوران کی مکمل تحقیقات کے بعدان تمام افراد کے خلاف ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے ان کونہ صرف نااہل بلکہ بھاری جرمانے اورجائدادضبط کرنے کی سزائیں سنائیں گئیں تھیں اوراگر آج ایک اورعدالت نے ان سب کو باعزت بری کردیاہے توکیوں نہ اس جے آئی ٹی اوراس مقدمے میں ملوث تمام سرکاری اورغیر سرکاری افرادکے خلاف مقدمات کرکے ان کوجیل بھیجاجائے جن کی وجہ سے قومی خزانے کے کروڑوں روپے صرف ہوگئے اوراس مقروض ملک کواپنے ذاتی سیاسی انتقام کیلئے ایک کھلواڑ بنادیاگیا۔سزادینے والی عدالتوں کابھی محاسبہ ضروری ہے کہ انہوں نے کس کے اشارے پرملک کواس سیاسی ومعاشی ابتری میں مبتلارکھا۔آخرکوئی تواس کے خلاف عملی اقدامات اٹھائے تاکہ آئندہ کیلئے اس تباہی وبربادی کاروستہ روکاجاسکے۔
ایک مرتبہ پھراسحاق ڈار نے قوم سے وعدہ کیاہے کہ ان کی سب سے پہلی ترجیح معیشت کوموجودہ گرداب سے نکالنااورکرنسی کومستقل مستحکم بنیادوں پراستوارکرنا ہے۔پانچ ماہ سے زائد وزیر خزانہ رہنے والے مفتاح اسماعیل کے بعد اب یہ قلمدان سابق وزیراعظم نوازشریف کے سمدھی اوردوسرے وتیسرے وزارت عظمیٰ کے دورمیں وفاقی وزیر خزانہ کی خدمات انجام دینے والے اسحاق ڈار کے سپردکردیاگیاہے۔اسحاق ڈارایک ایسے وقت میں وزارت خزانہ کاقلمدان سنبھالنے جا رہے ہیں جب پاکستان میں ملکی معیشت شدید مشکلات کا شکارہے جس کی وجہ سے مہنگائی کی سطح 27فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ملک میں تیل،بجلی،گیس اور خوردنی اشیا کی قیمتوں میں ہونے والے بے تحاشااضافے کی وجہ سے موجودہ حکومت شدیدتنقیدکی زد میں ہے تودوسری جانب آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہونے کے باعث اسے سخت معاشی فیصلے کرنے پڑے ہیں۔اس وقت امریکی ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی کرنسی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پرپہنچ چکی ہے اورملک کے زرمبادلہ کے ذخائرمیں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔خراب معاشی صورت حال میں اس وقت مزیدبگاڑ پیداہواجب سیلاب کی وجہ سے ملک کے ایک تہائی حصے میں زرعی شعبہ تباہی کاشکارہوااورابتدائی تخمینوں کے مطابق سیلاب کی وجہ سے ملک کوتیس ارب ڈالرکانقصان ہواہے۔
ملک کیلئے معاشی طورپرمشکل حالات کے اس دورمیں اسحاق ڈارکی بطوروزیرخزانہ واپسی کیاملکی معیشت کودوبارہ اپنے پاں پرکھڑاکرپائے گی؟پاکستان کے معاشی ماہرین مضبوط اعدادوشمارکے گورکھ دھندے اوربدحال معاشی ابتری کوبیان کرتے ہوئے اسحاق ڈارسے کچھ زیادہ پرامیدنظرنہیں آتے اورکہ موجودہ حالات کاسابقہ معاشی ماڈل موجودہ صورتحال میں قطعی کارگرثابت نہیں ہوسکتاتاہم اگران کے پاس اگرکوئی”آوٹ آف دی باکس”حل ہے توانہیں فوری طورپرمعاشی ماہرین اورملکی صنعت کاروں کے ساتھ شئیرکرناہوگاجبکہ نوازلیگ کے کئی سنئیررہنمابھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ معیشت اس وقت بدترین صورت حال کا شکارہے اورمہنگائی کی وجہ سے عام فردکی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔
ان حالات میں فوری طورپرکوئی ہنگامی پلان شروع کرنے کی ضرورت ہے جس کے فوری نتائج نیچے تک عوام کوپہنچ سکیں اور”گریف کوریلیف”میں تبدیل کیاجاسکے وگرنہ عوام کی بے چینی بالآخر سب کوبہاکر نجانے کہاں پہنچادے جبکہ نوازلیگ کے کچھ رہنماء اسحاق ڈارکی واپسی سے بڑے پرامیدہیں کہ عوام کی موجودہ اجیرن زندگی میں اب بھی بہتری کی امید ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ جب سے موجودہ حکومت نے اقتدارسنبھالاہے،ان”پانچ ماہ”میں معاشی طورپرلوگوں کوکوئی ریلیف نہیں مل سکا اوراس کے ساتھ تجارتی اورکاروباری حلقے بھی اس صورتحال پرتشویش کااظہارکررہے ہیں۔پاکستان کے کاروباری حلقوں نے لندن میں میاں نوازشریف سے رابطہ کیاکہ نوازلیگ کی موجودہ معاشی ٹیم سے معاملات نہیں سنبھل رہے ۔جس کے بعدمیاں نواز شریف نے اسحاق ڈارکو یہ ذمہ داری دینے کافیصلہ کیاجس کی وجہ ان کی ماضی میں خراب صورتحال میں کارکردگی تھی۔
جب1998میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعدملک پرمعاشی پابندیاں عائدکردی گئی تھیں اوردوسری بار2013میں نوازلیگ کومعیشت ایک بری صورتحال میں ملی تھی تواس وقت اسحاق ڈارکووزیرخزانہ کے کلی اختیارات دیکرملکی مالی حالات سنوارنے کاچیلنج سونپاگیاتھااوراسحاق ڈارنے کسی حدتک پاکستان کی معیشت کو”آئی سی یو”سے نکالنے میں اہم کرداراداکیاتھا جبکہ سابقہ حکومت اپنی معاشی مشکلات کواسحاق ڈارکی ان تمام ناقص پالیسیوں کوذمہ دارٹھہراتی رہی لیکن موجودہ معاشی مشکلات میں یقیناان کی پالیسیوں کا بھی بڑاعمل دخل ہے اورکئی مرتبہ انہی کالمزمیں شواہدکے ساتھ اس کاتذکرہ بھی کرچکاہوں۔
نوازلیگ کے سینیئررہنمااس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ حقیقت میں معیشت مشکلات کاشکارہے اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے بہت سارے ایسے فیصلے کرنے پڑے جس کی وجہ سے عام افراد کومعاشی طورپرزیادہ بوجھ اٹھاناپڑااورنوازلیگ کے اندر بھی اس پر تشویش پائی جاتی ہے ۔وہ اپنی حکومت کے دفاع میں یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ اسحاق ڈارکوسابق حکومت کی جانب سے تین سال تک پاسپورٹ نہ دیناان کی پاکستان نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ تھی۔اس سال مئی میں انہیں پاسپورٹ ملاتو ان کی واپسی کی بات شروع ہوئی۔یادرہے کہ پاکستان میں نوازلیگ کی موجودہ حکومت کودن بدن خراب ہوتی معاشی صورتحال کی وجہ سے تنقیدکاسامناہے اور پنجاب میں جولائی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں شکست کی وجہ بھی مہنگائی کی بلند شرح کوقراردیاجاتاہے۔نوازلیگ کے کچھ رہنماؤں کے مطابق اسحاق ڈارمعاشی صورت حال کوبدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اوروہ ماضی میں بھی ایساکرچکے ہیں۔ایک سیاسی پارٹی کی معیشت اورعوام دونوں پرنظرہوتی ہے کیونکہ یہ پولیٹیکل اکانومی ہے اورایک خاص حدسے زیادہ عوام پربوجھ نہیں ڈالاجا سکتا۔اسحاق ڈارکی واپسی اورمعیشت میں بہتری سے نواز لیگ کو یقینی طورپرسیاسی فائدہ حاصل ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں وزیر خزانہ کسی کوبھی بنادیاجائے تواس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام کے بعدپاکستان کاوزیر خزانہ صوابدیدی اختیارات نہیں رکھتااوراسے آئی ایم ایف شرائط کے تحت ہی ملکی معیشت کوچلاناپڑے گا۔نوازلیگ کی حکومت اسحاق ڈارسے دوکام چاہے گی۔ ایک امریکی ڈالرکے مقابلے میں وہ مقامی کرنسی کونیچے لائیں اوردوسراوہ مالیاتی سپیس یعنی گنجائش پیداکریں کیونکہ اگلے سال انتخابات کاسال ہے اورمالیاتی گنجائش کے بغیرانفراسٹرکچرجیسے ترقیاتی منصوبوں کوشروع نہیں کیاجاسکتا۔
اسحاق ڈارکاماڈل روپے کااوورویلیواورہارڈانفراسٹرکچریعنی پل اورسٹرکیں بناکرمعیشت کوچلانے کارہاہے تاکہ اس سے ملازمتیں بھی پیدا ہو سکیں جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کرنسی کومارکیٹ فورسزکے رحم وکرم پرچھوڑدیاگیاہے اورسٹیٹ بینک یا حکومت اس میں مداخلت نہیں کرسکتی جبکہ سیلاب کی وجہ سے ہارڈانفراسٹرکچرپرکام نہیں ہوسکتا۔تاہم نوازلیگ کی اسحاق ڈار سے توقعات زیادہ ہیں جن کاآئی ایم ایف پروگرام کی موجودگی میں پوراہونامشکل دکھائی دیتاہے۔ خودنوازلیگ کے کئی سینیئررہنمانے مجھ سے براہ راست گفتگو کرتے ہوئے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پربتایاکہ مفتاح اسماعیل کی معاشی پالیسی کی وجہ سے مہنگائی بڑھی جس کی وجہ سے لندن میں پارٹی قائد میاں نواز شریف تک سے رابطہ کرکے کہاگیاکہ نواز لیگ ہمیشہ مہنگائی کم اورترقیاتی منصوبوں کے ذریعے ملازمتیں پیدا کرنے کاایجنڈارکھتی ہے جوموجودہ حکومت میں اب تک نظرنہیں آیاتاہم میری رائے ان سے بالکل مختلف ہے کیونکہ مفتاح اسمعیل کوجوایجنڈادیاگیاتھاوہ انہوں نے پوراکیا۔
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے دورحکومت میں آئی ایم ایف سے جن شرائط پرقرضہ لیااورآئی ایم ایف نے قرضہ دینے کیلئے جن شرائط کے ساتھ معاہدہ کیا،پی ٹی آئی نے اپنے سیاسی حریفوں کومات دینے اوراپنے جاتے ہوئے اقتدارکوبچانے کیلئے اس معاہدے کی واضح خلاف ورزی کی۔عمران خان حکومت نے شرائط کی خلاف ورزی کی اورپروگرام معطل ہوگیا۔مفتاح اسماعیل کو اس پروگرام کوبحال کرنے کاایجنڈاملاتاکہ ملک کوڈیفالٹ ہونے سے بچایاجا سکے ، انہوں نے یہ کام کیا۔دراصل ہم اپنے رہنماؤں کی عقیدت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ عالمی اداروں سے کئے گئے معاہدوں کاپاسداری کی کیابھاری قیمت چکانی پڑتی ہے اوریہ سیاسی لیڈراپنے اقتدارکودوام دینے کیلئے قرضوں میں ڈوبی ہوئی قوم کومزید ڈبونے میں کیاکرداراداکرتے ہیں۔
اقتدارسنبھالتے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے میں بہت لیت ولعل سے کام لیاگیاکیونکہ عمران خان اپنی انتخابی مہم میں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی بجائے خودکشی کرنے کانعرہ لگاچکے تھے اوراقتدارمیں آتے ہی ان کی ٹیم کے ارسطوکواپنے لیڈر اوراپنی ہی ٹیم کے عدم تعاون کی بناپرناکامی کامنہ دیکھناپڑا جس سے اسدعمردلبرداشتہ ہوکروزارت چھوڑکرالگ بیٹھ گیاجسے کئی ماہ کے بعدمنت سماجت کے ساتھ واپس لایاگیالیکن اس وقت تک پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکاتھااورملک معیشت کی تباہی کی بنیادرکھی جاچکی تھی،اس کے بعداسی ایم ایف آئی سے نہ صرف نارواشرائط پرمعاہدے کرنے پڑے بلکہ پارلیمنٹ سے خصوصی قانون سازی کرکے سٹیٹ بینک کی سربراہی آئی ایم ایف کے نمائندے کے حوالے کرناپڑی اورسٹیٹ بینک کا پاکستان کی معیشت میں کردارآئی ایم ایف کے احکامات کامحتاج بنادیاگیا۔جن عمران خان کویقین ہوگیاکہ کہ جن کے کندھوں پر رکھ کرحکومت چلارہے تھے،انہوں نے اپنی حمائت سے ہاتھ کھینچ لیاہے توانہیں اپنی حکومت بچانے کے لالے پڑگئے اورانہوں نے اقتداربچانے کیلئے جہاں اورسب جتن کئے وہاں آنے والی حکومت کومشکلات میں ڈالنے کیلئے آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوری طورپرپٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کرکے آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کی جس کے بعد عالمی اداروں نے شکنجہ تنگ کرناشروع کردیااورملک تیزی سے دیوالیے کی طرف گرنے لگااوراس دیوالیے سے بچانے کا مفتاح اسماعیل کوہدف دیاگیاجس کوپوراکرنااس کی مجبوری تھی۔
اس وقت ملک کے جومعاشی حالات ہیں،اسے اسحاق ڈاراپنے پرانے معاشی ماڈل سے حل نہیں کرسکتے جووہ ماضی میں کرتے آئے ہیں۔ملک میں ڈالرختم ہوگئے ہیں یابہت کم رہ گئے ہیں۔دوسری جانب پاکستان کو25ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات،تین ارب ڈالرکاخوردنی تیل،دوارب ڈالرکاکوئلہ درآمد کرنا ہے اور اسحاق ڈاریہ سب پرانے معاشی ماڈل کے ذریعے نہیں کرسکتے کیونکہ سٹیٹ بینک ابھی تک آئی ایم ایف کی ہدایات پرعمل کرنے کاپابند ہے، اس لئے ان تمام معاشی مسائل پرفوری قابوپانے کیلئے فنانشل ایمرجنسی جیسے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔اسی طرح این ایف سی کے تحت 56فیصدوسائل کاحصہ صوبوں کوملتاہے۔اب موجودہ معاشی صورت حال میں یہ بھی نہیں چل سکتا۔ایک آ ؤ ٹ آف باکس حل اس صورت حال میں اختیارکرناہوگا اور دیکھنایہ ہے اسحاق ڈارکے پاس کون سا”آ ؤ ٹ آف باکس”حل ہے جس کی بنیادپران سے توقعات باندھی جارہی ہیں۔تاہم خوداسحاق ڈارکی واپسی ان کے اپنے حق میں توبہترہے کہ وہ بھی اس عہدے پربراجمان ہوکراپنے ان تمام مقدمات سے جان بخشی کروانے میں کامیاب ہوجائیں گے جن کے عوض ان کالاہورگلبرگ کااپناگھرنیلامی کیلئے لگادیاگیاتھا۔